چند سال پہلے امریکہ کی جامعات کے شعبہ ادبیات میں نیے ادبی تنقیدی رجحان ” محیط ارضّ تنقیدی نظرئیے ” {Global Literary Theory} کو انڈر گریجیوٹ اور گریجِوٹ سطح پر بطور نصاب کے متعارف کروایا ہے ۔ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد یہ اختیاری مضمون کا مطالعہ بڑی دلچسپی سے کررہے ہیں۔ یہ ایک ادبی نقاد اور استاد ڈیوڈس {DAVIDSON} کا "علومی نظریہ” ہے۔ کچھ لوگ مذاق میں۔ اسے ” نابالغ ناقدین کا نظریہ” بھی کہتے ہیں۔ اس مضمون اور فکری روّیے میں ادب کے تقابلی نظریات کو نئی تعبیرات کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے اور تفھیمات اور تشریحات کی مضبوط بنیادیں فراھم کی جاتی ہیں۔ اب تک جو ادبی نظریات متنازعہ اور الجھے ہوئے ہیں۔ ان کا تجزیہ اوران کی نئے فکری معنیات اور مفاہیم کو تحقیق اور تفشیش کے بعد فکری اہرام اور ماڈل تشکیل دئیے جاتے ہیں اور ان کی تشریح کی جاتی ہیں۔ اس میں تاریخ، تاریخ کاری ، تاریخیت، ثقافتیات، لسانی روایت اور تفھیمات کے علاوہ اس نصاب میں ایک سے زیادہ زبانوں کا مطالعہ لازمی ہے۔ جس کے سبب نئی سیاقیت بھی ابھرتی ہے۔ ڈیوڈسن کے اس عالمی ادبی تنقیدی نظرئیے میں عرب، چینی، یونانی کلاسیک کو اہمیت دی گئی ہے۔ اور فرانسیسی ، انگریزی، ” سہ لسانی” {FRANCO PHONE}، مطالعں میں جرمن، ہسپانوی اور روسی زبانوں اور ادبیات اور ثقافت کی اصناف کے علاوہ بشریاتی حوالے سے انسان کے جنسی تعلقات ، فلسفہ مذہب، عمرانیات، ٹھیٹر اور ڈرامہ کو پڑھایا جاتا ہے۔ یہ خاصا کھٹن نصاب ہے ۔ جس میں بہت مطالعہ درکار ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کا "کبیریت کا مطالعہ: {MACRO STUDIES} ہوتا ہے۔ جو افقی ہوتے ہوئے بھی اتنا ہی عمودی بھی ہے۔ اس نصاب میں طلبا دنیا کی ادبیات کے تنقیدی نظرئیے کو اپنے تجزیات کے بعد نئے تناظر فراہم کرتے ہیں جو حیرت انگیز ہوتے ہوتے ہوئے بھی نئی تنقیدی سمتوں کا انکشاف بھی کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں نصابی یا تدریسی تنقید کا نظریہ دکھائی دیتا ہے ، ایسا نہیں ہے یہ اصل میں ” تخلیقی اور تقابلی ادبی تنقید کا نظریہ ہے۔ جس سے ادبی تنقید میں نئی تکنیک، مناجیات کی نئی ہنر مندی سامنے آرہی ہے۔ اس تکنیک کو ادب کے تنقیدی نظرئیے کی ” عقابی رسائی” بھی کہا جاتا ہے۔ جو عملیاتی ہے جہاں دودہ کا دودہ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں رچرڈ لین {Richard J. Lane} نے ” محیط ارضّ ادبی نظرئیے ” {Global Literary Theory، 2013 } پر لکھے ہوئے مضامین کوکتابی شکل میں مرتّب کیا ہے۔ اس کتاب میں ہیت پسندی، ساختیات، مابعد جدیدت ، پس نوآبادیات اور ردتشّکیل پر بڑے پر فکر مضامین شامل ہیں۔ جس میں اعددیاتی انسانیات، اور کمبیوٹر کے نئے ادبی تنقیدی نظریات پر اثرات اور یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا مذھب اب ادبی تنقیدی نظرئیے اورفلسفے میں نفوز کرچکا ہے؟ اس کے علاوہ سوانحعمریوں، سفر ناموں اور ماحولیاتی مطالعوں کا احاطہ کرتے ہوئے ” اختیاری متن” کو ازسرنو مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے متن فہمی کی مدد سے کئی متروک اور کھوکھلے فکری بت گرائے گئے ہیں۔ اس کتاب میں” بین القوامیت” {"internationalizing} کا نظریہ بھی ابھرتا ہے۔