تیس بتیس سال کے اس نوجوان کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہزاروں دوسرے لڑکوں کی طرح یہ بھی چودہ یا سولہ جماعتیں پاس کرکے کہیں ملازمت کر رہا ہوگا۔لیکن ایسا نہیں، اجمل شاہ دین نے اس بالی عمر یا میں بنکاری پر دنیا کا دوسرا اور پاکستان کا پہلا روزنامہ جاری کیا ہے۔اس انگریزی اخبار کا مالک تو وہ ہے ہی، ایڈیٹر بھی خودہے۔ پاکستانی صحافت میں پہلا
Syndicate
(سنڈی کیٹ) بھی اسی نے شروع کیا اور کالم نگاروں کو کاپی رائٹ حقوق میسر آئے۔
اپنے مرحوم سسر مظفر محمد علی کی کتاب ” پاکستانی صحافت کے رازدان صحافی“ شائع کرکے اب اس نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔مظفر محمد علی، خدا اُن کے درجات بلند کرے اور ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے۔ انٹرویو لینے کا ہنر جانتے تھے اور جس کا انٹرویو لیتے تھے، اُس کے اندر سے سب کچھ نکال لیتے تھے۔اس کتاب میں اثر چوہان، سعید آسی، حامد منیر سلیم بخاری، مجیب الرحمان شامی اور حسن نثار جیسے صفِ اول کے صحافیوں کے انٹرویو ہیں لیکن انہیں انٹرویوکہنا ایک سرسری بات ہے سچ تو یہ ہے کہ راز ہائے درونِ میخانہ پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کی تاریخ ہے اور اس میں وہ تاریخ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملے گی۔اس میں انکشافات بھی ہیں اور اعترافات بھی اور کچھ تو بہت ہی دلچسپ ہیں۔اس کتاب میں کچھ صحافیوں نے اپنے معروف خیالات سے رجوع بھی کیا ہے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کیاہے۔ مجیب الرحمن شامی کا انٹرویو اس لحاظ سے بہت نمایاں ہے ہم سب جانتے ہیں کہ شامی صاحب صحافیوں کی اُس تکون کا ایک اہم ضلع تھے جو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مکمل طورپر وابستہ تھی۔اس پس منظر میں جب وہ اپنی کسی رائے سے رجوع کرتے ہیں تو اس کی ایک خاص اہمیت ہے۔مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں۔ ” جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کئی چیزیں ایسی ہیں مثلاً بھٹو صاحب کی پھانسی جو ہے میں آج اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ انہیں پھانسی نہیں ملنی چاہئے تھی اس لئے کہ اس کے کچھ اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔میں یہ نہیں کہتا کہ مقدمہ غلط تھا لیکن اس میں ان کو سزا دینے کیلئے بہت سے معاملات ایسے کیے گئے تھے جواب سامنے آرہے ہیں وہ ہمارے ہاں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی گئی“۔2007ءسے پہلے لیے گئے اس انٹرویو میں مظفر محمد علی جب پوچھتے ہیں کہ نواز شریف اور بے نظیر میں سے کون بہتر ہے تو مجیب الرحمن شامی جواب دیتے ہیں ”آج میرے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ بینظیرکو میں ترجیح دوں یا نواز شریف کو میں ترجیح دوں“۔ مشرقی پاکستان میں جو فوجی ایکشن ہوا تھا اور جس میں بڑے بڑے دانش وروں کو قتل کردیا گیا تھا جن میں پروفیسر جی سی دیوجیسے غیر سیاسی اور پاکستان دوست عالم بھی شامل تھے۔ ایک خاص طبقہ اس ایکشن کا بڑا سرگرم اور پُرجوش حمایتی رہا۔ یہ طبقہ وہی ہے جسے فوجی آمریت بھی راس آتی ہے۔مجیب الرحمن شامی بھی اسی طبقے کے ایک ممتاز فرد ہیں۔لیکن انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے۔” میں سمجھتا ہوں کہ جب مشرقی پاکستان پر ملٹری ایکشن ہوا تھا اور اس وقت وہاں جو تحریک چل رہی تھی صوبائی خود مختاری کی اور شیخ مجیب الرحمن کا جو نکتہ نظر تھا میں اسی کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکا…. میں نے اس وقت جس نکتہ نظر کا اظہارکیا تھا مجھے آج خیال آتا ہے اگر آج کی طرح میرا شعور ڈی ویلپ ہوچکا ہوتا تو میں یقینا وہ رویہ نہ اپناتا۔میں آج محسوس کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کو ہم نے سمجھا ہی نہیں“۔
