یہ اٹھارہ دسمبر کی شام تھی، پانچ بجے کا وقت تھا، شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں خودکش حملہ آور نے کھجوری چیک پوسٹ سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرادیا۔ سکیورٹی اہلکار مغرب کی نماز ادا کررہے تھے، نماز پڑھتے ہوئے پانچ اہلکار شہید ہوگئے اور 43 زخمی ہوئے، ان زخمیوں میں اکثریت کا تعلق پاک فوج سے تھا اور باقی ایف سی سے تھے۔
تعجب ہے کہ عمران خان کو ان پاکستانیوں کی شہادت کے بارے میں آج تک اطلاع نہیں ملی ورنہ موصوف ضرور اظہار افسوس کرتے۔
عمران خان کی سیاسی ’’ سرگرمیوں‘‘ کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ جس جماعت کو مرکز اور صوبوں میں اچھی بھلی انتخابی نمائندگی حاصل ہے ، اس کے طور اطوار ان جماعتوں کی طرح ہیں جو پارلیمنٹ سے باہر ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو اِن رکھنے کے لیے یہ سارے جتن کرتی ہیں۔
سب سے زیادہ حیرت اس چوں چوں کے مربے پر ہے جو عمران خان نے اپنی دکان پر بیچنے کے لیے سجارکھا ہے۔ تاریکی پسند قوتیں اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہیں۔ ایک صاحب جو مجسم غیظ و غضب ہیں، جن کی نخوت کی حکایتیں پاکستان سے شکاگو تک عام ہیں، جو بات کرتے وقت لاٹھی مارتے ہیں، عمران خان سے گزارش ہے کہ کسی وقت ان سے پوچھیں کہ مصر سے لے کر بنگلہ دیش تک ایک ایک لمحے کی خبر رکھنے والے یہ تکبرمآب پولیو مہم میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟وہ سب جو معصوم بچوں کو پولیو کی اذیت سے بچاتے ہوئے جانیں قربان کررہے ہیں،کیا وہ سب ان کی نظر میں مسلمان نہیں؟ کیا انسان بھی نہیں ؟ کیا یہ سب کیڑے مکوڑے ہیں؟ ورنہ آج تک ان کی شعلے اگلتی زبان سے ایک لفظ،نہیں،ایک لفظ تو دور کی بات ہے، ایک حرف تک افسوس کا قاتلوں کی مذمت میں نہیں نکلا۔یہ ہیں عمران کے رفقا اس’’عوامی‘‘ سفر میں!
ایک صاحب ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں:’’ اسی فیصد ہوسٹل تو خالی کر ہی دیے تھے‘‘۔ان سے کوئی پوچھے کہ باقی بیس فیصد میں کیا تھا؟صوبے کے سب سے بڑے ، قدیم ترین ادارے کو مکمل تباہی اور بدنامی سے دوچار کرنا قوم کی کون سی خدمت ہے۔ اگر کوئی سروے کرے تو حیران کن اعداد و شمار ملیں۔ سینکڑوں ہزاروں والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو اس تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ایک کالم نگار نے کچھ دن پہلے،مذہب کے ٹھیکیداروں سے سوال کیا ہے کہ یہ ’’سیاسی ‘‘ سرگرمیاں آپ حضرات اپنے تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں متعارف کراتے، اس لیے کہ کاروبار میں فرق پڑتا ہے؟ جائیدادوں اور زمینوں کے سوداگر، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے بادشاہ اور بادشاہ گر۔۔۔اس ملک میں مذہب کے اجارہ داربن رہے ہیں! ؎
بھرم کھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اسی طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
تاریکی پسند قوتیں خود کچھ بھی نہیں۔ ان کا اپنا اتنا وزن نہیں کہ یہ کسی ترازو پر سوار ہونے کی جرأت کریں۔ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی کا اٹیچی کیس بنتی ہیں۔مشرقی پاکستان پر افتاد پڑی تو پیپلزپارٹی کی ہاں میں ہاں ملاکر یحییٰ خان ، جنرل نیازی اور جنرل ٹکا خان کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ پھر اداروں کو تباہی سے دوچار کرنے والے ضیا الحق کا زمانہ آیا تو ایک اور مضبوط ہاتھ مل گیا جس نے اس اٹیچی کیس کو پکڑلیا۔ ان تاریکی پسند قوتوں نے افغانستان میں وہ بھنگڑا کھیلا اور وہ لڈی ڈالی کہ آج تک قوم حساب دے رہی ہے۔ ڈالروں کی ریل پیل تھی، اللہ دے اور بندہ لے۔ اپنے بچوں کے چمکتے دمکتے پھلتے پھولتے کاروبار اور دوسروں کے بچوں کے لیے شہادت!
