(Last Updated On: )
کینیڈا میں مقیم ممتاز بھارتی دانش ور، ماہر ادیان ِعالم، ادیب، ماہر علم بشریات، محقق، مورخ اور نقاد محمد طارق غازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اُردوزبان وادب سے والہانہ محبت اُن کی گُل افشانیٔ گفتار کوعلمی و ادبی محفلوں کو رنگ، خوشبو اور حُسن و خوبی کا استعارہ بنا دیتی ہے ۔ تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل کی ترجمان اُن کی شاعری حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کی امین ہے۔ دنیا بھر کے ممتاز ادبی مجلات میں ان کے تنقیدی و تحقیقی مقالات اور ادبی تخلیقات باقاعدگی سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پوری دنیا میں اُن کے لاکھوں مداح اُن کی فکر پرور اور چشم کشا صداقتوں سے لبریزتخلیقی تحریریں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ عالمی شہرت کے حامل و ہ ممتاز ادبی رسائل و جرائد جن میں ان کی وقیع ادبی تخلیقات تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں اُن میں پاکستان سے شائع ہونے والے وقیع ادبی مجلات الاقربا ( اسلام آباد)، نیرنگِ خیال( راول پنڈی )،انجم ( کراچی ) قابل ذکر ہیں ۔بھارت سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں معارف ( اعظم گڑھ )، شاعر ( ممبئی)، بانو ( نئی دہلی )،شمع ( نئی دہلی)،کتاب ( لکھنو) ،دوست ( علی گڑھ )،عندلیب ( علی گڑھ ) ،سب رس (حیدر آباد دکن ) ،گواہ ( حیدرآباد ) مُنصف ( حیدرآباد ) ،عکاس ( کلکتہ ) شامل ہیں ۔علوم و فنون ،مواصلات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں محمد طارق غازی نے ستاروں پر کمندڈالی ہے اور ان کی تخلیقات انٹر نیٹ پر بھی ضوفشاں ہیں ۔دنیا کی جن ویب سائٹس پر اُن کی علمی و ادبی تخلیقات باقاعدگی سے ارسال کی جاتی رہی ہیں ان میںعلی گڑھ اردو کلب ،این آر آئی فورم ،اے ایم یونیٹ ورک ،وائس آف علی گڑھ نیٹ ورک ،یاہوگروپ ،گوگل گروپ ،برقونی مجلات میں سمت، حیدرآباد ،شعر وسخن، ٹورنٹو ،گلبن، جدہ شامل ہیں ۔ اپنے شعر ی اسلوب میںاختصار ،جامعیت اور مسرور کُن انداز میں اُنھوں نے انسانیت کے جذبات و احساسات ،رنج و غم اور مسرت و انبساط کو جس فنی مہارت ،بے باکی اور سلیقے سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے اُسے پڑھ کر قاری حیرت و استعجاب کی کیفیت سے سرشار ہو جاتاہے ۔ اصلاحی مقاصد سے لبریزاُن کی تخلیقی تحریریں قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثرترین وسیلہ ثابت ہوئی ہیں ۔
حال ہی میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدطار ق غازی کی گزشتہ نصف صدی سے زائد( 1963-2021)کے عرصے میں لکھی گئی غزلیات کا مجموعہ شائع ہو رہاہے۔مجھے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی کہ محمد طارق غازی نے گزشتہ چھے عشروں میں لکھی جانے والی اپنی شاعری کو یک جا کر کے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا قصد کیا ہے۔ نظموں کا مجموعہ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے جب کہ غزلیات کا مجموعہ پانچ سو صفحات پر محیط ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حرص و ہوس نے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔نوآبادیاتی دور میں اس خطے پر جو کوہِ ستم ٹوٹاپس نو آبادیاتی دور میں بھی اس کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی کے امکانات کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ محمدطارق غازی کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اصلاح اور مقصدیت کی وہ مساعی جن کا آغاز علی گڑھ تحریک نے کیا تھاوہ اب خیال و خواب ہو چُکی ہیں ۔ اس کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ ،ادب اور فنون لطیفہ پر توجہ کم ہو گئی اور زرومال کی ہوس نے اخلاقیات کی مظہر اقدار و روایات کو نگل لیااورسرابوںکے عذابوں میں مبتلاانسان اِس دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بن گئے۔ محمد طارق غازی نے نئی نسل کی اصلاح اور بیداری کا جو خواب دیکھا ہے اُس کا پرتو اُن کی شاعری میں موجود ہے ۔ اردو زبان کی مختلف اصنافِ ادب کی درجہ بندی کرتے وقت نقادوں نے غزل کے ارفع مقام کے بارے میں بالعموم تحفظات کا اظہار کیا گیاہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ غزل میں گُل و بلبل، حُسن و رومان ،معاملہ بندی اور سراپا نگاری کو اہم موضوع سمجھا جاتا رہاہے ۔اس کے برعکس محمد طارق غازی نے اپنی غزلوں میں منفرد انداز اپنایا ہے اور ا پنی غزلوں کو اِسقسم کے پامال موضوعات سے آلودہ نہین ہونے دیا۔اپنی وسعت نظر کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انھوں نے اپنی شاعری کو معاشرتی اصلاح کا ایک مخزن بنا دیاہے ۔اُن کے قصر شاعری کی اساس اُن کے متنوع خیالات اور جدت فکر پر ہے۔
اُردو زبان کے کلاسیکی ادب کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد محمد طارق غازی نے جدید اردو شاعری کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں نئی نسل میں عصر ی آ گہی پروان چڑھانے میں اُنھوں نے گہری دلچسپی لی۔ اس مقصد کی خاطر انھوں نے اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کو ایک معتبر وسیلہ قراردیا۔اُنھوں نے پامال راہوں سے بچتے ہوئے اپنے لیے ایک نئی طرزِ فغاں کی جستجو کی جو مستقبل میں یقیناً طرزِ ادا قرار د ی جائے گی۔اُن کی مساعی کے اعجاز سے غزل کو موضوعاتی تنوع ،اسلوبیاتی ندرت اورابلاغ کی وسعت نصیب ہوئی۔ غزل کی شعریات پر اُن کی گہری نظر ہے اس لیے انھوں نے اپنے دبنگ لہجے سے غزل کو خاص آ ہنگ عطاکیا ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے کلاسیکی اردو غزل اور جنوبی ایشا کی آٹھ سو برس پرانی ادبی روایت جو سمے کے سم کے ثمر کے باعث نظر اندا زہوتی چلی جا رہی تھی اُسے تب و تاب جاودانہ نصیب ہوئی ۔محمد حسین آزاد نے سال 1880 ء میں نیچرل شاعری کے حق میں آواز بلند کی اور فرسودہ اسالیب کو ترک کرنے پر اصرار کیا۔محمد طار ق غازی نے ایسی شاعری کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا جو عفونت میںسنڈاس سے بھی بدتر ہو۔انھوں نے اپنی غزلیات میں اخلاق اور اصلاح کو ہمیشہ اوّلیت دی ہے ۔ محمد طارق غازی کی مشرقی روایات سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کی غزلوں میں نمایاں ہے ۔انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ نو آبادیاتی دور کے مسموم اثرات نے اس خطے کے باشندوں کو ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر دیاہے جس کے نتیجے میں پس نو آبادیاتی دور میںمغرب زدہ لوگ مشرق سے بیزاری کی تباہ کُن ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ محمدطار ق غازی نے اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سکھاتے ہوئے اردو شاعری کی مشرقی روایات کو ایک قابل فخر آ ہنگ عطا کیا ہے اور انھیں نکھارنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔اُن کی شاعری میں پُر خلوص جذبات، تسکین آوردردمندی اور انسانی ہمدردی کا جس بے ساختہ انداز میں اظہار موجود ہے وہ ان کی مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف ہے ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے قاری تخلیق کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔اردو ادب میں طویل عرصے سے رعونت و انکسار ، فناو بقا ،شاد ی و غم ،کامرانی اور ناکامی ،وفا اوربے وفائی کی داستانیں دہرائیجاتی رہی ہیں مگر اس بات پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے کہ اِن کے علاوہ اس دنیا میں اوربھی بہت سے مسائل ہیںجن کے مسموم اثرات نے زندگی کی رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر،بستیاں پُر خطر ،آہیں بے اثر،گلیاں خوں میں تر اورزندگیاں مختصر کر دی ہیں ۔ اس قماش کے کرگس زادوں ، طوطا چشم لوٹوں،کینہ پرور لُٹیروں ،فصلی بٹیروں ،لوٹوں اور لفافوں نے ادب اور فنون لطیفہ کو بازیچۂ اطفال بنادیااور ان کے مکر کی چالوں کے باعث اَدب کے قارئین لحافوں اور محافو ںمیں اُلجھ کررہ گئے ۔ نشاطِ مے ،جنس و جنوں ،عالمی جنگوں اور نو آبادیاتی دور کے مصائب و آلام کے موضوع پر کچھ تخلیق کاروں نے پر اسرارخاموشی اختیار کیے رکھی ۔ سفاک ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنا اور صحرا میں اذان دینا محمد طارق غازی کو پسند ہے ۔ تہذیبی ،ثقافتی ،علاقائی ،نسلی ،لسانی اور مذہبی تعصبات کے خلاف اُنھوں نے ہمیشہ آواز بلند کی ۔تاریخ کے ہر دور میں اس اصلاحی شاعری کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی اور رہروانِ منزل ِ شوق کو یہی پیغام دے گی کہ جس سحر کا انتظار تھایہ وہ سحر نہیں بڑھے چلو ابھی منزل نہیں آئی ۔
وجود کو محیط نفس میں ڈبو گیا تھا میں
خود اپنی جستجو تھی جس میں خود سے کھو گیا تھا میں
سفر کا وقت ہو چکاتھا لمحے گِن رہا تھا دِل
تو اِک نہالِ سبز جاتے جاتے بو گیا تھا میں
کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا تصور تصوف کی عطاہے ۔محمد طارق غازی کی غزلیات میں بھی اس عالمِ آب و گِل کی بے ثباتی کے بارے میں کئی مقامات پر اظہار مِلتاہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فنا کی راہوں میں دنیا کسی کی رفیق نہیں بن سکتی اور معمورۂ کائنات سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں ہے ۔سلسلۂ روز و شب بلاشبہ نقش گرِ آلام و حوادث ہے محمد طارق غازی نے یقین اور اعتماد سے زندگی بسر کرنے پر زور دیاہے اور زیست کو معتبر بنا کر آگے بڑھنے کی سعی کو نصب العین بنایا ہے ۔ محمد طارق غازی نے اس مہمان سرائے میں حیات و ممات کے اسرار و رموزکے بارے میں روحانی انداز فکر اپناتے ہوئے زندگی کے بارے میں مثبت سوچ کو اپنایاہے ۔اُن کی شاعری میں اِس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ رخشِ حیات کو ایڑ لگ چُکی ہے اور شہسوار سراسیمگی کے عالم میں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اس موضوع پر فہم و فراست کا حاشیہ مدلل ہے مگر عمر کی رفتار سے جو رنگ دکھائی دیتے ہیں وہ ہر قسم کی تحقیق کو نا مکمل ثابت کرتے ہیں۔ اُن کی دلی تمنا ہے کہ زندگی انسانیت کی فلاح میں صرف کی جائے تا کہ آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والے مظلوں کے زخموں کے اندمال کی کوئی صورت پیدا ہو۔وہ حیات ِ مستعار کو حیات ِ جاوداں بنانے کے لیے جہد و عمل اور خدمت ِ خلق کو شعار بنانے پر اصرار کرتے ہیں۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب نوعیت کا ساز ہے جو پیہم بج رہاہے مگر کوئی بھی اس کی صدا پر توجہ نہیں دیتا۔محمد طارق غازی کی غزلیات میںاس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر با شعور انسان کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے اور ڈوبتے سورج کا منظردیکھ کر اس کی ضیاپاشیوں کاسب احوال جان لے ۔ صبح بہ صبح اور شام بہ شام اضطراب کے باوجود زندگی کی قدر کرنا ضروری ہے ۔زندگی کو وہم و گمان کی نذر کر دینا مناسب نہیں بل کہ یہاں ایسے کام کرنے ضروری ہیں جن کی زمانہ مثال دے ۔
