کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل بھارتی ماہر ادیان ِعالم، ماہر علم بشیریات، نقاد، محقق، فلسفی، شاعر دانش ور محمد طارق غازی کا شمار بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے اُن رجحان ساز ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہوائے جور و ستم بھی سدا حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے پر اصرار کیا۔ ادیان ِعالم ،تاریخ، مقامی زبانوں کے ادب اورعالمی کاسیک کے وسیلے سے عصری آ گہی پروان چڑھانے کی تمنا کرنے والے اس انتہائی زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔ علم و ادب، تحقیق و تنقید اور لسانیات کے شعبوں میں اُن کی لائق صدرشک و تحسین کا مرانیوں کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں ذوقِ سلیم سے متمتع زندہ دِلوں اور ژرف نگاہوں نے اس فطین تخلیق کار کی ادبی فتوحات کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا ہے۔ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزین ان کے اسلوب نے سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیا ہے۔ انھوں نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہان ِتازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ محمد طارق غازی نے چشم کشا صداقتوں سے مزین اپنی ادبی تخلیقات سے اُردو زبان و ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا ہے وہ تاریخ ادب کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ذوقِ سلیم سے متمتع ادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھنے والے اس کو ہ پیکر تخلیق کارنے اپنی زندگی علم و ادب،فنون لطیفہ اور تحقیق و تنقیدکے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔تیشۂ حرف سے فصیل ِ جبر کو منہدم کرنے کے لیے کوشاں رہنے والے اس جری، پُر عزم اور با ہمت تخلیق کار نے عملی زندگی میں ہمیشہ فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ سامراجی طاقتوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ابن الوقت ،مفاد پرست اور کینہ پرور حاسدوں کی بے توجہی کی اُنھیں کوئی پروا نہیں۔ بے کمال حرف گیروں کی نکتہ چینی سے انھوں نے کبھی دِل بُرا نہ کیا اور اپنی دُھن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ انھوں نے حوصلے اور ہمت سے کام لیتے ہوئے فصلِ خزاں میں بھی خمیدہ بُور لدے چھتنار کی ڈالی تھام کرفصلِ بہار کے انتظار کو اپنا شعار بنایا اورفصلی بٹیروں ،مرغانِ باد نما ،طوطا چشم عناصر اورشہروں اور گاؤں گاؤں منڈلانے والے کووں کی کاؤں کاؤں کی جانب کبھی توجہ نہ دی ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستانِ علم و ادب ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اُٹھائیں تمام حقائق کی گرہ کشائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کے وسیع مطالعہ اور تبحر علمی کی بناہر انھیں ایک علمی و ادبی دائرۃ المعارف قرار دیاجاتاہے۔ وہ ممتاز ادبی مجلات جن میں ان کی ادبی تخلیقات تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں اُن میں پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی مجلات الاقربا ( اسلام آباد) ،نیرنگِ خیا ل( راول پنڈی )،انجم ( کراچی ) قابل ذکر ہیں۔ بھارت سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں معارف ( اعظم گڑھ )، شاعر ( ممبئی)، بانو ( نئی دہلی )،شمع ( نئی دہلی)، کتاب ( لکھنو)، دوست ( علی گڑھ )،عندلیب ( علی گڑھ )، سب رس (حیدر آباد دکن ) ،گواہ ( حیدرآباد ) مُنصف ( حیدرآباد ) ،عکاس ( کلکتہ ) شامل ہیں ۔انٹر نیٹ کے موجودہ زمانے میں محمد طارق غازی نے ستاروں پر کمندڈالی ہے اور ان کی تخلیقات جن ویب سائٹس پر باقاعدگی سے ارسال کی جاتی رہی ہیں ان میںعلی گڑھ اردو کلب ،این آر آئی فورم ،اے ایم یونیٹ ورک ،وائس آف علی گڑھ نیٹ ورک، یاہوگروپ ،گوگل گروپ ،برقونی مجلات میں سمت، حیدرآباد ،شعر وسخن، ٹورنٹو ،گلبن، جدہ شامل ہیں۔
