زندگی عمل سے عبارت ہے اورعمل تین طرح کا ہوتا ہے ایک کارِ منصبی ہے جو آپ کی عمرانی حیثیت کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے اور وظیفہ ٔ حیات بھی۔ عمل کی دوسری صورت وہ ہوتی ہے جو کہ بظاہر تو آپ کے منصب سے جز نہیں ہوتا مگر در پردہ آپ کی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر افراد معاشرہ کی قولی و فعلی سعی کے جواب میں آ پ کو وہ عمل کر نا ہوتا ہے اس کی آسان ترین صورت رائے یا تجاویز کی صورت میں ہوتا ہے اورآ پ جانتے ہیں کہ اچھا مشورہ بھی امانت کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر سماج کے صاحب الرائے افراد آپ سے رہنمائی طلب کر تے ہیں تو آپ پر فرض ہے کہ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں مطلوبہ رسپانس عطا کریں ۔ عمل کی تیسری قسم معاشرے کے ایک خاص طبقے نے از خود اپنے ذمے لگائی ہے جسے عرفِ عام میں خدائی فوج دار یا تنقید برائے تنقید کہتے ہیں جو اب ترقی کر کے صرف اور صرف تنقیص رہ گئی ہے ۔
محمد یوسف وحید ادب کا وہ نمائندہ سپاہی ہے جو ادب کی آبیاری کے لیے تنِ تنہا مصروف ِ عمل ہے ۔ وسائل کی کمی کے باوجود اپنی جملہ صلاحیتوں کے ساتھ ہمہ وقت ادب کی جوت جگانے میں محوِ سفر ہے ۔ محمد یوسف وحید وہ شخص ہے جو اپنا آرام سکون قربان کرتا ہے، تن ِ تنہا ادب کی خدمت کا ارادہ کرتا ہے، وہ اپنے عمل کا دائرہ وسیع کرتا ہے ۔ ادب کی کسی خاص جہت کی بجائے ادب ہی کو ٹارگٹ کرتا ہے ۔ ادب سے منسلک افراد خصوصاً گم نام اور غیر معروف ادبی افراد کا سارا سراغ لیتا ہے ۔ گھر گھر دستک دیتا ہے ۔ خواہ مطلوبہ فرد ملے یا نہ ملے وہ صرف یقین کر لینے پر ہی خوش ہوجاتا ہے کہ یہاں ادب سے منسلک فرد رہتا ہے گرمی سردی کی پروانہ کرتے ہوئے دو دو تین تین چکر لگا تا ہے معلومات اور ادبی کام وصول کرتا ہے، تھک ہار کر واپس دفتر پہنچتا ہے لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں وہ حاصل شدہ معلومات کو ترتیب دینے، کمپوز کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ کمپوزنگ کے بعد پھر اصل بندے سے ملتا ہے پروف ریڈنگ کرواتا ہے ۔ تب جاکر اسے اپنے ریکارڈ کا حِصّہ بناتا ہے اور ون مین آرمی کے طور پر کام کر تے ہوئے ایک کتاب کا بلکہ ایک بہترین معلوماتی کتا ب کا اضافہ ادب کے جہاں میں کرکے دم لیتا ہے ۔ ایسے میں اسے ڈھارس کی حوصلہ افزائی کی تھپکی کی ضرور ت ہو اور اس کے سامنے صرف اور صرف سوالیہ نشان اُبھار کر رکھ دئیے جائیں تو پھر عجیب تو لگے گا ۔لیکن اس بات کے دو جواب ہیں ایک تو ماہرِ فریدیات مجاہد جتوئی کا قول ہے کہ آپ صرف بے لوث طرزِ عمل اپناتے ہوئے اپنے حِصّے کا کام کر تے جائیں‘ باتیں ہوں گی لیکن عمل زندہ رَ ہ جائے گا ، باتیں ہوا ہو جائیں گی ۔ آپ کام کر یں لوگ اسے چاٹ نہیں جائیں گے ۔ دوسرا جواب فارسی کے ایک معروف شاعر نے بہت پہلے اپنے اس شعر میں ہمارے سامنے رکھا ہے ۔
آں روز کہ مہ شدی نمی دانستی
انگشت نمائے عالمے خواہی شد
ترجمہ: جس دن تم چاند بنے تھے تو کیا یہ نہیں جانتے تھے کہ لوگ انگشت نمائی تو کریں گے۔
ماہرین ِعمرانیات کی متفقہ الیہ رائے ہے کہ جب آپ پر مبہم اور غیر واضح یعنی عجیب طرح کی تنقید ہونے لگے تو جان لو کہ تمہارے کام کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے محمد یوسف وحید مبارک باد کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ یقینا اس تذکرہ میں بہت سے ادب سے منسلک نام رَہ گئے ہوں گے ۔ بات پھر وہی ہے ایک فردِ واحد نے جتنا ہو سکا اپنی کوشش کی۔ ادب کی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد کے لیے بہترین موقع ہے۔ بسم اللہ کریں اور اس سے کئی گنااچھا کام کر کے دکھائیں۔ مزید کم نام یا اَنجانے میں صَر فِ نظر ہونے والے ادب کو اس کے نام اور کام کے ساتھ اپنی تحقیق کا حِصّہ بنائیں اور ادبی تحقیق میں ایک بیش بہا اضافہ کر کے رکھ دیں۔