ہوائے جور و ستم میں رُخ ِ وفا کی تابانی کی نگہبانی کرنے والے اور کار ِجہاں کی وسیع تر معنویت پر گہر ی نظر رکھنے والے اس جر ی تخلیق کارنے قارئین کو ہمیشہ یہی تلقین کی ہے کہ وہ زندگی بھر کا جھٹپٹا دیکھ کر گردشِ ایام میں دِل بُرا نہ کریں اور اضمحلال اوریاس و ہراس کاشکار ہونے کے بجائے حوصلے اور اُمید کادامن تھام کر طوفانوں کے سامنے سینہ سِپر ہو جائیں ۔طالع آزما ،مہم جُو،مرغانِ باد نمااورچڑھتے سور ج کے پجاریوں کو بار بارغر ورِ اَنا سے بچ کر زندگی کرنے کی خُو کرنے کی تلقین کرنا محمد طارق غازی کے اسلوب کا اہم وصف ہے ۔استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کے باعث دہقان کے کھیتوں میں بُھوک اُگتی رہتی ہے مگر وہ جابر قوتوںکے سینوں پر مونگ دلتارہتا ہے اور اس طرح منظر ِ جور و جفا بدلتارہا اور بُرا وقت رفتہ رفتہ ٹلتا رہا۔محمد طارق غازی کی شاعری کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی تعلیمات اور مشرقی تہذیب و ثقافت کے ساتھ والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کواپنے فکر وفن کی اساس بنا رکھا ہے ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں تحقیق سے انھوں نے اپنی شاعری کومقصدیت اوراصلاح کی دولت سے ثروت مند بنایا ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور جدید طرز ِ احساس کے مطابق ان کے اسلوب کی جدت ،تنوع اور ندرت انھیں اکیسویں صدی کے ممتاز شعرا میں شامل کرتی ہے ۔ ذرے کو گہر کرنے کی تمنا رکھنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہاس فانی جہان میں موجود سب کچھ خاک ہو کر بکھر جائے گا۔پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں اُجالوں کو داغ داغ کر دیا گیا اور ہر صبح کو صبح قیامت میں بدلنے کی سازش کی گئی۔نئے اشارات ،نئی تشبیہات ،نئی تراکیب ،موثر محاورات اور نئے استعارات کے استعمال سے اُن کی شاعری ساحری کا رُوپ دھار لیتی ہے ۔
حادثوں سے بھی دِل بہلتاہے
پنکھا طوفان روز جھلتاہے
نا اُمیدی کا دَم نکلتا ہے
رات بھر اِک چراغ جلتاہے
سناتے رہیے حکایات،جاگتے رہیے
بہت مہیب سہی رات ،جاگتے رہیے
ہزار غلبۂ شب ہو،تھکن ہو،نیند آئے
ابھی بہت ہیں مہمات جاگتے رہیے
حریتِ ضمیر سے جینے والے جری تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی تخلیقی انا کو محمد طارق غازی ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ محبت میں ہوس کی اسیری خلوص کی نفی ہے ۔ انصا ف کُشی اور جبر کے خلاف اُن کی نفرت ہمیشہ سے برقرار ہے اور وہ محروم طبقے کی حمایت میں قلم بہ کف مجاہد کاکردار اداکرتے ہیں ۔ ظلم کے خلاف نفرت کے جذبات میں وہ کسی لچک کا مظاہرہ نہیںکرتے بل کہ مظلوم انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے درندوں کے خلاف اُنھوں نے ہمیشہ کُھل کرلکھاہے ۔جہاں تک محبت کا تعلق ہے محمد طارق غازی نے واضح کیاہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے لوث محبت کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی غرض سے نہیں کی جاتی بل کہ بے لوث محبت تو خود ہی اپنے انجام کا اعلان کرتی ہے کہ اب کچھ بچاکر نہیں رکھنا اور یہ خود ہی اپنی ستائش بھی کرتی ہے۔محمدطارق غازی نے زندگی کو ایسی دشت نوردی سے تعبیر کیا ہے جہاں آبلہ پا مسافر پا برہنہ ہونے کے باوجود جب ہر طر ف بِکھرے ہوئے خارِ مغیلاں دیکھتے ہیں توبالکل نہیں گھبراتے بل کہ راہ کو پُر خار دیکھ کر وہ اپنی آبلہ پائی کا کرب فراموش کر دیتے ہیں ۔محمدطارق غازی نے بے لوث محبت کے مضامین کو نیا آہنگ عطا کیا ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ پلک جھپکتے میں پیمانِ وفا کا سب قصہ تمام ہوجاتاہے متعدد ملاقاتیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور کئی ضروری باتیں ناگفتہ رہ جاتی ہیں ۔زندگی کی رنگینی و رعنائی کے سب سلسلے محض اِک رقصِ شرر ہونے تک ہیں اس کے بعد سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گااور بنجارہ اپنی منزل کی جانب لادچلے گا۔