کرونا کی وبا سے قبل وطن یاترا کو گیا تو اپنے ہاں کے دو لکھاریوں قمر رحیم اور جاوید خان سے پہلی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں احباب کی تحریریں پڑھتا رہتا تھا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے رابطہ اور تعلق تو تھا ہی مگر بالمشافہ ملاقات کبھی نہ ہو پائی تھی۔ جاوید خان کو فون کرکے راولاکوٹ میں ملاقات کا وقت طے کیا، راولاکوٹ پہنچا تو کسی نے بتایا کہ قمر رحیم بھی یو اے ای سے وطن تشریف لائے ہیں۔ چنانچہ قمر رحیم کو فون کیا اور بتایا کہ جاوید خان بھی میرے ہمراہ ہیں،اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کہیں ملاقات کرتے ہیں۔ قمر رحیم نے کہا کہ میں بازار آتا ہوں تو ملتے ہیں۔ میں نے منگ روڈ پر ایک بیکری سے کھانے پینے کی کچھ اشیا خریدیں،میرا پروگرام تھا کہ دھرمسال یا گوئیں نالہ روڈ پر کہیں کسی سایہ دار جگہ جا بیٹھیں گے اور وہیں گپ شپ کریں گے۔ قمر رحیم شہر تشریف لائے اور کہا کہ کدھر کا ارادہ ہے؟ عرض کیا کسی کھلی اور سایہ دار جگہ پر بیٹھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا اگر یہی ماحول تمھیں کہیں گھر پر میسر ہو تو کیا خیال ہے؟ عرض کیا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چنانچہ قمر رحیم مجھے اور جاوید خان کو لیکر تراڑ دیوان میں اپنے گھر پہنچے۔ دن بھر گپ شپ رہی، قمر رحیم نے کھانے کے ساتھ اپنے باڑے کی بھینسوں کے دیسی دہی سے تواضع کی(دیسی دودھ اور دہی ہماری سُستی اور تن آسانی کی وجہ سے ہمارے ہاں نایاب تو نہیں مگر کم یاب اشیا میں ضرور شمار ہوتے ہیں)۔ بوجوہ میں اپنی کم کہہ پایا اور قمر رحیم کی زیادہ سُننے پر ہی اکتفا کیا۔ جاوید خان بھی بیچ بیچ میں کوئی سوال داغ دیتے۔ جاوید خان کو دیکھ ، مل کر اُن کے حوالے سے عمومی تاثر ایک ‘‘آلے پہولے‘‘ انسان کا بنتا ہے مگر جب وہ گفتگو میں کوئی علمی حوالہ دیتے ہیں یا کوئی سوال کرتے ہیں تو سامنے والا سوچتا ہے،ہیں! یہ کوئی صاحبِ مطالعہ آدمی ہیں۔ بہرحال اسے میری نالائقی پر ہی محمول کیا جانا چاہیے کہ جب تک میں جاوید خان کا سفرنامہ ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور‘‘ نہ پڑھ پایا تھا تب تک میں یہ اندازہ نہ کرپایا تھا کہ اُن میں اتنا بڑا ادیب چُھپا بیٹھا ہے۔
میں نے زمانہ طالب علمی میں رحیم گُل کا سفرنامہ نما ناول ‘‘ جنت کی تلاش‘‘ پڑھا تھا جو مصنف کے انوکھے خیالات کی وجہ سے کبھی میری یاداشت سے محو نہ ہوا اور پھر دہائیوں بعد اُنھی علاقوں کی سیر و سیاحت کی روداد بقلم جاوید خان پڑھ کر میرا لطف دوبالا ہوا۔ اُنھیں تحریر پر عبور ہے ، الفاظ کو خوبصورتی سے برتا تو گیا ہی ہے مگر مصنف کے وِچار کے کیا کہنے۔ ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور‘‘ کو گزشتہ سال انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کی طرف سے سال کا بہترین سفرنامہ قرار دیا گیا،پھر اس کے حوالے سے اخبارات اور رسائل میں تعریف و توصیف سے بھرپور تبصرے چھپے جنھیں پڑھ کر میں ہمیشہ یہی سوچتا کہ کتنے خوش قسمت ہیں وہ جنھیں یہ سفرنامہ پڑھنے کو دستیاب ہے۔ اگرچہ جاوید خان نے ذرہ نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سفرنامے کی ایک کاپی میرے لیے راولاکوٹ میں کسی کے پاس رکھ چھوڑی تھی مگر شومی قسمت کہ وہ میرے پاس نہ پہنچ سکی۔ برطانیہ میں مقیم ہمارے دیرینہ دوست، پریس فار پیس فاونڈیشن کے روحِ رواں ظفر اقبال کا بھلا ہو کہ اُنھوں نے جاوید خان کے دونوں سفرنامے مجھ تک پہنچائے۔ ظفر اقبال کتاب دوست ہی نہیں بلکہ فنا فی الکتاب آدمی ہیں،کسی کتابوں کے پیاسے کے پاس کتاب پہنچا کر اُنھیں دلی سکون و اطمینان ملتا ہے،خدا اُنھیں اس کا اجر دے۔ ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا یہ سفرنامہ جاوید خان اور اُن کے چند دوستوں کے اُس سفر کا بیان ہے جو راولاکوٹ سے شروع ہو کر براستہ مظفرآباد، کاغان ناران،استور، نلتر،دیو سائی،خنجراب اور گلگت تک جاتا ہے۔ مصنف نے اس خوبصورتی اور باریکی سے رودادِ سفر کو الفاظ میں پرویا ہے کہ ایک قاری اسے پڑھتے ہوئے اُن مسافروں کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ مصنف کی فطرت پسندی اور فطرت کے حوالے سے اُس کے خیالات پڑھ کر میرے جیسا ادب کا ایک طالبِ علم اش اش کر اُٹھتا ہے۔
