ہندو تعزیہ داروں میں ایک عجیب قسم کی رسم رائج تھی۔ کچھ لوگ دسویں محرم کی رات کو “پیک” بنتے تھے۔ انہیں کچھ لوگ “ناتک” بھی کہتے تھے۔ ان کا حلیہ بہت عجیب سا ہوتا تھا۔ سر پر بہت بڑی سی پگڑی ہوتی تھی۔ بالکل ویسی کہ اگر آپ کپڑے کے تھان کو سر کے گرد لپیٹتے جائیں اور آخر میں ایک کونا طرے کی طرح باہر نکال لیں۔ کمر میں ایک چوڑا سا پٹہ بندھا ہوتا تھا جس میں درجنوں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لٹکی رہتی تھیں۔ ذرا سی حرکت پر وہ ٹن ٹن بولنے لگتیں۔ ہاتھ میں بڑا سا مورچھل ہوتا (وہ لمبا سا مور کے پروں والا پنکھا جو درباروں میں خادم بادشاہ سلامت کو جھلتے تھے)۔ تو مورچھل تھامے وہ آدمی دسویں محرم کے دن نکل پڑتا تھا۔ سارا دن حرکت میں رہتا تھا۔ ناتک بننے کی شرط یہی تھی کہ رکنا نہیں ہے۔ ہر وقت ادھر سے ادھر دوڑتا رہتا، ایک تعزیے سے ہو کر دوسرے تعزیے کی طرف جاتا، ایک جلوس سے نکلتا دوسرے جلوس میں شامل ہو جاتا۔ تیز تیز چلتا ہوا مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا رہتا۔ کسی مقام پر ٹھہرتا بھی تو دونوں پاؤں برابر حرکت میں رہتے۔ یہ شخص نہ کسی سے بات کرتا تھا اور نہ کسی نوحہ خوانی یا ماتم میں حصہ لیتا تھا۔ “حسین کشتہ شد” بس یہ ایک جملہ ہر گوشے، ہر مجلس، ہر جلوس، ہر محفل میں جا کر جہاں موقع ملتا، کہہ دیتا اور آگے چلا جاتا۔ اس ایک فقرے کے علاوہ ناتک کے منہ سے دوسرا لفظ کوئی نہیں سنتا تھا۔ یہ رسم بس اس چیز کی علامت تھی گویا ایک قاصد پوری دنیا میں یہ سناؤنی دیتا پھر رہا ہے کہ حسین اب نہیں رہے۔
مرزا جعفر حسین نے قدیم لکھنو کی آخری بہار نامی کتاب میں یہ واقعہ کم و بیش اسی طرح بیان کیا ہے۔ انہوں نے قدیم رسومات محرم سے لے کر اپنے وقت تک کی ایک مکمل تصویر کھینچ کر رکھ دی تھی۔یہ واقعہ اس دور کا تھا جب برصغیر میں مختلف مذاہب اور رنگا رنگ ثقافتی عناصر اپنے پورے عروج پر تھے۔ بھائی چارہ، یگانگت، رواداری اور برداشت آج کل کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں مناظرے بھی ہوتے تھے تو جانبین اپنے سر اپنی گردنوں پر سلامت لیے اٹھتے تھے۔ کوئی اس فکر میں نہیں ہوتا تھا کہ اس کی اقدار کسی نئی رسم کے آنے سے ملاوٹ کا شکار ہو جائیں گی۔ لوگ بلاتفریق ایک دوسرے کے تیوہاروں میں شریک ہوتے تھے۔ کیا دیوالی، کیا دوسہرا، کیا عید، کیا شبرات، کیا پھول والوں کا میلہ، کیا قوالی، کیا ہولی، کیا عرس، کیا بسنت اور کیا محرم، سب تیوہار سب کے ہوا کرتے تھے۔ تعزیوں کی تو روایت ہی ہمیں ہندو مذہب سے اٹھتی نظر آتی ہے۔ یہ کلچر صرف اودھ یا دلی تک نہیں تھا۔ پشاور، ملتان اور لاہور میں بھی یہی یکجہتی پائی جاتی تھی۔ اب ایسے ماحول میں کوئی ہندو اپنے خلوص کے ہاتھوں حسین کشتہ شد کہتا گھومتا ہے تو اسے کون روکتا ہو گا۔
آگے بڑھیں تو برصغیر میں ہمیں ترقی پسند تحریک کا ایک بہت طویل باب دکھائی دیتا ہے۔ اس تحریک کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہوا کرتا تھا کہ جو اس میں شامل ہوا وہ غریب کہیں کا نہ رہا۔ لیکن یہاں بھی ہمیں حمید اختر عید کی نماز نہ پڑھنے پر بنے بھائی سے ڈانٹ کھاتے دکھائی دیتے ہیں، جوش ملیح آبادی مرثیے کہتے اور ڈٹ کر پڑھتے نظر آتے ہیں اور سید سبط حسن محرم مناتے ہوئے ملتے ہیں۔