مجھے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی کہ محمد طارق غازی نے گزشتہ چھے عشروں میں لکھی جانے والی اپنی شاعری کو یک جا کر کے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا قصد کیا ہے۔ نظموں کا مجموعہ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے جب کہ غزلیات کا مجموعہ پانچ سو صفحات پر محیط ہے ۔ تازہ کاری سے مزین محمد طارق غازی کی نظمیں تاریخ اور اُس کے پیہم رواںعمل کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ برعظیم پاک و ہند میںمسلمانوں کی آمد کے بعد مسائل اور مضمرات پر محمد طارق غازی کی گہری نظر ہے ۔جنوبی ہندوستان میں مسلمان تجارت کی غرض سے پہنچے جب کہ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں نے وسیع علاقہ فتح کیا اور وہا ں عسکر ی قوت کے بل بوتے پراپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔طائف سے تعلق رکھنے والے نوجوان فوجی سالار محمد بن قاسم نے سندھ کو مسخر کر لیا تو حجاج بن یوسف نے برصغیر کے مقامی ہندوؤں کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا۔ طارق بن زیاد کا تعلق بربر خاندان سے تھا اور اُس کی جنم بھومی بھی طائف ہی تھی۔ محمدطارق غازی نے اپنی نظموں میں اُندلس ،قرطبہ اور بدر و حنین کا ذکر کیاہے ۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کے عہدِ زریں کے بہت بڑے مداح ہیں۔ ترک اور مغل حکومت کی کارکردگی پر بھی اُنھوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔عالمِ اسلام کے سیاسی زعما،قائدین اور دانش وروں خاص طور پر ترکی کے قائد مصطفیٰ کمال اتا ترک( 1881-1953)کی خدمات کو انھوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ترکی میںسائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اتا ترک نے جو بے مثال جدوجہد کی اس سے یہ مسلمہ صداقت سامنے آئی کہ پرِ زمانہ پروازِ نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے۔ اس جہاں کے کارِ دراز میں اُلجھے انسان کے لیے سائنسی علوم تک رسائی ہی خضر ِراہ ثابت ہو سکتی ہے ۔جو قوم اپنی مملکت میں امن و سکون کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اُسے دنیا میں حرص و ہوس کی پیدا کردہ دہشت گردی سے کوئی خوف نہیں ہو سکتا۔اتا ترک نے اپنی قوم کو یہی درس دیا کہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے ۔دنیا کی وہ اقوام جو دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کو اپنی اوّلین ترجیح بناتی ہیں اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیتی ہیں اُنھیں دنیا کی کوئی طاقت نیچا نہیں دِکھا سکتی۔ نظموں کے اس مجموعے میں جہاں آشوبِ زمانہ کا ذکر کیا گیا ہے وہاں رجائیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھنے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آخری عہدِ مغلیہ کے بے وقعت حاکموں کی نااہلی ،عیاشی ،کور مغزی اور بے بصری کو بالعموم نظر انداز کر دیا گیاہے۔ آخری عہدِ مغلیہ میں شاہانِ بے خبر کی رنگ رلیوں اور گھٹیا عیاشی کے نتیجے میں نہ صرف اس خطے میں نظامِ حکومت درہم برہم ہو گیا بل کہ اخلاقی دیوالیہ پن کے باعث معاشرتی ڈھانچے کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔
محمدطارق غازی نے اپنی نظموں میں تاریخی شخصیات اور واقعات کے بارے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے معمور ہے۔ مثال کے طور پر براہین، سلطان اعظم، انقلاب گہری معنویت کی حامل نظمیں ہیں ۔ان نظموں میں تاریخی حقائق کے تناظر میںزندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی جو سعی کی گئی ہے اس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ اپنی نظم ’’تجدید اُمت‘‘ میں محمد طارق غازی نے شاہ ولی اللہ دہلوی (1703-1762)کی اُس اصلاحی تحریک کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جو انھوں نے دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں شروع کی تھی۔ اس نظم میں انھوںنے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی مثالیں دے کر واضح کیا ہے کہ آج بھی اگر غزالی، ملاجیون، قرطبی، نسفی، سیوطی، فخر الدین رازی، نووی، سہارنپوری، عینی، عسقلانی، ابن مندہ، ملا قاری، شبلی نعمانی، حامد اللہ انصاری غازی، مزی، ابن کثیر ،حموی ،ابن خلدون ،طبری ،زرقلی،خٰام ،بن شاطر ،خجندی ،کندی ،اجمل ،بو علی ،زہراوی اوررازی کی ابد آ شنا تعلیمات پر عمل کیا جائے تو آگ بھی اندازِ گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔ محمد طارق غازی نے اقلیم معرفت کی جن ہستیوں کا ذکر کیا ہے ان کے فقر کا ایک عالم معترف تھا۔یہ وہ جلیل القدر بزرگ تھے جو ہر قسم کے دنیاوی ہنگاموں سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے۔ تاریخ ِ عالم کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم معاشرہ اس وقت تغیر و تبدل کی زد میں آ گیا جب مسلمان سپاہ نے عراق اور ایران کو مسخر کر لیا۔ دنیا میں اسلامی حکومتوں بالخصوص بنو امیہ اور بنو عباس کو جس نشیب و فراز سے گزرنا پڑا محمدطار ق غازی نے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ مختلف قسم کی عصبیتوں نے عالمی سطح پر اسلامی حکومتوں کے نظام کو شدید ضعف پہنچایا ۔اس کے نتیجے میں معاشرتی زبوں حالی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی اور انسانی ہمدردی ،خلوص ،مروّت ،ایثار ،وفا، ایفائے عہد ،دیانت داری ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو معاشرے سے بارہ پتھر کر دیاگیا۔ نوآبادیاتی دور میں بر صغیر کا معاشرہ زوال کی زد میں رہا اور پس نو آبادیاتی دور میں اس کی زبوں حالی جوں کی توں رہی۔ محترم محمد طارق غازی کی معرکہ آرانظم ’’ انقلاب ‘‘ پڑھ رہا تھا کہ اس کے قوافی کے نیچے اضافت کی روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُترکر مسحور کر دینے والی اثر آفرینی نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔
ہر انقلاب ہوتا ہے طوفانِ انقلاب
کشتی اُلٹ بھی جاتی ہے دورانِ انقلاب
کافی دیر تک میں تاریخی صداقتوں سے مزین اس یادگارنظم کے تخلیقی محرکات کے بارے میں سوچتارہا۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنی تسبیح روزو شب کا دانہ دانہ شمار کر رہا تھا کہ اچانک عالمی شہرت کے حامل ادیب اور نقاد پروفیسرڈاکٹر مظہر محمود شیرانی(پیدائش : 9۔اکتوبر 1935،وفات:13جون ،2020) سے متعلق ایک واقعہ یادآگیا جو جھنگ کے معروف افسانہ نگار شفیع ہمدم نے احباب کو سنایا تھا۔ پروفیسر حاجی حافظ محمدحیات کے ساتھ مظہر محمودشیرانی کے قریبی تعلقات تھے مگر اُن کے گھر پر ملاقات کا کبھی موقع نہ ملا تھا ۔انھیں صر ف یہ معلوم تھا کہ شیخوپورہ میں حافظ محمود خان شیرانی روڈسے ملحق ایک کوچے میں پروفیسرڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا بسیرا ہے۔ ایک مرتبہ وہ مطالعاتی دورے کے سلسلے میں طلبا اور اساتذہ کے ایک گروپ کے ساتھ ہرن مینار ( شیخو پورہ ) پہنچے ۔ہرن مینار کے باغات کی سیر وتفریح اور طعام سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے معتمدرفقا کے ہمراہ پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی سے مِلنے کی غرض سے شیخو پورہ گئے مگر حافظ محمو دخان شیرانی روڈ کا اتا پتا معلوم نہ ہوسکا ۔ایک واقفِ حال شخص نے بتایا کہ اس پس ماندہ علاقے میںرفتگاں کو یادرکھنے کی روایت اب عنقا ہو چکی ہے۔
حاجی حافظ محمد حیات نے آہ بھر کر کہا:
’’ یہ شخص سچ کہہ رہاہے جب کوئی معاشرہ زوال کی زدمیں آتاہے تووہاں بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلانے لگتاہے۔زندگی کی اقدار ِ عالیہ ،درخشاں روایات ، فلاحی ادارے اور شخصیات سب کے سب گردشِ ایام کی مسلط کردہ شکست و ریخت کے نتیجے میںمکمل انہدام کے قریب پہنچ جاتے ہیں ۔منیر نیازی نے سچ کہ تھا:
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دِل سے منیر ؔ
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا‘‘
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم کے نام پر آباد اس شہر میں آج بھی شہزادہ سلیم ( شیخو) کی مظلوم کنیز انار کلی کے ساتھ محبت کے المیہ کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔شیخوپورہ شہر میں تلاش بسیار کے بعد حاجی حافظ محمد حیات اپنے رفقااسحاق مظہر ،ارشد علی ، گدا حسین افضل ، حاجی محمد ریاض ،حاجی احمدطاہر ملک ،شفیع ہمدم،سجاد رانا ،دیوان احمد الیاس نصیب،شیخ ظہیر الدین اور احمد بخش ناصر کے ہمراہ مظہر محمود شیرانی کے گھر پہنچے تو انھوں نے طویل مسافت طے کر کے آنے والے اپنے مہمانوں کو پر تپاک خیر مقدم کیااوربے ساختہ انداز میں اپنے والد( اختر شیرانی :1905-1948 )کا یہ شعر پڑھا :
میں آرزوئے جاں لکھوں کہ جانِ آرزو
تُو ہی بتا دے ناز سے ایمانِ آرزو
حیف صد حیف صر صر ِ اجل یادوں کے سب گل ہائے رنگ رنگ اُڑا لے گئی اور ان سے وابستہ سب حقائق اور تمام کردار اب خیال وخواب ہو گئے ہیں۔آسماں کا یہ رنگ دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتاہے کہ زمیں ایسے نابغۂ روزگارلوگوں سے خالی ہو چُکی ہے ۔یہ سوچ کر دِل بیٹھ جاتاہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے پیارے لوگ اس دنیا سے اُٹھ گئے اور ہماری آنکھیں بے بسی کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔
نظم ’’ آگاہی ‘‘میں مادی دور کی لعنتوں کی تباہی سے خبردارکیا گیاہے ۔نظم ’’ تجدید ِ اُمت ‘‘ میں ملی اصلاح پر زور دیا گیاہے ۔نظم ’’ سیاست ‘‘میں نظا م حکومت اورانسانیت کے وقار اور سربُلندی کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے ۔نظم’ مسلمان‘‘ میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو مسلمان کا امتیازی وصف قرار دیا گیاہے ۔ اپنی نظم ’’مومن‘‘ میں محمد طارق غازی نے مردِ مومن کی خداد صلاحیتوں اور حلقۂ اثر پر روشنی ڈالی ہے ۔نظم ’’مشرق‘‘ میں تہذیبی اقدار کو موضوع بنایا گیاہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقامِ ہجرت کا احوال نظم ’’بابِلون‘‘ میں شامل ہے ۔نظم ’’ زَرکش ‘‘ میں اقتصادی موضوعات پر اظہار ِ خیال کیا گیاہے ۔ اپنی نظم ’’خامی‘‘ میں محمد طارق غازی نے قلعۂ فراموشی کے اسیروں اور اپنے تئیں عوج بن عنق بن جانے کے داعی فریب خوردہ سفہا کو آ ئینہ دکھایاہے ۔نظم ’’ کشا کش‘‘ زندگی کے تضادات اور سرابوں کے عذابوں کے احوال پر مبنی ہے ۔ نظم ’’ تقدیر ‘‘ میں محمد طارق غازی نے جبر و قدرکے مسائل کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔اقوام ِعالم کے عروج و زوال کے بارے میں محمد طارق غازی نے لکھا ہے کہ ان اقوام کے قائدین اور مصلحین سالہا سال تک فکر و خیال کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلتوں میں روشنی کا سفر جار ی رکھتے ہیں ۔آلام ِ روزگارکے مہیب بگو لوں میں ملت کی کشتی کو ساحلِ عافیت تک پہنچانے والے ملاح اپنی ہر تدبیر کے بارے میں غور وخوض کو شعار بناتے ہیں۔ تفکر اور تدبر کے یہ انداز ملی شعور اور ذمہ داری کے احساس کے مظہر ہیں ۔نباتات و جمادات کے برعکس مر دِ حق پرست فقط منشائے خدا پر عمل کرتاہے اور اُس کی ہر اُمید بر آتی ہے اور زندگی کے مسائل کے حل کی صورت پیداہوتی ہے۔ نظم ’’ نظر ‘‘میں دِلِ بِیناکا احوال بیان کیا گیا ہے ۔ذوقِ نظر کا احوال بھی کمال ہے جو ممتاز مورخ ابن خلدون کی تاریخ نگاری کومعیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرتاہے۔ یہ دِلِ بینا ہی ہے جو زندگی کی شبِ تاریک میں راستہ دکھاتاہے ۔آنکھ کا نُور جہاں بے بس دکھائی دیتاہے وہاں دِلِ بینایدِ بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔کاروانِ ہستی کا تیز گام قافلہ سدا رواں دواں رہتاہے اور زندگی کے سفر میں قیام بے محل ہے ۔ہر دم بڑھے چلو کا جو غُل سنائی دیتاہے وہ اسی ذوق ِ نظر کا مر ہونِ منت ہے ۔بدر و حنین کی غزوات میں مجاہدین کی سرفروشی ،شجاعت اور ایثار اس کی درخشاں مثالیں ہیں ۔ طارق غازی نے واضح کیا ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد قبائل اوس اور خزرج کی سخاوت کا احوال تاریخ ِ اسلام کا منور باب ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے کا المیہ یہ ہے کہ ذوقِ نظر عنقا ہے ۔سطحی اندازِ فکر بڑھ رہاہے ۔فہم و فراست اور تدبر و بصیرت کے حامل لوگ اب خا ل خال دکھائی دیتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارا پیرہن اب سفر کی دُھول ہیہے ۔ محمد طار ق غازی کے اسلوب میں صنائع بدائع سے دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا ہے ۔آئیے دھنک کے اُس پار کی ایک جھلک دیکھیں ۔
مرکباتِ عطفی اور مرکباتِ اضافی کے بر محل استعمال سے محمد طارق غازی نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے ۔مرکباتِ اضافی کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
اُمتِ وسط ،مردانِ حُر،غرقِ مے ،چشمِ فردا،آلِ سلجوق ،آلِ بابر ،سمتِ مغرب،دوشِ فردا،عارفانِ سما،جہدِ ایماں،اسپ ِبے عناں ،صیدِ امتحاں ،جذبِ دیں ،گنجِ شائگاں ،گرمیٔ وجود،سیمائے آسماں ،ہجومِ نجوم،ترکانِ حر،سپاہِ عرب،فاتحانِ ہند ،کارزارِ فکر ،قصۂ عجیب ،سلطانیٔ نظر،طوفانِ انقلاب،پریشانِ انقلاب،بحرانِ انقلاب،ہیجانِ انقلاب،ارمانِ انقلاب،ایمانِ انقلاب،عنوانِ انقلاب،سلطانِ انقلاب،گنج ِ سلیماں ،دشت ِامکاں،دہرِ امانت ،اہلِ بربر،کشیدِ ضیا،خاکِ تِیرہ،کاخِ تہذیب،بلندِ روزگار،دشتِ حنظل۔
مرکبات عطفی کے استعمال سے طارق غازی نے اپنی شاعری کو خوب نکھاراہے ۔اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
فہر کے گھر کی نجابت ،بدر و حنین کی جرأت ،گرد اور دُھول ،عز عبدالسلام و بن عربی ،نور و حسن شوق،خلافت اور امامت کے اصولی علم کی خاطر ، دوا بھی اور دعا بھی،زندگی کا قدیم انتظام ،ارتقائے مسلسل کا نام ،مساوات کاپیام ،روح کی راہ ،قلم و نون،تہذیب کا خواب ،راہ کا نقشہ ،نفرت کا بازی ، مارکو پولو کا فتنہ ،تاریخ کا اصل اصول ،قصرِ دِل کا انہدام
