میں نے دس گیارہ سال پہلے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی جو فکشن ہاوس لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ عنوان تھا،" محبت ۔۔۔۔ تصور اور حقیقت" جس میں میں نے پیار ، محبت ، عشق، جنوں میں فرق بیان کیا تھا۔ جسے انگریزی میں Love کہا جاتا ہے اسے میں نے تحقیق کے بعد عشق جانا۔ پیار Liking, محبت Infatuation اور جنوں Passion.
یہ کتاب میں نے یونہی نہیں لکھی تھی بلکہ عشق سے متعلق جو میں نے تھیوری وضع کی تھی اس کا بیان کرکے میں لڑکیوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ لڑکیاں حقیقت گوئی سے راغب نہیں ہوتیں بلکہ چرب زبانی ، بلاوجہ ستائش اور دروغ گوئی کرنے والے کی طرف زیادہ کشش محسوس کرتی ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں نے لڑکی پھانسنے کی اصطلاح وضع کی ہے۔ مجھے ایک سیانی لڑکی نے مشورہ دیا کہ جو باتیں آپ کرتے ہیں وہ ثبوتوں کے ساتھ ایک کتاب ہی لکھ دیں۔
میں بھی اوروں کی طرح یہی سمجھتا رہا تھا کہ میں نے کئی عشق کیے ہیں ویسے مجھے لگتا تھا کہ میں ہر اس راہ چلتی لڑکی پر عاشق ہو جاتا ہوں جو جزوی یا پوری، اگرچہ پوری کبھی کوئی اچھی نہیں لگی، مجھے اچھی لگ جائے۔ مگر تحقیق کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ مجھے کبھی عشق نہیں ہوا۔ یا تو پیار ہوا یا محبت۔ پیار ہمدردی اور توجہ کی خواستگاری، محبت تکمیل خواہش کا رستہ۔
اس چھوٹے سے مضمون میں میں آپ کو عشق کے رموز سمجھانے کی سعی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں خود ان رموز پر کبھی کاربند نہیں ہو پایا ہوں۔ البتہ یہ ضرور بتاوں گا کہ میں ایک مذہبی گھرانے کا اچھا بچہ تھا۔ اتنا اچھا کہ جب ایک شناسا نے میرے سامنے " میری چیچی دا چھلا ماہی لاہ لیا" گنگنایا تو میں نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا کہ میرے سامنے گندی باتیں مت کرے، تب میں نویں جماعت میں تھا۔ دسویں تک لواطت اور مباشرت کو ایک سا عمل سمجھتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم ہوتے ہوئے ایک لڑکی سے پہلا پیار ہوا۔ ایک رات اندھیرے میں ڈرے ڈرے اس کے ساتھ لیٹے جب اس کی شلوار سے میرے ہاتھ پر اس کی رطوبت لگی تو میں نے کراہت کے ساتھ تیزی سے ہاتھ کھینچ کر پوچھا تھا،" آخ، یہ کیا ہے؟" اس نے کہا تھا،" ڈاکٹر بنو گے تو معلوم ہو جائے گا" اندھیرے میں اس کی آواز میں خجالت اور میری لاعلمی پر تحیر محسوس کیا جا سکتا تھا۔
زمانہ طالبعلمی میں جنس کے جو دو تجربات ہوئے وہ کریہہ اور انسان کی توقیر کی پامالی کے حوالے سے پریشان کن رہے۔
پہلے پیار والی بیاہی گئی تو ردعمل میں اپنے خیال کے مطابق ایک اور سے عشق کر لیا۔ پاکستان میں بن بیاہ کے ساتھ رہنا ناممکن تھا۔ بیاہ پر راضی ہو کر بھی غیر رضامند رہا۔ بہت پھڑپھڑایا مگر نہ نکل پایا۔ بچے ہو گئے ۔پھر بیاہ کے دس برس بعد ایک اور شہر میں ایک رات انتہائی نشے کے عالم میں دوست کے پاس پہنچی کسبی کا شکار ہو گیا۔ خوف سے کہ کہیں کوئی مرض نہ گھیر لے، اس سے پہلے کہ بیوی کو منتقل کر دوں اسے بتا دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس سے محبت سہی مگر اسے مجھ سے عشق ہے مگر بتا دینے کے بعد اس کا نام نہاد عشق بھی بھی سے اڑ گیا۔
معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ وہ چالیس برس کی عمر تک عیش کوشی سے گریزاں رہی، پھر اس نے یہ راہ اپنا لی۔ میں چالیس برس کی عمر میں روس پہنچا تھا۔ پہلے ہی روز سر راہ موسیقی پر تھرکتی لڑکی کو اپنی جان میں اپنی جانب راغب کرکے مدعو کر لیا تھا۔ وہ ہوسٹل پہنچ گئی تھی مگر جاتے جاتے میرے دوست کی نوجوان روسی اہلیہ کو بتاتی گئی تھی کہ یہ میری زندگی میں آنے والا انتالیسواں شخص تھا۔ میری جان نکل گئی تھی۔ مگر اگر خدانخواستہ ایڈز ہونا تھی تو اس کے لیے دس برس انتظار کرنا تھا۔
