::: شاعر، محققق کامران ندیم کی کتاب " مہا بھارت" شائع ہوگئی ہے۔ جدید اردو انتقادت اور تحقیق میں" مہا بھارت" پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا۔ کامران ندیم کی زندگی نے وفا نہ کی جب وہ اس کتاب کا آخری حصہ لکھ رہے تھے تو وہ اس دنیا چھوڈ کر چلے گئے۔ اس کتاب کا آخری حصہ انکی اہلیہ فرح کامران نے بڑی جانفشانی اور محنت سے تدوین کرکے مکمل کیا۔ فرح کامران نے اپنے " پس نوشت " میں لکھا ہے " مہا بھارت" اب آپ کے ہاتھ مِیں —- بہت کوشش کے باوجودبھی مہا بھارت مکمل نہ ہوسکی ۔ امید ہے اس چراغ سے کوئی اور چراغ جلے گا اور کوئی اس کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھائے گا ۔میرے کان میں اب بھی سرگوشیاں ہوتی ہیں۔ ۔۔۔۔ فرح ۔۔۔۔ یہ کتاب مجھے زندہ رکھے گی، دل میں ایک خواہش بار بار سر اٹھاتی لیکن بعض بار اٹھانے بہت مشکل ہوتے ہیں اور ان کا اٹھانا ممکن نہیں ہوتا تو دیکھئے کہ آنے والا وقت کیا فیصلہ کرتا ہے؟" { صفحہ 20} دینا میں کئی کتابیں مصنف کی زندگی میں مکمل نہیں ہوئی کافکا اپنا ناول بھی وہ مکمل نہ کرسکے تھے۔ شبلی نعمانی کی کتاب " سیرت النبی" کی آخری جلد اپنی موت کے سبب مکمل نہ کرسکے اس کو ان کے شاگرد مولانا سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔کتاب کا دیباچہ شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے۔۔ لکھتے ہیں۔" مہا بھارت کی کہانیاں ہمارے اجتماعی شعوراور مشترک روایت کا حصہ کچھ اس طرح بن گئی ہیں کہ شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو جس نے مہا بھارت کی کہانی نہ سنی ہو۔" {صفہہ 6}
آریوں کے بارے میں معلومات کا بنیادی ماخذ وید ہیں۔ ان کی اصل کے بارہ میں قطعی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن قیاس ہے کہ یہ لوگ ایران سے یہاں آئے تھے۔ آریہ کا مطلب ہے عظیم یا آزاد۔ آریہ ہندوستان میں موجود دوسری نسلوں سے بہت عرصہ تک برسرپیکار رہے۔ انہوں نے گنگا کے کنارے ایک شہر آباد کیا جس کا نام ’’ہتسنارپور‘‘ رکھا گیا اور اس سے ستاون میل جنوب مشرق کو دوسرا شہر اندر دیوتا کے نام پر آباد کیا جو ’’اندرپرستھ‘‘ کہلایا۔ یہ شہر آجکل دہلی کہلاتا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں ایک عظیم جنگ کا ذکر ملتا ہے جو ’’مہا بھارت‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مہا بھارت کے واقعات کو نظم کیا گیا اور یہ دنیا کی سب سے بڑی رزمیہ نظم ہے جو قریباً ایک لاکھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:
ہتسناپور پر کھتری ذات کا راجہ ’بھرت‘ حاکم تھا۔ اُس کی آٹھویں نسل میں راجہ ’’کور‘‘ ہوا اور آگے اُس کی چھٹی نسل میں راجہ چتر برج پیدا ہوا۔ اُس کے دو بیٹے ’’دھرت راشڑ‘‘ اور ’’پنڈا‘‘ تھے۔ دھرت راشڑ بڑا لڑکا تھا اور سلطنت سنبھالنے کا حقدار تھا لیکن بدقسمتی سے وہ اندھا تھا۔ اس لئے یہ سلطنت چھوٹے لڑکے ’’پنڈا‘‘ یا ’’پانڈو‘‘ کے حصہ میں آئی۔ اس پانڈو کے پانچ بیٹے ہوئے جو ’’پانڈوؤں‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق یہ پانچوں دیوتاؤں کی اولاد تھے کیونکہ راجہ پنڈا ایک بددعا کے ڈر سے اپنی بیوی سے الگ رہتا تھا۔ جبکہ دھرت راشڑ کے ایک سو ایک بیٹے ’’کوروؤں‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہی چچازاد بھائیوں میں یہ جنگ ہوئی جس کا نتیجہ کوروؤں کی تباہی کی صورت میں نکلا۔