محمد طارق غازی کے اسلوب میں موضوعاتی تنوع اور ندرت ِ بیاں کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ انھوں نے ہمیشہ افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کرکے جہانِ تازہ کی جانب سفر کرنے کی تلقین کی ہے۔ نئے الفاظ ،نئے انداز اور نئے مفاہیم کے اعجاز سے اُن کی شاعری نے ساحری کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ کور چشم اور کاہل لوگوں کو کام پر مائل کرنے کی غرض سے انھوں نے سیلِ نشاط لانے کی صورت تلاش کرنے کو وقت کا اہم ترین تقاضا قرار دیا ہے ۔یہی وہ صورت ہے جس کے اعجاز سے بے عملی اور جمود کا خاتمہ ممکن ہے اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس عالمِ آ ب و گِل میں ہر جاندارکی مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سمندر کی تلاطم خیز موجیں پک جھپکتے میں مٹا دیتی ہیں ۔اس کے باوجود کچھ لوگا ایسے بھی ہیں جو اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں ۔ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے طار ق غازی نے متعدد نئی تراکیب سے اردوزبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کیاہے ۔ذیل میں اس کی چندمثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
دِل پہ دستک ،مُرادوں کا قافلہ ،مغز سے خالی خول،رہ گزاروں کی بانہیں،شاخساروں کی اُنگلیاں ،پائے جہل ،فرازِ عقل، تمکین سے عاری،ذروں کی مادیات ،تمنا کا بیج۔ محمدطارق غازی کی نظموں میں صنعت تکرار کی بہار سے سما ںبندھ گیا ہے مثلاًجگہ جگہ ،فتنہ فتنہ ۔ اسماکے استعمال میں محمد طارق غازی کی مہارت قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے مثلاًاسمائے معرفہ میں تاریخ کا معتبر حوالہ چشم کشا صدقتوں کا احوال سامنے لاتاہے ۔اورنگ زیب، اردغاں ،عمران خان ،عبدالحمید خاں،دجلہ ،فرات،غزالی،ملا جیون ،قرطبی،نسفی،سیوطی،فخر الدین رازی ،نووی،سہارن پوری،عینی،عسقلانی،ابن مندہ ،ملاقاری،ولی اللہ دہلی،شبلی،حامد الانصاری غازی،مزی،بن کثیر ،حموی،خلدون،طبری،زرقلی،خٰالم،بن شاطر،خجندی،کندی،امل،بو علی،زہراوی،مارکو پولو۔موقع کی مناسبت سے مرکبات ،صنائع بدائع ،محاورات ،تلمیحات اور استعارات کے استعمال سے اظہار و ابلاغ کے نئے آہنگ سامنے آتے ہیں مثلاً شہ سوار ( اسم مکبر )،نفی اثبات ( صنعت تضاد)،اِک کنارہ ،ساتویں قرن ( مرکبات عددی) ،بھیڑیے منگول،دجال،بانجھ فصلیں ( استعارات)، تلمیحات ارطغرل،عز عبدالسلام ،بِن عربی ،خلجی،تغلق،شیخ برناوی،تاترک ،جور ِحجاج ،تیغِ سفاح ، اندلس، ایشیا، اُرگنج ،بلخ،مصر ،مرو،رَے،بلخ،اُرگنج،ہند،شام،سوغت،خیمہ گاہ،( ظرف ِمکاں ) آسماں، آگ، ابر،ہیولوں ،بجلیاں ،آندھیاں ،زلزلوں ،بگولوں ،بھونچال،بنکوں کے کرگس،بُوم،دشتِ حنظل ،(علامات)،گرد اور دُھول بن گئے منگول، دَم اُکھڑنے لگا،قدموں تلے بچھنا،ہلچل مچنا،کشتی اُلٹنا، دِل کے آئینے میں بال آنا،فتنے برسنا،مہم سر ہونا ،مہ وسال کاش کرنا،مزرع حیرت میں کاش کرنا(محاورات)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں ہوسِ زر نے ایک ایسی بحرانی کیفیت اختیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں ہرطرف بے حسی کا عفریت منڈلانے لگاہے ۔ دجالی آمریت کے نتیجے میں ڈالر کی آ نکھ پر آنے والے دنبا ل کو دیکھ کر ہربا شعور شخص تشویش میں مبتلاہے اوراِس صورت حال کو اقتصاد ی زبوں حالی کاسبب قرار دیتاہے ۔انتشار ،بدامنی ،استحصال اورتعصب کو ہو ا دی جا رہی ہے تاکہ آمرانہ ہتھکنڈوں سے اپنے غاصبانہ اقتدار کو طُو ل دیا جا سکے ۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔طارق غازی نے اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو نہ صرف اپنا مستقبل بل کہ اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا پڑے گا۔ایک ذمہ دار شہری کا یہ فرض نہیں کہ وہ محض اپنی ذات کے نکھار،نفاست، آرام و آسائش ،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ہر قسم کی مصلحت سے بالا تر رہتے ہوئے حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے اور اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز حق گوئی اور بے باک صداقت سے مزین کرے۔