میں کنکر، مٹی اور پتے صاف کر رہا تھا اور میرا بیٹا دونوں ہاتھ منہ پر رکھے کچھ پڑھ رہا تھا۔
یہاں وہ شخص سویا ہوا تھا جو میرے گھر واپس آنے تک سوتا ہی نہ تھا، اور اب یہ حال تھا کہ میں اس کی خواب گاہ کی چھت سے کنکر، مٹی اور پتے ہاتھوں سے ہٹا رہا تھا اور وہ کروٹ بدل کر، جاگ کر، دیکھتا ہی نہیں تھا۔ اور کہہ ہی نہیں رہا تھا کہ ''میرے بچے! دیکھنا، کہیں کنکر چُبھ نہ جائیں، اور دیکھو، تمہارے ہاتھ خراب نہ ہو جائیں۔
یہاں وہ شخص محوِ خواب تھا جس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے ساٹھ میں سے تقریباً چوّن سال گزارے اور کوئی ایک دن بھی ایسا نہ تھا جس دن میں نے کوئی نئی چیز نہ سیکھی ہو اور جس دن اس نے مجھے کوئی نیا نکتہ بتا کر حیران نہ کردیا ہو اور جس دن مجھے شدید احساسِ زیاں نہ ہوا ہو کہ افسوس! بحرِ دخار گھر میں تھا اور میں پیاسا ہی رہا۔ حکمت کا منبع اور علم کا مصدر میرے پاس تھا اور میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ سورج صحن میں تھا۔ دنیا آ کر روشنی جھولیوں میں بھر بھر کر لے جاتی رہی اور میں چراغ کی لو سیدھی کرتا رہا!
میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور لکھا ہے…؎
بار ہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم
پھر کہہ رہا ہوں کہ ہر مرد او ر ہر عورت کو خدا دو ولیوں تک رسائی دیتا ہے اور وہ اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو کچھ ملتا ہے نظر آنے والا سامان، ترقیاں، عروج، نعمتیں اور نظر نہ آنے والے درجات اور فضائل۔ سب کچھ انہی کے ذریعے ملتا ہے اور انسان کی یہ بھی کتنی دردناک تیرہ بختی ہے کہ وہ گھر میں ولیوں کے ہوتے ہوئے ریگستانوں جنگلوں میں سرگرداں ہے اور دوسروں کی دہلیز پر سر پٹخ رہا ہے۔ رومی نے رو رو کر اور سسک سسک کر کہا تھا…؎
اے قوم! بہ حج رفتہ! کجائید کجائید
معشوق ہمیں جاست بیایید بیایید
دَہ بار ازاں راہ بداں خانہ برفتید
یک بار ازیں خانہ بریں بام برآیید
افسوس! تم دس بار دوسرے راستے پر چل کر ایک اور گھر میں جاتے رہے کبھی ایک بار تو اس گھر میں بھی آتے اور اسکے زینے سے چھت چڑھ کر دیکھتے!
ایک بے مہر، سنگدل اور سفید رات تھی اور ابھی آدھی بھی نہ ہوئی تھی جب میرے والد گرامی نے اسلام آباد ہسپتال کے ایک کمرے میں اس دنیا کو خیرباد کہا۔ کتنے ہی دنوں سے وہ ایک شعر باربار سنا رہے تھے …؎
وَ اِذِ الٔمَنِیّۃُ اَنْشَیَتْ اَظْفَارُھا
فَاَلْفَیْتَ کُلَّ تَمیمَتہِِ لَا تَنْفَعْ
جب موت اپنے پنجے گاڑ دے تو کوئی تعویذ، کوئی جھاڑ پھونک کام نہیں آتی۔ اسی مفہوم کا اپنا شعر بھی بار بار پڑرہے تھے…؎
ٹھان لے جب وہ مِٹا دینے کو نقشِ زندگی
تو اجل سے کاوش و پیکار کرسکتا ہے کون
یوں لگتا ہے کہ درخت، سائبان، بادل، چھت، چھائوں دینے والی ہر چیز غائب ہوگئی ہے۔ دھوپ ہے اور ایسی کہ کوڑے برسا رہی ہے اور برہنگی ہے کہ امڈ امڈ کر آ رہی ہے۔ میرے لئے وہ مجسم ہدایت تھے اور نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ جب بھی غلط راستے پر چلا واپس لے آئے۔ کسی کے ساتھ درشتی سے پیش آیا تو نرمی کا حکم دیا، حکمت کی روشنی بکھیرنے کاعجیب انداز تھا۔ میں نے اپنے ایک شاگرد کا، جو بڑے منصب پر فائز ہو چکا تھا، ایک جگہ تعارف کرایا تو یہ بھی کہا کہ کالج میں میرے طالب علم رہے ہیں، جب وہ رخصت ہوگیا تو عجب آہستگی سے فرمایا کہ شاگرد بڑا آدمی بن جائے تو استاد کو نہیں بتانا چاہئے کہ یہ میرا شاگرد ہے۔ مزہ تو جب ہے کہ شاگرد دوسروں کو بتائے کہ یہ میرے استاد رہے ہیں اور اگر وہ نہ بتائے تو استاد کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں! ستر کی دہائی میں مجھے مقابلے کا امتحان دینا تھا۔ اس وقت صرف تین مقامات پر سول سروس کے امتحانی مراکز تھے، کراچی، لاہور اور لندن۔ میں نے فریاد کی کہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل حضرات سے میں کیا مقابلہ کرونگا، ایک لمحے کیلئے خاموش ہوئے، پھر پوچھا، اس امتحان میں فارسی ادب کی کوئی گنجائش ہے؟ میں نے عرض کیا کہ دو سو نمبر کا رکھ سکتے ہیں، فرمایا، یہ رکھ لو اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ جانے کرامت تھی کہ سحر۔ سارے پرچوں میں حیرت انگیز حد تک نمبر زیادہ آئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہاتھ تنگ رہنے لگا، سرکاری کورس پر چھ ماہ کیلئے یورپ جارہا تھا، ایک آسان وظیفہ بتایا، جس ترقی نے سالوں بعد ہونا تھا، مہینوں میں ہوئی اور اللہ نے ایسی مالی آسودگی عطا کی کہ آج تک اچنبھا ہے۔ اکلِ حلال کی تاکید کرتے تو یہ ضرور کہتے کہ ایک سیر دودھ میں ایک قطرہ بھی غلاظت کا گرے تو سارے کا سارا ناپاک ہو جاتا ہے۔
یہ غم ذاتی غم نہیں ہے۔ کتنے ہی قارئین اس غم کے پہاڑ تلے پسے ہیں۔ ہر شخص کا باپ اس کیلئے ولی ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے ''اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے'' اور اتنا بڑا مقام اللہ کے رسولؐ نے باپ کو بے سبب نہیں عطا فرمایا۔ باپ کی صرف ایک بے غرضی پر غور کیجئے۔ کوئی گوشت پوست کا بنا ہواانسان نہیں برداشت کرسکتا کہ دوسرا شخص اس پر سبقت لے جائے صرف باپ روئے زمین پروہ واحد شخص ہوتا ہے جو چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا لیاقت اور ذہانت میں اور مناصب اور درجات میں اس سے آگے بڑھ جائے!
لیکن اسکے مقابلے میں اولاد کا رویہ ماں باپ کیلئے کیسا ہے؟ یہ بھی ایک عجیب تماشا ہے۔ انسان کی جتنی محبت اور جتنی تشویش اپنی اولاد کیلئے ہوتی ہے، اتنی ماں باپ کیلئے نہیں ہوتی! محبت اورتشویش کا یہ بہائو آگے کی طرف کیوں ہے؟ پیچھے کی طرف کیوں نہیں؟ میرے دادا جان نے اس کا سبب یہ بتایا تھا کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھے۔ صرف اولاد تھی پلٹ کر کیسے دیکھتے؟ ان کے شوق کا بہائو آگے ہی کی طرف ہوتا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ والدین کی بے غرضی، وابستگی اور ایثار عاشقانہ ہوتا ہے، اسکے برعکس اولاد کا رویہ ماں باپ کے ساتھ معشوقانہ ہوتا ہے جس میں تغافل اور بے رُخی شامل ہوتی ہے، لیکن آدم کی اولاد کی آنکھوں سے کبھی نہ کبھی، زندگی میں ایک بار یا ایک سے زیادہ بار یہ پردہ ضرور ہٹتا ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس نے انصاف نہیں کیا۔ جنہوں نے اس کیلئے تکلیفیں اٹھائیں ان کیلئے وہ راحت کا سامان نہیں بنا اور جنہیں خدا نے شکر میں اپنا شریک کیا، ان کا شکر اس نے ادا نہیں کیا۔
اب یہ اپنا اپنا مقدر ہے کہ یہ پردہ کب ہٹے اور قدرت تلافی کی مہلت دے یا نصیب میں صرف پچھتاوا ہو اور وہ فیضی کی طرح ننگے پائوں فرش پر بیٹھا کفِ افسوس ملکر خون کے آنسو رو رہا ہو۔ فیضی اپنے زمانے کا نامی گرامی طبیب تھا لیکن مہمات پر ہی رہا اور پائوں میں سفر کا چکر رہا۔ ماں کے مرنے کے بعد واپس آیا اور دردناک مرثیہ کہا۔ ایک شعر میں کہتا ہے کہ کاش! میں اپنے کاسۂ سر کو ہائون دستہ (لنگری) بناتا اور جڑی بوٹیوں کے بجائے اپنا دل اس میں کھرل کرکے ماں کی دوا بناتا۔اس سے پہلے کہ پچھتاوا نوچے اور حسرت آنکھوں سے خون بن کر ٹپکے، جن کے گھروں میں یہ نعمت موجود ہے اسکی قدر کریں۔ ماں ہو یا باپ یا دونوں، انکے پیروں پر سَر رکھیں، تکیے کے بجائے خود ان کے پیچھے بیٹھیں، انکا سر اپنے سینے سے ٹیکیں، انکے جوتے اپنے ہاتھوں سے صاف کریں، انکے چہرے کا بوسہ لیں، انکی جھریوں میں بہشت کے باغ ہیں انکے کانپتے ہاتھ اور لرزتے پائوں جنت کی ضمانت ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کفِ افسوس ملکر یہ کہنا پڑے…؎
مجھے کیا خبر تھی کہ اصل میں وہ فرشتہ تھا
جو مسافر اک تھکا ہارا تھا مرے باغ میں
http://columns.izharulhaq.net/2009_02_01_archive.html
“