(Last Updated On: )
ملک کے ممتاز اور سینیئر صحافی محمد ضیاءالدّین 29 نومبر، 2021 کو انتقال کر گئے۔ اُن کی زندگی میں ہی اُن کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے صحافی کمال صدّیقی نے انگریزی میں ایک تفصیلی مضمون سما کی ویب سائٹ پر لکھا جس میں ساٹھ برسوں پر مُحیط محمد ضیاالدین صاحب کے کیریر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انگریزی کے اس مضمون کو “نیا دور اُردو” کے قارئین کے لئے محمد حارث نے اُردو میں ترجمعہ کیا ہے۔
‘جعلی‘ خبروں، غیر تصدیق شدہ رپورٹنگ اور ختم ہوتی ہوئی اخلاقیات کے اس دور میں، محمد ضیاءالدین کا صحافتی کیریئر جائزہ لینے کے قابل ہے، جو پاکستان کی صحافت میں سب سے زیادہ قابل احترام نام ہیں۔
ملک کے تقریباً تمام بڑے اخبارات – دی مسلم، دی نیوز، ڈان، دی ایکسپریس ٹریبیون میں تقریباً ساٹھ سال کام کرتے ہوئے ضیاءالدین صاحب نے تقریباً ناممکن اُمور کو سنبھالا ہے: جن میں وسیع کیریر ہونے اور اپنے زمانے کے طاقتور، جیسے کہ مُشرّف کا سامنا کرنے کے باوجود ایک داغ سے پاک ریکارڈ برقرار رکھنا شامل ہیں۔
ضیاء الدین صاحب کی جدوجہد صرف آمروں کے ساتھ نہیں تھی۔ اُنھوں نے غیر سنجیدہ سینیئرز اور میڈیا کے کمزور مالکان کا بھی سامنا کیا۔ بہرحال، اُن کی بیٹ رپورٹنگ کے دن ہماری سیاسی تاریخ کے کچھ تاریک ترین اور انتہائی ہنگامہ خیز دور کے دوران بے خوف نڈر ایڈیٹرز کی کہانیوں سے بھی بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ کہانیوں کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے، میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان کے صحافیوں کی اگلی نسل کو یہ اُمید رہے کہ وہ بھی survive کرسکتے ہیں۔
کمال صدیقی صحافی ہیں۔ وہ ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور اس وقت IBA کے سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔
ایڈیٹنگ: ماہم مہر
ڈیویلپمنٹ : فیضان عباسی
آرکائیو تصاویر اور DAWN آرکائیوز کے لیے ڈاکٹر غلام نبی قاضی کے شکریہ کے ساتھ۔
بچپن اور خاندان: ہندوستان اور مشرقی پاکستان
محمد ضیاء الدین 1938 میں مدراس (موجودہ چنئی) میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ کا تعلق بنگلور سے تھا اور ان کے والد ظہیرالدین خان ہاکی کے پرجوش کھلاڑی تھے جنہوں نے تقریباً قومی ہندوستانی ہاکی ٹیم میں جگہ بنا لی تھی۔
یہ خاندان 1948 تک حیدرآباد، دکن میں محبوب آباد نامی ایک دور دراز قصبے میں رہا جب اُن کے والد ماچس کی فیکٹری میں بطور منیجر کام کر رہے تھے۔، تاہم، تقسیم کے بعد حیدرآباد کی حیثیت غیر یقینی ہونے کی وجہ سے خاندان کی قسمت میں اتار چڑھاؤ آیا۔ 1948 میں جب حیدرآباد ہندوستانی افواج کے قبضے میں آگیا تو ماچس کی فیکٹری بند ہوگئی۔ اس وقت ضیاء الدین صاحب بمشکل چوتھی کلاس میں پڑھ رہے تھے۔
اُن کا خاندان مدراس واپس آ گیا، اور پھر 1952 میں مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ظہیرالدین نے ایک کزن کے ساتھ، جو اپنا خاندانی چمڑے کا کاروبار چلا رہے تھے، شمولیت اختیار کی اور بالآخر ایک جزیرے پر اپنی ٹینری قائم کی جس کے مشرق میں بوری گنگا دریا بہتا ہے۔ بدقسمتی سے، فیکٹری تقریباً ہر سال سیلاب میں بہ جاتی تھی۔ لیکن ڈھاکہ میں صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا
وہاں اس بات پر بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے افراد مقامی لوگوں کے ساتھ حکمرانوں کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ یہ غیر بنگالیوں کے لیے ایک مشکل وقت تھا اور اگرچہ وہاں کوئی کھلی جارحیت نہیں تھی، لیکن مقامی لوگوں میں غیر مقامی لوگوں کے خلاف ناراضگی تھی۔ مشرقی پاکستان میں زیادہ تر اہم سرکاری عہدوں پر مہاجرین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہندوستان، بہار سے تھا اور مغربی پاکستان سے آئے افراد براجمان تھے۔ یہاں تک کہ بڑے کاروبار بھی غیر بنگالیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اِن حالات نے 1954 کی زبان کی تحریک کو جنم دیا جس کا مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو پاکستان میں سرکاری استعمال کے لئے تسلیم کیا جائے
1958 میں، جب ضیاء الدین صاحب ڈھاکہ یونیورسٹی میں فارمیسی میں بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کر رہے تھے، انہیں ایک کیمپ کے لیے کراچی جانے کا موقع ملا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ مغربی پاکستان کو دیکھ رہے تھے۔ وہ کراچی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اُن دنوں یہ بہت مختلف شہر تھا‘‘۔ “اورینٹ ایئرویز میں اُڑتے ہوئے، جب ہم (کراچی) لینڈ کر رہے تھے، میں نے ویران زمین کا ایک وسیع حصہ دیکھا جہاں بڑی تعداد میں تارکین وطن جھگیوں میں رہ رہے تھے۔” پی آئی بی کالونی سے، وہ یاد کرتے ہیں، آپ صدر تک تمام راستے دیکھ سکتے تھے۔ ملیر میں زیادہ تر کھیتی باڑی تھی جبکہ ناظم آباد میں زندگی کے ابتدائی آثار دکھ رہے تھے۔ کیماڑی سے آپ شہر کے مختلف حصوں کے لیے ٹرام پکڑ سکتے تھے۔
پاکستان بھر سے کوچنگ کیمپ میں شرکت کے لیے آنے والے نوجوانوں کے لیے نیشنل اسٹیڈیم میں کیمپ لگایا گیا تھا۔ یہیں پر ضیاء الدین صاحب نے تمام ٹاپ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھا: حنیف (محمد)، وزیر، مشتاق (محمد)اور یہاں تک کہ صادق (محمد)، جو ابھی نوعمری میں ہی ٹیبل ٹینس پریکٹس کرنے آتے تھے۔ پاکستان کے اوپننگ بلے باز علیم الدین ان کے بیٹنگ کوچ تھے۔ ماسٹر عزیز، جنہوں نے حنیف (محمد) کی کوچنگ کی تھی، بھی کیمپ میں باقاعدگی سے آتے تھے۔
ضیاء الدین صاحب کے ڈھاکہ واپس آنے کے فوراً بعد، خاندان نے اپنے والد کی خراب صحت اور بار بار آنے والے سیلاب سے ٹینری میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے کراچی میں دوبارہ آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور یوں، 1960 میں، جب وہ 21 سال کے تھے، کراچی چلے گئے۔
کراچی اور کراچی یونیورسٹی کے سال
اُن دنوں کام کی تلاش ایک چیلنج تھا لیکن ضیاء الدین صاحب ایک دوا ساز کمپنی میں میڈیکل نمائندے کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت کراچی میں دوا سازی کے چند کارخانے تھے لیکن یہ صنعت ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھی۔
یہ وہ کام نہیں تھا جس سے وہ مطمئن ہوتے اور یوں 1963 میں اُنھوں نے اپنے لکھنے کے شوق کی تکمیل کے لیے جامعہ کراچی میں صحافت میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اُن کی جرنلزم کی تعلیم نے اُنھیں اعتماد فراہم کیا کہ اُنھوں نے چند سالوں میں ہی میڈیکل کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے سبکدوش ہو کر 1966 میں PPI( اُس وقت PPA) میںCub رپورٹر کے طور پر صحافت میں اپنی پہلی نوکری شروع کی۔ اس دوران اُنھوں نے میڈیکل نمائندے کی حیثیت سے اپنی ملازمت جاری رکھی کیونکہ دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد ان کے والد کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا تھا ضیاء الدین صاحب اپنے خاندان کے لئے کمانے والے بن گئے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے دو سال اُن کے لیے مشکل تھے۔ صبح آٹھ بجے کے قریب وہ اپنی کمپنی (CH Borhringer)، جہاں وہ میڈیکل نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے، کے دفتر میں ہوتے تھے جو قمر ہاؤس (موجودہ EFU بلڈنگ) تھا۔ لیکن اُس کے بعد وہ تیزی سے شہر کے دوسرے کونے پر موجود کراچی یونیورسٹی، دو بسوں کو تبدیل کرتے ہوئے پہنچتے تھے۔ جیسے ہی وہ تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے کلاس روم کی طرف جاتے اُن کے قدموں کی آواز سے کلاس رومز میں موجود خاموشی میں خلل واقع ہوتا لیکن یہ ساتھ ہی اُن کی آمد کا اعلان بھی ہوتا جسے انگریزی کے اُستاد رحمان صاحب دھیمی آواز میں کہتے: “Here comes His Royal Highness.”
ضیاء الدین صاحب نے بتایا، ’’میں نے اپنی ملازمت کو شعبہ صحافت کے عملے اور ساتھیوں سے خفیہ رکھا ہوا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ سب یہ سوچتے تھے کہ میں ایک متموّل خاندان کا بچہ ہوں اور یونیورسٹی میں صرف وقت گزاری کے لیے جا رہا ہوں۔”
کراچی یونیورسٹی میں اپنے دوسرے سال کے دوران انہوں نے روزنامہ ڈان کے کیمپس رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ اُس وقت کے ڈان کے سٹی ایڈیٹر ایچ بی کھوکھر کو رپورٹ کرتے تھے۔ تاہم اُن کی یہ نوکری تنخواہ والی نہیں تھی اور ضیاءالدّین صاحب کو شک تھا کہ اس کا تعلق کھوکر صاحب سے تھا۔ (شاید ایڈیٹر نے انہیں باضابطہ طور پر اخبار میں اپائنٹ نہیں کیا تھا)۔ بہر حال، اس نے یہ تاثر پیدا کیا کہ کھوکھر صاحب میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فقدان ہے اور یہ کہ وہ ایک سفّاک آدمی ہیں۔
چونکہ “سرخ سویرا” کے پروفیسر کرار حسین کے صاحبزادے مرحوم جوہر حسین نے شعبہ صحافت کے بانی سربراہ شریف المجاہد صاحب سے ان کی سفارش کی تھی، اس لیے ضیاء الدین کو ان کے اساتذہ اُن کو بائیں بازو کا سمجھتے تھے۔ ”
آدھے سرخے اور رائلٹی کے عجیب امتزاج پر مبنی میری بدنامی مجھے بہت مہنگی پڑی کیونکہ میرے پہلے سال کے گریڈ بہت کم تھے۔” آخر میں اُن کی بچت اس طرح سے ہوئی کہ اُن کے بہترین دیے ہوئے امتحانی پرچے، چیکنگ اور گریڈنگ کے لئے دوسری یونیورسٹیوں میں بھیجے گئے
آدھے سرخے اور رائلٹی کے عجیب امتزاج پر مبنی میری بدنامی مجھے بہت مہنگی پڑی کیونکہ میرے پہلے سال کے گریڈ بہت کم تھے۔” آخر میں اُن کی بچت اس طرح سے ہوئی کہ اُن کے بہترین دیے ہوئے امتحانی پرچے، چیکنگ اور گریڈنگ کے لئے دوسری یونیورسٹیوں میں بھیجے گئے
طلباء کی اشاعتیں شروع کرنا
یونیورسٹی چھوڑنے سے پہلے، ضیاء الدین صاحب نے ویتنام کی جنگ سے متاثر ہوکر دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں 1960 کی دہائی کی نئی طالب علم طاقت جو کچھ کر رہی تھی اس میں اپنا چھوٹا سا حصہ ڈالا۔ انہوں نے وائس آف دی سٹوڈنٹس کے نام سے ایک خفیہ رسالہ نکالا، جسے اختر ایم فاروقی نے ایڈٹ کیا، اُن کا تعلق بھی شعبہ صحافت تھا۔ اس پر جامعہ کراچی کے پراکٹر میجر آفتاب سخت غصے میں تھے۔
یہ جانتے ہوئے کہ انتظامیہ کیا رد عمل ظاہر کرے گی، دونوں نوجوانوں نے ہوشیاری سے اپنے نام رسالے کے صفحات پر نہیں ظاہر کئے۔ لیکن اس میں، اکنامکس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے دوستوں، عبدالحمید چھاپرا اور راشد پٹیل کے نام، اُن کی اپنی درخواست پر، لیے گئے، جنہوں نے اپنے سیاسی عزائم کی بنا پر، اعلانیہ طور پر اس منصوبے سے منسلک ہونے کا فائدہ دیکھا۔ درحقیقت یہ رسالہ چھاپرا کے خاندانی پرنٹنگ پریس سے شائع ہوتا تھا۔
چھاپرا اور پٹیل دونوں کو ایک سال پڑھائی چھوڑنے کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ چھاپرا نے جامعہ کراچی کے بعد روزنامہ جنگ میں شمولیت اختیار کرلی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی قیادت کرتے ہوئے ٹریڈ یونین محاز پر سر گرم ہو گئے۔ ایک موقع پر اُنھوں نے اضغر خان کی تحریکِ استقلال کے ٹکٹ پر انتخابات میں بھی حصّہ لیا۔ راشد پٹیل لیکچرار بنے اور تعلیمی سیاست میں حصّہ لیا لیکن جوانی میں انتقال کر گئے۔
ضیاءالدّین صاحب کو وائس آف اسٹوڈنٹ کا دوسرا ایڈیشن تیار کرنے میں پندرہ دن لگے لیکن اس بار اس کا ماسٹر ہیڈ خالی چھوڑ دیا گیا۔ بالآخر وہ اس رسالے کی اشاعت بند کرنے پر مجبور ہوگئے جب اُن کے اُستاد رحمان صاحب نے اُن کے اور اختر فاروقی کے انداز کو پہچان کر اُنھیں اپنے اقدام سے باز رہنے کی وارننگ دی
پاکستان اسپاٹ لائٹ کا زیڈ اے بی(ذولفقار علی بھٹّو) کا انٹرویو
1966 میں صحافت میں ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد، ضیاء الدین صاحب نے پاکستان اسپاٹ لائٹ کے نام سے ایک ماہانہ نیوز میگزین کا آغاز کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شخص (یعنی ضیاء عبّاس) کو انہوں نے طلبہ یونین کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی، وہی اس کے پبلشر تھے۔ وہ مسلم لیگی آدمی تھے لیکن اُنھوں ضیاء الدین صاحب اور ان کی ٹیم کو مکمل ادارتی خودمختاری دی۔
سرور نقوی، جو بعد میں دفتر خارجہ میں شامل ہوئے اور اہم دارالحکومتوں میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہو گئے، اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ ان کے ساتھ شعبہ صحافت سے نئے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے لوگ شامل ہوئے (اختر فاروقی، وراثت حسنین، ضمیر عالم، مہر کمال، روحی ذکا اللہ اور گیتی آرا)۔
پاکستان اسپاٹ لائٹ کے پہلے شمارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ایک جامع کور اسٹوری تھی جو ابھی ابھی ایوب کابینہ چھوڑ کر اپنی پارٹی بنانے کی بات کر رہے تھے۔ تاشقند اعلامیہ، جس پر سویت یونین نے 1965 میں 17 روزہ جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کو دستخط کرنے میں مدد کی تھی اور جو تعطّل پر ختم ہوگئی تھی، پر صدر ایوب خان کے ساتھ ذولفقار علی بھٹّو کے شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ بھٹو کا ایک متاثر کن پروفائل تھا جس کے سرورق پر ان کی کلفٹن کی 70 رہائش گاہ کے لان میں ایک ایزی چیئر پر فکر مند موڈ میں تصویر لی گئی تھی۔
تاہم، تقریباً چار شماروں کے بعد، پبلشر کے پاس فنڈز ختم ہو گئے اور انہوں نے پرنٹنگ روک دی۔
پاکستان پریس ایجنسی، جاوید بخاری اور ایوب خان
ضیاء الدین صاحب نے اس وقت پاکستان کی واحد نجی نیوز وائر پاکستان پریس ایجنسی میں شمولیت اختیار کی جس کا نام بعد میں پاکستان پریس انٹرنیشنل رکھ دیا گیا۔ اُنھیں ایک عہدے کی پیشکش کی گئی تھی جو اُن کے دوست جوہر حسین کو کسی بناوٹی بہانے سے وہاں سے جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ جوہر نے ایک سال قبل ماسٹرز مکمل کیا تھا اور وہ پی پی اے میں پروبیشن پر کام کر رہے تھے۔ یہ ملازمت اُن کی پروبیشنری مدت ختم ہونے کے بعد اُن کے پاس چلی جاتی اور انھیں لیبر قوانین کے تحت مستقل ملازم کی تمام مراعات کے لیے اہل ہونے کا حق حاصل ہوتا۔ یہ تنظیم پر ایک ‘ناقابل قبول’ اضافی مالی بوجھ ہوتا اور اس کے مقابلے میں جوہر حسین کو نوکری سے نکالنا اور خالی اسامی کے لیے نئے ضیاء الدین کو بھرتی کرنا آسان عمل تھا- یہ ان دنوں اس پیشے میں ملازمت کے حالات ایسے تھے۔ تنخواہ صرف 75 روپے تھی۔
پی پی اے کے بیورو چیف جاوید بخاری تھے، جو بالآخر ڈان کے اکنامک اینڈ بزنس ریویو کے انچارج ایڈیٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وائر ایجنسی کی قیادت مرحوم اشفاق بخاری اور انور منصوری کر رہے تھے۔ انور منصوری جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے پاکستان میں چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ کسی بھی غیر سنجیدگی کو نا برداشت کرنے والے جاوید بخاری ایک سخت گیر ماسٹر اور self taught اکنامک صحافی تھے۔ دوسری طرف اشفاق ایک پر سکون پیشہ ور تھے جن کا دل غریبوں اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے لیے دھڑکتا تھا۔