سبطے صاحب کے بارے میں عبدالقادر حسن لکھتے ہیں، “ہمارے استاد اور ایڈیٹر سید سبط حسن جو پکے کمیونسٹ تھے، محرم میں سیاہرنگ کی قمیض پہن لیتے تھے ،جب اس کا ذکر کیا جاتا تو وہ جواب دیتے یہ ہمارا کلچر ہے۔”
محرم کلچر میں تبدیل تب ہوا جب برصغیر والوں نے اسے مکمل طور پر اپنا لیا۔ اودھی تہذیب نے اسے اپنے اندر گوندھ لیا، اسے اتنی جگہ دے دی کہ محرم کا سوگ دس دن سے بڑھ کر پچاس دن اور پھر آٹھ ربیع الاول تک پھیل گیا۔ پچاسواں دن عاشورے کے حساب سے چہلم کا بنتا تھا۔ حکم رانوں کی نگرانی میں محرم کے جلوس نکلتے، نذر نیازیں ہوتیں، جلوس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ڈھول تاشے والے ہوتے، بہروپیوں نے شیر کے سوانگ بھرے ہوتے (شیر بننے کی رسم اب بھی ہندوستان کے کچھ علاقوں میں موجود ہے)، باقاعدہ کربلا کی تمثیل کا تھیٹر کیا جاتا، ذوالجناح بنانے کے لیے شاہی اصطبل میں موجود اعلی ترین گھوڑے وقف رہتے، جگہ جگہ خوشبودار دودھ کی سبیلیں ہوتیں، علم نکلتے اور ایسے ایسے اونچے علم ہوتے کہ دیکھنے والوں کی گردنیں رہ جاتیں۔ پھر ان علموں کے پھریرے یا جھنڈے کہہ لیجے وہ طرح طرح کے قیمتی کپڑوں کے ہوتے، جواہرات ٹنکے ہوتے، انہیں علموں کے سائے میں ماتم ہوتا، بڑا امام باڑا بنا، چھوٹا امام باڑا بنا، لکھنو میں کربلا بھی بنی، عاشورے کی رات یہ تمام امام باڑے باوجود بجلی کا دور نہ ہونے کے جگمگا رہے ہوتے۔ شاہی امام باڑوں کے دروازے بھی اس شب عوام کے لیے کھول دئیے جاتے، کبھی یہ تک نہیں پوچھا جاتا تھا کہ ہاں میاں کس مذہب سے ہو، بس صلائے عام تھی! اور یہ سب ریاست کی سطح پر کیا جاتا تھا۔ ایران جہاں سے محرم کی رسومات یہاں آئیں، وہاں بھی اس قدر رنگا رنگی ہمیں نظر نہیں آتی۔ وجہ اس کی شاید یہی تھی کہ محرم ہندو، سکھ، مسلمان، جین، سبھی کا مہینہ بن چکا تھا اور تمام ثقافتیں اس میں بقدر جثہ شامل ہو چکی تھیں۔ پھر میر انیس اور میرزا دبیر نے غضب کر دیا کہ واقعہ کربلا کو بالکل دیسی لبادہ اوڑھا دیا۔ امام بات کرتے ہیں تو ہندوستانی محاوروں میں، امام کی اہل خانہ بات کرتیں تو گھر کی خواتین کی زبان میں، شادی، بیاہ، سفر، موت سب رسمیں مشرف بہ ہندوستان ہو گئیں تو ہندوستانی بے چارے کہاں جاتے۔ دیکھیے جب کوئی عقیدہ آپ کو اپنی زبان میں مل رہا ہے اور آپ ایسی عالی مقام ہستیوں کا غم ایسے محسوس کر رہے ہیں کہ جیسے سکرین پر سب واقعات چل رہے ہوں، آپ اس میں خود کو شامل محسوس کرتے ہیں، تو وہ عقیدہ محض عقیدت نہیں رہ جاتا وہ ہڈیوں میں رچ بس جاتا ہے اور اس رچاؤ کے بعد جو چیز سامنے آتی ہے وہ ثقافت کہلاتی ہے۔
محرم کی تہذیبی و ثقافتی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ہلال نقوی نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا کہ علی سردار جعفری صاحب ایک دفعہ روس میں موجود تھے۔ عاشور کا دن آ گیا۔ ایک ترقی پسند دوست کے ساتھ وہ سڑک کے کنارے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے، ان کے ہاتھ میں ایک لمبی سی پتلی چھڑی تھی جس پر انہوں نے خاصی چوڑی کالی پٹی باندھ رکھی تھی۔ گزرنے والے پوچھنے لگے کہ بھئی یہ کیا ہے۔ وہ ہر شخص کو کربلا کا سارا معرکہ بیان کرتے اور پھر کہتے کہ آج جبر کے خلاف احتجاج کا دن ہے اور ہم اس طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ تو اس ثقافت کا تعلق احتجاج سے بھی جڑا۔ آج بھی اکثر سیاسی تقریروں میں آپ حسینی قافلے اور یزیدی لشکروں کی تلمیحات سنتے ہیں، تو یہ سب ہمارے روزمرہ میں اس ثقافت کا نفوذ ہے۔
