لوک ورثہ اسلام آباد میں واقع ایک عمارت کا نام نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثہ کا بھی نام ہے جہاں سے ہمیں تاریخ کا کچھ سبق ملتا ہے۔وہاں مشاھیر کےکارنامے بمعہ تصاویر درج ہیں۔ایک تصویر فاطمہ جناح کی بھی ہے۔جن کے سب کارناموں کی تفصیل درج ہے سوائے 1964کےصدارتی الیکشن میں لڑنے کے۔ایسا کیوں؟
فاطمہ جناح کی وفات پربہت کچھ لکھاگیا۔بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔المیہ یہ ہےکہ ہم تاریخ کوکھوجنے کاعمل سرانجام نہیں دیتے۔شایداس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم تاریخی کرداروں جیسی ہی مشکوک موت مرنےسےڈرتے ہیں۔کیاکبھی کوئی کمیشن سیاسی قتلوں کی تفتیش کرے گا؟یا ہم یونہی تاریکی میں رھیں گے؟
فاطمہ جناح کےقتل کی کہانی 8جولائی1967سےشروع ہوتی ہے۔یہ ہفتے کادن تھا۔انہوں نے شام ساڑھےچھ بجے میر لائق علیخان کی بیٹی کی شادی میں شرکت کی۔یہ وہی لائق علیخان ہے جو آخری وقت میں قائد سے ملاقات کرنے گئے تھے۔جو نہ ہوسکی۔وہ لائق علی کے یہاں سے آٹھ بجے واپس گھر جانے کیلئے روانہ ہوئیں۔
فاطمہ جناح گھر کی بالائی منزل پر آرام کرتی تھیں۔گھر کے تمام دروازے بند کرکے چابیاں اپنے ساتھ اوپر لیجاتی تھیں۔صبح کو جب نوکر آتا تو چابیاں اوپر سے نیچے پھینک دیتی تھیں۔نوکر صفائی کرتا۔ناشتہ تیار کرتا تھا۔محترمہ دس بجے ناشتہ کرتی تھیں۔اس رات بھی یہی سب کچھ ہوا۔مگر صبح مختلف تھی۔
صبح حسب معمول عبدلرؤف موہٹہ پیلس آیا۔اس نے محترمہ کے کپڑے بھی لائے جو دھل کر واپس آئے تھے۔مگر اس روز اوپر سے چابیاں نیچے نہ آئیں۔اس نے گھبرا کر لیڈی ہدایت اللّہ کو اطلاع دی۔جو قریب ہی رہائش پذیر تھیں۔انہوں نے ملازموں کی مدد سے دروازہ توڑا تودیکھا کہ فاطمہ جناح وفات پاچکی ہیں۔
9جولائی1967 کو اتوارکا دن تھا۔لیڈی ہدایت اللّہ نےاس واقعے کی اطلاع کمشنر کراچی سید دربارعلیشاہ کو دی۔جنہوں نے کلفٹن میں رہائش پذیر ڈی۔آئی۔جی کراچی اللّہ نواز ترین(والد جہانگیرترین)کوفون کیا۔واقعہ کی اطلاع دی۔بعدازاں دونوں احباب موقع پر پہنچے۔اس واقعہ کی خبر ابھی نشرنہیں ہوئی تھی۔
لیڈی ہدایت اللّہ،دربار علیشاہ اور سردار شوکت حیات تینوں نے ایک ہی بات کہی کہ فاطمہ جناح کی گردن پر سرخ نشان موجود تھا۔رگیں پھولیں ہوئی تھیں۔مگر جب دربار علی نے اللّہ نواز سے اس کا زکر کیا تو انہوں نےاس کو معمول قرار دیا۔ان کے بقول میت زیادہ دیر پڑے رھے تو اس طرح ہوجاتا ہے۔
فاطمہ جناح کے قتل کے متعلق اہم انکشاف میر زائد حسین نے کیا۔ان کے بقول ایوب خان نے فاطمہ جناح،چودھری محمد علی اور مولانا مودوی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔چودھری محمد علی کو اس بات کی اطلاع انہوں نے خود دی۔جبکہ مولانا مودوی کو یہ اطلاع چودھری رفیق باجوہ کے زریعے دی گئ۔
مس جناح کاباقاعدہ پوسٹ مارٹم نہیں ہواتھا۔مگرمیت کے معائنےکیلئےسی۔ایم۔ایچ کےڈاکٹرز کرنل ایم۔ایچ شاہ اور کرنل جعفر کو بلایاگیا۔فاطمہ جناح کو غسل دینے والی خاتون نے فاطمہ جناح کے بدن پرموجود خون کےدھبوں کےبارےمیں کرنل جعفرکو بتایا۔مگرانہوں نے اسکو رد کیا۔ہارٹ اٹیک کاسرٹیفکیٹ بنادیا۔