یہ بے ترتیب اوقات تھے۔ اگست 1970 تک وہاں ہلچل مچ گئی۔ اخباری کارکنوں نے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کر دی، مالکان کی جانب سے کم از کم تنخواہ مقرر کرنے والے ویج بورڈ ایوارڈ سے انکار کے خلاف احتجاج کیا۔ صحافی پہلے ہی 1963 میں ایوب خان کے جاری کردہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس (پی پی او) کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور اخبارات کے مالکان اور صحافیوں کے درمیان لڑائی میں متعدد پیشہ ور افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پی پی او اپنی انتہائی شکل میں ایک سخت قانون تھا۔ مختصراً یہ کہ اگر ملک کے کسی دور دراز کونے میں بیٹھے کسی اہلکار کو آپ کی قمیض کا رنگ پسند نہ آیا تو وہ آپ کی پرنٹنگ پریس ضبط کر سکتا ہے، اخبار بند کر سکتا ہے، آپ کو جیل بھیج سکتا ہے اور چابی پھینک سکتا ہے اور قانون کو کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
پاکستان اکانومسٹ، خان آف قلات کا انٹرویو
جب حالات تبدیل ہو رہے تھے، ضیاء الدین 1974 میں PPA سے ہفتہ وار پاکستان اکانومسٹ میں چلے گئے (بعد میں پاکستان اور گلف اکانومسٹ) جہاں ابن الحسن ایڈیٹر تھے۔ حسن کے پاس معیشت، سیاست، خارجہ امور یا کسی سماجی مسئلے پر ایک تجزیاتی تحریر کو اُس کے مصنف کے بنیادی پیغام کو برقرار رکھتے ہوئے مکمل طور پر دوبارہ لکھنے کی غیر معمولی مہارت تھی (وہ اس کو ایڈیٹنگ کہتے تھے)۔ وہ یہ کام اتنی نفاست اور اسلوب سے کرتے کہ مضمون پڑھ کر خوشی ہوتی۔
پاکستان اکانومسٹ میں ضیاء الدین صاحب نے خان آف قلات کا انٹرویو کیا۔ ضیاالدین صاحب یاد کرتے ہیں، “جسمانی طور پر ایک بہت بڑی شخصیت، لیکن فکری طور پر ایک عظیم شخص، خان کے ساتھ بات چیت کرنا غیر معمولی طور پر خوشگوار (تجربہ) تھا۔” “اُنھوں نے جو کہا وہ کلاسیکی سیاست کا سبق تھا۔ یہ ایک ذہنی مشق تھی جس نے میرے ذہن پر ایک دیرپا نقش چھوڑا۔ انہوں نے ضیاءالدّین صاحب کو بلوچستان کی، تقسیم سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں ایک سرسری تفصیل بیان کی، قائداعظم کے ساتھ ان کے جو تعلقات تھے اُس کے بارے میں بتایا، ایک آزاد پاکستان کے اندر بلوچستان کے بارے میں ان کے وژن پر روشنی ڈالی اور اس وژن کو کس طرح توڑا گیا اس کی وضاحت کی۔ جناح کی موت کے فورا بعد اگر پاکستان کی مرکزی حکمران اشرافیہ نے آزاد پاکستان میں خان آف قلّات کے بلوچستان کے وژن کے ساتھ یکسر ہم آہنگی کی ہوتی تو شاید یہ ملک آنے والے 73 سالوں کے دوران ہونے والے بیشتر سماجی سیاسی دھچکوں سے بچ جاتا۔ اُنھوں نے کہا، ’’اگر استعماری سوچ رکھنے والے مرکز نے ان تمام سالوں میں ان پر ظلم نہ کیا ہوتا تو بلوچستان کے لوگ اپنی تمام تر معدنی وسائل اور سفید ریت کے وسیع ساحل کے ساتھ ملک کو تمام مغربی ممالک، بشمول تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک سے بہت آگے خوشحالی کی راہ پر گامزن کر چکے ہوتے۔”
وزیر پیداوار رفیع رضا کے ساتھ ضیاء الدین صاحب کا انٹرویو بالکل مختلف تھا۔ وزارت پر انٹرویو کے بعد، ضیاء الدین نے رضا سے وزیر اعظم زیڈ اے بھٹو کی قیادت میں حکومت اور ولی خان کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان کشمکش کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے۔ رفیع رضا کا مختصر لیکن پیشن گوئیانہ جواب تھا: دونوں کو 90,000 یا اس سے زیادہ POWs کی واپسی سے پہلے کچھ خوش آئند افہام و تفہیم پر آجانا چاہیے، (ان میں سے ایک اچھی تعداد آرمی کے اہلکار، دونوں افسران اور رینکرز ہیں)، جو اس وقت بھارت کے زیر حراست تھے۔ دوسری صورت میں، انہوں نے کہا، حالات بہت خراب ہونگے. اُنھوں نے یہ تاثر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی سیاسی طور پر غالب پوزیشن پر واپس آنے کے لیے انتہائی بے صبری سے صرف اپنی فوجوں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی فوجیوں کی گھر واپس ہوئی بالکل ایسا ہی ہوا — وزیر اعظم نے بلوچستان میں مینگل حکومت کو علیحدگی کی سازش کے کچھ ترپ شدہ الزامات کے تحت برطرف کر دیا، جس کے ‘ثبوت’ اسٹیبلشمنٹ نے ظاہر کیے تھے۔ احتجاج کے طور پر، وزیراعلیٰ مفتی محمود کی قیادت میں صوبہ سرحد کی مخلوط حکومت نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد ملک ایک انتہائی غیر مستحکم سیاسی مرحلے میں داخل ہوا جس کا اختتام اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے، بھٹو کی گرفتاری اور اس کے بعد پھانسی اور آمریت میں توسیع پر ہوا۔ جو گیارہ سال تک جاری رہا۔
ٹی وی اور مارننگ نیوز
وہ ابھی پاکستان اکانومسٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، جب ضیاء الدین صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام The World Tonight کے لیے کرنٹ افیئرز پر ملک کے اعلیٰ انگریزی اسکرپٹ رائٹرز کے ایک منتخب گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ایک ہفتہ وار پروگرام ہوا کرتا تھا جسے معروف دانشور، سیاست دان اور ایڈورٹائزنگ جینئس جاوید جبار پیش کیا کرتے تھے۔ ضیاء الدین صاحب نے اس پروگرام کے لیے بہت سے اسکرپٹ لکھے لیکن سب سے بہترین اسکرپٹ، ان کے مطابق، عالمی آبادی اور سمندر کے قانون پر تھے۔
1976 میں اس وقت کے ایڈیٹر سلطان احمد کی دعوت پر ضیاء الدین صاحب نے “مارننگ نیوز” میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر شمولیت اختیار کی۔ رفیق جابر، امان اللہ، اختر پیامی (سٹی ایڈیٹر) جیسے سینیئر صحافی ان کے ساتھی تھے۔
ضیاء الدین صاحب، سلطان احمد کو ایک مشکل ایڈیٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں جو ادارتی کوتاہیوں کے لیے اپنے سینئر ترین ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ “میں نے تصادم سے بچنے کے لیے لو پروفائل رکھا،” وہ یاد کرتے ہیں۔ جب جنرل ضیاءالحق نے جولائی 1979 میں بغاوت کر کے اقتدار سنبھالا تو ملک یکسر بدل گیا۔ حسبِ توقع حکومت نے سلطان احمد کو ہٹا کر SR Ghauri سے تبدیل کردیا۔ غوری ایک “بہترین ایڈیٹر” تھے، انتہائی پیشہ اور ایک خیال رکھنے والا انسان تھے۔
غوری کو یہ ملازمت کسی آرمی کنکشن کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی، جو ان کے پاس نہیں تھا، بلکہ ان کے اور بھٹو کے درمیان کھلی دشمنی کی وجہ سے دی گئی تھی جو اُن کے درمیان ماہانہ ہیرالڈ کی ایڈیٹنگ کے دوران موجود تھی۔ تاہم غوری اور صاحبانِ اقتدار کے درمیان تعلقات کو ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور وہ ملازمت چھوڑ کر اس پیشے سے مستقل طور پر محروم ہو گئے۔ مارننگ نیوز میں ضیاءالدین صاحب کی ذمہ داریوں میں سے ایک اداریہ لکھنا تھا، لیکن آمریت سے سخت نفرت کے پیش نظر، انہوں نے سوچا کہ اگر وہ ملازمت میں رہنا چاہتے ہیں تو، داخلی حالات پر لکھنے سے گریز کرنا ہی ان کا بہترین انتخاب ہے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ، جو مارننگ نیوز کا مالک تھا، راتوں رات معزول سویلین حکومت، خاص طور پر بھٹو مخالف بن گیا اور اس میں اس حد تک تبدیلی آگئی کہ اس کا کام بھٹوکے خلاف ہر قسم کے حقیقی اور خیالی سکینڈلز کی کھوج لگانا بن گیا۔ ضیاء الدین صاحب نے استعفیٰ دینے کا سوچا لیکن ملازمت کا بازار تنگ تھا اور وہ اپنے وقت کے ہاتھوں مجبور تھے۔ انہوں نے غوری صاحب کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ یہ درخواست کیوں کر رہے ہیں درخواست کی کہ انہیں اداریوں کے لیے صرف غیر ملکی عنوانات تفویض کریں۔ غوری آسانی سے راضی ہو گئے اور ضیاء الدین نے اس وقت سے مقامی سیاست سے کنارہ کش ہو کر بین الاقوامی مسائل پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے باوجود، وہ بیروت میں خانہ جنگی اور امریکیوں کے ادا کردہ کردار پر اداریوں کی ایک سیریز پر مشکل میں پڑ گئے۔
معلوم ہوا کہ ایک ساتھی صحافی نے NPT چیئرمین سے شکایت کی تھی لیکن اُن کے نظریاتی جھکاؤ پر نہیں۔ یہ شکایت اسی سال کراچی پریس کلب کے انتخابات کے دوران کی گئی تھی۔ ضیاء الدین کے ہم عصر اور قریبی دوستوں میں سے ایک معروف بائیں بازو کے صحافی اشفاق بخاری انتخابات میں کھڑے تھے۔ جیسا کہ ضیاء الدین صاحب یاد کرتے ہوئے بتایا، شکایت بخاری کے قریبی لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں کی گئی تھی تاکہ وہ اُن کے لیے مہم یا ووٹ نہ دیں۔ این پی ٹی کے چیئرمین کو بتایا گیا کہ مارننگ نیوز میں کام کرنے والے ایک “سوویت نواز کمیونسٹ” نے امریکہ کے خلاف انتہائی تنقیدی اداریے لکھے ہیں۔ “یہ رمضان کا پہلا دن تھا اور NPT کے چیئرمین ایک NPT اخبار میں چھپے اس ‘سوویت نواز کمیونسٹ’ سے ملنے کے لیے دفتر آئے تھے،” ضیاء الدین صاحب یاد کرتے ہیں۔ “مجھے ایڈیٹر کے کمرے میں بلایا گیا جہاں دونوں [ان میں سے]، چیئرمین اور ایڈیٹر چائے پی رہے تھے۔” ضیاء الدین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی کپ پینا پسند کریں گے لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ روزہ سے ہیں۔ کچھ مختصرسی گفتگو کے بعد ایڈیٹر نے اُنھیں اپنی نشست پر واپس جانے کو کہا۔
بعد ازاں این پی ٹی چیئرمین کے جانے کے بعد ایڈیٹر نے ضیاء الدین صاحب کو واپس بلایا۔ اُنھوں نے دیکھا کہ غوری صاحب اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کے چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ کے ساتھ غوری صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’چیئرمین لاہور سے اپنے ٹرسٹ میں چھپے سوویت نواز کمیونسٹ کو برطرف کرنے آئے تھے اور روزہ دار سے ملاقات کے بعد واپس چلے گئے!’‘
ضیاء کے دور میں سنسر شپ
پھر بھی، اداریے لکھنے کا مطلب تنازعہ کو دعوت دینا تھا۔ 1978 میں جب جنرل ضیاء الرحمان نے بنگلہ دیش سے مارشل لا ہٹایا تو ضیاء الدین صاحب نے ایک اداریہ لکھا جس میں اس اقدام کا خیرمقدم کیا گیا، لیکن پہلے خیر مقدمی جملے کے بعد آمریت کی عمومی تنقید کی گئی، جس کی آسانی سے غلط تشریح کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کی بے حسی کے بارے میں ہے۔ بھٹو کے اس وقت کے تازہ ترین مضمون “اگر مجھے قتل کر دیا گیا” کے چند اقتباسات کو، یقیناً اُن کا نام لیے بغیر مضمون میں شامل کیا گیا تھا۔ مرحوم واز الدین، (ضیاءالدّین صاحب کے)ایک مخلص دوست، جنہوں نے (بنگالی ہوتے ہوئے) بنگلہ دیش واپس نہ جانے کا انتخاب کیا تھا، ریڈیو پاکستان پر کام کرتے تھے اور اُن کا کام تھا کہ وہ دن کے اہم ترین اداریوں کا انتخاب کرتے اور انہیں ہر صبح زبانی طور پر نشر کرتے۔ اُنھوں نے اداریہ کا عنوان دیکھا جس میں ان کی جائے پیدائش کا حوالہ دیا گیا تھا اور اس پر غور کیے بنا پورا متن بغیر وقفہ پڑھ ڈالا۔
اس نے اس وقت کے خوفناک انفارمیشن سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان کی توجہ مبذول کرالی، جنہوں نے مطالبہ کیا کہ اداریہ لکھنے والے کو فوری طور پر برطرف کیا جائے۔
ضیاء الدین صاحب کو تحریر لکھنے کا افسوس نہیں ہوا لیکن غوری صاحب کے اعتماد کو توڑنے کا انہیں افسوس تھا۔ چونکہ جمعہ کا دن تھا، غوری صاحب ہفتہ وار چھٹی پر تھے جس کی وجہ سے پریس میں جانے سے پہلے انہوں نے اداریہ نہیں دیکھا تھا۔ ضیاالدین صاحب کا کہنا ہے کہ “میں نے اُنھیں بتایا کہ مجھے ان کے اعتماد کو توڑنے پر افسوس ہے لیکن میں نے ترمیم لکھنے پر کوئی افسوس محسوس نہیں کیا۔” غوری صاحب نے اسے اپنے مخصوص انداز میں سنبھالا۔ ضیاالدین کو ایک اداریہ لکھنے پر شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد “جس سے کسی غیر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں” اور ضیاء الدین نے تحریری طور پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ارادہ نہیں تھا، غوری صاحب اور ضیاء الدین دونوں ایک ایک ماہ کی چھٹی پر چلے گئے۔ “آئیے دیکھتے ہیں کہ جب ہم واپس آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے!” اُنھوں نے کہا تھا. یہ دونوں آدمیوں کی آخری ملاقات تھی۔ غوری صاحب نے فوراً استعفیٰ دے دیا اور ضیاء الدین صاحب کو اسلام آباد سے شروع ہونے والے اخبار دی مسلم میں ملازمت کی پیشکش ہوئی۔
“مسلم” کے سال، سیٹھ ایڈیٹر تعلقات
کراچی میں تقریباً 20 سال رہنے کے بعد، ضیاء الدین صاحب اسلام آباد چلے گئے جہاں انہوں نے 1978 میں دی مسلم کے ایڈیٹر، اے ٹی چوہدری کے ساتھ کام کیا۔ “وہ ایک مکمل ایڈیٹر تھے،” ضیاء الدین صاحب یاد کرتے ہیں۔ لیکن اخبار کے مالک، آغا مرتضیٰ پویا، غیر مخفی عزائم کے ساتھ جزوقتی سیاست دان تھے۔ چوہدری صاحب کی قیادت میں اخبار کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا، اسی طرح آغا کے سیاسی عزائم اور ادارتی فیصلہ سازی میں ان کی مداخلت بھی بڑھی۔
ضیاء کی آمریت کے عروج پر مسلم کا آغاز ہوا۔ ادارتی طور پر، اے ٹی نے وہی کیا جو اخبار کے سینئرز ایک مشکل حالات میں کرتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی کوریج اہم ہوگی لیکن محاذ آرائی نہیں ہوگی۔ منہاج برنا سمیت اخبار کے زیادہ تر سینئر سٹاف ان صحافیوں کی بڑی تعداد پر مشتمل تھا جن کو نیشنل پریس ٹرسٹ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک کھلا خط لکھنے پر پاکستان ٹائمز سے برطرف کیا گیا تھا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ادارتی ٹیم کے اس پہلو کے بارے میں سوال کیا گیا تو، اے ٹی نے ‘باغیوں’ کو اپنی کڑی نظر میں رکھنے کے فوائد گنوائے بجائے اس کے کہ وہ حکومت کے لیے شرمناک فساد پیدا کریں۔ ایڈیٹر نے حکمران جماعت کے ساتھ باہمی احترام کا ایک قسم کا تعلق پیدا کر لیا تھا جس نے شاید اخبار کے لیے یہ جگہ پیدا کر دی تھی کہ وہ سمجھدار قاری کے درمیان اپنی ساکھ قائم کر سکے۔
ضیاءالدین صاحب اور دیگر سینئر ساتھی روزانہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں بنے ہوئے صفحات لے کر جاتے تھے جہاں ایک جونیئر انفارمیشن آفیسر نہایت باریک بینی کے ساتھ اُن کا جائزہ لیتا۔ جو کچھ بھی افسر نے محسوس کیا کہ وہ حکومتی پالیسی کے مطابق نہیں ہے یا حکومت پر تنقید ہے، اسے صفحہ سے ہٹا دیا جائے گا۔ نیوز روم میں واپس، صفحہ انچارج کو خالی جگہ کو کچھ معصوم کہانی سے بھرنا پڑے گا۔ لیکن چند مہینوں کے بعد، اخبار نے جان بوجھ کر خالی جگہوں کو چھوڑنا شروع کر دیا جیسا کہ پرنٹ میں ہے- یہ سنسر شپ کے خلاف ایک خاموش احتجاج تھا۔ ضیاء کے دور میں ایک اور قانون بھی متعارف کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی ہتک آمیز کہانی حقائق اور سچائی پر مبنی ہو تب بھی اخبار کو سزا دی جائے گی۔
1981 میں، جب پبلشر کے عزائم بالآخر آشکار ہو گئے تو اے ٹی چوہدری گھر چلے گئے۔ یہ دی مسلم کے ساتھ ان کی مختصر لیکن واقعاتی وابستگی کا خاتمہ تھا۔ اس کے باوجود ضیاء الدین صاحب اور چند ساتھی لاہور گئے تاکہ اُنھیں واپس آنے پر راضی کریں لیکن اے ٹی نے انکار کر دیا۔ انہوں نے بلکہ ان کو سمجھایا کہ پبلشر آغا مرتضیٰ پویا کی ایڈیٹر کی ذمہ داریوں کی سمجھ کیا تھی: ’’کیا آپ نے ایک ماہر فنکار کو اپنے کینوس کے سامنے ہاتھ میں برش لیے کام کرتے دیکھا ہے؟ اس کے اسٹروک اور جو کچھ کینوس پر ابھرتا ہے وہ اتنا آسان، اتنا آسان نظر آتا ہے۔ جب وہ واقعی پینٹنگ برش کو ہاتھ میں لے کر کینوس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے جس سے وہ پینٹنگ شروع کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو وہ جان جائیں گے کہ وہ خود کو کس طرف لے گئے ہیں!