طارق غازی نے اپنی ادبی تخلیقات میں بالعموم اور نظموں میں بالخصوص پس نو آبادیاتی مطالعات اور قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متتمع کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعداور جری تخلیق کار کی حیثیت سے طارق غازی نے قارئین ِ ادب کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔تاریخ کے پیہم رواں عمل کا مطالعہ کرتے وقت بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو طویل عرصے تک اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھاتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میںرونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں طارق غازی نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے اور ماضی کی یادوں کو وقت بُرد ہونے سے بچانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔دورِ غلامی تجربات کاجو احوال تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے انھوں نے اُس سے تخلیقی مواد اخذ کیا ہے ۔ یہ ایسا معتبر ماخذ ہے جو اندیشۂ زوال سے نا آشناہے اور ہر عہد کی ادبی تخلیقات میں اس کے آثار ملیں گے ۔ انھوں نے عدل و مواخات کے نظام کو انسانیت کی فلاح کے لیے نا گزیر قرار دیاہے ۔ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی محمد طارق غازی کا معمول ہے وہ اسی سے تخلیقی فعالیت کے لیے درکار تاب و واں حاصل کرتے ہیں اور اسی کے اظہار و ابلاغ سے مسرت کشیدکرتے ہیں۔
انسانی زندگی روحانی اور جسمانی کیفیات سے عبارت ہے ۔اِن میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں اور ان کا تدارک بھی ممکن ہے ۔کوئی بھی انسان جب کسی جسمانی عارضے میں مبتلا ہوتو طبیب اس کا علاج تجویزکرتاہے اور جب روحانیت کی جستجو ہو تو اُس عہد کا دانائے راز اس کے لیے قابل عمل نسخہ تحریر کرتا ہے ۔ امیر خسرو کے زمانے سے اردو شاعری میں منظوم طبی نسخوںکا چلن رہا ہے مگر حیرت ہے کہ روحانی علاج کے لیے تیر بہدف نسخے کم کم لکھ گئے ہیں ۔اسدملتانی (1902-1959) کی ایک نظم آسان نسخے ( مطبوعہ مجلہ نمک داں :فروری ۔ مارچ 1955)پڑھی تو میں دنگ ر ہ گیا ۔اسد ملتانی نے جسمانی عوارض کے لیے جو سہل نسخے تجویز کیے ہیں ان پر عمل کرنے سے جسمانی تکالیف سے گلو خلاصی کی یقینی صورت پیدا ہو سکتی ہے ۔
جہاں تک کام چلتا ہو غذ اسے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
اگر تجھ کو لگے جاڑوں میں سردی
تو استعمال کر انڈوں کی زردی
جو ہو محسوس معدے میں گرانی
تو چکھ لے سونف یا ادرک کا پانی
اگر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے، شلجم زیادہ
جو بد ہضمی میں چاہے تُو افاقہ
تو کر لے ایک یا دو وقت فاقہ
جو پیچش ہے تو پیچ اس طرح کس لے
مِلا کر دُودھ میں لیموں کا رس لے
جگر کے بل پہ ہے انسان جِیتا
اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا
جگر میں ہو اگر گرمی دہی کھا
اگر آنتوں میں خشکی ہے تو گھی کھا
تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فوراً دودھ گرما گرم پی لے
جو طاقت میں کمی ہوتی ہے محسوس
تو پِھر ملتاں کی مصری کی ڈلی چُوس
زیادہ گر دماغی ہے تیرا کام
تو کھایا کر مِلا کر شہد بادام
اگر ہو دِل کی کم زوری کا احساس
مربہ آملہ کھا اور انناس
اگر گرمی کی شدت ہو زیادہ
تو شربت پی بہ جائے آبِ سادہ
جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی سے غرارے
اگر ہے درد سے دانتوں کے بے کل
تو اُنگلی سے مسوڑھوں پر نمک مَل
جو ہے افکارِ دنیا سے پریشاں
نمک داں پڑھ ،نمک داں پڑھ، نمک داں
علمی و ادبی روایات کو پروان چڑھانا محمد طارق غازی کا نصب العین رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے قومی اصلاح کو ہمیشہ اوّلیت دی ہے ۔ایک مخلص ملی نباض کی حیثیت سے محمد طارق غازی نے اپنی نظم ’’ تجدید اُمت ‘‘ میں ملت اسلامیہ کے روحانی علاج کے لیے جو نسخہ لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس اہم موضوع پر کوئی جامع منظوم مشاورتی نسخہ اس سے قبل میری نظر سے نہیں گزرا۔ نو آبادیاتی دور کی زخم خورد ہ قوم اگر آج بھی صدقِ دِل سے اس نسخے پر عمل پیرا ہو جائے تو آگ بھی اندازِ گلستاں پید اکر سکتی ہے اور تدریجِ وقت سے دِل کی کھیتیاں پِھر سے لہلہانے لگیں گی۔ لکھنو ( امیٹھی ) سے تعلق رکھنے والے ممتاز مفسر اور عالم دین شیخ احمد ملا جیون( پیدائش : 1048ہجری )نے سترہویں صدی میں اس خطے میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں اُنھیں آج بھی زادِ راہ بنانا چاہیے۔ پس نو آبادیاتی دور میںاخلاقی انحطا ط کے گرداب میں پھنسی قوم کے لیے محمد طارق غازی کا تخلیق کیا ہوا یہ نسخہ کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسد ملتانی کے طبی نسخوں کے مطالعہ کے بعد مناسب ہو گاکہ محمد طارق غازی کے لکھے ہوئے روحانی نسخے ( تجدید اُمت ) کا جائزہ لیا جائے اور اپنے من کی غواصی کر کے سراغ ِزندگی پانے کی سعی کی جائے ۔