جس طرح دمِ صبح آفتابِ عالم تاب کی محض ایک مائل بہ التفات شعاع برگِ گل پر پڑے شبنم کے ننھے سے قطرے کو ہوامیں تحلیل کر دیتی ہے اُسی طرح محبوب کی ایک دُزدیدہ سی نگاہ کڑی دُھوپ میں موہوم رفاقتوں کے سائے کے متلاشی مسافر کا کام تمام کر دیتی ہے ۔وقت کے سیلِ رواںکی طغیانی اور حشر سامانی کا کسی کو احساس تک نہیں ۔آس اور اُمید کا پُل جب اس طغیانی کی زد میں آتاہے توسب کچھ وقت بُرد ہو جاتاہے ۔محمد طارق غازی کی غزلیات میں محبت کا موضوع اپنی ندرت اور تازگی کی بنا پر قابل توجہ ہے ۔
محبت اصل میں انجام کی خاطر نہیں ہوتی
وہ خود انجام ہے ،انجام کی خاطر نہیں ہوتی
میاں دشتِ عمل میں پا برہنہ زیست ہوتی ہے
گھروں میں بیٹھ کر آرام کی خاطر نہیں ہوتی
کہوں دنیا میں اَب میں کِس سے جا کر
اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر
ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں
کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر
نو آبادیاتی دور میں ظالم و سفاک ،موذی و مکار غاصب سامراج نے اس خطے میں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر،آہیں بے اثر ،زندگیاں مختصر اور بستیاں پُر خطر کر دی تھیں۔ظلم کی اس طویل بھیانک سیاہ رات میں امرتسر کے قصاب کے سر پرستوں کی جانب سے روشنی کا سفر ختم کرنے کے احکام جاری ہو ئے ۔محمد طارق غازی نے ایک سو برس کے صبر آزماحالات کے بارے میں لکھا ہے کہ اس عرصے میں اُمید کا دِیا بجھا بجھا سا دیکھ اس خطے کے باشندوں کا سینہ داغ داغ ہو گیا۔ اپنی غزلوں میں محمد طارق غازی نے بے لوث محبت کرنے و الوں کے دِلِ شکستہ کا حال بیان کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ محبت میں رسوائی ، جگ ہنسائی اور حسرتوں کی میّتیں اُٹھانا معمول کی بات ہے۔ ندی کی لہر میں حَباب کا ٹُوٹ ٹُوٹ جانا یہ واضح کرتاہے کہ موجودہ زمانے میں بوالہوس لوگوں نے عہد وپیمان کو کیسا رنگ دے رکھا ہے ۔لفظ کی حرمت اور قلم کی طاقت کے بارے میں محمد طارق غازی نے ہمیشہ کُھل کر لکھاہے ۔اُن کا خیال ہے کہ تخلیق کارجب جاہ ومنصب کی ہوس میں مبتلاہو جاتے ہیں تووہ ایک ایسا گناہ کرتے ہیںجو اُن کے ضمیر کومار ڈالتاہے ۔کوہِ روح کو سر کرنے کی تمنا کرنے والے گردش ایام کی زدمیں آنے کے بعد جب قلم فروشی اور ضمیر کی نیلامی کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں توکاہ پر ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں مواصلات اور انٹرنیٹ نے زندگی کی برق رفتاریوں میں انقلاب بر پا کر دیاہے ۔محمدطارق غازی نے جدید دور کے بدلتے ہوئے اندازِ فکر اور طرزِ احساس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُن اخلاقی معائر کو اپنے اسلوب میں جگہ دی جو معاشرتی زندگی کی فلاح اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے نا گزیر ہیں۔اُن کی غزلوں میں ملی درد اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔
اگر عروج کے تم رمز آشناہوتے
دماغ ہوتا،نظر ہوتی، دست و پا ہوتے
لگاتے باغ کہیں بے گِیاہ خِطوںمیں
تو رنگ و بُو کے کرشمے ہزار ہا ہوتے
داستاں جو کہ مرے دیدہ ٔ خونبارمیں ہے
اس کا عنوان تری چشم ِ فسوں کار میں ہے
ہم تو ان کے نام پر تنہا ہوئے
خوش جمالوں میں وہ بزم آراہوئے
اسی جہاں کا اک انسان اور جہاں سے الگ
کہ جیسے چاند ستاروں کے کارواں سے الگ
کچھ یوں ہوا کہ پہلے دماغوں کے بَل گئے
پھر رفتہ رفتہ لوگ ہی یکسر بدل گئے
اک وہ ہیں جو شعور کے سانچے بناتے ہیں
اک وہ ہیں سانچہ دیکھانہیں اور ڈھل گئے
ذہن جب بے اساس ہوتا ہے
شہر کا شہر اُداس ہوتاہے
چند یادیں ہیں بام و در کے سوا
ذہن میں کچھ نہیں کھنڈر کے سِوا