چوہدری صاحب ٹھیک کہتے تھے۔ آغا پویا جلد ہی راستہ بھول گئے۔ پھر مایوسی کی وجہ سے کچھ ساتھیوں نے اخبار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی قیادت ضیاء الدین صاحب نے کی۔ پویا نے کنٹرول حاصل کرنا چاہا لیکن صحافیوں نے ہار نہیں مانی۔
انفارمیشن سیکرٹری مجیب الرحمان اس پیش رفت سے خاصے برہم تھے۔ جب ضیاء الدین صاحب نے مارننگ نیوز سے استعفیٰ دیا تھا تو رحمان نے انہیں ایڈیٹر کی نوکری کی پیشکش کی تھی اگر وہ پی ایف یو جے سے دستبردار ہو جائیں اور یونین کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ ضیاء الدین نے پیشکش ٹھکرا دی تھی۔
پہلے ضیاء الدین صاحب کا بنگلہ دیش کا اداریہ، پھر پی ایف یو جے سے استعفیٰ دینے سے انکار اور اب یہ ٹیک اوور۔ انفارمیشن سکریٹری بدتمیز تھے۔ “ایک قبضہ اور وہ بھی دارالحکومت کے مرکزی راستے پر!” مسلم عین آبپارہ روڈ پر واقع تھا۔ رحمان نے پوری ادارتی ٹیم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ضیاالدین صاحب کہتے ہیں، ’’خوش قسمتی سے میں گرفتاری سے بچ گیا کیونکہ میں اپنی بیوی کے ساتھ فلم دیکھنے گیا تھا۔ “جب میں دفتر واپس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پولیس نے احاطے پر قبضہ کر لیا ہے۔ مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اور میرے تمام ساتھی غائب تھے۔
پہلا کام ضیاءالدّین صاحب کی ٹیم کے لیے اپنے ساتھیوں کو رہا کرانا تھا۔ روئیداد خان اس وقت وفاقی سیکرٹری داخلہ تھے اور کسی نہ کسی طرح وقت ضائع کیے بغیر ریلیز آرڈر جاری کر دیا گیا، شاید اس لیے کہ انتظامیہ نہیں چاہتی تھی کہ دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو جہاں تمام سفارت خانے اور بیشتر غیر ملکی خبر رساں اداروں کے بیورو واقع تھے۔ پھر آغا پویا سے مالی مذاکرات شروع ہوئے۔ ضیاء الدین فخر کے ساتھ یاد کرتے ہیں کہ سیاست دان سے سینیٹر بنے آغا مرتضی پویا کو ان تمام صحافیوں کی تین ماہ کی علیحدگی کی تنخواہ دینی پڑی جن کو انہوں نے برطرف کیا تھا۔ اس مہم میں سب سے آگے ایک سرگرم ٹریڈ یونینسٹ ایاز امیر اور مسلم یونین کے ایک عہدیدار اقبال جعفری تھے، جنہیں ضیاء کے دور حکومت کے ابتدائی دنوں میں ناصر زیدی کے ساتھ عدالت کی طرف سے کوڑے مارے گئے تھے۔
اس واقعہ کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ نکلا کہ ضیاء الدین صاحب کے اکثر اخباری ساتھی جن کے پاس اسلام آباد میں رہنے کی جگہ نہیں تھی، ان کے گھر پر ڈیرے ڈالنے لگے۔ “یہ ان دنوں ایک ایسے موٹل کی طرح لگتا تھا جہاں تل دھرنے کی گنجائش نا ہو۔”
پراسرار آمدنی کی کہانی
مالی سال 1981 کے آخر میں، ضیاء الدین صاحب نے کراچی میں دی مسلم میں جاوید بخاری صاحب کی ایک اسٹوری دیکھی، جو وہاں دی مسلم بیورو کے سربراہ تھے۔ یہ وفاقی حکومت کی جانب سے ریاستی اداروں کو دیئے گئے قرضوں کو فوری طور پر واپس لینے کے بارے میں تھی۔ یہ رقم کافی زیادہ لگ رہی تھی اور جیسے ہی ضیاء الدین صاحب نے محسوس کیا کہ اُن کا تصور اس بارے میں بہتر ہوتا جا رہا ہے، اُنھوں نے سال کے لیے آمدنی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے بجٹ کی دستاویزات کھنگالی۔
انھوں نے ٹارگٹ سے واپس منگوائی جانے والی رقم کو محض کٹوتی کیا اور اس اسٹوری کے ساتھ سامنے آئے کہ آمدنی میں اتنی ہی کمی ہوگی۔ رقم میں مزید صداقت شامل کرنے کے لیے، اُنھوں نے decimals تک کے اعداد و شمار دیے
انھوں نے ٹارگٹ سے واپس منگوائی جانے والی رقم کو محض کٹوتی کیا اور اس اسٹوری کے ساتھ سامنے آئے کہ آمدنی میں اتنی ہی کمی ہوگی۔ رقم میں مزید صداقت شامل کرنے کے لیے، اُنھوں نے decimals تک کے اعداد و شمار دیے
دی مسلم میں اسٹوری کے شائع ہونے کے بعد، بہت سے سرکاری لوگوں کے ساتھ ساتھ اخبار کے ساتھیوں کے کچھ دوستوں نے ضیاء الدین صاحب پر اسٹوری کا ماخذ بتانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ایک شخص نے پوچھا: ’’بس مجھے وہ سیکرٹریٹ بلاک بتائیں جہاں سے آپ کو یہ اسٹوری ملی ہے۔‘‘ ضیاء الدین صاحب شاید ہی کسی بلاک کا نام بتا سکتے کیونکہ اسلام آباد آنے کے بعد سے وہ وفاقی سیکرٹریٹ گئے ہی نہیں تھے۔
اس اسٹوری کے سامنے آنے کے دو سال بعد، ضیاء الدین صاحب کو ایک باہمی دوست سجاد اختر کے ساتھ فنانس سیکرٹری ایچ یو بیگ کے دفتر لے جایا گیا، جو ہفتہ وار پاکستان اکانومسٹ کے پبلشر تھے۔ جب ان کا تعارف کرایا گیا تو سیکرٹری خزانہ اپنی کرسی سے چھلانگ لگاتے ہوئے بولے: ’’آپ ضیاء الدین ہیں؟‘‘ وہ تقریبا چلائے.
“اگلے 15 منٹ میں صدمے کی حالت میں داخل ہونے کی میری باری تھی،” ضیاء الدین یاد کرتے ہیں۔ “میری 1981 کے بجٹ کی اسٹوری میں ریونیو شارٹ فال کی مقدار اعشاریہ تک درست تھی۔ اور اس تخمینے والی فائل کو وزارت خزانہ میں تالا اور چابی کے نیچے رکھا گیا تھا جس کی رسائی بیگ صاحب اور ان کے سیکرٹری تک محدود تھی جو ان کے اعتماد کے آدمی تھے۔ بیگ صاحب نے انکشاف کیا کہ انٹیلی جنس ایجنٹوں نے ضیاالدین صاحب کی اسٹوری کے ماخذ کا پتہ چلانے کے لئے کو تقریباً دو ماہ تک اُن کا تعاقب کیا۔ وہ اس کا کبھی پتہ نا چلا سکے۔
پوسٹ اسکرپٹ: 1983 میں، ضیاء الدین صاحب نے آئی ایم ایف کے پروگراموں کے حالات کو بے نقاب کرنے والی اپنی اسٹوری کے لیے اے پی این ایس کا بہترین تحقیقاتی کہانی کا ایوارڈ جیتا تھا۔
پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں قابض سوویت فوجیوں کے خلاف امریکی جہاد میں مدد کے بدلے میں امریکہ کی جانب سے پانچ سالہ 3.02 بلین ڈالر اور اقتصادی امدادی پیکج کی پیشکش پر دستخط کیے تھے۔ اس لیے آئی ایم ایف پروگرام اپنی شرائط کے ساتھ پہلی قسط سے زیادہ نہیں چل سکا۔
پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں قابض سوویت فوجیوں کے خلاف امریکی جہاد میں مدد کے بدلے میں امریکہ کی جانب سے پانچ سالہ 3.02 بلین ڈالر اور اقتصادی امدادی پیکج کی پیشکش پر دستخط کیے تھے۔ اس لیے آئی ایم ایف پروگرام اپنی شرائط کے ساتھ پہلی قسط سے زیادہ نہیں چل سکا۔
ڈان، ضیاء اور پی ایف یو جے میں کام شروع کرنا۔
1982 میں، ضیاء الدین صاحب نے معیشت پر رپورٹنگ کرنے کے لئے ڈان کے اسلام آباد بیورو کو جوائن کیا۔ اس بیورو کی قیادت مرحوم ایم اے منصوری کر رہے تھے، جن کے بعد حسن اختر مرحوم اور 1990 تک ضیاء الدین صاحب،اختر صاحب کے بعد آئے۔
دی مسلم میں اپنے تجربے کے بعد ضیاء الدین نے محسوس کیا کہ ڈان کا کلچرمختلف تھا۔ اس کے مالک محمود ہارون جنرل ضیاء کے وزیر داخلہ تھے لیکن دی مسلم کے برعکس ضیاء الدین کو یہ احساس نہیں تھا کہ ادارتی مداخلت ہے۔ دراصل ایڈیٹر احمد علی خان مکمل کنٹرول میں نظر آئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جنرل ضیاء کی میڈیا سنسر شپ میں نرمی آ گئی تھی۔ PFUJ نے اپنا کام ختم کر دیا تھا لیکن خوش قسمتی سے، اس کے ممبران دیانت دار آدمی تھے: نثار عثمانی، منہاج برنا اور افضل خان جیسے بزرگ۔ ضیاء الدین صاحب کہتے ہیں، ’’وہ حقیقی معنوں میں دانشور تھے۔ “[وہ] پڑھے لکھے اور فصیح تھے۔ کسی بھی حکومت-PFUJ بات چیت میں یونین کی ٹیم بات چیت پر حاوی ہوگی۔”
درحقیقت، ایک تاریخی مثال جنرل ضیاء اور ڈان لاہور کے بیورو چیف اور PFUJ کے اہم رہنما مرحوم نثار عثمانی کے درمیان لاہور ائیرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس کے دوران مذہب پر ہونے والی غیر رسمی بحث ہے۔ عثمانی صاحب نے وہ بحث جیت لی اور ریکارڈنگ کی کیسٹس پورے ملک میں بلیک میں فروخت ہوئیں۔
PFUJ آزادی صحافت، پر سخت پابندیوں، سخت سنسر شپ، اور مارشل لا کے خلاف ریلیاں نکال کر، جنرل ضیاء کی حکومت کے لیے ایک کانٹا بنی رہی۔ اس کے ارکان روزانہ کی بنیاد پر گرفتاری دے کر جیلیں بھرتے تھے۔ حکومت نے اسے عالمی دارالحکومتوں میں اس کی امیج کے لیے نقصان دہ قرار دیا کیونکہ بی بی سی مسلسل خبروں سے آگاہ کرتا تھا۔
چالاک حکمت عملی کے طور پر جنرل ضیاء نے پی ایف یو جے کے اتحاد کو نشانہ بنایا اور اس کے اندر اختلافات کے بیج بو کر اسے توڑ دیا۔ اپنے مشیروں کی مدد سے اس نے کچھ صحافیوں کی سرپرستی شروع کر دی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دائیں بازو سے تھا، جبکہ باقیوں کو نظر انداز کر دیا۔ اس نے کچھ چنے ہوئے لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کیا اور انہیں ترقی دی۔ وہ اسے اپنے مسائل کے حل کے لیے بلا سکتے تھے اور اپنے کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ اس طرح، جب اُنھوں نے اپنا کام ختم کیا، ضیاء نے PFUJ کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا تھا — بائیں بازو اور دائیں بازو — بائیں بازو کو، برنا اور نثار عثمانی کی قیادت میں، بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا گیا تھا۔
اس عرصے کے دوران، ڈان کے مالک محمود ہارون جنرل ضیاء کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے لیکن جیسا کہ ضیاء الدین صاحب بیان کرتے ہیں، ہارون نے اپنے پورے دور میں اسلام آباد بیورو کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا اور نہ ہی غلط کہانیاں لگا کر ضیاء الدین صاحب کو ایڈیٹر کی طرف سے کبھی کوئی ہدایت نہیں ملی کہ وزارت داخلہ یا سی ڈی اے جو اس وقت محمود ہارون کے ماتحت ہوا کرتی تھی، اس کے بارے میں کیسے رپورٹ کریں۔
ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے ثابت کیا کہ ڈان میں انتظامیہ اور اداریہ کی علیحدگی کس حد تک تھی۔ ضیاء الدین غیر ملکی کام کے دورے سے واپس آرہے تھے کہ جہاز میں ان کے ساتھ والی سیٹ پر ایک خوبصورت خاتون نے گفتگو شروع کی اور پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ “اوہ، آپ ڈان کے لیے کام کرتے ہیں!” وہ بولیں “ڈان حکومتی پالیسیوں پر بہت زیادہ تنقید کرتا ہے اور اپوزیشن کے ماؤتھ پیس کی طرح ہے!” جب اُنھوں نے اس خاتون سے کچھ دریافت کیا تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ محمود ہارون کی قریبی رشتہ دار ہیں۔
ضیاء برقرار، ڈان کی توسیع
PFUJ کے اتحاد کو تباہ کر کے اسے غیر موثر بنانے کی کوشش کرنے کے بعد، جنرل ضیاء نے اخبار کے مالکان کو ان کی ضروریات کے مطابق ‘سختی سے’ ڈیوٹی فری نیوز پرنٹ درآمد کرنے کی اجازت دے کر خریدنے کی کوشش کی، جس کا اندازہ ان کی سرکولیشن کی بنیاد پر لگایا جانا تھا۔
جیسا کہ بالزاک نے کہا، ہر بڑی خوش قسمتی کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا جرم تھا جب اخبار کے مالکان نے انتہائی مبالغہ آمیز سرکولیشن نمبرز کا دعویٰ کیا تھا تاکہ وہ اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ نیوز پرنٹ درآمد کر سکیں تاکہ وہ درآمدی ڈیوٹی کے مساوی قیمتوں پر مارکیٹ میں زائد فروخت کر سکیں۔ راتوں رات چھوٹے بڑے اخبار مالکان ٹائیکون بن گئے۔ اپنے سرکولیشن نمبروں کو درست ثابت کرنے کے لیے، ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے صفحات اور ایڈیشنز میں اضافہ کیا، ان میں اہم سیاسی ٹکڑوں کے علاوہ ہر قسم کے موضوعات پر فیچرز بھرے۔ ڈان کے مالکان کو بھی فائدہ ہوا اور درحقیقت، دو انتہائی اختراعی ہفتہ وار ایڈیشن شروع کیے گئے: ہفتہ وار ‘اکنامک اینڈ بزنس ریویو’ یا ای بی آر اور ‘کتابیں اور مصنفین’۔
ایس جی ایم بدرالدین، جو ایک بلند پایہ صحافی ہیں اور معیشت پر عبور رکھتے ہیں، ای بی آر کے سربراہ تھے اور اسسٹنٹ ایڈیٹر زبیدہ مصطفیٰ کو کتب اور مصنفین تفویض کیا گیا تھا۔
ای بی آر کا آغاز ضیاء الدین صاحب کے ڈان میں شامل ہونے کے ایک سال کے اندر کیا گیا تھا اور چونکہ اُنھوں نے معاشی رپورٹنگ میں اپنی مہارتیں پیدا کی تھیں، اس لیے وہ بدرالدین صاحب کی ٹیم میں خود بخود شامل ہو گئے۔ اس میں پہلے ہی ڈیسک پر شاہین صہبائی شامل تھے اور بعد میں بابر ایاز، صبیح الدین غوثی اور افشاں صبوحی ٹیم میں شامل ہوئے۔
ای بی آر ٹیم نے دھیرے دھیرے لیکن مضبوطی کے ساتھ حکومت کی حدود کو جانچنا شروع کر دیا، جس میں کسی قسم کی تنقید کی ضرورت نہیں تھی۔ جلد ہی وہ صفحات سیاسی معیشت کے محاورے کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے حکومت کی سماجی و اقتصادی پالیسیوں کی ایک انتہائی تنقیدی براڈ شیٹ میں تبدیل ہو گئے۔
جنرل ضیاء کی حکومت غیر شفّاف تھی۔ یہاں تک کہ انتہائی معمول کی معلومات جیسے مہنگائی کی سرکاری شرح کو بھی قومی راز سمجھا جاتا تھا۔ اس اہم معلومات سے باخبر افسران نے اس سے ایک زبردست منافع بخش کاروبار شروع کیا۔ کاروباری گروپوں کے لابیسٹ، جنہوں نے دارالحکومت میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، ان عہدیداروں کو تمام اہم تجارتی اور کاروباری معلومات کے عوض کاک ٹیل پارٹیوں اور ایسی پیشکشوں کے لالچ دیتے تھے جن کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے
اقتصادی دھند اور سنسر شپ
اس دوران، واپڈا بدعنوانی کی ایک گڑھ بن گیا تھا کیونکہ کثیر الجہتی امدادی ایجنسیوں، خاص طور پر ورلڈ بینک سے پاور پراجیکٹس کے لیے ملنے والی امداد اس کے فیصلہ سازوں نے ہضم کر لی تھی۔ اس کی وجہ سے ان منصوبوں میں غیر معمولی تاخیر ہوئی، جس سے بینک اور دیگر ایجنسیوں کو پبلک سیکٹر میں اس طرح کے کام کے لیے رعایت کو مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور کیا گیا اور حکومت سے نجی شعبے کو لانے کے لیے کہا گیا۔ اس کے نتیجے میں HUBCO کا قیام عمل میں آیا جو WB (ورلڈ بینک) سے غیر رعایتی قرض کے ساتھ اس طرح کا پہلا سیٹ اپ۔ جنرل ضیاء کی 11 سالہ آمریت کے پورے دور میں پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں ایک میگاواٹ کا اضافہ نہیں ہوا۔ اور 1985 تک، پاکستان ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کی لہروں کے رحم و کرم پر تھا کیونکہ گھریلو، تجارتی، مینوفیکچرنگ اور زرعی استعمال کے لیے چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کا دور ختم ہو گیا۔
اسی وقت، قومی بینکوں کو فنانس وزرڈ غلام اسحاق خان کی قیادت میں سرکاری اکنامک مینیجرز کے ذریعے تباہ کیا جا رہا تھا۔ وہ بجٹ کی فنڈنگ کے لیے درکار ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام رہا تھا، جو بڑھتے ہوئے دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات سے بڑھ رہا تھے۔ اور اس طرح حکومت نے بینکنگ وسائل سے 0.6 فیصد کی شرح سے قومی بنکوں سے قرض لینے کا سہارا لیا جو تقریباً 15 سے 20 فیصد کی شرح سے متحرک ہو رہے تھے۔ اس کے بعد، حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو امپورٹ متبادل کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے فروغ کی اسکیم متعارف کرائی۔ نیشنلائزڈ بینکوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ کاروباریوں کو ان کے اپنے حصہ کے 30٪ کے مقابلے میں 70٪ ایکویٹی قرضوں کی پیشکش کریں۔ اس اسکیم کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ پرائیویٹ سیکٹر نے ایک روپیہ بھی خطرے میں ڈالے بغیر دولت کمائی۔ وہ اپنا %30 حاصل کرنے کے لیے مجوزہ مینوفیکچرنگ یونٹس کے لیے ہارڈ ویئر کی درآمدات کی اوور انوائسنگ کرتے، اور اس طرح کمائی گئی غیر ملکی کرنسی غیر ملکی بینکوں میں جمع کراتے — یہ ورچوئل منی لانڈرنگ سرگرمی تھی۔اس کے بعد، وہ اسٹاک مارکیٹ میں اپنے مجوزہ یونٹس کے حصص کو مثال کے طور پر 10 روپے فی حصص کے حساب سے فروخت کرتے، پھر مارکیٹ میں ہیرا پھیری کرکے قیمت کو 5 روپے فی حصص تک گھٹا دیتے، اس کے بعد وہ ان حصص کو واپس خرید لیتے، اس طرح پلانٹ لگانے سے پہلے ہی پیسہ کما لیا جاتا۔ . اور ایک بار جب پلانٹ کام کرنا شروع کر دیتا تو وہ یوٹیلیٹیز کو چوری کرتے اور ٹیکس سے بچتے۔ ان میں سے زیادہ تر کاروباری بینک قرضوں پر نادہندہ ہو جاتے اور لوٹ مار کے ساتھ بیمار یونٹوں کو چھوڑ کر غائب ہو جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسمگل شدہ مال کی ایک بڑی منڈی نے قبائلی علاقوں میں گرج چمک کا کاروبار شروع کر دیا تھا جہاں پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے تھے۔ ان بازاروں کی سرپرستی ان اہلکاروں کے خاندانوں نے کی تھی جو کاروباری لابیوں کو معلومات بیچ کر پیسے کما رہے تھے۔ اس میں الیکٹرانکس اور دیگر گیجٹس کی طویل فہرست کا اضافہ کیا گیا جو بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکن ڈیوٹی فری لا سکتے تھے اور مقامی طور پر بہت زیادہ منافع پر فروخت کر سکتے تھے۔ اس نے نہ صرف پاکستان کو زرمبادلہ سے محروم کر دیا بلکہ کئی نئے بننے والے مینوفیکچرنگ یونٹس کو بھی تباہ کر دیا۔ مثال کے طور پر، ملک میں ٹائر بنانے کی صنعت کو بری طرح نقصان پہنچا۔ ٹویو ناسک برانڈ کے تحت شیشے کے برتن بنانے والی ایک یونٹ کو کھلنے کے چند مہینوں کے اندر اندر بند ہونا پڑا جس کی مصنوعات ملک بھر میں فٹ پاتھوں پر مونگ پھلی کی مانند فروخت ہوتی تھیں۔ وزیر خزانہ غلام اسحاق خان کو اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی کہ یہ معیشت کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ، جیسا کہ انہوں نے کہا، یہ سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر پر کوئی منفی اثر نہیں ڈال رہا تھا! ایک بار، وزیر منصوبہ بندی محبوب الحق سے ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے صحافیوں نے پوچھا کہ 6 فیصد سے زیادہ ترقی کی شرح کے پاکستان کا راز کیا ہے؟ (بھارت کا 2 سے 3 فیصد تھا)۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بحیثیت قوم غربت کو مسترد کر دیا تھا جب کہ بھارت نے اُسے اپنایا تھا۔