بنے بھائی (سید سجاد ظہیر) کی شریک حیات رضیہ سجاد ظہیر تھیں۔ دلی والوں نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ “دلی والے” کے نام سے چار جلدوں میں اپنے تمام بڑے لوگوں کو یاد کر لیا اور ان کے خاکے محفوظ ہو گئے۔ ڈاکٹر شمیم نکہت ان کے بارے میں اس کتاب میں لکھتی ہیں، “وہ کمیونسٹ تھیں، لیکن موقعہ پڑنے پر حضرت علی سے مدد ضرور مانگتیں۔ “خدا حافظ” کبھی فراموش نہ کر سکیں۔ محرم میں چوڑیاں توڑنا اور سوگ کے کپڑے پہننا کبھی نہ بھولیں، نویں محرم کو ہمیشہ (روایت کی مناسبت سے) کپڑے پہنتیں۔ مذہب کو باقاعدگی سے نہ ماننے کے باوجود وہ اس کی بہت سی اچھی باتوں کی قائل تھیں۔ دراصل ان کا مذہب انسانیت تھا۔” کیا ان تین سطور میں بھی ہمیں میر انیس بار بار جھانکتے نظر نہیں آتے؟ اگلے وقتوں میں قران شریف کے ساتھ ساتھ گلستان، بوستان، کریما، اور انیس و دبیر بھی پڑھائے جاتے تھے، بلکہ پڑھائے کیا جاتے اہل تشیع کے یہاں تو بچپن سے اچھا پڑھنے کے مقابلے ہوا کرتے تھے، ایسے میں کوئی مذہب سے کتنا ہی بیگانہ کیوں نہ ہو جائے، ناسٹیلجیا مار جاتا تھا۔ جب ماضی بار بار دستک دے تو کٹھور سے کٹھور انسان بھی دروازے کھول دیتا ہے۔
“محرم کی نویں تاریخ تھی۔ میرے گھر پر رقعہ آیا، “عالیہ رات کو ہمیں کام ہے، تم ضرور آنا”، میں گھر پہنچی، دیکھا تو ایک جم غفیر تھا، ٹیپ چل رہا تھا، خوب صورت گانا سنا جا رہا تھا، میں دو منٹ تو بیٹھی، اس کے بعد میں نے ایک دم دروازے کا رخ کیا۔ فیض صاحب فوراً باہر آئے، “ارے، تم دعوت چھوڑ کر کیوں جا رہی ہو؟ وجہ کیا ہوئی، یہ تو بتاؤ، کیا ہم لوگوں سے خفا ہو؟” میں نے کہا نہیں، بات یہ ہے کہ ہم آج کی تاریخ میں گانا نہیں سنتے۔ میرے اس جملے کو سنتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے ان پر بجلی گر پڑی۔ “ایلس، عالیہ کی خاطر کیا گانا بند کر دو گی؟” ایلس نے جذبات کا لحاظ کیا، فوراً گانا بند کیا، مجھے شرمندگی بھی ہوئی۔ بلاوجہ سب کا مزہ کرکرا کیا۔ گانا بند ہونے کے بعد کھانا ہوا۔ میں نے کہا کہ فیض صاحب آج کی رات تو ہم لوگ حضرت عباس کی درگاہ پر جاتے ہیں اس لیے زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکیں گے۔ “ہاں تو ٹھیک ہے، ہم۔ بھی چلیں گے، دیکھیں گے، تم وہاں کیا کرو گی۔” کھانے کے بعد ہم لوگ درگاہ گئے، فیض صاحب نے بھی علم کو بوسہ دیا، مرثیے کے دو چار بند سنائے، پھر کہنے لگے، مرثیے تو ہمیں کہنا نہیں آتے، بس تمہاری فرمائش پر یہ لکھ دیا ہے، کیا تم کو پسند ہے؟ اب ہمارے اور تمہارے مسلک میں کیا فرق رہ گیا؟ (ڈاکٹر عالیہ امام۔ رفیق دل فگاراں)
یہ بیان بہرحال تحقیق طلب ہے کہ فیض صاحب نے مرثیہ ڈاکٹر عالیہ امام کے کہنے پر ہی لکھا یا کوئی اور وجہ تھی، لیکن مرثیہ بہرحال لکھا گیا۔ اس مرثیے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر کربلا کو حریت فکر کا استعارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ فیض صاحب کے بعض ہم عصر اسے مرثیہ ہی نہیں مانتے تھے، مثلاً یہ حصہ دیکھیے؛