اپنی غزلوں میں محمدطارق غازی نے جو استعارات،تشبیہات ،تلمیحات ،مرکبات،محاورات اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ ان کی انفرادیت کا ثبوت ہیں ۔ان کی شاعری میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفت قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہے ۔ذیل میں ان کے فنی تجربوں کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ۔
استعارا ت :تُو دریا ہے ،کاہ،ہجوم ،باغ ،الاؤ ،کھنڈر،بُت ،اندھیرا،
تشبیہات:اضطراب سا ،آفتاب سا ،
تلمیحات:جلوہ ٔ کُن ،عثمانیوں کی یاد ،تُرکانِ حُر ،اہلِ صفہ ،عاد وسبا ،مجنوں،قصرِنمرود،مالِ قارونی،نارِ نمرود،صحرائے نجد،نغمۂ صور ،شیخ چِلّی،
مرکبات اضافی : کتابِ حق ،محیطِ نفس ،طلوعِ ذہن،نہالِ سبز،رُخِ جمال،منظرِ غروب،سنگِ جاں ،رمزِ ایمائی ،سرِ میزان،دشتِ نہی،کوہِ روح ،میدانِ اِبتلا،شہر ِ کہولت ،دشتِ جوانی ربابِ دِل ،
مرکبات عطفی : بحر و بر ،صنعت گر کا چاکر ،ندی کی لہر ،دُکھوں کی گنتی،ٹس سے مس نہ ہونا،جسم کا قفس ،دغا کا رنج ،دانش کا منتہا ،انتہا کا رنج ،
محاورات:خرد کو رو گیا،دم نکلنا،سینے پر مون دلنا،دِل کو ڈھانا،حیص بیص میں ہونا ، قیامت ڈھانا،غم کھانا،نمک برابر ہونا ،بھاؤ تاؤ کرنا،صِفر کرنا،مِتر کرنا،اگر مگر کرنا،
تراکیب: شعلۂ مراد ، آنکھ میں خواب ،جان چھوڑ کر ،غموں کی بِھیڑ ،شعو ر کا تماشا ،زنا بند،خود نگر،بے گیاہ خِطے ،
تکرار : جہاں جہاں ،تپاں تپاں ،سائے سائے ،نفسی نفسی ہائے ہائے ،ننھی ننھی ، چرخ چرخ ، شہر شہر،بار بار،رفتہ رفتہ ،بجھا بجھا،کہاںکہاں،جواں جواں ،گراں گراں ،
تضاد:حاصل اور لا حاصلی ،روا ناروا،مکاں لا مکاں، گرتا سنبھلتا،آغاز انجام ،
محمد طارق غازی نے اردو زبان کے ممتاز غزل گو شعرا کے کلام کا بہ نظر غائر جائزہ لیاہے اوراپنے پسندید ہ شعرا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کے انداز میں غزل لکھ کراپنی طبع زاد غزل اُن کی نذر کی ہے ۔محمد طارق غازی کی غزلیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اُن کی غزلیات کی اساس اس کے مسحور کن نظام ِخیال ،جذبات و احساسات کی پاکیزگی ،ندرت بیان اور موضوعاتی تنوع پر ہے ۔عکس کوئی ہو محمدطارق غازی مجموعی طور پر اخلاقیات اور اصلاح پر اپنی توجہ مرکوزرکھتے ہیں ۔معاشرتی زندگی اور سماجی حالات کے نشیب و فراز کی متنوع کیفیات ان کے اسلوب کو دھنک رنگ منظر عطاکرتی ہیں ۔محمدطارق غازی نے اپنی شاعری بالخصوص غزلوں زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہر طالع آزما ،مہم جُو اور بو الہوس عاشق نے حسن و جمال کی جستجو کو وتیرہ بنا لیا ہے اور ایسے عشاق کی شاعری الفاظ کے گورکھ دھندے اورمحبوب کورام کرنے کے ایک پھندے کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ذیل میں اختر شیرانی کی ایک غزل پیش کی جارہی ہے جس میں جذبات اور احساسات کی نزاکت اور اظہار و ابلاغ کی بے ساختگی نے خوب رنگ جمایاہے ۔
اختر شیرانی
میں آرزوئے جاں لکھوں یاجانِ آرزو !
تُوہی بتا دے ناز سے ایمانِ آرزو!
آنسو نِکل رہے ہیں تصور میں بن کے پُھول
شادا ب ہو رہاہے گلستانِ آرزو !
اِیمان وجاں نثار تری اِک نگاہ پر
تُوجانِ آرزوہے تُو ایمانِ آرزو !
ہونے کو ہے طلوع ِ صباح ِ شبِ وصال
بُجھنے کو ہے چراغِ شبستانِ آرزو
اِک وہ کہ آرزوؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اِک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمانِ آرزو
آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواںدِل ہے داغ داغ
دیکھے کوئی بہارِ گلستانِ آرزو!
دِل میں نشاطِ رفتہ کی دُھندلی سی یاد ہے
یا شمع ِ وصل ہے تہِ دامانِ آرزو !
ایمان و جاں نثار تیری اِک نگاہ پر
تُوجانِ آرزو ہے تُو ایمان ِ آرزو
اخترؔ کو زندگی کا بھروسہ نہیں رہا
جب سے لُٹا چُکے سر و سامان آرزو!