وسیع میڈیا سنسرشپ نے فریبوں کو بڑھا دیا۔ ضیاء الدین کا دعویٰ ہے کہ ای بی آر میں، تاہم، عملے نے معیشت کے ان پہلوؤں کی گہرائی سے چھان بین کر کے حدود کی جانچ شروع کر دی تھی اور یہاں تک کہ وہ اس پر سرکار کی سرزنش سے بچے رہتے تھے۔ ایک بار آئی ایس پی آر کے ایک سابق اہلکار، جو ای بی آر کے صفحات میں پڑھ رہے تھے اس سے خوش نہیں تھے، نے ضیاء الدین صاحب کو خبردار کیا۔ لیکن جب ان کی بحث معاملے کی گہرائی تک پہنچی تو افسر نے دلیل کھو دی اور یہ کہہ کر بحث کو ختم کر دیا: ٹھیک ہے، آگے بڑھو۔
پی ٹی وی نے جنرل ضیاء کی ہدایت پر امریکی شو کی کاپی کی۔
جنرل ضیاءالحق نے دسمبر 1982 میں صدر ریگن کی دعوت پر امریکہ کا آٹھ روزہ سرکاری دورہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ کمیونزم پر قابو پانے کی واشنگٹن کی پالیسی کے تناظر میں پاکستان کے سٹریٹجک محل وقوع کا گہرا جائزہ لے رہا تھا۔ 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت نے اس پالیسی کو مزید تقویت دی اور امریکہ کو پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا۔
جنرل ضیاء کی واپسی کے ایک ہفتہ بعد، ضیاء الدین صاحب کو انور حسین کا فون آیا، جو پی ٹی وی کے کرنٹ افیئرز پروگرام کے انچارج تھے۔ انہوں نے ضیاء الدین کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں تین صحافیوں کے پینل میں شامل ہونے کی دعوت دی جس کا منصوبہ فیس دی نیشن کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ فیس دی نیشن ایک ہفتہ وار امریکی خبروں اور صبح کے پبلک افیئر کا پروگرام تھا، جو اتوار کو CBS ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر نشر ہوتا ہے۔ عام طور پر، پروگرام میں ممتاز امریکی حکام، سیاست دانوں اور مصنفین کے انٹرویوز ہوتے ہیں، جس کے بعد ماہرین کے ایک پینل اُن کا تجزیہ کرتا تھا ہے۔
اتفاق کرنے سے پہلے ضیاء الدین نے دو سوال پوچھے: اتنے غیر شفّاف ماحول میں ایسا پروگرام شروع کرنے کا کیا متحرک تھا؟ اور کیا انور حسین ان پالیسیوں کے بارے میں ضیاء الدین کی رائے جانتے ہیں جن کا اظہار وہ اپنے ای بی آر کالموں میں کرتے رہے ہیں؟
پہلے سوال کے جواب میں انور نے کہا کہ جنرل ضیاء نے خود پی ٹی وی کو ایسا پروگرام شروع کرنے کو کہا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ‘فیس دی نیشن’ کی چند اقساط دیکھی تھیں اور جو کچھ دیکھا تھا اس سے متاثر ہوئے تھے۔
دوسرے سوال پر انور کا جواب مبہم تھا۔ وہ ایک ‘قابل اعتبار’ پروگرام تیار کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ پہلے شو کے لیے وزیر پیٹرولیم راؤ فرمان علی تقریباً بیس فائلیں لے کر ٹی وی اسٹیشن جو اُن دنوں چکلالہ میں تھا اس کے لیے تیار ہو کر آئے تھے۔ پٹرولیم سیکٹر سے متعلق زیادہ تر حقائق اور اعداد و شمار ضیاء الدین کے پاس تھے، اس لیے وزیر کو اپنی فائلوں کا حوالہ دینے کا موقع نہ ملنے پر ایک گھنٹے کا پروگرام ختم ہو گیا۔ ضیاء الدین صاحب کا دعویٰ ہے کہ گھنٹہ ختم ہونے تک وزیر توازن کھو بیٹھا اور فرار کا راستہ تلاش کر رہا تھا۔
پی ٹی وی میں دوستوں نے ضیاء الدین صاحب کو بعد میں بتایا کہ راؤ فرمان ریکارڈنگ کے بعد او بی وین میں نتیجہ دیکھنے کے لیے واپس آ گئے۔ انہوں نے جو دیکھا وہ اُنھیں پسند نہیں آیا ۔ جب پی ٹی وی نے شو کو ختم کرنے سے انکار کیا تو وہ ریکارڈنگ صدر کے پاس لے گئے۔ یہ کبھی نشر نہیں ہوا۔
اگلے دن ضیاء الدین صاحب کی سربراہی میں ایک اور پینل کا سامنا ایک اور کابینہ کے وزیر سے ہوا، اس بار پی ٹی وی کے ریکارڈنگ روم میں نجکاری کے وزیر، سب جاننے والے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید قادر تھے۔ ضیاءالدین کا دعویٰ ہے کہ اس وزیر کی کارکردگی بھی کچھ بہتر نہیں تھی لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اُن کے ساتھ پروگرام میں ہوا کیا ہے۔
پی ٹی وی نے جب چند دنوں کے بعد یہ قسط ٹیلی کاسٹ کی تو ناظرین کی جانب سے اسے ایک عجیب و غریب پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ ایک حکومتی وزیر کی محض ایک صحافی نے اچھی طرح سے کلاس لے لی تھی۔ جب تک جنرل ضیاء اقتدار میں رہے پی ٹی وی نے ضیاء الدین صاحب کو دوبارہ دعوت نہیں دی۔
ایم کیو ایم، ایم آر ڈی، پی پی پی پر نوٹس
1984 تک صدارتی ریفرنڈم ہوا اور فروری 1985 میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا منصوبہ بنایا گیا۔
لیکن انتخابات سے قبل، کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طلباء کے ایک گروپ کے اپنے آپ کو مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کہلانے کے ساتھ سیاسی منظر نامے کو بدلنا تھا۔ ان کا بنیادی اعتراض سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہونے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس تحریک نے اردو بولنے والوں کی دبی ہوئی ناراضگی کا اظہار کیا جب 1974 میں کراچی میں قومی زبان اردو کے ساتھ سندھی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ حکومت نے کراچی کے اسکولوں کے نصاب سے سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر ختم کر دیا تھا۔ ان کی کچھ شکایات درست تھیں کیونکہ کراچی کے ڈومیسائل لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے دور رکھنے کے لیے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے تھے۔
کراچی میں مہاجروں کی حقیقی شکایات کا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء نے 1980 کی دہائی میں سندھ میں ایک پرتشدد نسلی فالٹ لائن کو جنم دیا۔ وہ سندھ میں قائم تحریک برائے بحالی جمہوریت (MRD) کے شدید دباؤ کو بے اثر کرنا چاہتے تھے، جو ایک تاریخی طور پر مقبول، بائیں بازو کے سیاسی اتحاد نے اپنی حکومت کی مخالفت اور اسے ختم کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا۔ ایم آر ڈی فروری 1981 میں شروع کی گئی تھی اور اس کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کی تھی، جو کہ زیادہ تر عدم تشدد پر مبنی اتحاد تھا اور جس کی جڑیں سندھ کے دیہی علاقوں میں تھیں۔ تاہم، MRD کی اپنے جنوبی مضبوط گڑھ سے باہر پھیلنے میں ناکامی اس کے خاتمے کا سبب بنی۔ جنرل ضیاء نے ایم کیو ایم کو دیہی سندھیوں یا مہاجروں کو دہشت زدہ کرنے کی اجازت دی جنہوں نے پی پی پی کی حمایت کی تھی۔
غوث علی شاہ، ایک سابق جج تھے جنہوں نے 1981 سے 1988 کے درمیان سندھ حکومت میں پہلے وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، کئی مواقع پر عوامی طور پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے جنرل ضیاء کی ایم کیو ایم بنانے اور اسے فروغ دینے میں مدد کی۔ 1983 سے لے کر 2016 تک، جب الطاف حسین کو ‘بھارتی ایجنٹ’ قرار دیا گیا، ایم کیو ایم کے بانی نے شہری سندھ پر حکومت کی۔ پہلے کراچی سے اور پھر لندن سے جب وہ برطانیہ فرار ہوگئے تھے۔ الطاف حسین کے دو چہرے تھے، ایک سیاسی جس کے ذریعے وہ کسی بھی قیمت پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں سندھ کی شہری نشستوں پر قبضہ کرتا تھا۔ اور دوسرا عسکریت پسند سیکٹر انچارجز کی شکل میں جو Hitman تھے۔ الطاف حسین کی گرفت کالج اور یونیورسٹی کے کیمپس سے لے کر ہسپتال کے وارڈز، گورنمنٹ کی راہداریوں اور یہاں تک کہ نیوز روم تک پھیلی ہوئی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو اس خوف سے آزاد کر دیا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے شہری سندھ دوبارہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ تب اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک پر حکومت کرنا ناممکن ہو جاتا۔
جب پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کی جگہ تیار کر لیا گیا تو الطاف حسین کو نکال باہر کرنے کا وقت آگیا
مارشل لاء اور بے نظیر کی انٹری
صدر ضیاءالحق نے 20 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا۔ جونیجو نے فوری طور پر قوم سے وعدہ کیا کہ وہ مارشل لاء اٹھائیں گے اور جلد از جلد سویلین حکومت بحال کریں گے۔ تاہم، ضیاء کی آئینی ترامیم کے تحت ان کی پوزیشن کمزور تھی، جس نے وزیراعظم کو صدر کے ماتحت کردیا۔ اس کے باوجود، جونیجو نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے مارشل لاء اٹھا لیا، لیکن آٹھویں ترمیم کی قیمت پر، اس طرح جنرل ضیاء کی جانب سے نافذ کردہ آئینی تبدیلی کی توثیق کی گئی۔
دسمبر 1985 میں جب مارشل لا ہٹایا گیا تو بے نظیر بھٹو نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپریل 1986 میں لاہور ایئر پورٹ پر پہنچیں، جہاں ایک بڑے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ اور ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ لوگ اُنھیں اقبال پارک میں تقریر کرتے دیکھنے کے لیے آئے، جہاں بینظیر نے ضیاء کی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
ضیاء الدین نے بینظیر کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب انہوں نے کراچی میں (جلاوطنی سے قبل) ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا ۔ وہ میڈیا کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران آمریت پر تنقید کرتے ہوئے انتہائی پُر اعتماد نظر آئیں ۔ ان کی (آمریت کی) مذمت میں جذباتیت نہیں تھی بلکہ اپوزیشن لیڈر کا سوچا سمجھا اظہار تھا۔ “میرے کچھ ساتھی جنہوں نے پریس کانفرنس میں شرکت کی، بظاہر اس کے اعتماد کی وجہ سے بجھ گئے، انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا: وہ کون ہے؟ اس کے پاس اپنے والد کی سیاسی میراث کے علاوہ اور کیا ہے؟ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ متاثر نہیں ہوئے۔ میں نے، اُس میں ایک رہنما کو اُبھرتے ہوئے دیکھا ۔”
جلاوطنی سے واپسی کے بعد، بینظیر نے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ضیاء کی حکومت پر کافی تنقید کی۔ بینظیر نے معیشت پر بات کرنے سے گُریز کیا لیکن اکثر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ڈان کے اکنامک اینڈ بزنس ریویو میں شائع ہونے والے مضامین سے اقتباسات لئے۔ بینظیر نے اس موقع پر اُن مضامین کے مصنفین (ضیاءالدّین، شاہین صہبائی، اور بابر ایاز) کے نام بھی لئے۔ تاہم بینظیر کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد ہی ضیاءالدّین صاحب کو اُن سے رُوبرُو ملنے کا موقع ملا۔
جونیجو، جنیوا معاہدہ، بی بی اور 1988 کے انتخابات
مارچ 1988 میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے افغانستان پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔ وہ چاہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اس میں حصہ لیں، لیکن انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنرل ضیاء کو اس میں شامل نہ کیا جائے جسے جونیجو نے قبول کیا۔ اس پر غضبناک ہوتے ہوئے جنرل ضیا نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے جونیجو کو ہدایت کی کہ وہ افغانستان کے تصفیے کے لیے جنیوا امن معاہدے پر دستخط نہ کریں۔ آل پارٹیز کانفرنس کی طرف سے اپنے موقف کی حمایت سے خوش ہو کر، جونیجو نے اس کے باوجود وزیر خارجہ زین نورانی کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر روانہ کیا۔
جنیوا معاہدے پر 14 اپریل 1988 کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان دستخط کیے گئے تھے جس کے ضامن کے طور پر امریکہ اور سوویت یونین خدمات انجام دے رہے تھے۔ جونیجو کو آمریت کے خلاف جانے کی آخری قیمت چکانی پڑی اور 29 مئی تک اُنھیں تمام چیزوں کی بدعنوانی کے الزام میں غیر رسمی طور پر برطرف کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور 16 جولائی کو اعلان کیا کہ نئے عام انتخابات 16 نومبر کو ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر نے ڈکٹیٹر کو یہ یقین دلانے کے لیے دھوکہ دیا کہ وہ اس مدت کے دوران زچگی کی چھٹی پر رہیں گی۔ درحقیقت، انھوں نے 21 ستمبر کو اپنے پہلے بچے بلاول کو جنم دیا، اور وہ ایک ہفتے کے اندر اندر نومبر کے انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔
تاہم، 17 اگست تک، جنرل ضیا ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے، جس سے بینظیر کے پاس یکساں مقابلے کا میدان دکھائی دیتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی فتح ہوتی اگر انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل اور ان کی ایجنسی (جیسا کہ انہوں نے ایک بار عوامی طور پر انکشاف کیا تھا) نواز شریف کی قیادت میں مذہبی جماعتوں کے اسلامی جمہوری اتحاد، جو کہ دائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتیں تھیں، کی تشکیل اور مالی معاونت نہ کرتے۔
پی پی پی نے 94 نشستیں حاصل کیں، جو نواز کی زیر قیادت آئی جے آئی کی 55 نشستوں کے مقابلے میں اکثریت سے تھوڑی کم تھیں۔ آزاد امیدواروں نے 37 نشستیں حاصل کیں، بشمول ایم کیو ایم کے امیدواروں کے جنھوں نے آزاد حیثیت میں 13 اور چھوٹی جماعتوں نے 19 نشستیں حاصل کیں۔ چونکہ پیپلز پارٹی واحد سب سے بڑی جماعت تھی، اس لیے صدر غلام اسحاق خان بے نظیر کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کے پابند تھے- لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
بے نظیر کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کرنے سے پہلے غلام اسحاق خان نواز شریف کی زیر قیادت آئی جے آئی کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے کافی وقت دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر وہ پنجاب کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہونے سے پہلے وزیر اعظم منتخب ہو گئیں تو پنجاب کے تمام آزاد امیدوار پیپلز پارٹی میں چلے جائیں گے۔ پارٹی کے امیدوار برائے وزیراعلیٰ فاروق لغاری ان کو جتوانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ آخرکار، یہ نواز شریف ہی تھے جنھوں نے پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت بنانے کے لیے کافی آزاد امیدواروں کو بھرتی کیا اور لغاری کو پیچھے چھوڑ دیا۔
پی پی پی اب بھی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (اب قبائلی اضلاع) سے آٹھ ارکان ایم کیو ایم کے 13 ایم این ایز کی حمایت حاصل کرکے واضح اکثریت دکھانے میں کامیاب رہی۔
بی بی (بینظیر بھٹّو) کا سمجھوتہ اور سب سے پہلے حکومت چلانا
بے نظیر بھٹو کو تین اہم شرائط پر رضامندی کے بعد حکومت بنانے کے لیے کہا گیا: غلام اسحاق خان کے صدر منتخب ہونے کی یقین دہانی، سابق وزیر خارجہ لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان کو کابینہ میں برقرار رکھنا، اور یہ کہ دفاعی بجٹ کم نہیں کیا جائے گا۔
بے نظیر نے وہ سب کچھ کیا جس پر پیسہ خرچ نہیں ہوا: قیدیوں کو آزاد کرنا، یونینوں پر سے پابندی ہٹانا، پریس کی آزادی کی اجازت۔ اس عرصے کے دوران سیاسی آزادی میں اضافہ ہوا لیکن ان کی حکومت طویل مدتی سماجی و اقتصادی تبدیلی کے لیے پالیسیاں اپنانے میں ناکام رہی۔
جلد ہی بینظیر کی انتظامیہ بدعنوانی، عوامی خرچ پر سیاسی سرپرستی، آمرانہ رجحانات اور سیاسی مخالفین کے خلاف ذاتی عناد کے مضبوط اور مسلسل الزامات سے دوچار ہوگئی۔
ان کی والدہ نصرت بھٹو کی بغیر کسی قلمدان کے سینئر وزیر کے طور پر تقرری، اس کے بعد ان کے سسر حاکم علی زرداری کو پارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرنے کو بعض حلقوں میں ناجائز اقربا پروری کے طور پر دیکھا گیا۔ بے نظیر کی حکومت نے متنازعہ پلیسمنٹ بیورو بھی قائم کیا جس نے سول بیوروکریسی میں سیاسی تقرریاں کیں، حالانکہ بعد میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان کی سیاسی وراثت میں دخل اندازی کی، مثال کے طور پر، جب قابل سرکاری ملازمین جنہوں نے پہلے اُن کے والد سے اختلاف کیا تھا، کو کارکردگی کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر برطرف کر دیا گیا۔ پی پی پی کی اپنے اتحادی شراکت داروں کے ساتھ اقتدار میں حصہ دینے میں ناکامی نے مزید بیگانگی کا باعث بنا جس میں اکتوبر 1989 تک ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی بھی شامل تھی۔
بینظیر کے ہاتھوں سے طاقت کا پھسلنا اور معاملے کی حقیقت
18 ستمبر 1989 کو ایم کیو ایم نے باضابطہ طور پر آئی جے آئی کے ساتھ اتحاد کر لیا جو ایک بڑے اتحاد میں تبدیل ہو گیا تھا جسے مشترکہ اپوزیشن پارٹیز کہا گیا جس نے پی پی پی کی حکومت کو گرانے کا عزم کیا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو یکم نومبر 1989 کو نواز شریف اور ان کی آئی جے آئی کی طرف سے پیش کردہ عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئیں۔ انہیں ہٹانے کے لیے کل 119 ووٹ درکار تھے۔ قومی اسمبلی میں 92 نشستوں کے ساتھ، پیپلز پارٹی کو زندہ رہنے کے لیے کم از کم مزید 27 ووٹ درکار تھے۔ آئی جے آئی کے پاس 54 ووٹ تھے، لیکن حکومت کو ہٹانے کے لیے اضافی 65 ووٹ چاہیے تھے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان اضافی ووٹوں کی ضرورت کے ساتھ، پارلیمنٹیرینز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی جنگ پوری شدت سے شروع ہوئی۔
مبینہ طور پر، دونوں پارٹیوں کی طرف سے بہت زیادہ پیسہ پھینک دیا گیا تھا. بہت سے مبصرین نے اس وقت کی سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار قرار دینا شروع کیا۔ حتمی گنتی میں، آئی جے آئی کی قیادت والی اپوزیشن صرف 107 ووٹ لے سکی، جو 12 ووٹوں سے کم رہی۔
بے نظیر بھلے ہی عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئی ہوں لیکن انہوں نے بعد میں سیاسی مخالفین کے ساتھ پُل بنانے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی اور اس طرح ملکی سیاست نازک ہی رہی۔
عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل بے نظیر نے حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت، یہ ایک سیاسی بیان کے طور پر لکھا گیا تھا — لیکن 24 سال بعد انٹیلی جنس حکام نے اعلیٰ عدالتوں کے سامنے گواہی دی کہ وہ واقعی سیاسی چالبازی میں ملوث تھے۔ مثال کے طور پر فروری 2013 میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ 1989 کے دوران انٹیلی جنس بیورو کے خفیہ فنڈز میں خورد برد کے کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ سابق آئی بی ڈائریکٹر جنرل مسعود خان خٹک نے دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کے پیچھے غیر سیاسی قوتیں تھیں۔ . انہوں نے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو ایسے افراد کے طور پر نامزد کیا جو کم سے کم وقت میں بی بی کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ فوج کی انجینئرنگ سروسز کے ایک سابق افسر نے پی پی پی کے بعض ایم این ایز اور حزب اختلاف کے آئی جے آئی کے رہنماؤں کے درمیان ساز باز کے لئے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ کیا تھا، جس میں دو حاضر سروس فوجی افسران (بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر) ثالث کے طور پر کام کر رہے تھے۔ یہ ملاقاتیں اکتوبر 1989 میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کے آنے والے عدم اعتماد کی تحریک کے پس منظر میں منعقد کی گئی تھیں، جب سیاسی ہارس ٹریڈنگ بے مثال بلندیوں کو چھو چکی تھی۔
اگرچہ بینظیر بھٹّو کی حکومت کو آٹھ ماہ بعد بھیجا گیا تھا، لیکن یہ پارلیمانی ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ صدارتی فرمان کے ذریعے رخصت ہوئی تھی۔ فی الحال، آرٹیکل 58 2 (b) کا اثر و رسوخ عوامی مینڈیٹ سے زیادہ تھا۔ اس آرٹیکل کو بعد ازاں، 1999 میں، اسی شخص (یعنی نواز شریف) کے ذریعے ہٹا دیا گیا جو اس بات پر اٹل تھا کہ اسے استعمال کیا جائے۔
پی پی پی کی کرپشن پر تحقیق
ضیاءالدّین صاحب کا پی پی پی کی حکومت کے ساتھ پہلا واسطہ کچھ اتنا خوشگوار نہیں تھا۔ یہ ڈان میں اُن کی اسٹوری تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پی پی پی کے ایم این اے اور ایم پی اے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں قائم پلیسمنٹ بیورو کے ذریعے ملازمت کے متلاشی کامیاب اُمیدواران سے پیسے وصول کر رہے ہیں( ایم این اے کے پاس دو اُمیدواروں کی سفارش کا اختیار تھا جبکہ ایم پی اے کے پاس ایک-
“وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے ایف آئی اے کی ایک ٹیم اسلام آباد میں ڈان کے دفاتر میں مجھ سے پوچھ گچھ کے لیے بھیجی۔ میں نے انکار کر دیا اور جیسے ہی میرے دوسرے ساتھیوں کو اس معاملے کا علم ہوا، کچھ ہی دیر میں صحافی برادری کی طرف سے زبردست احتجاج شروع ہو گیا۔ وزارت داخلہ پیچھے ہٹ گئی اور چند ماہ بعد مجھے خود وزیر کی طرف سے معافی کا خط موصول ہوا۔
اس سے قبل جب نئے وزیر اطلاعات جاوید جبار نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس سے خطاب کیا تو ضیاء الدین نے ان سے مفادات کے ٹکراؤ پر جواب طلب کیا جو MNJ ایڈورٹائزنگ فرم کے ساتھ روابط کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ “جاوید اور میں ہماری یونیورسٹی کے دنوں سے دوست تھے جب وہ اپنے آنرز کر رہے تھے میں اپنا ماسٹر مکمل کر رہا تھا۔ سوال جان بوجھ کر کیا گیا تھا اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اب سے ہم دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں – وہ حکومت میں ہیں اور میں اُن کے نگران کے طور پر۔”
زیادہ تر آزاد میڈیا ان تمام سالوں میں پریس کی پابندیوں کی بیڑیاں توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ حالات کے مطابق ایک واچ ڈاگ کے طور پر اپنے کردار کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے ایک منتخب حکومت کی آمد کا خیرمقدم کیا تھا لیکن اسے تنقیدی نظر میں رکھنے کے لیے اپنی نئی ملی آزادی کا بھی استعمال کیا۔ میڈیا کو نئی حکومت کی نزاکت کی کوئی پرواہ نہیں تھی، جو عام طور پر آمریت سے اس طرح کی منتقلی کے ساتھ ہوتی ہے، اور اس نے اس کے معاشی انتظام میں اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کیا، جس کا مشترکہ اثر بدعنوانی میں پھیل رہا تھا۔
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد، پہلی بے نظیر حکومت نے پریس کو پوری شدت سے جیتنے کی کوشش کی۔ درحقیقت، آپ حکومت کے جتنے زیادہ تنقیدی تھے، آپ نے خود کو اس کے اتنا ہی حکومت کے قریب پایا۔ وزیر اعظم خود ذاتی طور پر زیادہ تنقیدی مصنفین کو جیتنے کی کوشش کرتی نظر آتی تھیں۔ حسین حقانی بھی ایسا ہی ایک کیس تھا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کے مشیر کے طور پر، حقانی بینظیر بھٹّو کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک تھے اور ان کے خلاف متعدد من گھڑت سکینڈلز کے مصنف بھی۔ لیکن پھر، بے نظیر کے دوسرے دور میں، حقانی کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا گیا۔
امریکن کلچرل سینٹر میں فسادات
ایک بار ضیاءالدین صاحب نے وزیر اطلاعات جاوید جبار کو پی ٹی وی کے ایک رپورٹر کو، جو کسی تقریب کو کور کرنے کے بارے میں اُن کا مشورہ چاہتا تھا، یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اُن سے مشورہ لینے کی بجائے اپنے پیشہ ورانہ فیصلے کو استعمال کرے۔ ضیاالدین صاحب کہتے ہیں، ’’کاش اس نے اپنے اصول پر عمل کیا ہوتا۔ ’’جبار نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ ستمبر 1988 میں سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses کے خلاف مظاہروں کے دوران امریکن کلچرل سینٹر کے سامنے بلیو ایریا میں ہونے والے خونی ہنگاموں کی پردہ پوشی کیسے کی جائے۔‘‘
جبار کو ضیاء الدین صاحب کا مشورہ یہ تھا کہ اسے ویسا ہی دکھائیں کیونکہ عالمی میڈیا نے اس واقعے کو کور کیا تھا اور اگر اُنھوں نے سینسر شدہ ورژن کے ساتھ پی ٹی وی پر چلایا تو عالمی میڈیا حکومت کو بے نقاب کر دے گا۔
پی پی پی کے کچھ پرانے ارکان، جنہوں نے کبھی بھی جاوید جبّار کو نئے چہرے کے طور پر قبول نہیں کیا تھا، اور وہ بھی بطور انتہائی حساس انفارمیشن کے محکمے کے انچارج کے، نے بی بی کو ان سے جان چھڑانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے انہیں اس ‘خراب پبلسٹی’ کا ذمہ دار ٹھہرایا جو اُس واقعے کی پی ٹی وی نے کوریج کر کے پی پی پی حکومت کے لیے کمائی تھی۔
اسلام آباد کا مرکز میدان جنگ میں تبدیل ہونے سے 5 افراد جاں بحق اور 80 کے قریب زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ کئی ہزار مسلمانوں نے امریکی ثقافتی مرکز پر مارچ کیا، اس پر پتھراؤ کیا اور مصنف کی موت اور کتاب پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے ذریعے ہجوم کو منتشر کرنے میں ناکامی کے بعد مظاہرین پر گولیاں چلائیں جن میں سے دو سینٹر کی چھت پر چڑھ گئے اور امریکی پرچم کو نیچے اتار دیا۔
یہ تشدد ایک ایسے ملک میں بنیاد پرست اسلامی جوش کی گہرائیوں کی چونکا دینے والی یاد دہانی تھی جو جمہوریت کی طرف منتقلی کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ ان مشکلات کی طرف اشارہ تھا جن کا سامنا حکومتوں کو جدیدیت اور یک جہتی اسلامی آرتھوڈوکس کے درمیان راستہ اختیار کرنے کی کوشش میں کرنا پڑا۔
بینظیر بھٹّو سے ملاقاتیں اور ان کی حکومت کے خلاف صحافت
ضیاءالدین صاحب کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے پہلی آمنے سامنے ملاقات 1989 میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جانے کے فوراً بعد ہوئی تھی۔ ایک درجن یا اس سے زیادہ صحافی (30 سال کے بعد وہ ان میں سے صرف دو کے نام یاد کر سکتے ہیں۔ ایاز امیر اور مرحوم جمیل الرحمن صاحب) کو وزیراعظم کے سیکرٹریٹ میں ان سے ملنے کی دعوت دی گئی۔
ایاز کے ساتھ یہ ایک بلا روک ٹوک سامنا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’کچھ دوسرے صحافی اور میں پی پی پی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جو کچھ بھی کیا اس کے خلاف سخت تنقید کر رہے تھے۔‘‘ “ہم نے حاکم علی زرداری کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر تقرری اور آصف علی زرداری کو سیکرٹریٹ میں ایک دفتر سے کاروبار کرنے کی اجازت دینے پر تنقید کی۔ وزیر اعظم نے اپنے فیصلوں کا بہترین دفاع کیا، لیکن یہ مقابلہ کچھ برابری کا تھا۔
شام کو ضیاء الدین کو روزنامہ شام کے سابق ایڈیٹر اور ایک اچھے دوست واجد شمس الحسن کا فون آیا جن کی وہ بہت عزّت کرتے تھے۔ وہ بینظیر کے بہت قریب تھے۔ اُنھوں نے ضیاءالدّین کو بینظیر پر بہت سختی کرنے پر سرزنش کی۔
ضیاءالدین صاحب کی بینظیر سے اگلی تفصیلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اقتدار سے باہر تھیں اور اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز تھیں۔ ان کا تعارف ایک سینئر صحافی مرحوم ایچ کے برکی نے کرایا جو پاکستان ٹائمز کے لیے کام کر چکے تھے اور ذولفقار علی بھٹّو کے قریب رہے تھے۔ بیگم بھٹو اور بینظیر دونوں انہیں جانتی تھیں اور پالیسی معاملات پر ان کی رائے لیتی تھیں۔ ایک اور سینئر صحافی، افضل خان، جو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان، حکومت کے زیر انتظام وائر سروس کے ڈائریکٹرز میں سے ایک تھے، بھی ان تینوں کا حصہ تھے جنہوں نے اس موقع پر بینظیر سے ملاقات کی۔ ضیاء الدین یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم سے تعارف کرواتے ہوئے برکی صاحب نے بینظیر سے پوچھا کہ کیا وہ ضیاء الدین کو پہچان سکتی ہیں؟ ہم اس پر حیران ہوئے جب بینظیر نے فوراً افضل خان کی طرف اشارہ کیا۔
جس دن غلام اسحاق خان نے آئینی آرٹیکل 58 (b) کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو برطرف کیا، اسلام آباد کے صحافیوں کا ایک بڑا گروپ ان سے ملنے سندھ ہاؤس گیا۔ “اُنھوں نے ہم سب کا خیرمقدم کیا اور ہم اُن کے ارد گرد جمع ہو گئے جب وہ صوفے پر بیٹھی ہمارے سوالات کا جواب دے رہی تھی کہ اُن کی بے دخلی کیوں اور کیسی ہے،” ضیاء الدین یاد کرتے ہیں۔ “وہ اچھے موڈ میں تھی اور مذاق بھی کر رہی تھی۔ زاہد حسین اور کلیم عمر اُن کے قدموں میں بیٹھے اُن کے ساتھ خوش طبعی میں مصروف تھے۔ ضیاءالدین صاحب بینظیر کی حکومت اور خاص طور پر اُن کے شوہر کی مبینہ بدعنوانی اور عیاشی پر ایک سخت تحریر کے مصنف تھے جس کی سرخی تھی ’’بیگ لے لو اور بھاگو‘‘ اور جو ماہنامہ نیوز لائن میگزین میں شائع ہوئی۔
ان کو اس وقت حیرت ہوئی جب صدر غلام اسحاق خان نے ڈان میں شائع ہونے والی بینظیر حکومت کے مبینہ بدعنوانی کی کہانیوں (شاہین صہبائی اور ضیاء الدین کی طرف سے دائر کی گئی) کو ان کی حکومت کو برطرف کرنے کے اپنے فیصلے کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ اور اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے اخباری خبروں کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثبوت کے طور پر قبول کیا اور برطرفی کے حکم کو برقرار رکھا۔ لیکن جس چیز نے واقعی ایک تاثر چھوڑا وہ یہ تھا کہ بے نظیر نے کبھی بھی اس معاملے کی بنا پر اپنے تعلقات کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔ درحقیقت بینظیر نے کبھی بھی ان سے اس معاملے کی شکایت نہیں کی۔
نواز کا بھی یہی حال ہوا۔
یہ فارمولہ اس وقت بھی دہرایا گیا جب صدر غلام اسحاق خان نے پہلی نواز حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔ نواز حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی ڈان میں شائع ہونے والی ضیاءالدّین صاحب کی مبیّنہ کرپشن کی اسٹوریز کو بنیاد بنایا گیا لیکن اس بار سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اخباری خبروں کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثبوت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا، اور انہیں مسترد کر دیا اور نواز حکومت کو بحال کر دیا۔
لیکن اسٹیبلشمنٹ نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پنجاب کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو ہٹا کر اور منظور وٹو کو لگا کر نوازشریف کے لیے مرکز میں حکومت کرنا ناممکن بنا دیا۔جیسے ہی حکومت کا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہو گیا، سی او اے ایس، جنرل عبدالوحید کاکڑ بظاہر مداخلت کرنے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے وزیر اعظم اور صدر دونوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور دیا تاکہ وزیر اعظم معین قریشی کی سربراہی میں نگراں حکومت کا تقرر کیا جا سکے۔
وزیر اعظم نواز اور صدر غلام اسحاق کے درمیان تصادم جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی برطرفی کا باعث بنے تھے، من گھڑت دکھائی دے رہے تھے، بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ اس میں اور بھی بہت کچھ تھا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد اصل وجہ سابق وزیر خارجہ مرحوم صاحبزادہ یعقوب علی خان نے ضیاء الدین کو ذاتی طور پر بتائی۔ اُنھوں نے یہ کیا کہا: جب سینئر بش، صدر بل کلنٹن کے ہاتھوں اپنی شکست کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے اپنی میز صاف کر رہے تھے، تو انہوں نے ایک فائل کو دیکھا جو صدر کے دستخط کا انتظار کر رہی تھی۔ اگر وہ اس فائل پر دستخط کردیتے تو پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جاتا اور اس کے نتیجے میں سنگین اقتصادی پابندیوں اور جغرافیائی سیاسی تنہائی جیسی سزائیں بھگتنا پڑتی۔ یہ فائل دنیا کے کئی حصوں میں دہشت گردی کے واقعات کی کہانیوں سے بھری پڑی تھی، خاص طور پر مصر اور اس کے پڑوس میں پاکستان کے ‘غیر ریاستی’ عناصر کا سراغ لگایا گیا تھا۔
نامعلوم وجوہات کی بناء پر، بش نے فائل پر دستخط نہیں کیے اور اسے آنے والے صدر، بل کلنٹن، کے لیے چھوڑ دیا۔ خوش قسمتی سے، کلنٹن بے نظیر کے سحر میں گرفتار تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ ان کے مداح ہیں۔ دریں اثنا، 9 جنوری 1993 کو نو منتخب صدر کلنٹن نے پاکستان کو چھ ماہ کا وقت دیا کہ وہ ان بھارتی الزامات کو دور کرے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے اس جذبہ کو بروئے کار لانے کا منصوبہ بنایا تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیے جانے سے بچانا ممکن بنایا جا سکے۔ منصوبہ: غیر قانونی عرب تارکین وطن سے چھٹکارا حاصل کیا جائے تاکہ ان میں سے کسی بھی انتہا پسند کو دوسرے ممالک میں تشدد کو ہوا دینے کے لیے پاکستان کی زمین کا استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد سینکڑوں عرب شہریوں کو اسلام پسند عسکریت پسندوں سے تعلق کے شبہ میں گرفتار کیا جائے۔ اس کے بعد، کسی طرح نواز کو ہٹا دیا جائے اور بے نظیر کو دوسری مدت کے لیے لے آیا جائے۔
نواز شریف پر نوٹ
ضیاء الدین صاحب نے جلا وطن نواز شریف کو اپنے پاکستان کے بطور وزیرِ اعظم کے دو ادوار سے بھی زیادہ فصیح اور واضح شخص پایا ۔ یو کے ڈان کی پوسٹنگ کے دوران جب بھی ضیاء الدین کو نواز شریف کو عوام میں یا بالمشافہ سننے کا موقع ملا، وہ متاثر ہو کر واپس آئے۔ بے نظیر اور مشرف کے درمیان مذاکرات کے بارے میں ان کی رائے کے بارے میں سوال کرنے پر نواز نے اپنی خاموشی سب سے زیادہ واضح کی۔ ضیاء الدین کا خیال تھا کہ وہ بظاہر چارٹر آف ڈیموکریسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس پر دونوں نے چند ماہ قبل دستخط کیے تھے۔ نواز شریف ایسے سوالوں پر بس مسکرا دیتے تھے۔
بینظیر بھٹّو نے دوسری واپسی کیسے کی۔
عام انتخابات 6 اکتوبر 1993 کو ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے 86 اور مسلم لیگ ن نے 72 نشستیں حاصل کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کو پنجاب سے باہر رکھنے کی یہ چال چلی کہ اس نے پی پی پی کے اتحادی پی ایم ایل چٹھہ کو زیادہ تر سیٹیں جیتنے دیں۔ اور پی پی پی کو اتنی سیٹیں حاصل کرنے کے لیے کہ وہ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی واحد پارٹی بن سکے تاکہ اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جا سکے، اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم سے کچھ ناقص بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کروایا۔ اس نے پی پی پی کے لیے سندھ کی شہری نشستیں حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جو روایتی طور پر ایم کیو ایم جیتتی تھی۔
بے نظیر جنوری سے لے کر شاید جون 1993 تک زچگی کی وجہ لندن میں تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں اس بات کا بہت کم اندازہ تھا کہ اس عرصے میں پاکستان میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ فاروق لغاری اور شفقت محمود ان کی طرف سے نواز شریف کو باہر نکالنے کی اسٹیبلشمنٹ کی سازش میں حصہ لے رہے تھے۔
ضیاء الدین یاد کرتے ہیں، ’’میں لاہور میں ڈان کے لاہور بیورو کی دیکھ بھال کر رہا تھا جب بے نظیر نے حکومت کو الٹی میٹم جاری کیا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت مستعفی نہیں ہوئی تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گی۔‘‘ “مارچ شروع ہونے سے چند دن پہلے، میں نے شہر کا ایک چکر لگایا لیکن میری مکمل الجھن کی وجہ سے تیاری کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ میں تیزی سے اس گھر پہنچا جہاں بے نظیر ٹھہری ہوئی تھیں اور مجھے فوراً ان کی موجودگی میں لے جایا گیا۔ اس نے مجھے اپنی مہم، مارچ یا مارچ نہ کرنے کی کامیابی کا یقین دلاتے ہوئے میری پریشانیوں کو ختم کردیا۔ کافی سچ ہے؛ مارچ سے ایک دن پہلے، سی او اے ایس کاکڑ نے اپنا کام کر دیا تھا!