فاطمہ جناح کی وصیت تھی کہ انکی وفات کے بعد انکو بھائی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔حکومت نے اس بات کی اجازت دینے سے انکار کیا۔مس جناح کی نماز جنازہ سب سے پہلے ساڑھے آٹھ بجے ان کے گھر ادا کی گئ۔جو اہل تشیع کے عالم علامہ ہارون جارچوی نے پڑھی۔دوسری نماز جنازہ مولانا محمد شفیع نے پڑھائی۔
فاطمہ جناح کی میت کومزار قائد میں دفن کرنےکی اجازت نہ ملنےپرلوگوں نےاحتجاج شروع کیا۔احتجاج اسقدرشدیدتھا کہ حکومت کوکراچی فوج کےحوالے کرنا پڑا۔شہرمیں فسادات کی کیفیت تھی۔لوگ حکومت مخالف نعرہ لگاتےلاٹھی چارج سہتےجارھےتھے۔مگرحالات بھی بگڑتے رھے۔ذیل میں ہنگامی آرائی کی تصاویر۔
11جولائی کو۔۔یعنی وفات کےتین دن بعدمحترمہ فاطمہ جناح کو مزار قائدمں دفن ہونے کی اجازت ملی۔یادرھے فاطمہ جناح کا آخری دیدار کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ملی۔سرکار نےصرف ایک تصویر جاری کی۔جو تمام اخبارات میں شائع کی گئ۔یعنی میڈیا کنٹرولڈ تھا۔آج کی طرح۔ذیل میں 11جولائی 1967کی جنگ اخبار۔
مس جناح کےجنازےپرلوگوں نے انکےحق میں نعرہ بازی کی۔جذباتی افرادنےحکومت مخالف نعرےلگائے۔اجتماع چھ لاکھ افرادپرمشتمل تھا۔جس سے حکومت لرزگئ۔ایوب مردہ باد کانعرہ لگانےپراجتماع پرگولی چلائی گئ۔ذیل میں شھاب نامہ کااقتباس جواسکی گواہی دیتاہے۔مگر2002کے بعدوالےشھاب نامہ میں یہ نہیں ملتا۔
فاطمہ جناح کے قتل کی تحقیقات کا قصہ بھی عجیب ہے۔مس جناح کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب سے ملاقات کی۔قتل کے تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کا کہا۔مگر ایوب نے ان کی بات کو یہ کہہ کر رد کیا کہ اعلی سطحی حکومتی کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا۔شاید اس وقت ویڈیوز نہیں بنتی تھیں۔
فاطمہ جناح کے قتل کی تفتیش کیلئے کمشنر کراچی دربار علیشاہ نے کراچی سٹی کے مجسٹریٹ خالدمحمودکو مقرر کیا۔قتل کی دو ایف۔آئی۔آر درج ہوئیں۔ایک نواب اختر نے درج کروائی۔جس میں قتل کی وجہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینابتایا۔دوسری ایف۔آئی۔آر حکومت نےدرج کی۔پہلی ایف۔آئی۔آرکاریکارڈ نہیں ملتا۔
حکومت کی طرف سے درج کروائی گئ ایف۔آئی۔آر میں مس جناح کے باروچی کو قاتل نامزد کیاگیا۔خالد محمود کی انکوائری روک کرقاضی فضل اللّہ حکومتی وزیر کی سربراھی میں کمیٹی بنی۔پولیس کی طرف سے اللّہ نواز ترین نے کمیٹی کی معاونت کی۔کمیٹی کی رپورٹ کیا تھی۔یہ کبھی پتہ نہ چل سکا۔
حکومتی تحقیقات کے مطابق فاطمہ جناح کا قتل انکے باروچی نے کیا تھا۔جو قتل کے دن سے غائب تھا۔یاد رھے باروچی کا تعلق اٹک کے علاقے پنڈی گھیب سے تھا۔عدالتی کاروائی میں اس کو مفرور قرار دیا گیا۔اور مقدمہ داخل دفتر ہوا۔خون شھیداں رزق خاک ہوا۔
حوالے۔۔میرے انٹرویو۔۔رفیق ڈوگر انٹرویو میر زائد حسین۔۔فاطمہ جناح۔۔آغا اشرف
Nation lost it's soul..shaukat hayat.fatima jinnah..agha Hassan hamdani.collection of articles..g.n.qazi.