مجھے آپ کی ہمت کی داد دینا ہے !!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ٹیکنالوجی کے سیلاب میں پیدا ہوئے بچوں کو یہ سمجھانا بھی قدرے مشکل ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ نہ فون تھا، نہ انٹرنیٹ تھا، نہ ٹیلیگراف، نہ ای میل، نہ اخبار، اور نہ ہی کتاب۔ چھپا ہوا یا لکھا ہوا علم بھی عام انسان کی پہنچ سے بہت دور تھا۔
علم و معلومات حاصل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔ علم سینہ بہ سینہ چلتا تھا۔ سیکھنے والے میلوں کے سفر اور برسوں کی ریاضت کے بعد استاد سے کچھ حاصل کر پاتے تھے۔
کہیں پرانی کہانیوں میں اب بھی مل جائے شائد کہ ایک شخص کیمیا گر بننے نکلتا ہے اور برسوں بعد بوڑھا ہو کر محض یہ پتہ کر کے واپس لوٹتا ہے کہ یہ محض اک سراب تھا جسکا پیچھا اسکی زندگی لے گیا۔
آج ایک تیرہ سالہ بچہ انٹرنیٹ پر دو منٹ کی ریسرچ کے بعد آپ کو قطعیت سے بتا دیتا ہے کہ ہاں سونا بنانا ممکن تو ہے مگر اس پر سونے کی قیمت سے زیادہ کا خرچ اٹھتا ہے اور اس قسم کی لیبارٹری میں بنے گا یہ۔
۔ ۔ ۔
اس سب کو سوچ کر بس ایک خیال آتا ہے۔ جب میں کسی ایسے جوان کو دیکھتا ہوں جس کی سوچ ایک مخصوص دائرے میں قید ہو چکی ہے اور وہ اس سے باہر کے حالات جاننا بھی نہیں چاہتا۔ یہ دائرہ چاہے زات برادری پر فخر کا ہو، عزت و غیرت کے غرور کا، مذہب میں اپنے مسلک کی سچائی کا ہو، اپنی سیاسی جماعت کے واحد نجات دہندہ ہونے کے زعم کا ہو، یا اپنے ملک کے غیر مشروط ہمیشہ رہنے کا ہو، اور اپنی قوم کے مقدس ہونے کا ہو۔
۔
آج کی دنیا میں اپنے دائرے سے باہر کا علم حاصل کرنے کے لیے بوڑھا ہونے تک سفر کی شرط نہیں ہے، صرف انٹرنیٹ پر دو منٹ کی ریسرچ آپ کو بتا سکتی ہے کہ جس زات برادری پر آپ فخر کر رہے ہیں وہ اس دنیا میں جینز کے لحاظ سے شائد 100ویں نمبر سے نیچے آتی ہو، آپکا جینیاتی کزن شائد افریقا میں سوکھی مچھلی پر زندہ ہو۔
کہ جس مسلک کو آپ واحد سچا سمجھ رہے ہیں، سات ارب میں سے ایک فیصد سے بھی کم اس کے قائل ہیں، اور اکثر تو اس پر ہنستے بھی ہیں۔
کہ جس سیاسی جماعت کو آپ واحد نجات دہند ہ سمجھ رہے ہیں، پچھلی دہائیوں اور حکومتوں میں اس کے ایک ایک وزیر کی کارکردگی کیسی رہی ہے۔
کہ جس قوم کو آپ مقدس، چنی ہوئی اور سب سے بہتر سمجھ رہے ہیں، وہ دنیا میں ایک سو بانوے ٭٭ قوموں میں سے ایک ہے ، اور ہر قوم کے پاس تقریباً ستر ایسے دلائل موجود ہیں کہ وہی چنی ہوئی قوم ہے۔
۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ :
پہلے وقتوں میں جتنی محنت ایک عالم کو علم حاصل کرنے کے لیے کرنا پڑتی تھی،
آج کے دور میں اتنی ہی محنت درکار ہے سچائی اور علم سے بچ بچ کر جاہل رہنے کے لیے۔
۔
اگر آپ موجودہ دور میں بھی جہالت اور لاعلمی کو قائم رکھے ہوئے ہیں تو ۔ ۔
مجھے آپکی ہمت کی داد دینا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“