“میں نے محسوس کیا کہ جب بھی ہم دوسری بار اقتدار میں آنے کے طریقے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ بے چین ہو جائیں گی۔ شاید اگر اس کے پاس اپنا راستہ ہوتا تو شاید وہ اس سازش میں شریک نہ ہوتی۔ نواز کی زیر قیادت آئی جے آئی نے نومبر 1996 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کی تھی۔ سپریم کورٹ میں لیفٹیننٹ جنرل درانی کے دستخط شدہ حلف نامہ موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے سی او اے ایس جنرل اسلم بیگ کے حکم پر مہران بینک سے تقریباً 140 ملین روپے حاصل کیے تھے تاکہ نواز شریف سمیت آئی جے آئی کے متعدد اہم شخصیات میں رقم تقسیم کر سکیں تاکہ انہیں کافی نشستیں حاصل ہو سکے۔
اسی لیے الیکشن ہارنے کے بعد بے نظیر نے مشہور کہا تھا: انہوں نے [آئی جے آئی] نے انتخابات چرائے ہیں۔
دی نیوز میں MSR (میر شکیل الرحمٰن) کے ساتھ کام کرنا
اس کے بعد ضیاء الدّین صاحب کو اس وعدے پر ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا کہ اس شہر سے جلد ہی ایک ایڈیشن آئے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اُنھیں لگا کہ وہ وہاں برباد ہو رہے ہیں کیونکہ اسلام آباد میں طاقت کے مرکز کے مقابلے میں لاہور بہت چھوٹا تھا۔
چنانچہ جب جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن یا ایم ایس آر نے انہیں 1991 میں دی نیوز کے اسلام آباد ایڈیشن کے ایڈیٹر کے عہدے کی پیشکش کی جہاں سے ڈاکٹر ملیحہ لودھی امریکا میں بطور سفیر جا رہی تھیں تو ضیاء الدین صاحب نے وہ عہدہ قبول کرلیا۔ اُنھیں جلد ہی احساس ہوا کہ MSR، ڈان کے مالکان کے برعکس، ایک سپر ایڈیٹر کی طرح کام کر رہے ہیں۔ ادارتی پالیسی میں دھوکے کا عنصر بھی تھا۔ مثال کے طور پر سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ پر ایک اداریہ کو اسلام آباد ایڈیشن میں جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسے اس کے لاہور اور کراچی ایڈیشن سے خارج کر دیا گیا تھا۔
میر شکیل الرحمٰن کی شمولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ایک بار اشتہار کی جگہ پر اختلاف ہوا۔ یہ بڑے شریفوں کے درمیان جائیداد کے تنازع سے متعلق تھا۔
یہ اشتہار دی نیوز کے صفحہ اول پر لگانا پڑا جس میں شریف خاندان کی بیگانہ خواتین میاں شریف کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ کے باہر احتجاج کرتی دکھائی دیں۔ ضیاء الدین صاحب کے الفاظ میں یہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو نیچا دکھانے کے لیے کیا جا رہا تھا۔ اُنھوں نے اشتہار چھاپنے سے انکار کر دیا اور فوراً بعد میر شکیل الرحمٰن کا فون آیا کہ اسے چھپنا چاہیے۔ ضیاء الدین صاحب نے انکار کر دیا اور ایک موقع پر بحث کے دوران میر شکیل الرحمٰن نے یہ کہہ دیا کہ اشتہار دراصل زرداری کی طرف سے آیا تھا۔ ضیاء الدین نے میر شکیل الرحمٰن سے کہا کہ وہ زرداری کو فون کرنے کو کہیں، جو کبھی نہیں ہوا، اور اشتہار نہیں چھاپا گیا۔ لیکن یہ واقعہ پبلشر اور چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے درمیان اختلافات کا آغاز تھا۔
اس کے بعد نئے شروع ہونے والے TNF (دی نیوز آن فرائیڈے) ایڈیشن میں الیاس خان (اب بی بی سی کے پاس) کی ایک کہانی تھی۔ ٹی این ایف کی پہلی ایڈیٹر بینا سرور تھیں جن کے ساتھ فراستہ اسلم کراچی میں سیکشنز کی نگرانی کرتی تھیں۔ بعد میں اس کا نام دی نیوز آن سنڈے رکھا گیا۔ کہانی نیشنل لاجسٹک سیل کے ٹرکوں میں ہیروئن کی اسمگلنگ کے بارے میں تھی۔ الیاس خان کی کہانی میں 2 آرمی افسران کے ملوث ہونے کا حوالہ دیا گیا تھا، لیکن ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے شائع شدہ کہانی میں 20 کا ہندسہ تھا۔
ضیاء الدین یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، “یہ دوپہر کے قریب تھا کہ مجھے ایک ہلے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کا فون آیا۔ “اُنھوں نے مجھے آبپارہ میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر آنے کو کہا جہاں کئی ناراض افسران میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ میرا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن میں پہنچنے تک میں اپنا ہوم ورک کر چکا تھا۔ میں نے ٹائپنگ کی غلطی کو آسانی سے قبول کر لیا اور پھر اگلے دن کے ایڈیشن میں صفحہ اول پر معافی نامہ شائع کرنے کی پیشکش کی۔ اس کو موجود افسران نے خوش اسلوبی سے قبول کیا۔” لیکن یہ اس کا خاتمہ نہیں تھا۔
جیسا کہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں میٹنگ خوش اسلوبی سے اختتام کو پہنچ رہی تھی، میر شکیل الرحمٰن نے اپنی طرف سے رضاکارانہ طور پر کہا کہ معافی کے ساتھ کاغذ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ الیاس خان کو برخاست کیا جا رہا ہے۔ ضیاء الدین حیران رہ گئے اور ہلکے سے احتجاج کیا۔ دفتر میں واپس آکر اُنھوں نے اصرار کیا کہ اگر کسی کو برطرف کرنا ہے تو اُنھیں ہونا چاہیے کیونکہ جو کچھ بھی اخبار میں چھپتا ہے وہ ایڈیٹر کی ذمہ داری ہے۔
میر شکیل الرحمٰن نے ایڈیٹر کو اس وقت کے انفارمیشن سیکرٹری حسین حقانی کی طرف سے تحریری معافی نامہ بھیجا، لیکن ایک غیر واضح قلمی نام سے۔ ضیاء الدین نے کورئیر کو بتایا جو ‘معافی’ لے کر آیا تھا کہ وہ اخبار کے صفحہ اول پر کسی غیر واضح ذریعہ کو جگہ نہیں دیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ’معافی‘ یا تو حقانی کے نام سے جائے گی یا بالکل نہیں۔ ایسا نہیں ہوا، آخر کار۔ اس کے بجائے، اخبار نے برخاستگی کے حکم کے بغیر معافی مانگ لی۔ آخری تنکا اس وقت آیا جب اخباری عملے کے سالانہ انکریمنٹ کو طے کرنا پڑا۔ ضیاء الدین کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ ان کی سفارشات کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور میر شکیل الرحمٰن خود ہی جاری کر رہا ہے، اس معیار کی بنیاد پر جو کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ایک ہفتہ تک اس پر بحث کرنے کے بعد، جواب قطعی اور حتمی تھا۔ “اس نے کہا کہ یہ اُس کا فیصلہ تھا اور وہ اسے تبدیل نہیں کریں گے،” ضیاء الدین یاد کرتے ہیں۔ “اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ عملہ میرا احترام نہیں کرے گا اگر انہیں پتہ چل جائے کہ سالانہ انکریمنٹ طے کرنے کے عمل میں میرا کوئی کہنا سننا نہیں ہے۔”
میر شکیل الرحمٰن کے حق میں، دی نیوز، راولپنڈی کی انتظامیہ میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ ضیاء الدین صاحب کے ایڈیٹر کے دور میں ان کی مداخلت کم سے کم رہی تھی۔ حتیٰ کہ اُنھوں نے کبھی کبھار ضیاالدین کی جوابی تجاویز کو بھی ہچکچاتے ہوئے قبول کر لیا تھا، جو کچھ پہلے ایڈیٹرز کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔
یہ معاملات اخبار کے کلچر پر اتر آئے۔ احمد علی خان مرحوم کے تحت ڈان دی نیوز سے بالکل مختلف تھا۔ خان صاحب نے اپنے سینئر ساتھیوں کو اپنی ذمہ داری کے دائرے میں اپنے مالک بننے کی آزادی دے کر ان میں خود اعتمادی پیدا کی تھی۔ ان کو سینئر ساتھیوں کو بھرتی کرنے اور سالانہ انکریمنٹ کی سفارش کرنے کی آزادی تھی۔
خان صاحب جو بات نہیں مانتے تھے وہ ایسے ہی کسی کہانی کا اُچھال دینا۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ وضاحت، تضاد یا کہانی کے دوسرے رخ کا مکمل متن فوری شائع کیا جائے۔
مکمل طور پر ایڈیٹر کو مطمئن کریں، جو کبھی نہیں ہوگا۔ یہ صرف شاہین صہبائی کے معاملے میں ہی تھا کہ اس اصول میں نرمی کی گئی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ مستند سرکاری دستاویزات کے ساتھ اپنی کہانیوں کی پشت پناہی کرتے تھے۔ خان صاحب کا غصہ صرف بیورو چیفس یا ایڈیشن انچارجز جیسے سینئرز تک ہی محدود رہتا تھا نہ کہ اس رپورٹر تک جس نے کہانی فائل کی تھی۔
ڈان کی طرف واپسی
ڈان کی طرف منتقل ہونے کا وقت ضیاء الدین صاحب کی توقع سے جلد آ گیا۔ یہ سال 1993 کا اختتام تھا جب انہیں احمد علی خان کا فون آیا، جس میں ان سے اسلام آباد بیورو چیف کے طور پر ڈان کو دوبارہ جوائن کرنے کو کہا گیا۔ یہ انہوں نے کیا اور 2001 تک اس اخبار کا اسلام آباد ایڈیشن شروع ہوا اور ضیاء الدین صاحب اس کے پہلے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن گئے۔
ضیاء الدّین صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری صنعت میں اپنے پیشہ ور ساتھیوں میں سب سے پہلے تھے جنہوں نے دفتری کار حاصل کی۔ اس کے بعد، جب وہ اسلام آباد بیورو میں واپس آئے، تو دفتر نے اسلام آباد کلب میں ان کی رکنیت کے لیے سب سے پہلے ادائیگی کی۔
اس دور میں محمود ہارون کچھ عرصہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔ لیکن کسی نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ کسی بھی طرح اخبار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بار جب وہ کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں تھے تو انہوں نے ڈان کے تمام سینئر عملے کو کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ پر مدعو کیا۔ ایڈیٹر خان صاحب نے عشائیہ میں شرکت تو کی لیکن شام بھر لو پروفائل رہے۔ عشائیہ کے بعد ہارون صاحب نے ایک مختصر اور میٹھا سیاسی بیان جاری کیا: اگر آپ کو میرے دفتر سے کوئی رپورٹ موصول ہوتی ہے جو آپ کے خیال میں صفحہ اول کے قابل ہے تو اسے پچھلے صفحے پر ڈال دیں۔ اگر یہ پچھلے صفحے کے قابل ہے تو اسے اندر رکھیں۔ اگر یہ اندر کے صفحات کے قابل ہے، تو اسے پھینک دو!
بینظیر کا پی ٹی وی پر انٹرویو
وزیر اعظم معراج خالد کی نگراں حکومت نے 1997 میں قبل از انتخابات پروگرام کے تحت پی ٹی وی پر پارٹی رہنماؤں کے انٹرویوز کا منصوبہ بنایا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی پسند کے انٹرویو لینے والوں کے پینل (دو صحافیوں تک محدود) کا نام دینے کی اجازت تھی۔ پی پی پی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے انتخابی پینل میں ضیاء الدین صاحب اور نیوز لائن میگزین کی ایڈیٹر ریحانہ حکیم شامل تھیں۔ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ پی پی پی نے ان سے نرم رویہ اختیار کرنے اور کوئی شرمناک سوال نہ کرنے کی توقع کرتے ہوئے ان کا نام لیا تھا، ضیاء الدین نے بینظیر کے قریبی ساتھی دوست واجد شمس الحسن کو فون کیا اور انہیں ایسی کسی بھی توقعات کو برقرار رکھنے کے خلاف خبردار کیا۔ حسن، ضیاء الدین صاحب کو بحث کرنے کے لیے بھی اچھی طرح جانتے تھے۔
جب انٹرویو شروع ہوا، تو یہ تیزی سے ایک گرما گرم بحث میں بدل گیا اور بے نظیر نے غصے سے ان کی حکومت، خاص طور پر ان کی شریک حیات سے متعلق کرپشن کی کہانیوں پر تمام سوالات کو مسترد کر دیا۔ بعض اوقات ایسا لگتا تھا جیسے وہ انٹرویو لینے والوں کو دھونس دینے کی کوشش کر رہی ہو۔ انٹرویو لینے والوں نے سیشن کو تفتیش میں بدلنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، اور بینظیر ایسی آوازیں لگا رہی تھیں جیسے وہ کسی بھی لمحے غصے میں باہر نکل جائیں گی، یہ ایک معجزہ تھا کہ یہ اپنا مقررہ وقت تک چلا۔ اور ضیاء الدین اور حکیم کی حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی وی کراچی کے جی ایم آفس میں انٹرویو کے بعد چائے کے دوران ان کا سامنا ایک مختلف بے نظیر سے ہوا۔ اس میں دوستانہ،اور گرمجوشی تھی اور سیاسی منظر نامے پر تازہ ترین معلومات کے لیے ان سے پوچھا اور اپنے جائزے اور آراء شیئر کیں۔
بینظیر، ایم کیو ایم اور کراچی
دوسری بار وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد بے نظیر نے جو پہلا اقدام کیا وہ کراچی سے فوج کو ہٹانا تھا جہاں اس نے ایم کیو ایم کے ہٹ مینوں کے ساتھ چلنے والے جھگڑے کا شکار کیا تھا۔ اس نے شہر کو وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کے حوالے کر دیا جنہوں نے ایک سمجھدار آدمی ہونے کے باوجود کراچی کو اس کی پولیس فورس کے حوالے کر دیا۔ کراچی کے کور کمانڈر جنرل آصف نواز کی طرف سے پیدا کردہ ایم کیو ایم-حقیقی کی پیدائش تک کئی مہینوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس کو موصول ہو رہی تھی۔ یہ اس وقت تھا جب ایم کیو ایم کے ہٹ مینوں نے متعدد پولیس اہلکاروں اور افسران کو قتل کیا تھا۔ اور یوں جیسے ہی پولیس دوبارہ قابو میں آئی، روزانہ سینکڑوں جعلی مقابلے ہوئے جن میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو مارا گیا۔ یہ بڑے پیمانے پر خون بہانا تھا۔
تین صحافیوں (ضیاء الدین، ظفر عباس اور زاہد حسین) نے اقوام متحدہ کے 50ویں اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے طیارے میں سوار وزیر اعظم کے ساتھ جعلی پولیس مقابلے کا معاملہ اُٹھایا۔ وہ فیصلے کا دفاع کرتی رہی اور گفتگو تلخ ہو گئی۔ جیسے ہی یہ ختم ہوا، تین آدمیوں میں سے ایک نے پی ایم کو خبردار کیا: پولیس فورس کو اتنے اختیارات دینے سے خود حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور اُن کی باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ بینظیر کا اپنا بھائی مرتضیٰ بھٹو 70 کلفٹن کے باہر ایک ’حادثاتی‘ فائرنگ میں مارا گیا۔
زرداری کا انٹرویو کرنے سے انکار
بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت کے اوائل میں، 1994 میں، زرداری کے خود ساختہ مشیر، مرحوم اظہر سہیل، کسی نہ کسی طرح زرداری کو پی ٹی وی پر کچھ ‘قابل اعتماد’ صحافیوں سے انٹرویو کے لیے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے تاکہ وہ اپنا اعتماد اور ساکھ قائم کر سکیں۔ پی ٹی وی کے سربراہ فرہاد زیدی صاحب کو غازی صلاح الدین اور ضیاء الدین صاحب کو اس کام کے لیے رکھنے کے لیے کہا گیا۔ دونوں نے انکار کر دیا۔
لیکن ایک چال چلی گئی۔ ضیاء الدین صاحب کو بتایا گیا کہ غازی صلاح الدین انٹرویو کرنے پر راضی ہو گئے ہیں اور غازی صلاح الدین کو بتایا گیا کہ ضیاء الدین صاحب راضی ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ یہ ہوا، دونوں آدمی پی ایم ہاؤس گئے (جہاں انٹرویو ہونا تھا) یہ جاننے کے لیے کہ دوسرے نے کیوں رضامندی ظاہر کی۔ چنانچہ جب انہیں حقیقت کا پتہ چلا تو انہوں نے فرہاد صاحب سے کہا کہ انتظامات کرنے کی زحمت نہ کریں اور انہیں جانے دیں۔
جب تک یہ بات ہوئی، زرداری آچکے تھے اور اظہر سہیل نے انٹرویو کا مشکل حصہ مکمل کرلیا تھا۔ ضیاء الدین اور صلاح الدین کمانڈ پرفارمنس کرنے سے انکار کرتے رہے۔ انہوں نے زرداری سے کہا کہ وہ خطرہ مول نہ لیں کیونکہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے، خاص طور پر جب ان کی مبینہ کرپشن کی خبروں کی بات ہوگی۔
اپنی خاص مسکراہٹ کے ساتھ، زرداری نے ان سے کوئی سوال پوچھنے کا کہا اور کیمرے کے عملے کو ریکارڈنگ شروع کرنے کو کہا۔ اب کوئی چارہ نہیں تھا، دونوں صحافیوں نے انٹرویو شروع کیا۔ جس وقت انہوں نے انٹرویو ختم کیا، زرداری کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ چھوٹ چکی تھی اور اظہر سہیل ایسے لگ رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی ناگوار چیز کھائی ہو۔ انٹرویو کبھی نشر نہیں ہوا۔
بے نظیر سے ملاقاتیں۔
بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت (1993-1996) کے دوران، ضیاءالدین اکثر ان سے ملتے تھے، زیادہ تر برکی صاحب یا شاہین صہبائی ان کے ساتھ ہوتے تھے اگر وہ شہر میں ہوتے (وہ اس وقت ڈان کے واشنگٹن کے نامہ نگار تھے)۔ عام طور پر ملاقاتیں وزیراعظم ہاؤس میں کسی سرکاری ضیافت کے بعد ہوتی تھیں۔ برکی صاحب نے انہیں صدر فاروق لغاری سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ کی تھی جسے انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جب بات ان کی حکومت کی مبینہ کرپشن کی ہوتی تو وہ نواز شریف کی کرپشن کی باتیں کرتیں اور سوچتی کہ اگلے الیکشن میں وہ ایک ارب پتی کے خلاف کیسے لڑیں گی۔
ایک بار بینظیر نے ضیاء الدین صاحب کو پلاننگ کمیشن میں نوکری کی پیشکش کی جسے انہوں نے شائستگی سے مسترد کر دیا۔ ایک اور موقع پر، انہوں نے ایک میڈیا تقریب میں عوامی طور پر اعلان کیا کہ وہ انہیں قومی ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ اُنھوں نے بینظیر کو ایسا نہ کرنے کی درخواست کی۔ ضیاء الدین یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے کہا تھا کہ ایوارڈ ملنے کے بعد میرے کام کو ایوارڈ کے پرزم سے پرکھا جائے گا۔ “اگر میں اُن کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہوں، تو میرے قارئین سوچیں گے کہ میں صرف اس کی قیمت پر اپنے پیشہ ورانہ موقف کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر میں نے اُن کی پالیسیوں کی تعریف کی تو وہ اسے میری طرف سے احسان واپس کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔ میں نے مشورہ دیا کہ ایک صحافی کو ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ایسے ایوارڈز کو قبول کرنا چاہیے۔ ااُنھوں نے پوچھا: ضیا الدین تم کب ریٹائر ہو رہے ہو؟ جس پر اُنھوں نے کہا، ’’وزیراعظم، صحافی ریٹائر نہیں ہوتے!‘‘ تب ان کے پاس موضوع بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
