روٹی ، کپڑا اور مکان _ یہ میری بنیادی ضروریات ہیں _ آج تک روٹی مرضی کی کھائی ، کپڑا مرضی کا پہنا ، مکان اللّٰہ پاک نے میری مرضی کا دیا _ سب سے بڑھ کر اس دنیا میں لانے والے نے مُجھے اچھی صحت دی _ اس سے بڑی دولت اور کیا ہو گی _
سیلف میڈ اور قدرے اوور کانفیڈنٹ بندہ ہوں _ بڑے بڑے امیر لوگوں کی دولت ، گاڑیاں یا محلات میں دیکھتا ہی نہیں اور اگر دیکھوں بھی تو کسی سے مرعوب ہونا مُجھے نہیں آتا نا کبھی خواہش ہوئی کہ میرے پاس بھی اِن لوگوں جتنا سرمایہ ہو _ میری نظر میں یہ سب کچھ بے وُقعت ہے _
میری ملکیت میں دیکھنے کو بھی سونا یا زیورات وغیرہ نہیں ہیں _ نا کچھ جمع شدہ مال دولت اور نا ہی بنک بیلنس _ لیکن ایک مُطمئن دل کا مالک ہوں _ میرے پاس اندر کی دولت اور سکون ہے _
بیٹیوں کی شادی کر کہ اس ذمہ داری سے سُبکدوش ہو چکا _ بیٹوں کا مُجھے ایسا کوئی مسلہء نہیں _ دو چھوٹے پڑھ رہے _ ان کے تعلیمی اخراجات وغیرہ مُجھے ہر ماہ مل جاتے _ تینوں بیٹوں کا بزنس بھی تیار ہے تو مجموعی طور پر یہ کہ دینے والا بھی وہی اور واپس لینے والا بھی وہی _ لیکن بظاہر مُجھے اور میرے بچوں کو صحت ، روٹی ، کپڑا یا مکان کا کوئی مسلہء نہیں _ اپنی ذات اور بچوں کے لئے تمام تر ضروریات میرے پاس موجود ہیں _
تو جب یہ سب کُچھ میرے پاس ہے تو مُجھے اور کیا چاہیئے _ کتنا چاہیئے _ مُجھے مزید کتنی دولت اکٹھی کرنی چاہیئے _!
کیا میں اُن بچوں کا حق اپنی پاکٹ میں جمع کروں جن کے تن پہ کپڑے ، پیر میں جوتے اور پیٹ میں روٹی نہیں _ کیا میں اُن کا حق اپنے بنک اکاؤنٹ میں رکھوں جو ہسپتالوں میں بغیر علاج کے پڑے اور دوائی کے پیسوں سے محروم ہیں _ کیا میں اُن سے چھین کر اپنے گھر میں اکٹھا کرتا رہوں کہ جو سڑکوں پر دھکے کھا رہے اور سر پہ چھت نہیں _ میں سمجھتا ہوں اگر میرے پاس زائد از ضرورت کچھ ہوتا تو وہ میرا نا ہوتا ، اُن کا حق ہوتا جنہیں اِس کی ضرورت ہے _
میری تمام ضروریات پوری ہیں _ مُجھے جو بھی اللّٰہ پاک نے دیا وہ میری زندگی کے لئے کافی ہے _ میں دوسروں کا حق چھین کر کیوں اپنے پاس اکٹھا کرتا رہوں جب کہ میں اُسے اگلے جہان اپنے ساتھ بھی نہیں لے جا سکتا _ مُجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ کب ، کن حالات میں اور کس سرزمین پر موت میرے انتظار میں ہے _
بہت بار رات کے پچھلے پہر اُٹھ کر یہ سارا حساب کتاب کیا _ بہت سوچا کہ کوئی تو طریقہ ہو گا کہ میں اپنی دولت قبر میں ساتھ لے جا سکوں پر کچھ بھی سمجھ نہ آیا _ یہ ہی نظر آیا کہ مرنے بعد جب مُجھے دفن کیلئے بھی دوسروں کی محتاجی ہو گی تو میری سب لوٹ مار کی کمائی تو یہیں دھری رہ جائے گی اور میری کوئی بھی سائنسدانی میرے کام نا آئے گی _
مُجھے اب اس عمر میں اور کیا چاہیئے _ ہو سکتا میرے پاس اگلا سانس بھی نا ہو یا شاید میرے پاس مزید بیس تیس سال ہوں _ لیکن یہ طے ہے ، مُجھے اللہ پاک نے جو دیا وہ میری زندگی کے لئے کافی ہے _
مزید کی ضرورت نہیں _ اللّٰہ پاک اُنہیں دیں جنہیں اِسکی ضرورت ہے _ مُجھے صرف یہ چاہیئے کہ اللّٰہ میرے سے راضی ہو _ جب روز قیامت اُٹھایا جاؤں تو میرے پاس ایمان کی دولت ہو _
***
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...