عہد حاضر کی کچھ معروف و ممتاز ادبی شخصیات کے احوال و آثار اور شخصی خاکوں پر مشتمل سہیل انجم کی تازہ ترین تصنیف نقش بر سنگ پر منظوم تاثرات
نقش بر سنگ ہے اک ایسی کتاب
اپنے عنوان سے ہے جو ممتاز
ہے یہ خاکوں پہ مشتمل ان کے
جو ہیں عصری ادب میں مایہ ناز
کچھ ہیں موجود اور کچھ مرحوم
کام ہیں جن کے وقت کی آواز
تجزیہ یہ سہیل انجم کا
ان کی نقد ونظر کا ہے غماز
وہ صحافی بھی ہیں ادیب بھی ہیں
جانتے ہیں جو ہر نشیب و فراز
ان کے تخلیقی کارناموں ہر
مل چکے ہیں انھیں کئی اعزاز
کئی درجن کتابیں ہیں ان کی
ہیں جو اردو ادب میں مایہ ناز
پیش کرتا ہوں تہنیت ان کو
فضل حق سے ہو ان کی عمر دراز
مستند ان کی ہے ہر اک تصنیف
ان کی شہرت کا ہے اسی میں راز
نقش بر سنگ ان کی ہو مقبول
لکھ کے یہ بھی ہوں صاحب اعزاز
ان کا برقی ہے ایک شیدائی
جس کے ہیں وہ بھی ہمدم و ہمراز
نقش بر سنگ میں محبی سہیل انجم کی برقی نوازی
میں سہیل انجم کے لطف خاص کا ممنون ہوں
ہیں صحافت کے جو عہد نو میں مرد عبقری
ان کے رشحات قلم ہیں مرجع دانشوراں
قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی … ایک پیاری شخصیت، ایک پیارا شاعر
بقلم سہیل انجم
علی بھائی (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی اور کیسے ہوئی تھی یہ تو یاد نہیں لیکن میں نے پندرہ بیس سال کے تعلق کے عرصے میں ان کو ہمیشہ یکساں پایا۔ وہی شرافت، وہی شائستگی، وہی خندہ پیشانی، وہی خوش اخلاقی، وہی انکساری، وہی حسن سلوک اور وہی محبت اور وہی دوستانہ انداز۔ ان تمام اوصاف میں بیشی تو پائی لیکن کبھی کمی نہیں پائی۔ ان سے ملاقات ان کے دولت خانہ پر بھی ہوئی، آل انڈیا ریڈیو میں بھی ہوئی اور دوسرے مقامات پر بھی ہوئی۔ ہمیشہ تپاک سے ملنا اور کھل کر گفتگو کرنا ان کی فطرت اور طبیعت کا خاصہ ہے۔ وہ جس قدر قابل اور با صلاحیت ہیں اسی قدر منکسر المزاج بھی ہیں۔ لیکن ان کی ظاہری شخصیت بڑی ہی غیر متاثر کن ہے۔ اگر وہ پہلی بار کسی سے ملیں تو وہ ان سے کوئی اثر قبول نہیں کرے گا۔ لیکن ملاقات کا عرصہ جوں جوں بڑھتا جائے گا ان کے مزاج کی خصوصیات ابھرتی جائیں گی۔ اور پھر وہی شخص جس نے پہلی ملاقات میں ان کو نظرانداز کر دیا تھا ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
علی بھائی جیسے باہر ہیں ویسے ہی اندر بھی ہیں۔ نہ کوئی چھل نہ کپٹ، نہ تعصب نہ تنگ نظری، نہ معاندانہ جذبات نہ احساس برتری۔ فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والا یہ شخص اتنا سادہ لوح ہے کہ اس پر بلا کا پیار آتا ہے۔ علی بھائی کی سادہ لوحی اور ان کی شرافت سے بہت سے لوگوں نے ناجائز فائدے بھی اٹھائے ہیں۔ انھیں لوگوں سے دھوکے بھی ملے ہیں۔ بیوفائیاں بھی ملی ہیں۔ لیکن اگر ان سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید ہی وہ کسی ایسے شخص کا نام بتا سکیں۔ اس کی وجہ وہی ان کی شرافت نفسی ہے جو انھیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ کسی بھی بات کا برا بھی نہیں مانتے۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی سادہ لوحی پر ہم میں سے کسی نے سخت الفاظ میں کچھ کہہ دیا لیکن انھوں نے اس کا غلط مطلب نہیں نکالا۔ نہ ہی اسے دل میں رکھا۔ نہ تعلقات کی راہ میں آڑے آنے دیا۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے ایک افسر اعلیٰ اکثر ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ کہہ کر چھیڑنے کی کوشش کرتے۔ لیکن انھوں نے کبھی نہ تو ان کے انداز گفتگو پر اعتراض کیا اور نہ ہی ان کے دل میں کبھی یہ خیال آیا کہ انھیں ان سے قطع تعلق کر لینا چاہیے یا کم از کم ان سے ملنا جلنا جھوڑ دینا چاہیے یا کم کر دینا چاہیے۔ میں جب بھی آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں جاتا اور انھیں معلوم ہو جاتا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ افسر مذکور سے آمنا سامنا ہو سکتا ہے، وہ مجھ سے ملنے ضرور آتے۔ اتفاق سے عموماً ’ان‘ سے مڈبھیڑ ہو جاتی اور وہ اپنے روایتی انداز میں چھیڑنے کی کوشش کرتے۔ لیکن علی بھائی ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ اور سر سجھکا کر ان کی باتیں سنتے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کے بعد عموماً ہم دونوں ایک ساتھ باہر نکلے لیکن انھوں نے ایک بار بھی دبے لفظو ں میں ہی سہی ان کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف افسر مذکور کا رویہ یہ ہوتا کہ جب ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں گفتگو ہوتی تو وہ ان کی بے حد تعریف کرتے اور کہتے کہ اگر علی بھائی زود گوئی ترک کر دیں اور سنجیدگی کے ساتھ شاعری کریں تو بہت اچھے شاعر ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ان کی پیٹھ پیچھے کبھی بھی ان کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا۔ میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ تو دل و دماغ سے جواب آتا ہے کہ برقی اعظمی کی صلاحیت و قابلیت اور اس کے ساتھ ہی ان کی شرافت کے قائل وہ بھی ہیں اور انھیں اس کا احساس بھی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو اور فارسی سروس میں ایسا قابل ترین شخص کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لیکن ان کی عادتوں اور ان کی سادہ لوح طبیعت کے پیش نظر وہ ان کو چھیڑنے پر مجبور ہو جاتے۔ صرف وہی کیوں، میں ایسے کئی لوگوں سے واقف ہوں جو ان کے سامنے تو انھیں باتوں میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن غائبانہ میں ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کے اردو اور فارسی شعبے میں ان سے قابل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے۔ (اب تو علی بھائی اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں)۔
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی سے تعلق اور ان کی شاعری کے پیش نظر اگر کوئی ان کی شخصیت کا مطالعہ کرنا چاہے تو پھر ان کی شخصیت کی پرتیں بیک وقت کھلنے کے بجائے رفتہ رفتہ کھلیں گی۔ یہ نہیں کہ ’اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے‘۔ لیکن جوں جو ں ان کی شخصیت کی پرتیں کھلتی جائیں گی، ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کے بالاستیعاب مطالعہ کے ساتھ ساتھ یہ احساس قوی ہوتا جائے گا کہ ہم برقی اعظمی کی شاعری کا نہیں بلکہ ان کی طبیعت اور ان کی شخصیت کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ گویا ان کی شاعری اور شخصیت دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کو ان کی شاعری سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور ان کی شاعری کو ان کے مزاج سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ حالانکہ عام طور پر شعراء یا فنکار اپنی شاعری اور فنکاری سے الگ نظر آتے ہیں۔ یعنی ان میں تضاد ہوتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ نہ داخلی نہ خارجی۔ دونوں حالتیں ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ ان کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