عصر ی آ گہی اور جدید دور کے طرزِ احساس سے مزین اپنی درج ِ ذیل غزل محمد طارق غازی نے اختر شیرانی کی نذر کی ہے ۔اس غزل میں محمدطارق غازی نے تخلیق ِادب کی درخشاں روایات کے مطابق اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے الفاظ ،تصورات ،تشبیہات ،استعارات اور صنائع بدائع کے بر محل استعمال سے زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لو ہا منوایا ہے ۔اردو غزل نے اپنے سخت ناقدین کے روّیے کے باوجود تخلیق سفر جاری رکھا۔ایک زمانہ تھا جب الطاف حسین حالیؔ،محمد حسین آزادؔ،شبیر حسین خان جوشؔ ملیح آبادی ،ڈاکٹر عندلیب شادانی اور پر وفیسر کلیم الدین احمدنے سات سو برس کی مسافت طے کرنے والی صنف ادب اُردو غزل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اُردو غزل کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔اُردو غزل کو ہر دور میں ایسے جری ،فعال ،مستعد اورفطین تخلیق کار میسرآتے رہے جنھوں نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کو اپنا نصب العین بنایا ۔محمدطارق غازی کا شمار غزل کے ایسے ہی سرپرستوں میں ہوتاہے ۔ اپنی تازہ کاری، فکر پروراور بصیرت افروز تخلیق فعالیت سے انھوں نے اردو غزل اور اُردو نظم دونوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جب تک محمد طارق غازی جیسے مستعد شاعر موجود ہیں اُردو شاعری بالخصو ص اُردو غزل اور اُردو نظم کے سوتے کبھی خشک نہیں ہو سکتے ۔ اسلوبیاتی اور لسانی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ محمدطار ق غازی کی اردو شاعری کا قصر ِ عالی شان تاریخ ،کلاسیکی ادب اور مشرقی تہذیب و ثقافت کی اساس پر استوار ہے ۔ اپنی ایک ای میل میں محمد طارق غازی نے مجھے لکھا ہے :
مکرمی غلام شبیر رانا صاحب
سلام و رحمت
اسے حسن اتفاق کہوں یادنیائے ادب میں فکر کی ایک ہی شاہراہ کے دو — بلکہ تین (یا چار) — مسافروں کی ذہنی ہم آہنگی کا کرشمہ۔ میری نظموں پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے علامہ محمود شیرانی کے حوالہ سے اختر شیرانی کا ایک شعر نقل کیا تو میں قوت ابلاغ کی حیران کن یک جہت رسائی پراش اش کراُٹھا۔
تقریبا ًآٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔اگست ۲۰۱۳میںایک ویڈیو ملا جس میں کوئی پاکستانی مغنیہ * اختر شیرانی کی ایک غزل کے چند اشعار بڑی ڈوب کر گا رہی تھی۔ مومن خان مومنؔ کا شعر
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے آواز تو دیکھو
پڑھ کرتواس مغنیہ کی آوازکی نظر اتاری۔میں خود اختر شیرانی کی اس غزل کی کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا تو ذرا کی ذرا میں اسی زمین میں ایک غزل ہوگئی۔متذکرہ مضمون میں اختر شیرانی کے شعرکی نسبت سے یہ غزل آپ کے ذوق سلیم کی نذر کرتاہوں۔
محمد طارق غازی
وحٹبی۔ اونٹاریو۔ کینڈا
یکشنبہ ۴ جولائی ۲۰۲۱
*اختر شیرانی کی غزل ’’ میں آرزوئے جاں لکھوں کہ جانِ آرزو ‘‘ لاہور سے تعلق رکھنے والی اپنے عہد کی مقبول مغنیہ منور سلطانہ ( 1924-1995) نے گائی ہے ۔
اپنی خدادا د تخلیقی بصیر ت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے محمد طارق غازی نے اختر شیرانی کو جس انداز میں خراج ِ تحسین پیش کیا ہے وہ لائق ِ صدرشک و تحسین ہے ۔
کل تک فقط ہمی تھے پریشان آرزو
ہیں آج وہ بھی دل سے ثناخوان آرزو
تھا آرزو سے خالی دلِ سادہ خلد میں
سوزوگداز دہر ہے احسانِ آرزو
خوشبو کی طرح نکلے تھے باغِ عدن سے ہم
لے کر بہار کا سروسامان آرزو