تمنا ہے اگر تجدیدِ اُمت کی تمھیں طارقؔ
مہم سر ہوگی یہ تعلیم میں تجدید ِ ماضی سے
اگر ہے آرزو اخلاق کی تحسین کی دِل میں
تو اِس کی رہبری حاصل کرو جا کر غزالی سے
مفاہیم ِ کتاب اللہ پر گر دسترس چاہو
سبق لو ملا جیون ،قرطبی،نسفی، سیوطی سے
فرازِ عقل سے ہستی کا نظارہ اگر چاہو
تو یہ عینک مِلے گی تم کو فخر الدین رازی سے
اگر مطلوب ہے شرح حدیثِ مصطفیﷺ تم کو
سنو نووی، سہارن پوری، عینی، عسقلانی سے
امور ِفقہ کے اسرار سے آگاہی کی خاطر
ہدایت چاہو سب کی، ابنِ مندہ، ملا قاری سے
زمانہ میں سلیقہ کیا ہے اِنسانوں کے جینے کا
سبق تہذیب کا سیکھو ولی اللہِ دہلی سے
اگر باریکیاں سیرت کی پڑھنے کا تقاضا ہو
تو یہ گنجِ سلیماں مِل سکے گا تم کو شبلی سے
خلافت اور امامت کے اصولی علم کی خاطر
حکومت کیا ہے پوچھو حامد الانصاری غازی سے
نظر ملتی ہے تاریخ ِ زمانہ کے دفاتر میں
مزی و بن اثیر و حموی و خلدون و طبری سے
عناصر پر نگاہ ِ ابتکاری ہو اگر منشا
ملے گی زرقلی،خیام ،بن شاطر ،خجندی سے
دوا بھی اور دعا بھی ہے اگر مقصود علم ِ طب
مِلے گی کندی،اجمل،بو علی ،زہراوی،رازی سے
وہی زندہ ہیں جن کا علم زندہ ،ابتکاری ہے
ہو اجو غیر کا پیرو تو وہ تمکیں سے عاری ہے
حریت ِ ضمیر سے جینے کی تمنا میں محمد طارق غازی کے دل پر جو گزرتی ہے وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اسے بلا تامل زیبِ قرطاس کر دیتے ہیں۔ ان کے دل میں جو کچھ کہنے کی خواہش ہوتی ہے وہ جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے دبنگ لہجے میںبیان کر دیتے ہیں ۔وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے نہ ہی حشو وزوائد سے اپنی تخلیق کو آلودہ ہونے دیتے ہیں۔ ناسازگار حالات اورہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ ِ وفاکو بجھنے نہیںدیتے اور متاعِ لوح و قلم چھین کر لب ِ اظہار پر تالے لگانے والوں سے براہِ راست مخاطب ہو کر ان پر واضح کر دیتے ہیں کہ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو مکمل طور پر منہدم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ ان کا جرأت مندانہ اندازجبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتاہے ۔غم ِ جہاں کا حساب کرتے وقت تخلیق کار کو آلامِ روزگار کے پاٹوں میںپسنے والے فریادکناں ،جگر فگاراورالم نصیب انسانوں کے گروہ کے دکھ بے حساب یادآتے ہیں ،جو اپنے زخموں کے ایاغ تھامے داد طلب ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔وہ کسی مصلحت اندیشی کے بجائے اپنے ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے براہِ راست حرفِ صداقت لکھتے جاتے ہیں۔ اسلوب کے ذریعے ہی تخلیق کار کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ایک موثر اور جان دار اسلوب کا حامل تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا خود اثبات کرتا ہے ۔ممتازبرطانوی نقاد والٹر پیٹر ( 1839-1894 :Walter Pater) نے کہا تھا:
” The style ,the manner ,would be the man ,not in his unreasoned and really uncharacteristic caprices,invoulantry or affected, but in absoulately sincere apprehension of what is most real to him .(1)
ایک صاحبِ طرز ادیب کی حیثیت سے محمد طار ق غازی جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتے ہیں تو اُن کی دِلی تمنا ہوتی ہے کہ اپنی بصیرت اور دُوراندیشی کور و بہ عمل لاتے ہوئے وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائیں ۔ اردو نظم میں اصلاحی مقاصد کی جو شمع حالی ؔ اور آزاد ؔ نے فروزاں کی محمد طارق غازی نے اُس سے اکتساب فیض کیا ہے۔ وہ اس قدر موثر اور دل نشیں اندازمیں اپنے تجربات، مشاہدات، جذبات اور احساسات کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں کہ رنگ ،خوشبو ،حسن و جمال ،اوجِ کمال اور شام ِ زوال کے حقیقی مناظرقاری کو عصری آ گہی سے متمتع کرتے ہیں۔ تیزی سے گزرتے ہوئے وقت میں مسرت و شادمانی ،راحت و سکون، حزن و ملال اور یاس و ہراس کے لمحات میں بہ یک وقت صبر و تحمل کا مظاہر طار ق غازی کی مضبوط او ر مستحکم شخصیت کاامتیازی وصف ہے۔ ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے زبان وبیان پر خلاقانہ دسترس کاثبوت دیتے ہوئے، احتسابِ ذات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، حق وصداقت کا علم بلندکر کے جب وہ تخلیقِ ادب کا فریضہ انجام دیتے ہیں تو وہ حرف ِ صداقت کی ناگزیر اور ابد آشنا سحر نگاری سے قارئینِ ادب کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں ۔قارئینِ ادب کے لیے مطالعہ کے دوران میںسہل الحصول مسرت کے یہ لمحات جمالیاتی تسکین کا موثروسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ ادب کا سنجیدہ قاری محمدطارق غازی کی تخلیقات کے عمیق مطالعہ سے جو حقیقی مسرت و شادمانی حاصل کرتاہے وہ اُن کے دل کش اسلوب ہی کا ثمرہے ۔ شاعری میں لفظ کی حرمت کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ منافقت ،قول و فعل کا تضاداور ہوس پرستی نے نوع ِ انساں کو اخلاقی اعتبار سے تحت الثریٰ میں پہنچادیاہے ۔ ایک زیرک اور معاملہ فہم تخلیق کار کی حیثیت سے طارق غازی نے مصائب آلام کو کبھی اپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا بل کہ فسطائی جبر کے خلاف بزدلانہ انداز میں دہائی دینے کے بجائے اُسے نظر انداز کرکے نئے زمانے اور نئے صبح وشام پیداکرنے کے لیے انہماک کا مظاہرہ کیا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ترک و انتخاب بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ اپنے دلی جذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے خیالات سے تصنع اور تکلف کی گرد صاف کرنا از بس ضروری ہے ۔ ایک مرصع ساز اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے متمتع تخلیق کار کی حیثیت سے طارق غازی نے جس طرح اپنے اسلوب میں غیر ضروری باتوں اور غیر متعلقہ تفصیلات کو حذف کرکے صداقت کی طرف گامزن ہوکر لعل و جواہر پر کندہ کاری کی سعی کی ہے وہ اُن کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ طارق غازی کو اس بات کا ملال ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںذوقِ مطالعہ سے محروم قاری کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کور مغزی اور بے بصری اسے مزاج خانقاہی میںپختہ تر کر دیاہے اور وہ بے حسی ،بے عملی اور کاہلی کا شکار ہو کرشب و رو زایک گونہ بے خود ی کے لیے سرگرداں دکھائی دیتاہے۔ محمدطارق غازی نے انسان دوستی کوشعار بناتے ہوئے یہ بات واضح کر دی ہے کہ لفظ کی حرمت کا خیال رکھنے والے ادیب جبر کے سامنے کسی صورت میں سپر انداز نہیں ہوسکتے۔ اپنی نظموں میں انھوں نے موقع پرستی ،محسن کُشی، عیاری اور مکاری کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہیںکیا ۔ انسانی ہمدردی کو شعار بنانے والے اس تخلیق کار نے اپنے اسلوب کو ذاتی مفادات اور حرص و ہوس سے کبھی آلودہ نہیںہونے دیا۔دستیاب معلومات میںسے ترک و انتخاب کا مرحلہ تخلیق کار اور محقق کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوتاہے۔اُن کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کی چھلنی سے حشو وزوائد الگ کر کے مرصع سازی کابلندمعیار قائم رکھا ہے ۔ محمد طارق غازی کا اسلوب اس قدر اوجِ نزاکت پر فائز ہے کہ کوئی دوسرا اِس میں شریک و سہیم نہیں ۔اپنے اسلوب میں محمد طارق غازی نے چربہ ساز مسخروں اور سارق ٹھگوں کو آئینہ دکھا کرہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے ۔ محمد طارق غازی نے اپنی شاعری سے جہد و عمل کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے ۔معاشرتی زندگی سے جمود اور بے عملی کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی تمنا رکھنے والے اس مصلح اور ادیب نے قلم بہ کف مجاہد کا کردارادا کرتے ہوئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھاہے ۔ شبِ تاریک میں چاندنی کی روشنی پھیلانے والی ان نظموں کے بارے میںجھنگ کے ممتاز شاعر ریاض احمدشگفتہ ( رام ریاض ) کا خیال آتے ہی یہ مرحوم شاعرخیال ہی میں مجھ سے مخاطب ہوااور اپنی مقبول نظم ’ چاندنی ‘‘ کے یہ اشعار اپنے دبنگ لہجے میں سنائے :
دِل کو حسرت رہی ہے بڑی چاندنی
کاش تُو مِل سکے دو گھڑی چاندنی
جانے کِس چاند کی راہ تکتی رہی
سرد راتوںمیں پہروں کھڑی چاندنی
پھر کسی دیس تیرا پتا مِل گیا
چاند تارے لیے چل پڑی چاندنی
بزمِ گلشن میں اِک برگِ گُل کے لیے
کتنی شاخوں کے پاؤں پڑی چاندنی
جب بھی موسم کا اُس کو خیال آ گیا
پھول کُملا گئے رو پڑی چاندنی
رامؔ میرے شب و روز کو ڈس گئے
چلچلاتا اُجالا کڑی چاندنی
————————————————————————————————————————————————————-
مآخذ
1.Walter Pater : Appreciations, Macmilan And Co. London,1889,Page, 34
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...