علی بھائی کی شاعری میں ان کی ذات تو پوری طرح موجود ہے ہی ان کی ذات کا کرب بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کرب جو بیرونی اور اندرونی دنیا سے عبارت ہے۔ انھیں باہر سے جو کچھ ملا ہے اور اندر سے بھی جو کچھ ملا ہے وہ سب ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ لیکن اشارو ں کنایوں میں۔ نہ تو کہیں بھونڈا پن ہے اور نہ ہی حالات کا پرشور شکوہ۔ ساری باتیں بہت ہی سلیقے کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن عام قاری کو وہ نظر نہیں آئیں گی۔ البتہ جو ان سے ذاتی طور پر واقف ہے وہ ضرور کچھ نہ کچھ سمجھ جائے گا۔ سچ بات یہ ہے کہ زمانہ نے ان کی قدر نہیں کی۔ زمانہ کو چھوڑیے، اپنوں سے بھی انھیں وہ محبت، اپنائیت اور عزت و وقار حاصل نہیں ہوا جس کے وہ مستحق ہیں۔ لیکن برقی اعظمی ’نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ‘ میں یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے بہت سی بیرونی و اندرونی ناہمواریوں کے باوجود ان کی زندگی میں بظاہر کوئی کجی نظر نہیں آتی۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے گفتگو میں وہ بہت سی باتیں ضرور بتاتے ہیں لیکن لطف لے لے کر۔ اپنی ناقدری کو بھی وہ لطف لے کر بتاتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے کوئی ایسا واقعہ بتایا ہو جس سے ان کو تکلیف پہنچی ہو اور انھوں نے اس پر دکھ یا ملال کا اظہار کیا ہو۔ وہ ان واقعات سے بس ایسے گز رجاتے ہیں جیسے گلشن میں چہل قدمی کرتے وقت کچھ کانٹے آجائیں اور ان سے دامن کشاں گزر جایا جائے۔
میں علی بھائی کی شاعری پر کچھ زیادہ اظہار خیال نہیں کروں گا۔ کیونکہ ایک درجن سے زائد لوگوں نے ان کی شاعری پر مضامین قلمبند کیے ہیں اور اب ان کی شاعری کا کوئی ایسا گوشہ بچا نہیں ہے جس پر کچھ لکھا نہ گیا ہو۔ ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ اپنی زود گوئی پر ذرا سا انکش لگائیں اور اپنے بعض ہلکے اشعار کو قلمزد کرنے کی جرأت اپنے اندر پیدا کریں تو بہت اچھے شاعر بن سکتے ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ ادھر گفتگو ہوئی اور ادھر پوری غزل یا نظم ردیف و قافیہ کے قالب میں ڈھل کر سامنے آگئی۔ لیکن اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی طبیعت ایسی موزوں ہے کہ وہ خواہی نہ خواہی غزلیں کہتے رہتے ہیں۔ برقی اعظمی کے مزاج اور ان کی طبیعت میں جو شعریت اور موزونیت ہے وہ ان کے والد اور استاد اشعرا جناب رحمت الٰہی برق اعظمی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ برق اعظمی اپنے دور کے ایک قادر الکلام اور استاد شاعر تھے۔ علی بھائی نے ان کا کلیات شائع کروایا اور دہلی میں اس کا اجرا عمل میں آیا۔ ان کو اپنے والد کے بے شمار اشعار یاد ہیں۔ وہ اپنے والد کی روایتوں کے امین بھی ہیں اور پاسدار بھی۔ وہ انھیں آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ وہ برق اعظمی کی شاعری اور ان کی روایت کے سچے نمائندہ ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ اگر پسر پدر کی روایتوں کو آگے نہ بڑھائے تو اسے اپنے باپ سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔
انٹرنیٹ کے انقلاب نے ان کے اندر بھی انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے انھوں نے اتنے کم عرصے میں کمپیوٹر سیکھ لیا اور انٹرنیٹ کے بحر ذخار میں غوطہ بھی لگا لیا۔ آج ہندوستان اور پاکستان اور پوری اردو دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جو انٹرنیٹ میں اس قدر غرق ہو۔ کسی کانفرنس یا مشاعرے میں ہیں۔ ابھی پروگرام چل ہی رہا ہے کہ انھوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس کی رپورٹ بنائی اور کئی ویب سائٹوں کو پوسٹ کر دی۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی باتیں یا ان کی آواز پوری اردو دنیا میں پہنچ گئی ہے۔ وہ فیس بک کے بھی شہنشاہ ہیں۔ دن بھر میں جانے کتنی بار فیس بک پر اپنا پیج اپ ڈیٹ کرتے ہیں یا غزل اور شعر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی تصویر پوسٹ کریں گے تو اس کا کیپشن بھی منظوم ہی ہوگا۔ بالخصوص ان تصویروں کا جو ان کو عزیز ہوں۔ علی بھائی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ میں اپنی بات ان کے ہی ایک شعر پر ختم کرتا ہوں:
شعورِ معرفت مضمر ہے برقی خود شناسی میں
’’خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا‘‘
[4:49 PM, 5/24/2022] Waqas Saeed: ابن سینااکیڈمی علی گڈھ میں یوپی اردو اکیڈمی کے مالی اشتراک سے موجودہ تناظر میں اردو کی اہمیت کے موضوع پر دوروزہ قومی سمینار اورایک کُل ہند مشاعرے کا انعقاد
اردو واحدایسی زبان ہے جو کشمیر سے کنیاکماری تک بولی جاتی ہے اور سبھی کو جوڑنے کا کام کررہی ہے۔ان خیالات کا اظہارصدرِ جلسہ پدم شری پروفیسرحکیم سید ظل الرحمٰن نے کیا۔وہ اتر پردیش اردو اکادمی کے تعاون سے ابن سینا اکیڈمی علی گڈھ میں موجودہ تناظر میں اردو کی اہمیت کے موضوع پر منعقد دو روزہ قومی سمینار کو خطاب کررہے تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ زبانیں ختم نہیں ہوتیں۔ انھوں نے مثال دی کہ چودہ سو برس تک یہودیوں نے اپنی زبان کو گھروں میں رکھا اور وہی زبان ایسی اُبھر کر سامنے آئی کہ آج ایک زندہ زبان کی شکل میں موجود ہے۔ مہمان خصوصی انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ عصر حاضر میں جو نفرتیں سماج میں پیدا ہورہی ہیں اُنھیں اردو زبان کی شیرینی اور اُس کے آپسی اتحاد کے پیغام سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے ابن سینا اکیڈمی کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ اتر پردیش کی ایک فعال تنظیم ہے۔آج کے سمینار میں بہت اہم گفتگو ہوئی ہے اور توقع ہے کہ اس سمینار کے مُثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی نے کہا کہ اردو زبان کسی طبقہ اور مذہب کی زبان نہیں بلکہ عام فہم زبان ہے۔ موجودہ دور گزر جائے گا اور اردو کی جو افادیت ہے وہ باقی رہے گی۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ملک میں جو نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ اردو کے ذریعہ آپسی اتحاد اوریکجہتی کے پیغام کو عام کیا جا سکے۔ آج کا سمینار موضوع کی مناسبت سے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر سرور ساجد نے کہا کہ سمینار کا موضوع وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے اورہم سب کو متحد ہوکر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کُل ہند مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیاجس کی صدارت پروفیسر حکیم ظل الرحمٰن نے اور نظامت مسلم یونیورسٹی کے معروف استاد ڈاکٹر سرور ساجد نے کی۔اس موقع پر مہمان خصوصی اظہر عنایتی اور مہمان اعزازی ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی اورابن سینا اکیڈمی کی علمی و ادبی خدمات اور سمینار کے موضوع کی مناسبت سے اپنے منظوم خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ جن شعرائے کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمایا اُن میں ناصر شکیب، اریب عثمانی،کثیر حسن، عبدالمنان صمدی،ڈاکٹر ابو ارشاد صولن،جاوید ساحل کانپوری، محمد اختر کانپوری، عابد علی عابد، ارشد غازی سلطان کلیم سنبھلی، جاوید نسیمی رامپوری، احمد رشید کانپوری اور آصف اظہار وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی اور آفتاب عالم نجمی نے بھی شعرائے کرام مہمانان اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔اس موقر مشاعرے میں ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی کے شعری مجموعے ”محشر خیال“ کا پدم شری حکیم سید ظل الرحمٰن اور جناب اظہر عنایتی کے ہاتھوں اجرا بھی عمل میں آیا۔
