سال دو ہزار بائیس کا آخری اور دو ہزار تیئیس کا پہلا دھماکہ بھی ہوگیا۔پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول ترین نیوز کاسٹر ، معروف شاعرہ ، مصنفہ ، بی بی سی لندن سے وابستہ ، آواز کی دنیا کا بڑا نام ، ادبی اور سیاسی حلقوں کی قابل تعظیم شخصیت محترمہ مہ پارہ صفدر صاحبہ کی خود نوشت ۔ میرا زمانہ ، میری کہانی منظر عام پر آگئی بلکہ آتے ہی چھا گئی ۔
میرا زمانہ ، میری کہانی نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیئے
پاکستان میں سیاسی ، ادبی اور ثقافتی معاملات پر نظر رکھنے والے دنیا بھر کے کسی بھی خطے میں بسنے والوں کو میڈم مہ پارہ صفدر کی کتاب میرا زمانہ ، میری کہانی نے حیران کردیا بلکہ ہم تو کہیں گے کہ جس جس تک بھی اس کتاب کی خوشبو اور مہک پہنچی ہے وہ دم بخود رہ گیا۔ ابھی کتاب کو منظرعام پر آئے بمشکل پندرہ بیس روز ہی ہوئے ہوں گے کہ ہمیں ہر روز آٹھ ، دس تبصرے اور تجزیے میسر آ رہے ہیں۔ آپ کو جہاں دو چار صحافی ، ادیب ، کالم نویس ، سیاسی تجزیہ کار اور سماجی خدمت گار ایک ساتھ نظر آئیں چاہے وہ بیٹھک ، نشست پریس کلب میں ہو یا آرٹس کونسل میں ، نجی تقاریب ہوں یا پھر ادبی یا سیاسی محافل یقین فرمائیے کہ بات کا موضوع موجودہ غیر یقینی سیاسی صورت حال ہو یا پھر موجودہ یا سابقہ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر بے دریغ تبصرے کچھ ہی دیر میں گھوم پھر کر تان ٹوٹتی ہے تو میرا زمانہ ، میری کہانی پر ۔ پہلے تو ہم اس کا سبب نہ جان سکے کہ کتاب آئے جمعہ اور جمعہ آٹھ روز بھی نہیں ہوئے تو اس کتاب کی شہرت اور مقبولیت نا صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں کیسے پہنچ گئی۔ پھر یاد آگیا کہ محترمہ مہ پارہ صفدر صاحبہ بہت سے وی لاگز میں سرسری سا تذکرہ ان کے مشاہدات و تجربات کا بھی ملتا ہے۔ ان میں سے بہت سے تجربات و مشاہدات تلخ اور تکلیف دہ بھی ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جن کو سن کر بھرپور انداز میں لطف اندوز کے مواقع میسر آتے ہیں ۔ اور جو معلومات ناظرین کو فراہم کی جاتی ہیں ان کے معتبر ہونے میں کسی قسم کے شک کا گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ انہی چند دنوں میں ایک ضروری کام سے کراچی یونیورسٹی جانا ہوا تو وہاں بھی جو حالات دیکھے ان کا چلتے چلتے تذکرہ تو بنتا ہی ہے۔ کچھ پرانے اساتذہ اور کچھ پرانے شاگرد ملے ان میں سے ستر سے سے اسی فیصد کا خیال تھا کہ ہم جیسے جیسے میرا زمانہ ، میری کہانی پر لکھے گئے تبصرے اور تجزیے پڑھتے جارہے ہیں وی میدے ویسے اس شاہکار خود نوشت میرا زمانہ ، میری کہانی کے مطالعے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا ہے اور پھر ان میں سے کچھ نے تو اپنی نظر سے گزرے ہوئے تبصروں اور تجزیوں پر بھی اپنی رائے دینی شروع کردی۔ ہم سنتے رہے اور سر دھنتے رہے ۔ جامعہ کراچی سے واپسی پر ہم سوچ رہے تھے کہ ایک خود نوشت کی مقبولیت کا یہ عالم ہے۔ ہم حیران اس وجہ سے بھی تھے کہ ہمارے خیال میں تمام تر اصناف نثر میں سب سے کٹھن اور دشوار خود نوشت لکھنا ہے۔
بےشک محترمہ مہ پارہ صفدر صاحبہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان کی خود نوشت میرا زمانہ ، میری کہانی کو سنجیدہ قارئین جن میں ان کے ہزاروں مداح بھی شامل ہیں نے ان کی اس کاوش کو بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا اور اچھے قاری کا فرض نبھاتے ہوئے اس کو حد درجہ سراہا بھی ۔ شنید ہے کہ میرا زمانہ ، میری کہانی کے پبلشر بک کارنر ، جہلم نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ممتاز اور ہر دلعزیز تجزیہ نگار محترم رؤف کلاسرا صاحب نے کون کون سے اہم اور توجہ طلب نکات کی بنیاد پر اپنے تاثرات قلم بند فرمائے ہیں آئیے دیکھتے ہیں