ہتسناپور اور اندر پر ستھ کے شہر اگرچہ زمانہ کی دست برد سے تباہ ہوگئے لیکن دو چھوٹے چھوٹے گاؤں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ مہا بھارت کی روایتی تاریخ 3102قبل مسیح ملتی ہے جو کہ زیادہ قابل قبول ہے۔ ایک اور روایت میں یہ تاریخ 1000 قبل مسیح کی بھی ہے۔
ہندو لٹریچر میں مہا بھارت کو کافی اہم مقام حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کے سامنے چاروں ویدوں کو ایک پلڑے میں اور مہا بھارت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا اور فیصلہ ہوا کہ مہا بھارت کا پلڑا بھاری ہے۔ ہندوؤں کا نظریہ ہے کہ جو اس کتاب کا ایک حصہ بھی پڑھ لے تو اس کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب آسمان پر تالیف ہوئی اور اس کو انسانی ضابطہ حیات کے طور پر زمین پر بھیجا گیا۔"مہا بھارت میں ان دوقوموں کے نام دیئے گئے ہیں جن کے درمیان یہ جنگ عظیم واقع ہوئی تھی۔ لفظ مہا بھارت سے وہ جنگ عظیم مراد ہے جو راجہ بھرت کی اولاد کے درمیان واقع ہوئی۔ اس جنگ کا زمانہ اوپر تعین کیا جاچکا ہے مگر کتاب مہابھارت اس کے بہت بعد تصنیف ہوئی ہے۔ اس لڑائی کے قصے سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے۔ بھاٹ اور شاعر راجوں مہاراجوں کی سبھائوں میں یہ قصے گاتے اور سناتے تھے۔ بڑھتے بڑھتے قصہ بہت بڑھ گیا۔ زمانہ گزرنے پر اس میں بہت سی نئی داستانیں شامل ہوگئیں۔ اس سے بعد کے عہد میں جسے برہمنوں کا زمانہ کہتے ہیں۔ ایک برہمن بیاس جی نے ان قصوں کو مسلسل کرکے نظم کیا ۔ یہی نظم اب مہابھارت کے نام سے مشہور ہے۔ مہابھارت میں آرین قوم کے رسم ورواج کا جوحال درج ہے، اس کی نسبت یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ کہاں تک اس زمانے کا ٹھیک ٹھیک پتا دیتا ہے جس کو ہم نے یہاں مہا بھارت کازمانہ قرار دیا ہے اور کہاں تک اس بعد کے زمانے سے متعلق ہے جس کو برہمنوں کا عہد کہا جاتا ہے اور جس میں آرین لوگوں کے مذہب، زبان اور رسم ورواج میں بہت بڑا تغیر وتبدل ہوچکا تھا۔ (ای مارسڈن کی کتاب ’’تاریخِ ہند‘‘ سے اقتباس، ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور۔}مہا بھارت حق وباطل کے درمیان چھڑنے والی ایک بہت بڑی جنگ ہے جس کی نشاندہی ہندوؤں کی مقدس ترین کتاب “ویدہ” میں کی گئی ہے اور اسی جنگ کے واقعے پرایک کتاب”مہابھارت”تصنیف کی گئی ہے۔ہندومت کے ماننے والوں کی ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ جنگ ماضی میں ہوچکی ہے لیکن کسی تاریخ داں نے کبھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔رام پور بھارت کے مولانا شمس نویدعثمانی مرحوم عربی قرآن کے ساتھ ساتھ سنسکر ت ویدہ کے بھی عالم تھے،نے تحقیق کرکے یہ بتا دیا ہے کہ ویدہ میں اس جنگ کے بارے میں صیغہ مستقبل میں بیان ہواہے نہ کہ صیغہ ماضی میں۔ا ن کے مطابق یہ جنگ ابھی ہونے والی ہے نہ کہ ہوچکی ہے۔حق وباطل کایہ فیصلہ کن معرکہ”مہابھارت”دورِآخرکامعرکہ ہے اوراسی معرکہ کی خبر آخری نبی حضرت ﷺ نے دی ہے جسے احادیث میں”غزوہ ہند”کے نام سے جاناجاتاہے اوراس میں شامل ہوکرحق کی خاطر جنگ لڑنے والوں کوجنت کی بشارت دی گئی ہے اورحدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ نے اس خواہش کااظہارکیاکہ کاش میں اس وقت زندہ ہوتااوراس میں شامل ہوتا۔
اس کتاب میں شامل مضامیں کی فہرست دیکھ قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کتاب کتنی محنت، عمیق مطالعے اور فکری عرق ریزی کے بعد لکھی گئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...