علمی و ادبی حلقوں اور محققین کے لیے محمد یوسف وحید کی نہایت عمدہ اور تحقیقی کاوش ’’خان پور کا اَدب ‘‘ 1901ء تا 2020ء ( 120سالہ اَدبی تاریخ) میں جہاں سینکڑوں معروف اور جید اُدبا و شعراء کے تعارف و اَحوال کو شامل کیا گیا ہے وہاں نووارد اور نو آموز لکھنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ سینکڑوں ایسے نام جن کی ادبی جہتوں سے پہلی مرتبہ متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے جن میں شامل چندنام بطور تذکرہ ابراہیم خان واجد، اِبنِ عبیدی، اجمل ثاقب، احسان اعوان، احمد جان صادق، احمد میاں کوریجہ، احمد یار فریدی، اعجاز امرتسری، ارشاد امین، ارشد خالد، اختر درانی، اشرف دھریجہ، اشفاق احمد عاطف، اعجاز احمد اَحزم، اللہ بخش اَحسن، امین صابر، ایاز احمد ایاز، اے بی بھٹی، برکت علی بلوچ، بیتاب فیض آبادی، تنویر احمد شاد، جہانگیر منور، حیات محمد زخمی، خالد ادیب، خالد فاروق بیگ، خالد محسن، خلیق سمیر، خلیل عاقر، دائود اشراق بالاچ، رسول بخش اُلفت، رشید احمد تبسم، رفیق احمد تائب، ریحانہ یاسمین، زین خضری، سجاد فصیح ، سعدیہ وحید، شعیب عمر، شہزاد اختر ثمر، صادق محمد سائل ،طارق امین یازر، طیبہ امین، ظہور احمد، عابد حسین عابد، عاشق حسین یاسر، عبد اللہ عینی، عبد القادر بے وس، عبد القیوم اَنور ، عبد الرسول فریدی، عبد الغفور، عرفان اللہ اَختر، عظمی اَطہر علوی، علی عباس ساجد، عمران اسد، عمر عباسی، غلام غوث نواں کوٹی، غوث بخش ساجد، محمد اِقبال عامر، محمد اکبر قادری، محمد رشید شاہد، محمد صادق مضطر، مرید حسین راغب، منظور محسن، ناظر چاچڑانی، نسیم بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔
’’خان پور کا ادب ‘‘ میں محمد یوسف وحید سے کہاں کہاں کمی رَہ گئی ہے یا وہ جان چکے ہوں گے یا انہیں جنوا دیا گیا ہوگا ۔بہر حال نئے ریسرچ اسکالرز کے لیے ان کی کتاب کے ساتھ ساتھ ان کی رائے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوچکی ہے بشرطِ یہ کہ اس کا اعتراف کر لیا جائے ۔
’’خان پور کا ادب‘‘ میں شامل نامورقلم کاروں کے تاثرات نے کتاب کی تاریخی، تحقیقی، تعلیمی ،علمی و ادبی اہمیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ یقینا محمد یوسف وحید علم و ادبی حلقوں میں نمایاں مقام اور پہچان رکھتے ہیں ۔کتا ب کے ابتدائی حِصّے میں شامل’’ تحصیل خان پور کی مختصر تاریخ‘‘ اور آخری حصے میں محترمہ سعدیہ وحید کا مترجم ’’ ضلع رحیم یار خان کی تاریخ ‘‘ نہایت جامع اورمعلومات سے بھر پورمضمون ہے۔
محترم محمد یوسف وحید کا ایک حالیہ انٹرویو میرے علم کا حِصّہ ہے جس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ کوئی بھی انسان، اپنی ذات میں کامل و اَکمل نہیں ہے۔ بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے ۔
بہر حال انگلی اُٹھانا آسان مگر قدم اُٹھانا مشکل ہوا کرتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے’’خان پور کا ادب‘‘ میں ادب کی خدمت کا بیٹر ا اُٹھایا تو بہت سے افراد تک بھی رَسائی حاصل کی۔ جو کہ گزشتہ محققین کی صرفِ نظر کا شکار ہو گئے تھے یا ان کا ادبی کام میسّر نہ ہوسکا تھا۔ ’’خان پور کا ادب‘‘میں وہ کام اور نام بہترین اضافہ ہیں۔
خان پور میں غزل کے حوالے سے بھی کچھ باتیں سامنے آئی ہیں مگر وہ ایک جزسے بحث کرتی ہے جب کہ’’ خان پور کا ادب‘‘ کا دائرہ کار اس حوالے سے کہیں وسیع و عریض ہے باقی اس بات سے بھی انکار نہیں ہے کہ
’’بات چلی تو نیل گگن سے توڑے تارے لوگوں نے ‘‘
اسی مضمون کو سفیر لاشاری نے کچھ اس طرح اَدا کیا ہے
اگٖوں مالک دی مرضی ہے
جو چاہے مل پاوے
میں اپنی عمر دی محنت
سرِ بازار گھِن آیاں
منفی کو مثبت کرنے کے لیے بس ایک لکیر ہی تو کھینچنا پڑتی ہے پھر چاہے وہ اوپر سے نیچے سفر کرے یا نیچے سے اوپر ۔ہمارے اندر کے انسان کو اپنے ساتھ ملا کر اوپر ضرور لے جاتی ہے۔ اس کو ہی ادراکِ دروں یا عرفانِ ذات کہتے ہیں۔ بعض لفظ خود بولنے لگتے ہیں کسی تنقید یا تحقیق سے انہیں کوئی لگائو رہتا ہے نہ لوث۔ آخر میں میں پھر وہی اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ خان پور کی ادبی تاریخ میں ’’خان پور کا اَدب‘‘ ایک ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہوچکی ہے۔ ٭