مجھے میرا کالج لوٹا دو
افسوس ہم اپنی تاریخ کے تسلسل کو مٹانے کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اور تاریخ کو مٹاتے ہوئے ہم ایک کام بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔حقائق کو کھرچنا اور خواہش کی خیالی تاریخ کو Glorify کرنا، یہ عمل درحقیقت تاریخی حقائق کو اوجھل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم اپنے آج کو اپنی اصل میں نہیں دیکھ سکتے۔ کسی تہذیب وتمدن اور قوم کے ساتھ یہ رویہ تاریخی نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ بوسنیا ہرزوگوینا کی جنگ میری Conflict Resolution کا کیس سٹڈی تھا۔ اس دوران ایک نئی اصطلاح راقم کے محدود علم میں بے پناہ اضافہ کرگئی۔ "Memoricide" ۔ یہ اصطلاح، بوسنیا ہرزوگوینا میں سربیا کی طرف سے کی گئی بوسنین عوام کی نسل کشی کے عمل کے دوران ایک تلخ حقیقت کی تشریح ہے۔ ایک کروشین سکالر نے جب سرائیوو کی سات سو سالہ قدیم لائبریری کو سربین کے ہاتھوں جلتے اور اس کی پندرہ لاکھ کتابوں اور ہزاروں نایاب مخطوطات کی راکھ کو سرائیوو کی فضا میں اڑتے اور بکھرتے دیکھا تو اس نے Genocide کے پس منظر میں ایک مکالمہ لکھ کر دنیا کو Memoricide کی اصطلاح متعارف کروائی۔ سرائیوو کی لائبریری میں بوسنیائی زبان کے علاوہ عربی، فارسی، عثمانی اور یونانی سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی نادر تحریریں تھیں جس کے وارث بوسنین مسلمان تھے۔ وہ اُن کا تاریخی اثاثہ تھا جو سربیائی جلادوں نے نسل کشی کے ساتھ ساتھ تاریخ کی نسل کشی کا جرم سرزد کیا (یعنی کسی قوم کو اس کی تاریخی عمارات، نشانات اور مختلف تہذیبی گواہیوں اور ملکیت سے محروم کردینا، یعنی اُس کا ناتا تاریخ سے کاٹ دینا)۔ یہی عمل عراق میں امریکی یلغار کے بعد حملہ آوروں نے عراق کے صدیوں پرانے تاریخی آثار کو مٹا اور لوٹ کرکیا۔ ہمارے ہاں بھی یہی عمل جاری ہے، تاریخ کو اپنے حال سے منقطع کرنے کا عمل اور غیر ارتقائی عمل کرتے ہوئے تاریخ کو Glorifyکرنے، خواہش کی جہالت تھوپنے کا عمل۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میرے خاندان کی تاریخ اس مردِقلندر سے قبل بھی موجود ہے جو ڈسکہ کے ایک گائوں متراں والی میں راجپوت ہندو خاندان سے مسلمان ہوا۔ ہم کیوںکراس تاریخ کا گلا کاٹ دیں۔ افسوس کہ ہم یہ عمل کبھی کبھی نام نہاد ترقی کے نام پر بھی کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی سرزمین ِ پنجاب کی ایک درس گاہ کی ہے جو ایک سو سال قبل معرضِ وجود میں آئی۔ چند مفاد پرستوں نے اپنا یہ سارا مجرمانہ عمل خفیہ مادی مفادات اور اپنی ’’عظمت کے پرچم‘‘ کو بلند کرنے کے لیے کیا۔ سرگودھا کی اس تاریخی درس گاہ گورنمنٹ کالج سرگودھا کو غیرقانونی طور پر ملیا میٹ کرنے کا یہ عمل ایک ایسے شخص کے ہاتھوں ہوا جو خود کو ماہرِ تعلیم کہلواتا ہے۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا کی تدفین اور اس کو دفنانے کے بعد اپنی ’’عظمت کے ڈھونگ‘‘ رچانے کے لیے اُس نے ملک کے کالم نگاروں کو آئے روز سرگودھا یونیورسٹی بلا کر دفن شدہ ادارے پر اپنی جعلی کارکردگی کی دعوے کرتا رہا یہ شخص۔