میرا زمانہ میری کہانی ، ماہ پارہ صفدر
آج کل 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں پی ٹی وی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر (جو کبھی ماہ پارہ زیدی تھیں) کی خودنوشت میرے زیرمطالعہ ہے۔
وہ 1990 میں ptv کا جاب چھوڑ کر پاکستان سے لندن بی بی سی چلی گئیں اور اب وہیں مستقل مقیم ہیں۔
ہماری آج کی نوجوان نسل شاید ان سے زیادہ آشنا نہ ہو کہ وہ اس دور میں برسوں تک ہر گھر کا لازمی حصہ سمجھی جاتی تھیں جب صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پاکستان بھی اتنا اہم تھا جتنا آج ٹوئٹر ، فیس بک یا ٹک ٹاک ہوچکا۔
عمومی طور پر کسی بھی پروفیشن سے جڑی خواتین بہت کم ہی اپنی خودنوشت لکھتی ہیں۔ فوری طور پر ذہن میں کشور ناہید اور ادا جعفری آرہی ہیں جنہوں نے لکھا اور شاندار لکھا۔ لیکن اگر خواتین لکھیں بھی تو انہیں بہت کچھ اپنے بارے میں بتانے سے زیادہ نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔
جب گگن شاہد اور امر شاہد کے ادارے بک کارنر سے چھپی ماہ پارہ صفدر کی خودنوشت ہاتھوں میں آئی تو 1980کی دہائی سے ptv سے جڑی پرانی یادیں لوٹ آئیں۔ اگرچہ وہ خود اس بات کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں کہ ہر کوئی انہیں مل کر یہی کہتا ہے کہ وہ بچپن سے انہیں دیکھتا آیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ سب چھوٹے ہیں اور وہ بہت بڑی عمر کی ہوگئی ہیں۔ بات بھی ان کی ٹھیک ہے کہ اگر ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی یہ کہنا شروع کر دیں تو اعتراض بنتا ہے۔
خیر جب بھی پی ٹی وی کے بارے میں کوئی بھی کتاب چھپی تو لوگوں نے دلچسپی سے پڑھی کیونکہ یہ وہ سب کردار تھے جنہیں آپ نے برسوں اپنے گھروں میں سکرین پر دیکھا تھا اور سب تجسس کاشکار رہتے ہیں کہ اندر خانے کیا چل رہا تھا۔
یقینا جو لوگ ٹی وی پر مسلسل نمودار ہوتے ہیں انہیں خود احساس نہیں ہوتا کہ وہ جن گھروں میں دیکھے جاتے ہیں آپ ان کے فیملی ممبرز بن جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی عام لوگ کسی اداکار، یا اینکر یا نیوزکاسٹر سے ملتے ہیں تو انہیں لگتا ہے وہ تو برسوں سے انہیں جانتے ہیں لیکن آگے سے اکثر ان مشہور لوگوں کے چہروں پر حیرانی یا اجنبیت دیکھ کر مایوس ہوتے ہیں کہ یہ ہمیں کیوں نہیں جانتے۔
ماہ پارہ صفدر کا یہ کتاب لکھنا یقینا ایک مشکل فیصلہ ہوگا کہ گزرے برسوں کی کہانی لکھی جائے جسے پڑھنے میں آج کی نئی نسل کو دلچسپی نہ ہو (لیکن میری جیسی نسل کو اس میں بہت دلچسپی ہے)۔ اپنی جوانی اور اس سے جڑے کرداروں کو دوبارہ بیٹھ کر یاد کیا جائے۔ پھر یہ فیصلہ کرنا کہ اس کتاب میں اپنی ذاتی اور پروفینشل زندگی کو کتنا قارئین ساتھ شئیر کیا جائے، کیا بتایا جائے اور کیا نہ بتایا جائے۔
ویسے بھی اگر آپ کے اندر سب باتیں شئیر کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو پھر خودنوشت نہیں لکھنی چاہئیے۔ لیکن مجھے کہنے دیں کہ ماہ پارہ صفدر نے مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے تقریبا سب پہلوئوں پر لکھا اور خوب لکھا۔ اپنی منگنی، شادی یا اپنے کردار پر اٹھنے والی انگلیاں یا سرگوشیاں جو کسی بھی خاتون کے حوالے سے دفتروں میں معمول سمجھی جاتی ہیں ان سب کے بارے لکھا۔ وہ کہیں نہیں گھبرائیں خصوصا جو واقعہ انہوں نے سابق ڈی جی آئی بی نور لغاری سے ملاقات کا لکھا کہ کیسے انہیں آخری لحموں پر لندن بی بی سی جانے سے پہلے ای سی ایل پر ایک معمولی اہلکار کی رپورٹ پر ڈال دیا گیا کہ تمہارا کسی پیپلز پارٹی وزیر سے ملنا جلنا تھا۔ اگرچہ ماہ پارہ صفدر نےان چند غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی خاتون کو کسی بھی پاکستانی دفتر میں کام کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ چاہتیں تو کچھ واقعات کو اس کتاب کا حصہ نہ بناتیں لیکن انہوں نے ضروری سمجھا اور ان ایشوز پر لکھا۔
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ماہ پارہ صفدر کی 1970 کے بعد کی پاکستانی سیاست پر گرفت ہے۔ عمومی طور پر نیوز کاسٹرز صرف خبریں پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو انہیں لکھ کر دے دی جاتی ہیں۔ اس طرح ایکٹرز بھی اکثر کسی دوسرے کے لکھے کے ڈائیلاگز یاد رکھنے کی حد تک کسی ٹاپک میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان میں depth نہیں ہوتی۔
لیکن ماہ پارہ صفدر نے بڑی خوبصورتی سے ان دو اہم دہائیوں کا احاطہ کیا ہے اور کسی سے رعایت نہیں رکھی اور بڑا میچور لکھا۔ انہوں نے ان واقعات کے ساتھ ساتھ اپنی کمنڑی بھی لکھی۔ انہوں نے اگر جنرل ضیاء دور کی منافقتیں اور گمراہ کن باتوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے تو بھٹو ساتھ بھی رعایت نہیں رکھی کہ وہ کیسے عوای لیڈر سے اب فوجی جرنیلوں کے کندھوں کے محتاج ہوگئے تھے اور جرنیلوں نے بہت جلد انہیں اتار پھینکا۔
ماہ پارہ صفدر کو آج تک اس بات کا دکھ ہے کہ انہیں جنرل ضیاء کے طیارے میں ہلاک ہونے کی خبر پی ٹی وی پر نہ پڑھنے دی حالانکہ وہ وہیں اسٹوڈیو میں موجود تھیں۔ وجہ یہ تھی وہ “خاتون” تھیں، اگرچہ بھٹو کی پھانسی کی خبر انہوں نے ہی پڑھی تھی۔ لہذا وہ جنرل ضیاء کی موت کی خبر بھی پڑھنا چاہتی تھیں۔
جنرل ضیاء کی پی ٹی وی کی خواتین نیوزکاسٹر سے حیران کن obsession کو بھی بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے وہ ان خواتین کے میک اپ سے لے کر بال،کپڑوں اور دوپٹے اور رنگوں تک کا بھی فیصلہ خود کرتے تھے۔لگتا ہے جنرل ضیاء کی زندگی میں چوبیس گھنٹوں میں سے سب سے اہم صرف وہ ایک گھنٹہ وہ ہوتا تھا جب پی ٹی وی کا خبرنامہ چلتا تھا۔ اس وقت جنرل ضیاء سب کچھ بھول جاتے اور خواتین کے میک اپ، رنگوں، دوپٹوں اور کپڑوں پر توجہ رکھتے تھے۔
ابھی میں نے کتاب مکمل نہیں کی لیکن یہ متاثر کن خودنوشت ہے۔ جسے ہر اس انسان کو پڑھنی چاہئیے جسے سیاست اور میڈیا سے دلچسپی ہے۔ یہ ایک خودنوشت بھی ہے اور پاکستانی تاریخ بھی۔ ماہ پارہ صفدر کے پاکستانی سیاست پر بڑے میچور اور ہارڈ ہٹنگ تبصرے بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔
ایک بات تو بڑی اہم لکھی ہے کہ ایران میں خواتین نے شاہ کے اقتدار کے خلاف احتجاجا سکارف یا پردہ کرنا شروع کیا تھا جسے انقلاب کے بعد فورا قانون کا درجہ دے کر سزائیں رکھ دی گئیں کہ جو سکارف نہیں لے گا سزا کا حقدار ہوگا۔
یہ پڑھ کر میں نے سوچا وقت کیسے بدلتا ہے آج اس ملک میں خواتین اسی سکارف کے خلاف مظاہرے کررہی ہیں اور اپنے سکارف جلا رہی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 40 سال پہلے سکارف پہننا شاہ ایران کے خلاف احتجاج اور آزادی کا نشان تھا تو آج وہی سکارف اتارنا موجودہ حکمرانوں کے خلاف ایک نئی احتجاجی تحریک کا سمبل بن چکا اور غلامی سے چھٹکارا۔
ہم انسان بھی ویسے کیا چیز ہیں۔ بہت جلد بور ہوجاتے ہیں یا پھر ایک نسل جسے اپنی آزادی سمجھتی ہے اگلی نسل اس عمل کو غلامی سمجھتی ہے۔