ابن سینا اکیڈمی علی گڈھ میں موجودہ تناظر میں اردو کی اہمیت پر دوروزہ سیمیناراور کُل ہند مشاعرے میں ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی کا منظوم اظہار خیال
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
ابنِ سینا کی علی گڈھ میں ہے زریں یادگار
طبِ یونانی کے ہیں جس میں نوادر بیشمار
ظلِ رحمٰں اس کی ہیں تاسیس کی روحِ رواں
جن کا یہ ون مین شو ہے باعثِ صد افتخار
اپنی تہذیبی و روایت ہے اُنھیں بیحد عزیز
جس کے ہیں عہدِ رواں میں وہ حقیقی پاسدار
خود بھی ستاون کتابوں کے مصنف ہیں عظیم
عہدِ نو میں طب یونانی کی ہیں جو شاہکار
ہے یہاں نادر کتبخانہ بھی ان کا بینظیر
اہلِ دانش کو جہاں پر آکے ملتا ہے قرار
آتا ہے ہر چیز میں اُن کا نظر ذوقِ سلیم
بحر ذخارِ ادب کی ہیں وہ دُرِ شاہوار
ڈاک ٹکٹوں کا بھی ہے اک خوبصورت انتخاب
فن خطاطی کے بھی یکجا کئے ہیں شاہکار
شاہی فرمانوں کا بھی نادر ذخیرہ ہے یہاں
کرتے ہیں تاریخ سے اپنا جو رشتہ اُستوار
سب کے ذوق و شوق کا ساماں ہے جس میں دستیاب
اک طرح کا ہے یہ شخصی میوزیم اک شاندار
صفحہ تاریخ پر روشن رہے گا اُن کا نام
کشورِ علم و ہُنر کے ہیں وہ ایسے تاجدار
مرجعِ اہلِ نظر ہیں اُن کی بزم آرائیاں
محفل شعر و سخن ہوتی ہے اُن کی باوقار
اس کی تقریبات کا ہے دائرہ بیحد وسیع
مختلف عنوان پر ہوتے ہیں اکثر سیمینار
آج کی محفل ہے یہ اس بات کی آئینہ دار
ہیں وہ عملاََاردو کے اِس دور میں خدمتگذار
آج موجودہ تناظر میں ہے کیا اردو کا حال
ہے اسی عنوان پر اس کا دوروزہ سیمینار
اردو کا موجودہ منظر نامہ ہے موضوع بحث
جس میں ہیں موجود علم و فن کے زریں شاہکار
کہتے ہیں اردو جسے ہے درحقیقت اِن دنوں
گنگا جنمنی ہند کی تہذیب کی آئینہ دار
اِس کی ترویج و اشاعت میں تھیں سب قومیں شریک
جن کی ہیں خدمات اربابِ نظر پر آشکار
سب زبانوں کا ہے اردو ایک دلکش امتزاج
جس کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بیشمار
ہیں دیارِ غیر میں اس کے کروڑوں خیر خواہ
اردو کا ہوتا ہے اب زندہ زبانوں میں شمار
اردو ہے عہدِ رواں کی ایک معیاری زباں
میرؔ و غالب ؔ کا تغزل جس کا ہے آئینہ دار
حالیؔ، سوداؔ، ذوق ؔ و مومنؔ، داغؔ و حسرتؔ، میرانیسؔ
اپنے اپنے عہد میں اردو کے تھے خدمتگذار
آرزوؔ، چکبست اور پنڈت دیاشنکر نسیمؔ
گلشنِ اردو میں تھے نخلِ ادب کے برگ و بار
جن کو ہے درکار عصری آگہی اُن کے لئے
فکر و فن اقبالؔ کا ہے ایک دُرِ شاہوار
فیض احمد فیض ؔ ہوں، مخدوم ؔ یا احمد فرازؔ
شخصیت ہے ان کی دنیائے ادب میں باوقار
اپنے فکروفن سے تھے بزمِ ادب کی روشنی
ساحرؔ و مجروح ؔ، ناصر ؔ کاظمی اور شہریارؔ
صرف شعرا ہی نہیں اردو کے ہیں ہردلعزیز
نثر میں بھی لکھنے والوں کی ہے اک لمبی قطار
اردو کو پہنچایا گھر گھر جس نے تھے ابنِ صفیؔ
اُن کے بھی مداح ہیں سارے جہاں میں بیشمار
ایم اے ذوقی ہوں کہ ہوں وہ پریم چند و کرشن چند
اُن کی بھی ناول نگاری ہے جہاں میں نامدار
نام سے بابائے اردو کے سبھی ہیں روشناس
گلشنِ اردو میں جن کی ذات تھی مِثلِ بہار
اردو کی تاریخ کا ہے مختصر یہ جائزہ
کس کا کس کا نام لوں ملحوظ ہے اب اختصار
میرے والد برقؔ تھے او ر میں ہوں برقیؔ اعظمی
ہے اُنھیں کے نام سے میرا تخلص مُستعار