‘‘ حرفِ تحسین حرفِ شکایت‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کتاب کے دیباچے میں مصنف لکھتا ہے: ‘‘ ہمارا سیارہ زمین ایک خُو ب صُورت گھر ہے۔ یہ ایک ایسا مسافرخانہ ہے جس میں ہمارے آباو اجداد رہے۔ ہم رہ رہے ہیں کل ہماری نسلیں رہیں گی۔ پھر آگے اُن کی نسلوں نے رہنا ہے۔ اس گھر کے ہم پر کچھ حقوق ہیں۔ اس کی دیکھ بھال، اس پر بسنے والوں کا خیال رکھنا اور اسے خراب ہونے سے بچانا اور خراب کرنے والوں کی سرزنش کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ سیارہ ہم سب انسانوں کا سانجھا گھر ہے۔‘‘ سفر نامہ پڑھتے ہوئے قاری ہر لمحہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ مصنف نے لکھنے کا جو نصب العین دیباچے میں بیان کیا ہے اُس سے سرمو انحراف نہیں کیا ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف محض ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہے بلکہ اُس نے قلم اُٹھا کر جہاں قاری کی تفریح اور دلچسپی کا سامان کیا ہے وہاں ایک بڑے مقصد کی آبیاری اور بجا آوری بھی کی ہے۔ مصنف نے اپنا سفر نامہ لکھنے سے قبل اُن علاقوں ، جن کا مصنف اور اُس کے ساتھیوں نے سفر کیا، کے حوالے سے ماضی میں مُلکی اور غیر مُلکی مصنفین کے لکھے ہوئے سفر نامے بھی پڑھے اور ان علاقوں کے حوالے سے سیر حاصل معلومات بھی اکٹھی کیں جو اُس کے ایک سنجیدہ لکھاری ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو اُردو زبان پر خصوصی عبور حاصل ہے اور اپنی تحریر میں انگریزی زبان کے الفاظ شامل کرنے سے مکمل طور پر گریز کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں انگریزی زبان کے وہ الفاظ جو اُردو میں رائج ہوچکے ہیں،اُنھیں تحریر میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،ایسا کرنے سے جملے کی روانی برقرار رہتی ہے اور غیر معروف و متروک الفاظ شاملِ تحریر نہ ہونے کی وجہ سے قاری کو کوئی مشکل بھی درپیش نہیں ہوتی۔۔
‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور‘‘ بہرحال ایک بڑی تخلیق و تصنیف ہے ۔ پروین شاکر نے کہا تھا کہ مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے۔ لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے۔ جیسے آج ہم منٹو، کرشن چندر اور اُن جیسے دیگر ادیبوں کو اُن کی تحریروں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں،ایسے ہی آنے والی نسلیں جاوید خان کو اس کاوش کی وجہ سے یاد کیا کریں گی اور وہ زندہ جاوید رہیں گے۔ ہمارے خطے کے نامور ادیب کبیر خان نے جاوید خان کو درست مشورہ دیا ہے اور اُنھیں اپنے سفرناموں کی اشاعت کے لیے فِکشن ہاؤس جیسے بڑے اشاعتی ادارے میں بھیجا ہے ورنہ خدانخواستہ اُن کی تخلیقات کا بھی وہی حشر ہوتا کہ ‘‘جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘‘۔ اگرچہ یہ کتاب مجھ تک پہنچنے میں بہت تاخیر ہوئی اور اس کے حوالے سے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے میں بھی مگر میرا ماننا ہے کہ یہ ایک صدا بہار تصنیف ہے جو کبھی پرانی نہیں ہوگی۔ جاوید خان ہمیں ایسی تخلیق کا تحفہ دینے پر مجھ ناچیز کی طرف سے مبارکباد قبول کیجیئے کہ یہ بلند رُتبہ جسے ملا مل گیا!