وزیر اعظم نے اُن کی جوان بیٹی کے انتقال پر اہل خانہ سے تعزیت کے لیے ضیاء الدین صاحب کے گھر کا دورہ کیا۔ وہ اپنے پورے وفد کے ساتھ آئی تھی جس میں ناہید خان اور فرحت اللہ بابر شامل تھے۔ جب وہ ابھی گھر پر ہی تھیں، فرحت اللہ بابر ضیاء الدین صاحب کو ایک طرف لے گئے اور انہیں بتایا کہ وزیر اعظم نے اُن کے حج کے لیے فنڈ دینے کی پیشکش کی ہے۔ ضیاءالدین صاحب مجبور تھے لیکن شائستگی سے انکار کر دیا۔
ایک بار بے نظیر نے پی ایم ہاؤس میں ایک تبادلہ خیال کا ایک سیشن بلایا اور زندگی کے تقریبا ہر شعبے سے دو نمائندوں کو مدعو کیا۔ بزنس ریکارڈر کے ایم اے زبیری اور میڈیا سے ضیاء الدین صاحب آئے۔ بینظیر نے سب سے پہلے ضیاء الدین صاحب کو تقریر کرنے کی دعوت دی لیکن اس کے بجائے اُنھوں نے اس بات پر حیرانگی ظاہر کی کہ مسلح افواج کی طرف سے کوئی نمائندگی کیوں نہیں ہے، جن کا قومی بجٹ میں بڑا حصہ ہے۔ چند سیکنڈ کے لیے خاموشی چھا گئی لیکن وزیر اعظم نے جلد ہی اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ مسلح افواج کی نمائندگی کرتی ہیں اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں اپنے خیالات پیش کرنے چاہئیں۔ 1996 کے انتخابات ہارنے کے بعد اور جلاوطنی میں جانے سے پہلے ضیاء الدین سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک بار بینظیرنے اُنھیں اپنے گھر چائے پر مدعو کیا تھا لیکن ان کے پہنچنے پر اُنھیں ایک آرام دہ کمرے میں لے جایا گیا جہاں وہ سفیروں کی تقریباً تین یا چار بیویوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ ضیاالدین کہتے ہیں، ’’یہ موضوع میرے لیے کوئی دلچسپی کا نہیں تھا۔ “لہذا، میں خاموش رہا، صرف چہرہ سرخ کرنے کے لیے اور مہمانوں کی مزاحیہ نگاہوں سے بچنے کی پوری کوشش کی جب بے نظیر نے کہا، ‘ہمیں پانچ بچے چاہیے تھے لیکن انہوں نے آصف کو زیادہ تر وقت قید رکھا۔’ وہ یقیناً مامتا سے لطف اندوز ہونے والا ایک نایاب سیاسی شخص دکھائی دیں۔
مہمانوں کے جاتے ہی بے نظیر کو اطلاع ملی کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے امان اللہ خان آگئے ہیں۔ وہ خان سے دوسرے کمرے میں ملی اور ضیاء الدین اُن کے ساتھ تھے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ خان سے التجا کر رہی تھیں کہ وہ کشمیر کی خودمختاری کے مشن پر نہ جائیں بلکہ حرّیت کانفرنس کے ساتھ اشتراک کریں۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جسے وہ نا پسند کرتے دکھائی دے رہے تھے
جلاوطنی میں جانے سے پہلے یہ ضیاء الدین صاحب کی پاکستان میں اس جوڑے سے آخری ملاقات تھی۔ یہ بات قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں ہوئی۔ بینظیر کے ایک معاون نے راہداری میں ضیاء الدین صاحب سے رابطہ کیا اور اُنھیں بتایا کہ بے نظیر اُنھیں اپنے چیمبر میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی اُنھوں نے دیکھا کہ بی بی ایک بڑی میز پر کرسی پر بیٹھی ہیں، زرداری قریب ہی ایک صوفے پر اور تیسرا شخص زرداری کے صوفے کے ساتھ والی نچلی کرسی پر بیٹھا ہے۔ ضیاء الدین نے دونوں کو سلام کیا تو وہ شخص جو زرداری سے سرگوشیوں میں بات کر رہا تھا، جانے کے لیے کھڑا ہوا، لیکن جانے سے پہلے اس نے گھٹنے ٹیک کر زرداری کے پاؤں چھوئے۔
جیسے ہی وہ چلا گیا، بے نظیر آصف کی طرف متوجہ ہوئیں اور اس شخص کو ایسا کرنے کی اجازت دینے پر اسے ڈانٹا۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ زرداری نے کہا کہ میں نے اس آدمی کو ایسا کرنے کو نہیں کہا اور یہ صرف ایک پرانی سندھی روایت ہے۔ بے نظیر حقیقی طور پر مشتعل نظر آئیں اور آصف سے کہا کہ ایسی روایات کو ختم کر دینا چاہیے۔ بینظیر جب بات کر رہی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ لیکچر دے رہی ہیں۔ جب آصف نے بینظیر کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی تو غصے میں بینظیر کی آواز مزید بلند ہوگئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آصف علی زرداری کی آواز ختم ہو گئی ہو۔ جب بھی وہ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا وہ اُسے چپ کرا دیتیں
گفتگو کے دوران ضیاء الدین صاحب نے مرتضیٰ بھٹو کا نام سنا۔ جلد ہی، بے نظیر کے آنسو بہہ رہے تھے جب انہوں نے اپنے مرحوم بھائی کو یاد کرتے ہوئے واضح طور پر آصف کو اپنے اور مرتضیٰ کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ضیاالدین صاحب نے انتہائی شرمندگی کے ساتھ اس گفتگو کا مشاہدہ کیا جو تقریباً دس منٹ تک جاری رہا۔ عین اس وقت جب وہ آصف کو متنبہ کر رہی تھیں: ’’اگر ہم دوبارہ اقتدار میں آئے تو میں آپ کو پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہتی!‘‘ اعتزاز احسن کمرے میں چلے آئے۔ یہ لیکچر ختم کرنے کا اشارہ تھا اور بینظیر نے آنسو دھونے کے لیے غسل خانے کی طرف بھاگنا تھا۔ آصف بھی غائب ہوگئے
ضیاء الدین نے اعتزاز سے پوچھا کہ کیا آپ نے سنا ہے کہ بی بی کمرے میں داخل ہوتے وقت کیا کہہ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے سنا لیکن ضیاء الدین سے کہا کہ فکر نہ کریں، “اگر ایسا ہوا تو آپ آصف کو پاکستان میں واپس دیکھیں گے۔”
پاکستان میں مشرف سے ٹکراؤ
1999 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران ضیاء الدین صاحب نے جنرل پرویز مشرف سے ایک سادہ سا سوال کیا۔
“جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے، تمام جرنیلوں کے پاس باہر نکلنے کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ آپ کی کیا ہے؟”
ناراض جنرل کا جواب تھا: ’’میں بھاگنے والا نہیں ہوں۔‘‘
اس طرح دونوں افراد کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو گئی جو مشرف کے سیاسی منظر نامے سے نکلنے تک جاری رہی۔ پریس کانفرنس کے دوران ایک اور تصادم اُس وقت ہوا جب ضیاء الدین صاحب نے جنرل کو سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے تین سال مکمل ہونے کے بعد واپس بیرکوں میں جانے کے ارادوں پر کھل کر سوال کیا۔ جیسا کہ ضیاء الدین نے کہا، ارادے مشکوک تھے کیونکہ مشرف کے مُشیر شریف الدین پیرزادہ تھے، جو جنرل ضیاءالحق کے اہم سیاسی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
عدالت سے منظور شدہ تین سالہ دور ختم ہونے کے بعد، مشرف نے ڈان کو اپنے منصوبوں پر انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ بہت سا نامکمل کام تھا جسے کرنے کی ضرورت تھی، اس لیے انہوں نے مزید پانچ سال کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضیاء الدین نے پوچھا: “اگر آپ کو پانچ سال کے اختتام پر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت سا نامکمل کام باقی ہے جس پر آپ کی ذاتی توجہ کی ضرورت ہے، تو کیا آپ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع کریں گے؟ جواب تھا “ہاں!”
2002 کے عام انتخابات کے انعقاد کے اپنے منصوبے کے اعلان سے عین قبل، مشرف نے ڈان کے پبلشر حمید ہارون سے انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی۔ ہارون نے کہا کہ وہ ڈان کے لیے انٹرویو نہیں کرتے اور معاملہ ایڈیٹر طاہر مرزا کو بھیج دیا۔ مرزا صاحب نے بھی انکار کر دیا اور ضیاء الدین کو نامزد کر دیا جو اس وقت اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔
“چنانچہ میں سینئر نامہ نگار راجہ اصغر، لاہور بیورو کے نمائندے اشرف ممتاز اور اخبار کے فوٹوگرافر کے ساتھ مشرف کا انٹرویو کرنے گیا۔”
انٹرویو شروع ہونے سے پہلے، مشرف نے ڈان کے اداریوں کے بارے میں اس طرح بات کرنا شروع کی کہ گویا زیادہ تر غلط بیانی اور جھوٹی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ اس نے اوکاڑہ کے فارمز کے مسئلے پر لکھے گئے ڈان کے اداریوں کی طرف اشارہ کیا۔ “میرے پاس یہ اختیار تھا کہ میں یہ موقف اختیار کر کے مشرف کو کہوں کہ میں نے وہ تمام اداریے نہیں لکھے اور وہ ایڈیٹر کو اپنی شکایات درج کر سکتے تھے۔ لیکن مشرف میز پر اکیلے نہیں تھے۔ ان کے ہمراہ ان کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد، ان کے سیکرٹری اطلاعات انور محمود، ان کے سیکرٹری اور چند دیگر حکام بھی تھے۔ اس کے پہلو میں فائلوں کا پہاڑ تھا۔ “میں نے محسوس کیا کہ چونکہ میں اس موقع پر ڈان کی نمائندگی کر رہا تھا، اس لیے یہ میرا فرض تھا کہ میں اپنی ادارتی پالیسی کا دفاع کروں، اس لیے کہ پبلشر اور ایڈیٹر دونوں نے، ان کے انٹرویو کے دعوت نامے کو مسترد کرنے کے بعد، مجھے اس کام کے لیے نامزد کیا تھا۔”
چنانچہ ضیاء الدین نے اداریوں کا دفاع شروع کر دیا۔ ضیاء الدین نے کہا، “اوکاڑہ کے فارموں پر میں بہت مضبوط تھا اور یہ دکھانے کی کوشش کرتا تھا کہ فوج کا موقف اس معاملے پر کتنا غلط ہے۔” “اس عمل میں بہت زیادہ گرمی پیدا ہوئی تھی۔ جب بات کالاباغ ڈیم پر چلی تو میں نے کہا کہ جب آپ نے بغاوت کا فیصلہ کیا تو آپ نے کسی سے نہیں پوچھا اور نہ ہی فیصلے کے لیے حمایت اکٹھا کرنے کی کوشش کی لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ ڈیم ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ آپ ملک بھر میں جا کر اس ناخوشگوار فیصلے کے لیے رائے عامہ کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ پرویز مشرف جواب دیتے، سیکرٹری اطلاعات انور محمود نے ضیاء الدین صاحب کو ایک نوٹ دیا جس میں کہا گیا تھا: ’’ایک طرف آپ ان پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور اس معاملے پر آپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک جیسا کام کرے۔
جیسے ہی انٹرویو ختم ہوا، ان کے ساتھ حمید ہارون، شیخ رشید احمد اور دو نوجوان آنے والے سیاستدان عمر ایوب اور کشمالہ طارق لنچ میں شامل ہوئے۔ مشرف نے ایوب کی تعریف کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا اور فیلڈ مارشل کو کرنافولی پیپر ملز لگانے کا پورا کریڈٹ دیا۔ “انہیں تاریخ کا کوئی اندازہ نہیں تھا کیونکہ یہ ایوب خان سے پہلے ہو چکا تھا،” ضیاء الدین صاحب نے کہا، “عمران خان کی طرح ان کے خیالات بھی مبہم تھے۔”
ایک موقع پر مشرف نے عمر ایوب اور کشمالہ طارق پر تعریفیں برسانا شروع کر دیں اور پیش گوئی کی کہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل بہت اچھا ہے۔ ضیاالدین نے خشک لہجے میں کہا، “ایک نوجوان بھٹو کہلاتا تھا اور دوسرا نواز شریف کہلاتا تھا۔ ایک کو ایوب نے اور دوسرے کو ضیاء نے تربیت دی تھی۔ ایک شاندار آمر بن گیا اور دوسرا اتنا زیادہ نہیں۔”
اس سے مشرف کو غصہ آگیا۔ ’’مسٹر ضیاءالدین کیا آپ نے کبھی کسی دوسرے لیڈر سے اس طرح بات کرنے کی آزادی حاصل کی ہے؟‘‘ ضیاءالدین نے نفی میں جواب دیا لیکن چند دہائیاں قبل لاہور ایئرپورٹ پر ایک نیوز کانفرنس کے دوران نثار عثمانی اور جنرل ضیاء کے درمیان ہونے والی بحث کو یاد کیا۔ بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا گیا کیونکہ مذہبی عقائد کے بعض پہلوؤں پر دونوں کے درمیان ہونے والی بحث میں نثار عثمانی کا آخری لفظ تھا۔
حمید ہارون نے عجلت میں مداخلت کی اور گفتگو کا رخ تصوف کے موضوع کی طرف موڑ کر اور کورس میں فرنگی محل کے نام کا ذکر کر کے گہرے پن کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ضیاء الدین صاحب کو معلوم تھا کہ اُن کی قسمت پر مہر ثبت ہو چکی ہے۔ ان کے پبلشر کو معلوم تھا کہ اگر ضیاء الدین صاحب اسلام آباد میں رہے تو مصیبت آئے گی۔
لندن میں مشرف سے سوال جواب
مشرف نے 2007 میں لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے تھنک ٹینک میں ایک لیکچر دیا تھا، جسے ضیاء الدین یاد کرتے ہیں کہ اس میں بڑے عالمی میڈیا کے صحافیوں کی غیر معمولی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مشرف نے اجتماع کو بتایا کہ پاکستان میں امن و امان کتنا بہتر ہے اور ملک کے ایٹمی اثاثے کتنے محفوظ ہیں ( وہ لندن پہنچنے سے پہلے یورپی دارالحکومتوں کے دورے پر جہاں بھی گئے، اُن سے یہی سوال پوچھا جا رہا تھا)۔ اسی درمیان ضیاء الدین صاحب نے برطانوی دہشت گرد راشد رؤف کے کیس کے بارے میں پوچھا جو کچھ ہی دن قبل پاکستان میں سرکاری حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
“آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں جب آپ ایسے دہشت گرد کو فرار ہونے سے نہیں روک سکتے؟” ضیاء الدین نے پوچھا۔
“کیا یہ مسٹر ضیاء الدین ہیں؟” مشرف نے سفیر ملیحہ لودھی سے پوچھا، جو برطانیہ میں اس وقت کی ہائی کمشنر تھیں، جو بات چیت میں ان کے ساتھ تھیں۔ اُنھوں نے سر ہلایا اور پھر اس نے عوامی طور پر ضیاء الدین کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے اور عملی طور پر اُنھیں اپنے ملک کا غدار قرار دیا۔ اس وقت تک وہ اس قدر پریشان ہو چکے تھے کہ جب ان سے اگلا سوال ایران کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بھارت کے بارے میں ان کے ذہن میں جو کچھ تھا وہ بول دیا۔
بعد ازاں شام کو وہ پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے لیے گئے جہاں ضیاء الدین کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کو یاد کیا اور سامعین کو ہدایت کی کہ اگر وہ اسے دیکھیں تو ’دو تین ٹکا دائیں‘
اگلے دن ڈان کے علاوہ تمام بڑے اخبارات نے ضیاءالدین مشرف کے جھگڑے پر اپنی خبریں شائع کیں کیونکہ:
“ہم صحافی ہیں،” ضیاء الدین کہتے ہیں۔ “ہم کہانی نہیں بنتے۔”
اگلے دن پرویز مشرف ہائی کمیشن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرنے گئے۔ “چونکہ برطانیہ میں ڈان کے نمائندے کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا اور اس طرح کی تمام خبروں کو کور کرنے کے لیے [مجھے] معاوضہ دیا گیا تھا، اس لیے میں نے ملیحہ کو فون کیا اور کہا کہ میں پریس کانفرنس کی کوریج کرنا چاہوں گا اگر ہائی کمیشن کو مجھے رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں شرکت کریں.” ضیاء الدین نے ہائی کمشنر سے کہا کہ وہ کوئی سوال نہیں پوچھیں گے اور اس نے اپنی بات برقرار رکھی۔
لندن منتقلی۔
2006 میں ضیاء الدین کو برطانیہ میں ڈان کے نامہ نگار کے طور پر تعینات کیا گیا جہاں وہ 2009 تک رہے۔
برطانیہ منتقلی سے پہلے ضیاء الدین صاحب نے وزیر اعظم شوکت عزیز کے بارے میں کچھ دلچسپ بات چیت کی تھی، جو ایک PR آدمی تھے جن کے میڈیا کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ اُنھوں نے خاص طور پر ضیاء الدین، نصرت جاوید، افضل خان اور خالد حسن کے ساتھ تعلقات بڑھائے تھے۔ (عزیز نے ضیاء الدین کو نیشنل ایوارڈ کی پیشکش بھی کی تھی، جسے اُنھوں نے ٹھکرا دیا تھا)۔
2004 میں جب آصف زرداری کو رہا کیا گیا تو شوکت عزیز نے ضیاء الدین، نصرت اور افضل خان کو بتایا کہ اس کا مقصد انہیں پارٹی سنبھالنے کی پوزیشن میں لانا ہے کیونکہ مشرف حکومت کا خیال تھا کہ اس سے پیپلز پارٹی کو جوڑ توڑ کرنا آسان ہو جائے گا۔ زرداری اپنی طویل قید و بند کی وجہ سے نوجوان جیالوں میں مقبول ہو گئے تھے کیونکہ اُنھوں نے کوئی لغزش نہیں دکھائی تھی۔
حیرت کی بات ہے کہ زرداری صاحب نے رہائی کے بعد پارٹی کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ بری طرح ناکام ہوئے تو وہ مستقل جلاوطنی کے لیے امریکا چلے گئے۔ ایک دفعہ اپنی قید کے دنوں میں ضیاء الدین ان سے ملنے گئے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ “ہم عدالت کے احاطے میں مل رہے تھے۔ جب میں نے اس کے منصوبوں کے بارے میں سوال کیا تو اس نے غیر معمولی اعتماد کے ساتھ کہا: ضیاء الدین آپ مجھے یا تو اقتدار کے گلیاروں میں پائیں گے یا سلاخوں کے پیچھے۔ میرے لیے کوئی تیسری جگہ نہیں ہے۔‘‘