سرگودھا جن لوگوں نے آباد کیا، میں نے اس شہر کی آباد کاری کی داستانیں اُن لوگوں سے بھی اپنے بچپن میں سن رکھی ہیں۔ سرگودھا کے آبادکاروں میں سرفہرست راقم کے خاندان کو گنا جاتا ہے۔ سرگودھا کی آبادی کے وقت شاہ پور ایک قدیم بستی کے طور پر موجود تھی۔ ٹوانوں کی سرزمین، جس نے رنجیت سنگھ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور جبری ٹیکس دینے سے انکار کیا۔ اس سرزمین پر انگریز راج کے وقت 1914ء میں ملک مبارز خان نے شاہ پور میں پہلا سکول اُوبرن اسلامیہ ہائی سکول قائم کیا۔اُوبرن، شاہ پور کا ڈپٹی کمشنر تھا اور ملک مبارز خان نے اس سکول کا نام اسی کی مناسبت سے رکھا۔ اُوبرن اسلامیہ ہائی سکول، شاہ پور میں سرزمین ِسرگودھا کے بچوں کی پہلی جدید درس گاہ تھی۔ اس سکول سے پڑھ کر نکلنے والے بچوں کے لیے چند سالوں بعد کالج کی ضرورت پیش آئی، لہٰذا مئی 1929ء میں اُوبرن اسلامیہ ہائی سکول شاہ پور کو انٹرمیڈیٹ کا درجہ دے کر ڈی مونٹ مورینسی (اس وقت کے گورنر پنجاب کا نام) کالج شاہ پور رکھا گیا۔
اور پھر 1932ء میں ڈگری کالج کا سٹیٹس لینے میں کامیابی کے بعد اسے گورنمنٹ ڈگری کالج قرار دے دیا گیا۔ 1940ء میں سرگودھا کی ستائیس بلاکس رہائشیوں کے لیے مکمل ہوئیں تو کالج کو 1946ء میں سرگودھا منتقل کردیا گیا۔ سرگودھا کی جدید بستی کے زیادہ تر مکان 1940ء میں تعمیر ہوئے۔ 1946ء میں سرگودھا کالج جس عمارت میں قائم ہوا، اس میں عمارت اب پی اے ایف کالج ہے۔ آزادی کے بعد جب سرگودھا ایئربیس کو وسعت دی گئی تو گورنمنٹ کالج سرگودھا کی اس عمارت کو پاکستان ایئر فورس کالج کے حوالے کرکے ایک نئی عالیشان عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ ایکڑوں میں پھیلی زمین جس میں سرگودھا سٹیڈیم بھی شامل تھا، اس تاریخی درس گاہ کی شناخت ہے۔ اور یوں گورنمنٹ کالج سرگودھا کے ظہور کا عمل مکمل ہوا۔
گورنمنٹ کالج سرگودھا نے دہائیوں تک سرگودھا کے علاوہ اردگرد کے شہروں ، میانوالی، بھکر، بھلوال، جھنگ، جہلم، خوشاب اور چکوال تک کے نوجوانوں کی علمی آبیاری کی۔ اس تاریخی درس گاہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ پاکستان کے معروف ماہرین تعلیم نے اس کو اپنے علم اور انتظامی امور سے جِلا بخشی جن میں عبدالعلی خان اور غلام جیلانی اصغر سرفہرست ہیں۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا، خطۂ سرگودھا کی تعلیمی اور ادبی شناخت بھی تھا۔ راقم سمیت تعلیم کے ہزاروں پیاسے سرگودھا کی اس تعلیمی شناخت سے فیض یاب ہوتے آئے ہیں۔ تعلیمی درس گاہیں دنیا بھر میں جہاں لوگوں کو علم سے فیض یاب کرتی ہیں، ویسے ہی وہ خطے کی شناخت بھی ہوتی ہیں، جیسے استنبول یونیورسٹی اور جدید ترکی کے بعد قائم ہونے والی مڈل ایسٹ ٹیکنکل یونیورسٹی (METU) ، آکسفورڈ اور جامعہ الازہر۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی ترقی اور ارتقائی عمل قانون ضوابط کے تحت جاری رہتا ہے۔ مگر افسوس گورنمنٹ کالج سرگودھا کو جس بے دردی سے دفن کیا گیا،ا س غیرقانونی عمل پر کوئی آواز نہیں اٹھی اور جو آواز اٹھی، اس کو اِس درس گاہ کو دفن کرنے والوں نے اپنی جھوٹی کامیابیوں کے ساتھ دھندلانے کی مجرمانہ کوششیں کیں۔ 