ان تاریکی پسند قوتوں کو عمران خان مل گیا ہے۔عمران خان کو جلسوں، جلوسوں، دھرنوں ،احتجاجی ریلیوں کے لیے اس شعبے کے ماہرین کی تلاش تھی۔ سو لنگڑا ، اندھے کے کاندھوں پر سوار ہے، راستہ بتاتا جارہا ہے اور اندھا چلتا جارہا ہے۔
افسوس! صد افسوس! وعدے کرنے والے عمران خان کو پورے صوبے کی حکومت ملی ہے اور کسی وعدے کے ایفا کے آثار نظر نہیں آتے۔ ٹیکس کے بارے میں عمران خان نے اتنی تقریریں کیں، اتنے اعلانات کیے، اتنے عہدو پیمان کیے تو ان ٹیکسوں کے حوالے سے جو صوبے کی تحویل میں ہوتے ہیں کیا تبدیلی آئی ؟ ٹیکس اور محصول صرف وفاقی تو نہیں ہیں۔ عمران خان نے اور ان کی جماعت نے خیبرپختونخوا میں اس میدان میں کون سا انقلابی اقدام اٹھایا؟ کوئی زرعی اصلاحات ؟ زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس ؟ کوئی محصول ؟ دور دور تک کوئی آثار نہیں کہ عمران خان فیوڈلزم پر ہاتھ ڈال سکیں۔ سطحیت زندہ باد!
راولپنڈی کے ایک سیاستدان جو عمران خان کے دست راست بنے ہیں ، ایک بیرومیٹر ہیں۔ اس بیرومیٹر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف بالکل اسی قبیل کی جماعت ہے جس قبیل کی مسلم لیگ نون ، قاف اور پی پی پی ہے۔ یہ سیاستدان پہلے مسلم لیگ ن میں تھے، وہ اقتدار سے محروم ہوئی تو یہ اس شاہی ہاتھی کے مہاوت بن گئے جس پر جنرل پرویز مشرف سوار تھے۔ آخری وقت تک یہ انہی کے ساتھ تھے۔ پرویز مشرف کے سنگی ساتھی مسلم لیگ نون میں جائیں تو بری بات ہے اور عمران خان کے ساتھ آملیں تو چاند تارے بن جائیں! واہ ! واہ ! کیا بات ہے!
نہیں ! نہیں ! یہ ان گروہوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ میدان کسی اور کے لیے سج رہا ہے۔ اس ملک کو تاریکیوں سے نکالنے کے لیے نئے سورج طلوع ہوں گے۔ جس طرح رانا ثناء اللہ ، حمزہ شہبازشریف ، عابد شیر علی ، سٹیل مل کو کرپٹ صوبائی حکومت کے ہاتھ بیچنے پر تیار خاقان عباسی اور تغلقوں، خلجیوں اور مغلوں کے سچے جانشین شریف برادران نیا پاکستان لانے سے قاصر ہیں، جس طرح راجہ پرویز اشرف ، یوسف رضا گیلانی ، امین فہیم ، قائم علی شاہ اور آصف زرداری قوم کی قسمت تبدیل کرنے کے اہل نہیں ، اسی طرح، بالکل اسی طرح شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین ، آصف احمد علی، باغی باغی کی تکرار کرنے والے جاوید ہاشمی ، شیخ رشید ، منور حسن ، سراج الحق اور ان سب کے سرخیل عمران خان انقلاب لانے کے قابل نہیں۔ ہوا نکل چکی ، اوس پڑچکی ، وہ جو نامعلوم کو دیکھنے کا شوق تھا پورا ہوچکا ؎
سر شام کتنی امید، کیسا غبار تھا
مگر اس غبار میں سربریدہ سوار تھا
فسطائیت کیا ہے؟ اپنے وابستگان کو مستحق ٹھہرانا اور اسے میرٹ قرار دینا! اس فن کے ماہرین کو عمران خان اپنے ساتھ لے کر چلے ہیں۔ احرار کے بارے میں کہاوت تھی کہ ان کے پاس رات کو تین افراد ہوں اور آٹھ آنے (اس زمانے کے آٹھ آنے!) تو صبح تک تحریک چلادیتے ہیں۔آج ایسے گروہوں کے نام بھی کسی کو نہیں معلوم ! تاریخ کے مرگھٹ میں وقت کے شعلوں کی نذر ہوچکے۔ عمران خان سے توقع تھی کہ نئی روایات ڈالیں گے۔۔۔جیسے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب، الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے اور یوں عوام تک رسائی۔ لیکن ان کی زبنیل سے بھی دھرنے اور جلوس ہی نکلے اور ساتھ وہ آزمودہ چہرے جنہیں دیکھ کر لوگ آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیں !! ؎
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا