دیکھیے جب کوئی ایک مذہب سے، جس میں وہ پیدا ہوا ہوتا ہے اور بیشتر کسی مذہب سے وابستہ والدین، چاہے محض نام کے مذہبی ہوں، کے ہاں ہی پیدا ہوتے ہیں، دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہے یا مذہب یکسر ترک کرنا چاہے تو پہلے وہ اس مذہب سے متعلق جس کا وہ خواستہ نہ خواستہ حصہ ہو، سب کچھ جاننے کی سعی کرے گا۔ اس کی خامیاں بطنی یا شامل کردہ جانے گا، دوسرے مذہب کا بغور جائزہ لے گا پھر طے کرتا ہے کہ دوسرے مذہب کو اختیار کر لیا جائے یا یہ کہ سب مذاہب کی اساس ایک ہی ہے اساطیری و مبنی بر مفروضہ جات تو مذہب سے یکسر جان چھڑا لی جائے۔
اسی طرح جو شخص کمیونزم کی راہ اپناتا ہے وہ سرمایہ داری کی تمام چالوں کو سمجھ کر اور ان کو ناجائز اور غیر انسانی جان کر دوسرے کیمپ میں جانے کی ہمت کرتا ہے۔ کیسے کمایا جاتا ہے، سرمایہ دار معاشرے میں رہنے والے سبھی سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ بہت سوں کا معاشی حق اور مالی منفعت ہتھیائی جائے تو مال کمانا ممکن ہے۔ اس کے لیے ہتھکنڈے، طریقے اپنائے جاتے ہیں جواز تراشے جاتے ہیں ۔ مصلحت اختیار کی جاتی ہے۔ چاپلوسی ، جی حضوری کا شیوہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آنکھ موند لی جاتی ہے اور نمک کی کان میں اتر کر نمک بن جایا جاتا ہے۔
میں میڈیکل کالج کے دوسرے سال میں تھا کہ بلڈ بینکوں کو پیشہ ور بلڈ ڈونرز کا خون نچوڑتے دیکھ کر ششدر ہوا۔ ان کے حقوق کی بات کرتے کرتے، ریلوے کے قلیوں اور مزدوروں کی تنظیم سازی اور حقوق خواہی سے وابستہ ہوا۔ نچلے طبقوں کے برے حالات کا مشاہدہ کیا۔
ڈاکٹر بن گیا تو پہلا پڑاو فوج رہا، وہاں افسروں سے جھوجھ گیا کہ رینکس کے ساتھ تحقیر کا رویہ کیوں روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں پٹھو پریڈ کی غیر قانونی سزا کیوں دی جاتی ہے۔ فوج کا بلکہ سبھی محکموں کا دستور خامشی اور یس سر ہے۔ فوج نکالے اس سے پہلے خود اسے چھوڑ دیا۔
ایران چلا گیا۔ مناسب تنخواہ ملتی تھی۔ پاکستان میں ڈاکٹر کی تنخواہ سے چھ گنا۔ وہاں ملا حکام سے جھگڑا مول لے لیا کہ کیا تم مجھے اسلام سکھاوگے جس نے ماں کی گود میں اللہ کے ننانوے نام یاد کر لیے تھے۔
واپس آ گیا۔ قصبہ کوٹ ادو میں پرائیویٹ پریکٹس کی۔ کمانے کے لیے چاہے ضروری نہ ہو ڈاکٹر ڈرپس لگا دیتے ہیں، کچھ بلاوجہ اپنڈکس نکالنے کا آپریشن کرتے ہیں، ہر بچہ سیزیرین سیکشن سے پیدا کرواتے ہیں، میڈیکل سٹوروں اور پتھالوجی لیبس سے کمیشن لیتے ہیں۔ میرے پاس کوئی آ کے کہتا بوتل لگا دیں، ایکسرے نکال دیں تو میں کہتا کہ ڈاکٹر میں ہوں مجھے طے کرنا ہے۔ پھر سمجھاتا کہ بلا ضرورت نہ بوتل لگانی چاہیے اور نہ ایکسرے نکلوایا چاہیے ، فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
کوئی کہتا گیس کا مرض ہے تو میں دوا دینے کی بجائے بٹھا کے ، تصویریں بنا کے سمجھاتا کہ جسم میں کتنی قسم کے پٹھے ہیں اور وہ پریشانی جسے عرف عام میں گیس کہتے ہیں، سے کسطرح اکڑتے ہیں چنانچہ دوا سے نہیں بلکہ صبح کی لمبی سیر کرنے اور خود کو مصروف رکھنے سے تندرست ہوں۔
سچ تو کسی کو بھاتا نہیں، جیب نہ کاٹو تو لوگوں کو آپ کی صلاحیت بارے یقین نہیں آتا۔ ان کے نزدیک وہ ڈاکٹر ہی کیا جو بہت سی دوائیاں نہ دے۔
اس خطے میں تپ دق بہت تھی۔ تب بھی ہر روز 60 روپے کی دوا 6 سے 9 ماہ کھانی ہوتی تھی۔ تب دق کے مریض عموما" غریب ہوتے تھے۔ میں اسے یہ کہتا کہ دوا روزانہ لینا ہے، پھل، انڈے، دودھ باقاعدہ استعمال کرنے ہیں، کام نہیں کرنا آرام کرنا ہے، کہتا ہوا خود کو جھوٹا لگتا تھا کیونکہ وہ یہ سب کر ہی نہیں سکتا تھا۔ ان کے لیے اپنا گلہ خالی کر دیتا تھا، بیوی نے ایسا کرتے دیکھ لیا، اس کے بعد جو ہونا تھا وہ ظاہر ہے۔
روس آ گیا۔ کسی کے پیسے پر کاروبار میں پڑا۔ کمایا، جس کا تھا اسے ایمانداری سے دیتا رہا۔ نقصان ہو گیا تو نقصان میرا حصہ رہا۔ جب کہا کہ میرا حق تو دو، میں نے تم سے کبھی بے ایمانی نہیں کی تو سرمایہ دار رشتے دار بولا کہ کس نے کہا تھا بے ایمانی نہ کرو۔
بھائی جائز اور حلال آمدنی کمانے کے لیے نہیں بلکہ گذارا کرنے کے لیے ہوتی ہے یا پھر حکومت مناسب ہو جو کام کا مناسب معاوضہ دے اور کوئی کمائی کے ہتھکنڈے نہ اپنائے۔
تو جناب کمانا آتا ہے مگر ویسے کمانے کو من نہیں مانا۔ سو گذر گئی، جو بچ گئی وہ بھی کٹ جائے گی چنانچہ:
ہیں دل میں بہت داغ بجز داغ ندامت
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...