2002ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا کو پنجاب کے دیگر چند کالجوں کی طرح یونیورسٹی کا سٹیٹس دے دیا گیا۔ سرگودھا کے باسیوں کی خواہش تھی کہ سرگودھا شہر بھی کسی یونیورسٹی کا اہل ہوجائے۔ اور یوں اس پالیسی کے تحت 2002ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ 2002ء میں جیسے گورنمنٹ کالج لاہور اور چند دیگر کالجوں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دے کر وہاں کالج کا تدریسی عمل شروع ہوا، مگر کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا قانون یہ سختی سے تنبیہ کرتا ہے کہ کالج کا تشخص اور عمل کسی طرح بھی مٹایا نہیں جا سکتا۔ پنجاب کے تمام کالجوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مگر سرگودھا یونیورسٹی میں ایک شخص جو اس نئی یونیورسٹی میں دو بار وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوا، اس نے روزِاوّل سے ہی کوشش کی کہ گورنمنٹ کالج سرگودھا کی شناخت کو کسی طور ختم کردیا جائے۔ اس کے پیچھے دراصل مالی اور مادی مفادات کی ایک دردناک کہانی ہے۔ تاکہ شہر میں موجود کاروباری بنیادوں پر قائم پرائیویٹ کالجوں کو زیادہ سے زیادہ طلبا میسر ہوں اور یوں ’’تعلیم کا کاروبار خوب چلے‘‘۔ ان صاحب نے اپنے مجرمانہ عمل کو چھپانے کے لیے لاہور اور اسلام آباد سے کالم نگاروں کی ہر آئے روز آئو بھگت کی اور پرنٹ میڈیا میں اپنی ’’داستانِ عظمت‘‘ کی جھوٹی کہانی کو خوب عام کیا۔
گورنمنٹ کالج سرگودھا کے غیرقانونی خاتمے پر سابق پرنسپل مرحوم غلام جیلانی اصغر بڑھاپے اور بیماری کے باوجود خود عدالت میں پیش ہوئے۔ اس دوران گورنمنٹ کالج سرگودھا کے متعدد فیض یافتہ شاگرد اس غیر قانونی کارروائی پر متحرک ہوئے جب میں جناب امجد کلیار اور ارشد شاہد سرفہرست ہیں۔ یہ لوگ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ہاں فریادی بنے اور HED نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ ’’اگر یونیورسٹی آف سرگودھا کی انتظامیہ گورنمنٹ کالج سرگودھا کو تحلیل کرتی ہے تو ایسی صورت میں یونیورسٹی آف سرگودھا کو گورنمنٹ کالج سرگودھا کے تمام اثاثہ جات چھوڑنے اور عمارات خالی کرنا ہوں گی۔‘‘ مگر نامعلوم قوتیں جو ہمارے سماج میں قانون کی دھجیاں اڑانے میں اب کوئی کسر نہیں چھوڑتیں، اُن کے مالی مفادات کے تحت 2015ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا کو دفن کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ قانون اب بے بس ہوتا جارہا ہے۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا کی قبر پر یونیورسٹی بنانے والے قانون کے مجرم ہیں۔ شہر سرگودھا کے باسی اس قانونی جنگ میں ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔ اہل شہر اپنی تاریخ اور قانونی حق کے لیے اس لیے ہتھیار نہیں ڈالیں گے کہ سرگودھا کے لوگ قانون، قلم، زبان اور عمل سے اپنی جنگ لڑنا جانتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا کے ملک بھر میں پھیلے لاکھوں شاگردوں کی یہ آواز اب طاقت پکڑتی جارہی ہے۔ ’’مجھے میرا کالج لوٹا دو‘‘۔
“