آدم کی داستانِ عروج و زوال میں
ہے شرحِ آرزو کہیں امکانِ آرزو
رقصاںہے کائنات کا ہر ذرہ آج تک
اک روز کہہ دیا تھا انہیں جانِ آرزویا اس کو مانگ، ورنہ جہاں اس سے مانگ لے
کچھ تنگ تو نہیں ترا دامان آرزو
حرماں کدہ کو چھوڑ گئیں حسرتیں تمام
ہے یاد اکیلی اب یہاں مہمان آرزو
تنہا تھے شامِ حشر میں ہم آپ کے قریں
بس اک حجاب تھی وہاں میزانِ آرزو
لب پر نہ التماس، نہ شکوہ، نہ التجا
کچھ اشک بول اٹھا سرِ مژگان آرزو
محرومیوں میں خوش ہے دلِ امتحاں پسند
غم نے بنا دیا اسے شایانِ آرزو
اک آرزو نہ پوری ہوئی عمر بھر تو کیا
کردیں ہزاروں حسرتیں قربانِ آرزو
چاہا بھی تجھ کو اور تجھے پوشیدہ بھی رکھا
پردہ ہے تیرا تارِ گریبانِ آرزو
وارفتگی میں کی تھی خطا کس کمال کی
تیرے ندیم رہ گئے حیرانِ آرزو
ان کی عطا تو کم نہیں دل کی مراد سے
پھر کس لئے ہے سینہ میں ہیجانِ آرزو
حسن طلب کی بات ہے کیوں ہاتھ روکئے
دیکھیں وسیع کتنا ہے دامان آرزو
چلتے رہیں گے پیر جہاں تک بھی ساتھ دیں
پھیلا ہوا ہے سامنے میدانِ آرزو
ہم کو ملی ہے کشورِ غم اس جہان میں
ہم ہیں ترے جہان میں سلطان آرزو
دنیا کا بوجھ ڈھو کے یہاں تک تو آگئے
لو سامنے ہے حشر میں میزان آرزو
سوچاکئے کہ قصہ میں لکھیں تو کیا لکھیں
لکھنے کو ہم نے لکھ دیا عنوان آرزو
چہرہ پہ تھا سکوت سمندر کی تھاہ کا
سینے میں دھڑکنوں سے تھا طوفان آرزو
حالات میں خزاں کا نظارہ ہیں ہم، مگر
مہکا ہوا ہے دل میں گلستان آرزو
آؤ کبھی تو ساتھ قدم دو قدم چلو
بھاتی ہے دو کو سیرِ خیابان آرزو
اختر کے اِتباع میں طارق غزل کہو
شیرانی کی زمین ہے شیران آرزو
٭
آٹوا۔ کینڈا ٭ اگست ۲۰۱۳
محمد طارق غازی کی غزلیات میں تہذیبی اور ثقافتی منظر نامہ آفاقی نوعیت کاہے ۔ اپنی غزلیات میں انھوں نے قارئینِ ادب کو ایک واضح نوعیت کا سماجی پیغام دیا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں معاشرہ پس ماندگی کا شکار ہو چکاہے ۔انھو ںنے پامال راہوں سے بچتے ہوئے افکارِ تازہ کی شمع فروزاں کرکے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کاسفر جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اپنی شاعری میںاُنھوں نے اسلامی تعلیمات اور اس خطے کی اقدار و روایات کوبہت اہمیت دی ہے ۔ اپنی عملی زندگی میں وہ صبر و تحمل کو شعار بناتے ہوئے رواداری ،عزت نفس اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔تاریخ اسلام اور تصوف سے ان کی دلچسپی کا اظہار ان کی شاعری میں بھی نظر آتاہے ۔ ان کی شاعری میں نہ تومغل بادشاہ جہاں گیر کے جنسی جنون کا کہیں ذکر ہے ، نہ ایاز کی زلفوں کے خم کا ذکر ہے اور نہ ہی
کہیں محمودکے جذبوں کی تڑپ کو موضوع بنایا گیاہے۔ وہ اخلاقیات کی حدود میں رہتے ہوئے سائنسی اندازِ فکر اپنا کرمحبت کی نفسیات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ اپنی شاعری میںمحمد طارق غازی نے مجازی کے بجائے حقیقی محبت کو ترجیح دی ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں اردو شعرا جن اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں اُن میںمقبولیت کے اعتبار سے غزل سب سے آگے ہے اور اس کے بعد نظم کا مقام ہے ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت لائق تحسین ہے کہ محمد طارق غازی کی غزل گوئی تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس کے اعجاز سے قریہ ٔ جاں معطر ہو گیا ہے ۔اپنی ہمہ گیر اثر آفرینی اور ملی سوچ کی بناپر آنے والے ہر دور کی شاعری میں اخلاقیات کے اس مخزن کے آثار ملیں گے ۔