اورنگ نہ افسر نہ علم چاہئے ہم کو
زر چاہئیے نے مال و درم چاہئیے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہئیے ہم کو
سردار کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اک حرف یقیں دولت ایماں ہمیں بس ہے
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے نیکی کے مروت کے طرف دار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مدد گار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ لاشعوری طور پر اس میں پارٹی کا مینی فیسٹو بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ لیکن وہ فیض صاحب تھے، دلدار آدمی تھے، انہوں نے مرثیہ بھی کہا، اپنی بات بھی کہی، کچھ عشق کیا کچھ کام کیا، اور کیا خوب کر گئے۔
جوش صاحب کی شہرت بھی اس حوالے سے تھی کہ وہ رسمی حدود و قیود کے باغی تھے۔ انتظار صاحب نے ملاقاتیں میں ان پر جو خاکہ لکھا اس کے آخر میں کہتے ہیں، “جوش صاحب مذہب سے بغاوت کرتے ہیں، مذہبی رسوم سے دور بھاگتے ہیں، مگر کتنی دور بھاگتے ہیں۔ ان کا خمیر تو انہیں رسوم و عقائد سے اٹھا ہے۔ عقیدے سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر امام حسین راستے میں آ جاتے ہیں۔ مرثیہ انہیں کھینچ کر پھر اس دائرے میں لے آتا ہےجسے توڑ کر نکلنے کی انہوں نے کوشش کی تھی۔ آدمی مذہب سے انکار کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی جڑیں اپنی تہذیب میں ہیں تو وہ رہے گا دائرے کے اندر ہی۔”
تو یہ لوگ بڑے لوگ ہوتے تھے، سامنے والا جو کچھ بھی کر لے اسے مذہب کے دائرے کے اندر رکھنے کی پوری کوشش کیا کرتے تھے۔ بڑے ظرف تھے، کس کس کی آنکھیں دیکھی تھیں، کس کس کے قدم لیے تھے، یہ لوگ کسی کو گھیر کر دیوار کے ساتھ محض اس بنا پر لگانے کے قائل نہیں تھے کہ یہ بندہ وہ نہیں مانتا جو ہم مانتے ہیں۔ کیسی دنیا تھی۔ اسی دنیا میں ایک جون ایلیا تھے جنہوں نے اس ساری بحث کا قصہ ہی چوپٹ کر دیا تھا۔ سنیے کیا کہتے ہیں؛
خدا نہیں ہے تو کیا حق کو چھوڑ دیں اے شیخ
غضب خدا کا ہم اپنے امام کے نہ رہیں
جون صاحب کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ انہوں نے ہی یہ بھی کہا، میں تو خدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو، اور اس طرح کے بے شمار دیگر مصرعے ہمیں نظر آتے ہیں۔ تو جون صاحب بھی باقاعدہ جلسے جلوسوں میں جایا کرتے اور محرم کی رسومات میں حصہ لیتے تھے۔
یہ تمام واقعات ان لوگوں کے تھے جو آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔ جن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ روایتی رسوم و رواج اور عقیدوں کو نہیں مانتے۔ یہ سب محرم کو اپنی ثقافت کا حصہ سمجھ کر مناتے تھے۔ ان کے دوست بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ جو نہیں ہوتے ہوں گے وہ برداشت کر لیتے ہوں گے کہ بھئی اپنی قبر میں اپنا حساب ہر ایک دے گا۔ لیکن جو ایک بڑی بات تھی وہ یہ تھی کہ یہ سب اپنی طبعی عمر پوری گزار کر گئے۔ دھڑلے سے جو سوچتے تھے، وہ کہتے تھے اور کرتے تھے، لیکن گردنیں سروں پر سلامت رہتی تھیں، اس لئے کہ محرم تو سب کا تھا۔