مجیب الرحمن شامی جنرل ضیاءالحق پر حیرت انگیز حد تک اثر رکھتے تھے۔بلا شبہ وہ آمریت کے اس دور میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی اپنی زبانی سنیئے۔ ”جنرل ضیاءالحق سے میری بہت دفعہ ملاقات ہوئی۔کئی چیزیں ایسی ہیں جو میری کوششوں سے ہوئیں۔بہت سے معاملات ہیں کہاں تفصیلات میں جائیں بہرحال میں مختصراً بات کرتا ہوں جاوید ہاشمی کیلئے وزارت میں میری کوشش کا سو فیصد دخل تھا۔اس کے بعد جاتے جاتے مصطفی صادق صاحب وزیر بنے اس میں بھی میر ی کوشش کا بڑا دخل تھا“۔ آگے چل کر کہتے ہیں…. ” میری کوشش تھی کہ مصطفی صادق صاحب وزیراور حسین حقانی وزیر مملکت برائے اطلاعات بن جائیں….پھر جب ضیاءالحق صاحب سے مصطفی صادق کی بات ہوئی ہم تین آدمی گئے تھے الطاف حسین قریشی صاحب مصطفی صادق صاحب اورمیں…. جونیجو کی حکومت ختم ہوچکی تھی اور انہوں نے کابینہ بنالی تھی میں نے کہا کہ آپ نے کیا وزیر بھرتی کرلیے ہیں سارے کے سارے پرانے“۔ (بے تکلفی ملاحظہ ہو!)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجیب الرحمن شامی، مصطفی صادق صاحب کو وزیر بنانے کیلئے اتنے سرگرم کیوں تھے، کیا نظریاتی بنیادوں پر؟ حیرت ہے کہ مصطفی صادق ذوالفقار بھٹو کے بہت نزدیک تھے اس قربت کا ذکر خود مصطفی صادق ان الفاظ میں کرتے ہیں ” اُس دور میں بھٹو صاحب کے ساتھ میری کچھ ایسی بے تکلفی ہوچکی تھی کہ میں ان سے ہنسی مذاق کے انداز میں ایسی بات بھی کرلیتا تھا جو انہیں ناگوار گذر سکتی تھی“ ایک اور جگہ مصطفی صادق بھٹو صاحب کے بارے میں کہتے ہیں ” چائے کا دور چل چکا تو میں نے پھر مداخلت کی اور بصد ادب یہ گذارش کی کہ کاش آپ ناراض ہونے کے بجائے مجھ سے کوئی خدمت لیتے“ شامی صاحب قوم کو یہ بتانا بھول گئے کہ وہ مصطفی صادق صاحب کو نظریاتی بنیادوں پر وزیر بنوا رہے تھے یا ذاتی تعلقات کی وجہ سے؟
جنرل ضیاءالحق کی آمریت کا ایک بڑا شہکار غیر جماعتی انتخابات تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ان غیر جماعتی انتخابات سے ٹوڈیوں اور موقع پرستوں کی ایک پوری فصل کاشت کی گج تک قوم کاٹ رہی ہے۔مجیب الرحمن شامی اعتراف کرتے ہیں کہ اس گناہ میں ان کا بہت بڑا عمل دخل تھا، کہتے ہیں ” اس کے علاوہ کئی فیصلے ایسے تھے جن پر میں اثر انداز ہوا جیسے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے بنیادی کردارادا کیا لیکن اس میں اہم کردارادا کیا“۔ اس کی مزیدو ضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ” اب میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فیصلہ میں نے کرایا لیکن ابھی تک وہ (یعنی جنرل ضیا)گومگو کی کیفیت میں تھے ان کی خواہش تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور کوشش تھی کہ انہیں اس کی سپورٹ مل جائے۔ میرے ساتھ ان کی گفتگو نے انہیں ایک کلیریٹی دے دی اور وہ اس راستے پر چل پڑے“۔
افغان جہاد کے بارے میں بھی مجیب الرحمن شامی ایک دلچسپ نکتہ نکالتے ہیں۔ اس جہاد کے بارے میں ایک نکتہء نظریہ ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ تھی۔شامی صاحب اس نکتہ نظر سے براہِ راست تو اتفاق نہیں کرتے لیکن بالواسطہ بتاتے ہیں کہ کس طرح یہ جہاد امریکہ کو بہت محبوب تھا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے سیاق و سباق میں وہ کہتے ہیں ”دوسرے زاویے سے آپ دیکھیں تو یہ ( ایٹمی پروگرام) جہادِ افغانستان کا پاکستان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔اگر سوویت فوجیں وہا ں نہ آتیں اور پاکستان ان کے خلاف امریکہ کی مد د نہ کرتا تو امریکہ پاکستان سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا تھا کہ وہ یہ کام کرے۔اب ایسی کتابیں یا ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جن سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے یہ رپورٹیں دے رہے تھے لیکن انہوں نے صرفِ نظر کیا کہ پاکستان کو اگر اس وقت ڈی سٹیبلائز کیاجائے گا یا جنرل ضیاءالحق کو چھیڑا جائے گا تو افغان جنگ متاثر ہوجائے گی“۔
” پاکستانی سیاست کے رازدان صحافی“ میں شامل تقریباً تمام انٹرویو ہی چونکانے والے ہیں۔ کتاب کا انتساب نثار عثمانی اور مجید نظامی کے نام ہے۔(جاری ہے)