اب میں پھر سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ میرا دوست کہتا تھا کہ لڑکی سے بات کریں ڈاکٹر صاحب۔ میں کہتا تھا کیسے کروں لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اس نے کہا تھا کہ کیا وہ اس کے رشتے دار ہیں، دیکھتے ہیں تو کیا ہوا۔ دس سے بات کریں گے، نو انکار کریں گی مگر دسویں آپ سے دوستی پر رضامند ہو ہی جائے گی۔
پھر استراحت کی غرض سے بحیرہ اسود پر چلا گیا تھا۔ تب سگریٹ ماچس کا کال تھا۔ سمندر میں ڈبکیاں لگا کے پھٹے پر لیٹا اپنے سے چار پانچ پھٹے دور ایک پھٹے پر پیٹ کے بل لیٹی لڑکی کو دیکھ رہا تھا، جس کے کولہوں سے چپکا چمکدار نارنجی ساٹن کا زیر جامہ آنکھوں کو بھلا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ بہت سفید لڑکی تھی۔ جب ماچس مانگنے اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا تھا کہ وہ تھی ہی سفید روس یعنی بیلاروس کے شہر گومل کی نرس۔ بس اس نے تین دن مجھے آگ لگائے رکھی۔
وہیں استراحت کے دوران بیس برس کی ایک لڑکی سے شناسائی ہوئی جو ماسکو آنے کے بعد محبت میں ڈھل گئی۔ میں سمجھا عشق ہو گیا۔ جب وہ چھوڑ گئی تو پھر بوتل کے ساتھ پینگیں بڑھانے لگا۔ پھر فلم سٹار انجمن کے جسم و جثہ کی ایک حسین خاتون سے دوستی کر بیٹھا۔ اس کے کثیر جسمانی تقاضوں کے باعث اس سے جان چھڑائی۔ پھر اپنی ہم عمر یعنی دو برس چھوٹی اس بردبار عورت سے تعلق ہو جو گذشتہ ربع صدی سے میری اہلیہ ہے اور دوسری عورتوں سے متعلق اس عمر میں بھی انتہائی حاسد۔ میں نے کئی بار غچے دیے، اس نے کئی بار معاف کیا۔ مگر 2003 میں جب میں 52 برس کا تھا کہ ماسکو میں موجود 18 برس کی پاکستانی لڑکی کو مجھ سے پیار ہو گیا۔ مجھے آج بھی اس سے پیار محسوس ہوتا ہے۔ زندگی میں آخری ایک اور آئی مگر اس سے مجھے عشق نہیں ہو سکا البتہ پیاری لگتی ہے۔
56 سال کی عمر میں 37 برس کے بعد میں ایک بار پھر مذہب کی جانب راغب ہوا۔ اب بس آنکھیں سینکتا ہوں اور جنسی تخئیل یعنی فینٹیسی پر قناعت کرتا ہوں۔
ایسا بھی نہیں کہ کچھ لڑکیاں جو دوست بنیں وہ بستر تک بھی آئی ہوں بلکہ کئی نے تو پیشتر اس کے کہ میں اس ضمن میں پیشرفت کرتا باور کرا دیا کہ بچ کے رہنا رے بابا بچ کے رہنا رے۔ مثال کے طور پر ایک کم بخت نے کہا تھا،" تم میری پسند کے نہیں ہو" میں نے سٹپٹا کر پوچھا تھا کہ کیا میں نے تمہیں کچھ کہا ہے؟ جواب میں وہ مسکراتی رہی اور میں اس کے اپارٹمنٹ میں اس کی پیش کردہ چائے پیتا رہا۔ ایک اور میرے ساتھ مٹر گشتی کرتے ہوئے گویا ہوئی تھی،" تم چاہتے ہو لڑکی جھٹ سے بستر پر پہنچ جائے" جبکہ میں نے ایسا نہ کچھ کہا نہ کیا تھا۔ میں نے غصے میں خبیث مسکراہٹ چہرے پر لا کر کہا تھا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے کیونکہ میں جان گیا تھا کہ وہ بھاگنے کو پر تول رہی تھی۔
تو عشق کیا ہے؟ ایسا تعلق جس میں باہمی ہم آہنگی اور باہمی ربط کے ساتھ مرد اور عورت اپنی مشترکہ زندگی اور اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق منصوبہ بندی کرکے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے جتن کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے عشق نہیں ہو سکا یا تو پیار ہوا یا محبت۔ باقی محبت سے متعلق بنائے گئے قصے جنوں یعنی دیوانگی کے ہیں ۔ جنوں کسی مقصد کے لیے ہو تو مثبت ہوتا ہے اور عورت کے لیے ہو تو دیوانہ پن۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...