نومبر 2006 میں جیسے ہی وہ لندن پہنچے، ضیاء الدین نے رحمان ملک کے گھر بے نظیر سے ملاقات کی۔ اس وقت بہت ہجوم تھا کیونکہ بینظیر نے ابھی پارٹی کے سینئر ممبران کے ساتھ ایک میٹنگ ختم کی تھی۔ ضیاء الدین نے موقع کا استعمال کرتے ہوئے انہیں اس بارے میں آگاہ کیا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں پی پی پی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، جو کہ تسلی بخش نہیں تھا۔ یہ حزب اختلاف کی جماعت میں سرکردہ جماعت تھی لیکن قیادت متحدہ مجلس عمل کے رہنما قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن کو مل رہی تھی جس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم بھی ڈوب گئے تھے۔ ضیاءالدین نے اپنی مختصر بات یہ کہہ کر ختم کی کہ اگر وہ جلد از جلد وطن واپس نہیں آئیں تو پیپلز پارٹی جلد ہی تاریخ بن جائے گی۔
ضیاء الدین نے کہا، ’’شاہ محمود قریشی، رضا ربانی اور دیگر جنہوں نے مجھے بات کرتے ہوئے سنا وہ میرے خیالات سے متفق نہیں تھے۔‘‘ “اور بی بی، جو ہماری گفتگو کے دوران دیر سے لنچ کر رہی تھیں، نے دریافت کیا کہ کیا میں اس بحث کو رپورٹ کروں گا، اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ میں نے گفتگو کو ریکارڈ نہیں کیا تھا۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میرا آف دی ریکارڈ گفتگو کو رپورٹ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پھر بھی، یہ ایک خوشگوار ملاقات نہیں تھی. واجد شمس الحسن نے مجھے بعد میں بتایا کہ میرے جانے کے بعد رحمن ملک نے بی بی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ میرا خیال رکھیں گے، جس پر کہا جاتا ہے کہ بی بی نے انہیں خبردار کر دیا تھا۔
لندن میں سیاست کی کوریج
ضیاء الدین صاحب کے پاکستان چھوڑنے سے پہلے ان کو ایک بار پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مارک لائل گرانٹ نے رابطہ کیا اور اگلی بار ان کے نائب نے، دونوں نے انہیں کہا کہ وہ بینظیر سے بات کرنے کی کوشش کریں کہ اسے وطن واپسی کی شرط کے طور پر اپنے مقدمات ختم کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، اور اس کے نتیجے میں مشرف کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ضیاء الدین صاحب کہتے ہیں، ’’میں نے ان دونوں کو بتایا کہ میں بے نظیر کا معتمد نہیں ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرا مشورہ لیں گی۔ “دراصل، اس وقت کے آس پاس، برطانیہ اور امریکہ دونوں کی قریبی رہنمائی میں بینظیر بھٹّو اور مشرف کے درمیان پردے کے پیچھے رابطے شروع ہو گئے تھے، جس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ فیصلہ ساز حلقوں میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ میرا اس پر کسی قسم کا اثر تھا۔ ایک بار اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے پوچھا کہ کیا ضیاء الدین بے نظیر سے رابطہ کر سکتے ہیں جس پر اُنھوں نے جواب دیا کہ وہ اس کام کے لیےصحیح آدمی نہیں ہیں۔ یہ ایک یورپی سفارت خانے میں ایک تقریب میں ہوا جہاں پیپلز پارٹی کے متعدد اراکین پارلیمنٹ موجود تھے۔ ضیاء الدین صاحب نے رضا ربانی کی طرف اشارہ کیا جو کچھ فاصلے پر ایک گروپ کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔ ’’ان سے پوچھو،‘‘ اس نے کہا۔
ضیاالدین صاحب کہتے ہیں، ’’جب میں برطانیہ پہنچا تو میں نے پہلی بار سنا کہ بیینظیر اور مشرف دبئی (2005) میں خفیہ طور پر مل رہے ہیں تاکہ ایک تعاون پر مبنی معاہدہ طے کیا جا سکے۔ “میں نے سوچا کہ بی بی ایسا کبھی نہیں کریں گی، اور اس موضوع پر ایسی کہانیاں درج کیں جیسے وہ پیپلز پارٹی مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہوں۔” لیکن جلد ہی ایک اندرونی ذرائع نے اُنھیں بتایا کہ کیا ہو رہا ہے۔
امریکہ کے کہنے پر سب سے پہلے بینظیر سے رابطہ کرنے والا برطانیہ کا وزیر (جیک سٹرا) تھا۔ اس کے بعد اُن کا امریکی حکام سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے اس کے بعد مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کیں۔ جلد ہی آئی ایس آئی کے سربراہ پرویز کیانی کی قیادت میں مذاکرات کاروں کی ایک ٹیم دونوں کے درمیان معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے لندن میں تھی۔ “میں نے ڈان میں اس کہانی کو بریک کیا جب معاہدے پر دستخط اور مہر لگ گئی۔ میری کہانی تھی: معاہدہ ہو گیا ہے۔
پرویز مشرف کے ساتھ تعاون کے لیے ان کی شرط یہ تھی کہ انہیں تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے اور اگر یہ قابل قبول نہ ہو تو ان کے تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں۔ چونکہ پرویز الٰہی کی نظریں وزیراعظم کے عہدے پر تھیں، اس لیے مسلم لیگ کی قیادت نے مشرف کو دوسرے آپشن پر رضامندی ظاہر کی۔
دریں اثنا، نواز شریف، جو کہ برطانیہ میں جلاوطنی میں بھی تھے، نے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی جس میں PPP سمیت الائنس فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یا ARD کے اراکین نے شرکت کی تھی (جسمیں پی پی پی کی نمائندگی مخدوم فہیم اور شیری رحمان نے کی۔ بینظیر اس وقت فرانس میں تھیں یا شاید جان بوجھ کر پرہیز کر رہی تھیں کیونکہ وہ مشرف کے ساتھ گہری بات چیت کر رہی تھیں)۔ عمران خان کی پی ٹی آئی، جے یو آئی، اور جے آئی نے بھی شرکت کی۔ حتمی قرار داد میں کہا گیا کہ آئندہ کوئی بھی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔ “لیکن بی بی نے شیری سے کہا کہ وہ قرارداد میں اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے اختلاف کا ایک نوٹ ڈالیں۔”
کانفرنس کے دوران، چوہدری نثار، جو بظاہر پی پی پی کے لیے نفرت کا شکار تھے، نے مسلم لیگ ن کو اے آر ڈی چھوڑنے اور ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے ساتھ ایک نئے اتحاد، اے پی ڈی ایم میں شامل ہونے پر آمادہ کیا، جو نواز نے کیا۔ اے پی ڈی ایم نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا کہ وہ وردی میں مشرف کے بلائے گئے انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔
بی بی کے لیے آخری سوال
اس سے پہلے کہ بے نظیر اگست 2007 میں یو اے ای کے راستے وطن واپس آنے کے لیے برطانیہ سے روانہ ہوتیں، انھوں نے لندن میں ان کے الوداعی پریس کانفرنس کی۔ رحمان ملک کے گھر پر یہ ایک پرہجوم تقریب تھی، جس میں عالمی میڈیا کے صحافی بھی شامل تھے۔
بے نظیر پر ہر قسم کے سوالات کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی، زیادہ تر غیر ملکی میڈیا سوال کر رہا تھا۔ ضیاالدین کہتے ہیں، “اس تمام چیخ و پکار کے درمیان، میں نے اپنا سوال کیا جو دراصل ایک آمر کے ساتھ ڈیل کرنے کے اس کے فیصلے کی تنقید تھی۔” بینظیر نے ان کی آواز کو پہچان لیا اور ان کے سوال کا جواب دینے سے پہلے انہیں ایک معزز پاکستانی صحافی کہا جس کو صرف ایک طویل وضاحت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے کہ وہ جو کر رہی تھیں وہ کیوں کر رہی تھیں۔ بینظیر کے جواب میں کوئی تلخی نہیں تھی، بلکہ ضیاالدین کے اس معاہدے پر تنقید کرنے کے مقصد کی ستائش تھی۔
“یہ اُن کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔ میں نے 18 اکتوبر 2007 کو ان کے ساتھ واپس آنے کی کوشش کی کیونکہ ڈان کے ایڈیٹر نے اخراجات کی منظوری دے دی تھی۔ لیکن کسی نہ کسی طرح فرحت اللہ بابر، جنہیں صحافیوں کی فہرست کو حتمی شکل دینے کا کام سونپا گیا تھا، نے مجھے اس فہرست سے نکال دیا۔ تاہم بعد کے واقعات کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں خود پاکستان گیا۔ لیکن میرے اسلام آباد پہنچنے کے اگلے ہی دن انہیں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے نکل رہی تھیں۔
زرداری کا اقتدار سنبھالنا۔
صحافیوں کا ایک گروپ جس میں شاہین صہبائی، عامر متین، نصرت جاوید، مسعود حیدر اور ضیاء الدین صاحب شامل تھے، زرداری اور اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیت کرنے (2008 میں) اور بینظیر بھٹّو کی آخری آرام گاہ پر فاتحہ خوانی کرنے کے لیے لاڑکانہ گئے۔ جب ضیاء الدین کی زرداری سے ملاقات ہوئی، وہ پہلے ہی ہاتھ سے لکھے گئے ایک خط میں موجود ہدایت کے مطابق پارٹی کی باگ ڈور سنبھال چکے تھے جسے بے نظیر کے ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا جس میں بلاول کو اگلا چیئرپرسن بھی نامزد کیا گیا تھا۔ زرداری کی موجودگی میں ضیاء الدین نے کھل کر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ مشرف آپ سے پارٹی خرید لیں گے۔ “اور آپ ایک 18 سالہ نوجوان بلاول کو قومی پارٹی کا چیئرمین بنا کر اچھا نہیں کر رہے ہیں جس نے ابھی اپنی تعلیم مکمل نہیں کی ہے۔ درحقیقت، مجھے لگتا ہے کہ آپ بھٹو کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے لیے ایک بلاول کو اُن کے سامنے ڈال رہے ہیں۔ “ٹھیک ہے، مشرف کو آزمانے دیں جو آپ کہتے ہیں وہ کریں،” زرداری نے جواب دیا۔ ’’اور ویسے تو بلاول نے خود ہی سیاسی کیرئیر کا انتخاب کیا، میری یا کسی اور کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں۔‘‘
گروپ نے اگلی صبح کراچی واپس آنے سے پہلے ناہید اور صفدر عباسی کے گھر رات گزاری۔ انہوں نے ناہید کو بکھرا ہوا پایا۔ وہ تمام ملاقاتوں میں رونا بند نہیں کرتی تھی۔ اس نے انہیں بتایا کہ کیا ہوا تھا۔ “ہمیں ابھی ایک کال موصول ہوئی تھی کہ ائیرپورٹ (پرانے والا) کے قریب نواز شریف کے وفد پر حملہ ہوا تھا اور بی بی چاہتی تھیں کہ میں این ایس کو فون کروں۔ جیسے ہی میں نے نمبر ٹائپ کرنا شروع کیا، وہ بغیر کسی انتباہ کے اچانک کھڑی ہو گئی اور کھلے ہیچ سے ہجوم کی طرف لہرانے لگی اور جیسے ہی اچانک گر گئی۔ اور چند ہی لمحوں میں، گاڑی دھماکہ خیز مواد کے اثر سے تقریباً ایک قلابازی میں چلی گئی۔ میں نے اس کے دماغ کا تقریباً ایک حصہ اپنے ہاتھوں پر پایا۔ میں نے ڈرائیور سے پکارا کہ وہ قریبی ہسپتال کی طرف چلے۔
ناہید نے گروپ کو بتایا: جب ہم صبح روانہ ہو رہے تھے تو ڈاکٹر عباسی نے ہمیں بتایا کہ زرداری نے نواز شریف کو قائل کر لیا ہے کہ وہ اپنے اے پی ڈی ایم کے ساتھیوں کے ساتھ نہ جائیں اور انتخابات کا بائیکاٹ نہ کریں، کیونکہ اس صورت میں مسلم لیگ (ن) مرکزی دھارے کی سیاست میں واپس آنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ، اے پی ڈی ایم کے اراکین کی جانب سے صدر مشرف کے ماتحت الیکشن نہ لڑنے کی قرارداد کے برعکس، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی دونوں نے اعلان کیا کہ وہ 18 فروری 2008 کو ہونے والے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ لیکن پی ٹی آئی اور جے آئی، اے پی ڈی ایم اتحاد کے دیگر ارکان نے اے پی ڈی ایم کی قرارداد کے مطابق انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
زرداری نے آگے کیا کیا۔
زرداری کے پاس ضیاء الدین صاحب کے لیے کئی سرپرائز تھے۔
سب سے پہلے، ضیاءالدین کے ان خدشات کے برعکس کہ مشرف زرداری کو خرید لیں گے، دراصل یہ زرداری ہی تھے جنہوں نے مواخذے کی دھمکی دے کر مشرف سے جان چھڑائی۔ اس سے پہلے پی پی پی کے نئے سربراہ نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ سے، جس میں مسلم لیگ (ن) کے تقریباً چار امیدوار شامل تھے، صدر مشرف نے حلف لیا۔ اس کے بعد، زرداری نے صدر مشرف سے حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کرنے پر رضامند کیا۔ یہ واقعی ایک حیرت کی بات تھی کیونکہ جب سے انہوں نے کتاب Pakistan: Between Mosque and Military لکھی تھی وہ ایک نا پسندیدہ شخصیت تھے
اس کے بعد، زرداری نے ستمبر 2008 میں خود کو اپنے ملک کا صدر منتخب کروا لیا، جو ضیاءالدّین صاحب کے خیال میں انتہائی ناقابلِ تصور تجویز تھی۔ انہوں نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس اقدام کے خلاف تنبیہ کی جب انہوں نے سنا کہ زرداری صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ ضیاء الدین کا خیال تھا کہ زرداری کا بطور صدر پاکستان کے امیج اور اس کی بنیادوں اور یہاں تک کہ ان کی پارٹی کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔
اس کے بجائے، انہوں نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ اس عہدے پر منتخب ہوئے، زرداری نے اپنے تمام (تقریباً آمرانہ) صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کر دیے اور 1973 کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے اقدام شروع کیا۔ یہ 18ویں ترمیم کی شکل میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی سربراہی میں کام کرنے والی دو طرفہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے مکمل کیا گیا۔
زرداری یہ سب کچھ پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو 21 مارچ 2009 کو اپنی ریٹائرمنٹ تک عہدے پر برقرار رکھ کر پورا کر سکتے تھے۔ جیسا کہ توقع کی گئی تھی، چیف جسٹس چودھری افتخار نے انتہائی ڈرامائی پیش رفت کے درمیان اسی دن دوبارہ عہدہ سنبھالا۔ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ سی او ایس پرویز اشفاق کیانی نے وزیر اعظم گیلانی سے بات کر کے ملک کو بحران سے بچانے کے لیے مداخلت کی۔ گیلانی نے تقریباً آدھی رات کو چیف جسٹس چوہدری افتخار کی تقرری کا اعلان کیا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر وہ آرمی چیف کے احکامات کی تعمیل نہ کرتے تو وہ اقتدار سنبھال لیتے۔
ڈوگر کی ریٹائرمنٹ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دوبارہ دفتر میں آنے کے بعد ہی زرداری کی مشکلات شروع ہوگئیں۔ سب سے پہلے چیف جسٹس نے بے نظیر اور مشرف کے درمیان طے پانے والے قومی مفاہمتی آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا۔ چیف جسٹس افتخار کی بحالی میں تاخیر زرداری اور ان کی مخلوط حکومت کو مہنگی پڑی جسے انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے تبدیل کر دیا تھا۔
ایکسپریس ٹریبیون کے دن
لندن کا وقت نتیجہ خیز اور خوشگوار تھا۔ ضیاء الدین نے مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والی ڈیل جیسی کچھ خاص خبروں کو بریک کیا، اور اُنھوں نے کافی حد تک رپورٹنگ کی۔ لیکن وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ ایک بار جب وہ پاکستان واپس آئیں گے تو اُنھیں نظر انداز کر دیا جائے گا۔ “اور جب میں واپس آیا تو بالکل ایسا ہی ہوا،” وہ کہتے ہیں۔ “میں [ڈان کے ایڈیٹر] عباس ناصر سے ملنے گیا، جنہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ مجھے کہاں رکھنا ہے۔”
اتفاق سے اسی دن ضیاء الدین صاحب کو ایکسپریس ٹریبیون اخبار کے نوجوان پبلشر بلال لاکھانی کا فون آیا۔ ایکسپریس گروپ کے ساتھ ضیاء الدین صاحب کی یہ پہلی بات چیت تھی اور اُنھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ بلال اور ان کے والد سلطان لاکھانی کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں ضیاء الدین صاحب نے واضح کیا کہ وہ ایڈیٹر بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ “میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی نوجوان شخص کے پاس جائیں، جس میں زیادہ توانائی ہو۔ یہ ایک بڑی مشق تھی جس میں وہ داخل ہو رہے تھے۔
ضیاء الدین ایک کنسلٹنٹ بننا چاہتے تھے لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ایگزیکٹو ایڈیٹر بنیں اور انہوں نے 2009 میں یہ عہدہ سنبھالتے ہوئے اتفاق کیا۔ “سب سے زیادہ لطف بلال لاکھانی کے ساتھ کام کرنا تھا، جس نے ہمیں — مجھے اور ایڈیٹر — کو اس قسم کی کہانیاں کرنے کے لیے کافی جگہ دی جو اخبار میں تھی۔ ہم سماجی مسائل اور مذہبی مسائل پر لکھتے تھے اور اُنھوں نے ہمیں بہت آزادی دی۔
ایکسپریس ٹریبیون کو ضیاء الدین صاحب 2014 میں حامد میر کے معاملے کے بعد ایکسپریس میڈیا گروپ کی جنگ گروپ سے لڑائی کے بعد چھوڑ دیا۔ ٹریبیون کے صفحہ اول پر ایک خبر تھی جس میں جیو ٹی وی کے ایک معروف اینکر پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ ضیاء الدّین صاحب نے کہا کو اس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔ “میری انتظامیہ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے، بشمول مالک سلطان لاکھانی۔ میں نے انہیں جنگ گروپ کے ساتھ تصادم میں نہ آنے کا مشورہ دیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ جنگ میں بہت گہرائی ہے اور وہ آسانی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
لیکن گروپ کی کارروائیوں نے ضیاء الدین صاحب کو مایوس کیا۔ اُنھوں نے خاموشی سے اپنا استعفیٰ لکھا اور اسے ارسال کر دیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی الجھن نہ ہو، اُنھوں نے 1 جولائی 2014 کو ایک ٹویٹ بھی پوسٹ کیا۔