میری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھ سے کسی کی خوشامد نہیں ہوتی۔ اگرچہ میں آٹھویں پاس ہوں لیکن جب میرے ماموں نے مجھے ایک اخبار میں صحافی لگوایا تو میں نے دل و جان سے محنت کی، ظاہری بات ہے ایک مڈل پاس بندے کو اُردو کی زیادہ سمجھ تو نہیں ہوتی ، مجھ سے بھی کچھ معمولی قسم کی غلطیاں ہوتی رہیں مثلاً میں لفافے کو ’’فلافہ‘‘ اور دستخط کو ’’دکست‘‘ لکھ جاتا تھا، مجھے جو خبر بنانے کے لیے دی جاتی تھی اس کی عبارت اگر مجھے سمجھ نہیں آتی تھی تو میں اپنی سمجھ کے مطابق خود خبر بنا دیا کرتا تھا ۔ ایک غریب اور مجبور انسان ہونے کے ناطے میں ہفتے میں تین چار چھٹیاں بھی کر لیا کرتا تھا، لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ، میں خوشامد کسی کی نہیں کرتا تھا، بس یہی میرا وہ نقص تھا جس کی وجہ سے مجھے ایک مہینے بعد ہی نوکری سے نکال دیا گیا۔
میں ایک شاعر ہوں، تین چار سو غزلیں لکھ چکا ہوں لیکن نہ مجھے کسی اچھے مشاعرے میں بلایا جاتاہے نہ کوئی باہر کا ٹور لگا ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ مجھ سے کسی کی خوشامد نہیں ہوتی حالانکہ میرے شعر کسی سے کم نہیں، ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک شعر کہا کہ!
تم میری زندگی ہو
میں ہمیشہ تمہیں چاہتا رہوں گا چاہے مجھے موت آجائے
یہ شعر سن کر مجھے کہا گیا کہ یہ بے وزن ہے۔ میرے دل پر جو گذری وہ اللہ ہی جانتا ہے، ایک یتیم اور بے سہارا بندہ بھلا شعر لکھتے وقت کیسے وزن پر دھیان دے سکتا ہے، ویسے بھی شعر میں وزن کی نہیں خیال کی اہمیت ہوتی ہے، لیکن کسی نے میرے شعر کو توجہ نہیں دی ۔نہ یہ شعر کسی اخبار کے ادبی صفحے میں چھپا ، نہ کسی نے اس پر داددی۔ظاہری بات ہے جب میں کسی کی خوشامد نہیں کر سکتا تو میرے ساتھ یہی ہونا ہے۔
میں ایک ٹی وی اینکر بننا چاہتا ہوں، دو تین دفعہ آڈیشن بھی دیا لیکن مجھے کہا گیا کہ تم بولتے ہوئے بہت گھبرا جاتے ہو اس لیے پریکٹس کرو، میں نے ہمت نہیں ہاری اور دو مہینے تک اچھی خاصی پریکٹس کی، دوبارہ میرا آڈیشن ہوا تو کہنے لگے کہ تم کیمرے کی طرف دیکھنے کی بجائے زمین پر کیوں دیکھتے ہو؟ میں نے انہیں سمجھایا کہ میری آنکھوں میں پرابلم ہے جس کی وجہ سے میں روشنی کی طرف ٹھیک سے نہیں دیکھ سکتا، ویسے بھی کیا اینکر پرسن زمین کی طرف دیکھ کر پروگرام نہیں کر سکتا؟ اُنہیں تو بہانا چاہیے تھا، مجھے فوراً آؤٹ کر دیا، حالانکہ اصل وجہ یہ تھی کہ میں نے کسی کی خوشامد نہیں کی تھی۔
پاکستان میں ہر ناکام بندے کے پاس یہ گھڑا گھڑایا جواب موجود ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ محض خوشامد کے بل بوتے پر کامیاب ہیں اور ناکامیاں صرف ان کا مقدر بنتی ہیں جو خوشامد کے فن سے ناواقف ہیں۔تاہم خود اگر کسی معجزے کی وجہ سے اِنہیں کامیابی نصیب ہوجائے تو یہ اسے صرف اپنی محنت سے تعبیر کرتے ہیں۔آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، دو بندے جن میں سے ایک زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جائے گا، دوسرا اس کے بارے میں یہی کہے گا کہ یہ سارا خوشامد کا کمال ہے۔ ناکامی کا جواز تلاش کرنا بڑاآسان کام ہوتاہے، اس سے اپنے دل پر بوجھ نہیں پڑتا، ساری ذمہ داری اگلے کے سر پر ڈال دی جاتی ہے اور طے کر لیا جاتاہے کہ ہم خود بہت ٹیلنٹڈ اورشارپ ہیں، بس خوشامد نہ کرنے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کسی بھی کام کے ماہر انسان کی بہت زیادہ ویلیو ہے، ہم ایک دوسرے سے کسی اچھے پلمبر، اچھے درزی اور اچھے مکینک کا بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ یہ ہونہیں سکتا کہ کسی بندے میں کوئی ٹیلنٹ ہو اور اس کی قدر نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیلنٹڈ بندہ یہ طے کرلے کہ اسے گھر سے ڈولی ڈنڈا کرکے لایا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ بعض ٹیلنٹڈ لوگ بھی ناکامی کا شکار رہتے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ محض ٹیلنٹ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ بہت اچھے ٹھیکیدار ہیں لیکن انتہائی سُست ہیں تو ظاہری بات ہے آپ کا تمام تر ٹیلنٹ آپ کی سستی کھا جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ بہت اچھے سافٹ ویئر انجینئر ہیں لیکن کبھی کسی کا کام ٹائم پر نہیں کرتے تو یہ دنیا آپ کے ٹیلنٹ کا ایک رخ دیکھ کر آپ پر فدا نہیں ہوگی۔ٹیلنٹ اکیلا کچھ نہیں ہوتا، اسے اپنے ساتھ بہت سی چیزیں نتھی کرنی پڑتی ہیں تب اس کی ویلیو بنتی ہے۔میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جن سے اچھا موبائل شائد ہی کوئی ٹھیک کرسکتا ہو، ان کے ساتھ ہی ایک ایسے صاحب کی بھی دوکان ہے جو وقتی طور پر موبائل ٹھیک کرلیتے ہیں لیکن فوراً کردیتے ہیں۔ اب اگر دوسرے صاحب کی دوکان زیادہ چل رہی ہے تو یقیناًوجہ بھی پتا چل جاتی ہے۔
عموماً ناکام ٹیلنٹڈ لوگوں کے پاس ہُنر تو ہوتاہے لیکن وہ دیگر لوازمات سے محروم ہوتے ہیں۔انہیں خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ٹیلنٹ کی روشنی میں باقی ساری کوتاہیاں نظر انداز کر دی جائیں، لیکن ایسا ہونہیں سکتا۔ اگر ایک مکینک بہت اچھی گاڑی ٹھیک کرسکتا ہے لیکن وہ گاڑی کی ٹیوننگ میں ہی چار دن لگا دے تو کون ایسا فارغ بندہ ہوگا جو اس کے پاس چار دن اپنی گاڑی چھوڑنا پسند کرے گا۔ کیا آپ کسی ایسے ٹیلنٹڈ اکاؤنٹنٹ کو رکھنا پسند کریں گے جو ہفتے میں دو دن ڈیوٹی پر آتا ہو؟؟؟
ٹیلنٹ کی بہت قدر ہے لیکن محض ٹیلنٹ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک بہت اچھا فریج خرید لیا جائے لیکن اسے آن نہ کیا جائے۔ اور اگر آن کرلیا جائے تو اس میں ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ رکھی جائے۔ ویسے تو ناکام لوگوں میں ٹیلنٹ کی مقدار بہت کم ہوتی ہے لیکن جن لوگوں میں یہ خاصیت پائی جا تی ہے ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ وہ خود ہوتے ہیں۔ میرے گھر کی قریبی مارکیٹ میں ایک صاحب بہت اچھے دہی بڑے بناتے ہیں، ان کی دوکان کا ذائقہ پورے علاقے میں مشہور ہے لیکن آدھے سے زیادہ دن ان کی دوکان بند رہتی ہے۔ جن لوگوں نے دہی بڑے کھانے ہوتے ہیں وہ اسی ڈر سے ان کی دوکان کا رخ نہیں کرتے کہ کہیں بند ہی نہ ہو۔ کئی ایسے لوگ جو ٹیلنٹڈ تو نہیں لیکن اپنے کام میں اتنے ریگولر ہیں کہ اپنی اسی ایک خصوصیت کی بنا پر کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ٹیلنٹ کا راستہ واقعی کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر ٹیلنٹ نے اپنے راستے میں خود ہی ’ڈکا‘ لگایا ہو تو کسی کا کیا قصور؟؟؟ وہ لوگ جنہیں شکایت ہے کہ ان کے ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہوتی، انہیں ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ان کا ٹیلنٹ ’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘ کی طرح تو نہیں؟ نیز یہ کہ جسے وہ ٹیلنٹ سمجھتے ہیں کیا وہ ٹیلنٹ ہے بھی یا نہیں؟ محض گھر والوں کی رائے اور محلے داروں کی واہ واہ سے اپنے کام کو ٹیلنٹ سمجھ لینا بھی کسی بیماری سے کم نہیں۔ اگرکسی میں ٹیلنٹ ہے تو اسے چیک کرنے کا بڑا آسان طریقہ ہے، جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔۔۔آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، دنیا خود بولے گی۔ اپنے حق میں خود دلائل نہیں دینے پڑیں گے۔۔۔!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“