داستان گو : ظفر معین بلے جعفری
ممتاز ماہر تعلیم، محقق، مصنف، صحافی، مدیر، مولف اور اردو زبان و ادب کے ہر دلعزیز استاد پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ حلقۂ علم و ادب کی ایک معروف اور کثیرالجہت شخصیت ہیں۔ بزم اساتذۂ اردو سندھ کے روح رواں ، فروغ نفاذ اردو کے لیے سرگرم عمل جبکہ بطور مصنف اور مولف خیر کثیر اور طبقاتی کشمکش جیسی اعلی معیاری کتب کے نام ہی کافی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ گزشتہ تقریبا چھتیس برس سے اردو ادب کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان دنوں سراج الدولہ گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر۱ کراچی میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔ اعلی ثانوی مدارس سے جامعات کی مختلف حوالوں سے نمائندگی اور ایم فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے ممتحن ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ یہ اعزازات کیا کم تھے کہ ایک اور قابل رشک اعزاز بھی ڈاکٹر عرفان شاہ کو حاصل ہوا اور وہ یہ کہ پاک و ہند کے ممتاز ماہر لسانیات، محقق ، نقاد، مترجم، معلم، مصنف، مولف، قادرالکلام شاعر اور نابغۂ لسان و ادب جناب محمد شان الحق حقی دہلوی کی شخصیت، فن اور خدمات کے حوالے سے سب سے پہلا، عمدہ اور تحقیق و تنقید کے اعلی معیار کا پی۔ایچ۔ڈی مقالہ تحریر اور منظور کروا کر پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ قرار پائے۔
جناب محمد شان الحق حقی دہلوی علیگ کو بلا شبہ ایک ملٹی ڈائمینشنل پرسنیلیٹی، ایک کثیرالجہت شخصیت کے طور پر اردو زبان ادب میں قابل رشک مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ بحیثیت ماہر لسانیت بھی ان کے بیان و فرمان اور مؤقف و رائے کو سند کا درجہ حاصل ہے۔ صاحبان فہم و فراست میں شمار کیے جانے والے جناب محمد شان الحق حقی دہلوی علیگ نے درجن بھر سے زائد شعبہ جات میں اپنی علمی، فنی، فکری، تنظیمی اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے معاصرین کی اکثریت نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی پزیرائی بھی۔ جناب شان الحق حقی دہلوی علیگ کے ساتھ پندرہ سولہ سے زائد ملاقاتوں کی حسین یادیں ہمارے ذہن میں بھی محفوظ ہیں اور کہیں قافلہ پڑاؤ کی رپورٹس میں بھی ہونگی۔ پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے متعدد بار سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ میں بھی بھی شرکت کی اور خصوصی لیکچرز بھی دیئے اور تو اور دو، تین مرتبہ تو انہوں نے لاہور میں اپنے قیام کی نصف سے زیادہ مدت سید فخرالدین بلے کی میزبانی میں بلے ہاؤس میں گزاری۔ ایک مرتبہ تو ایسا بھی اتفاق ہوا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تو لاہور پہنچ گئے لیکن ڈاکٹر وزیر آغا وزیر کوٹ سے اور اپنے شہر سرگودھا سے اپنے دوست کی میزبانی کے لیے بروقت لاہور نہ پہنچ سکے۔ قصہ مختصر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنے لیکچر میں شان الحق حقی دہلوی علیگ کی تحریروں کے دو یا تین حوالے بھی دیئے تھے۔ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید حامد لاہور تشریف لائے تو ان کی میزبانی کا اعزاز بھی سید فخرالدین بلے کے حصے میں آیا۔ ڈاکٹر سید حامد کے اعزاز میں سید فخرالدین بلے نے قافلے کا خصوصی پڑاؤ ڈالا۔ حسب روایت قافلہ کے اس پڑاؤ کا مقام بھی سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ تھا۔ اس پڑاؤ میں بھی مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ کے ساتھ ساتھ (وابستگان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ ، مختار مسعود علیگ ، سید آل نبی جعفری علیگ ، اداکار منور سعید ، ڈاکٹر برہان فاروقی علیگ اور جناب محمد شان الحق حقی علیگ نے بھی شرکت کی۔ نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اور سرفراز سید نے انجام دیئے۔ جبکہ اشفاق احمد خاں ، ڈاکٹر آغا سہیل ، شان الحق حقی ، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر سلیم اختر ، ممتاز شاعر و ادیب جناب خالد احمد اور مہمان خصوصی جناب پروفیسر ڈاکٹر سید حامد نے گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ایک مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ جناب احمد ندیم قاسمی نے فون پر بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے کو مطلع فرمایا کہ علامہ طالب جوہری کی متوقع آمد بوجوہ مؤخر ہوگئی ہے لہذا ان کے اعزاز میں کل کے لیے کسی قسم کا اہتمام نہ کیجے گا۔ سید فخرالدین بلے نے جناب سے دریافت کیا کہ آپ کی آج دوپہر میں کوئی خاص مصروفیت ہے تو قاسمی صاحب نے فرمایا کہ کوئی قابل ذکر مصروفیت نہیں بس روزمرہ کے امور زیر نظر ہیں۔ یہ سن کر سید فخرالدین بلے نے احمد ندیم قاسمی صاحب کو مطلع فرمایا آپ کا فون آنے سے دو چار منٹ قبل ہی جناب شان الحق حقی علیگ صاحب تشریف لائے ہیں گویا کہ ہم علامہ طالب جوہری کی آمد مؤخر ہونے کے باوجود بھی آپ کی زیارت سے محروم نہیں رہیں گے کیونکہ شان الحق حقی علیگ صاحب آج اور کل تو یہیں ہیں البتہ پرسوں صبح ان کی روانگی ہوگی اور وہ آپ سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ مختصر یہ کہ احمد ندیم قاسمی صاحب اور برادر محترم خالد احمد ظہرانے پر تشریف لائے اور سلسلۂ گفتگو ظہر تا مغرب کے بعد تک جاری رہا۔ ڈائننگ ٹیبل پر براجمان ہوتے ہی اللہ جانے شان الحق حقی صاحب کو کیا سوجھی کہ انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا ظفر معین ہم نے بلے صاحب کی فرمائش پر آواز جرس کے لیے آپ کو گزشتہ ماہ چند غزلیات اور نظمیں ارسال کی تھیں کیا وہ شائع ہوگئی ہیں؟ میں حقی صاحب کی یہ بات سن کر حیران سا ہوا اور عرض کیا کہ نہیں مجھے تو آپ کا کلام موصول ہی نہیں ہوا۔ یہ سن کر حقی صاحب نے سید فخرالدین بلے کو متوجہ فرمایا اور کہا کہ آپ کی فرمائش پر ہی تو بھجوایا تھا ہم نے کلام تو بابا جانی سید فخرالدین بلے نے معاملے کو بھانپتے ہوئے فرمایا حضور آپ واپس پہنچ کر میرے نام پر دوبارہ ارسال فرمادیجے گا ۔ میری پریشانی برادرم خالد احمد پر آشکار ہوچکی تھی انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ مجھے آنکھ سے کچھ اشارہ کیا جس کا مطلب ہم یہ سمجھے کہ تحمل ، تحمل۔ظہرانے سے فراغت کے کچھ دیر کے بعد برادر محترم خالد احمد ڈرائنگ روم سے اٹھ کر لان کی طرف روانہ ہوتے ہوئے شان الحق حقی صاحب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور با آواز بلند سید فخرالدین بلے کا یہ شعر پڑھا
تلاش رزق ہو یا جستجو ئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی اور یوں بھی
اور لان میں پہنچ کر مجھے آواز دے کر بلایا ظفر معین ادھر آئیے ، ہم برادرم خالد احمد کے پاس پہنچے تو وہ اتنی دیر میں سگریٹ سلگا چکے تھے مجھ سے کہنے لگے کہ میری جان آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نہ ہوا کریں ، میں نے اس وقت آپ کو اس لیےاشارہ کیا تھا کہ بعد میں بات کریں گے۔ بات یہ ہے کہ حقی صاحب کو بھولنے کا عارضہ ہے۔ ان کے کے ساتھ یادداشت کا مسئلہ بہت پرانا ہے قاسمی صاحب ، بلے صاحب ، میں اور بہت سے لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ ظفر معین آپ نے غور کیا کہ جب حقی صاحب آپ سے مخاطب تھے تو احمد ندیم قاسمی صاحب اور فخرالدین بلے صاحب مسکرا رہے تھے۔
انجمن ترقئ اردو پاکستان ، کراچی نے پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ کے نابغۂ لسان و ادب محمد شان الحق حقی دہلوی کے زیر عنوان تحقیقی مقالے کو خوبصورت اور معیاری انداز میں زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ کتابی شکل میں آنے سے پہلے سے اور بعد سے ہی علمی و ادبی حلقوں میں اس کے چرچے عام ہیں۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی کئی برس مسلسل اس تحقیقی مقالے کی نذر کیے رکھے۔ حقی صاحب کا مختلف شعبوں میں کام بری طرح دے پھیلا ہوا تھا۔ مختلف اور کثیر تعداد میں کتب ، جرائد و رسائل اور اخبارات کی کھوج اور پھر مواد کا حصول جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ پھر مواد کے حصول کے بعد کا مرحلہ اس سے بھی کہیں زیادہ کٹھن اور دشوار تھا ، بہت سی گتھیاں سلجھانے کا کام بھی بلاشبہ بہت اعصاب شکن اور صبر آزما تھا۔ جہاں جہاں بھی مشکوک تخلیقات کی تصدیق کا معاملہ ہوتا ہے وہ بھی بہت اذیت ناک مراحل ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ہم کچھ ذاتی تجربات شیئر کرتے ہیں۔ پہلی مثال کے طور پر ایک دلچسپ واقعہ تو یہ ہے کہ سرگودھا کی ایک نامور اور معروف شاعرہ محترمہ نجمہ منصور صاحبہ نے انتہائی خلوص اور عقیدت کے ساتھ آنس معین کے اشعار کا انتخاب کرکے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر پوسٹ فرمائے اور بہت سوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ٹیگ کیا۔ ان اشعار میں سے ایک شعر یہ بھی تھا
کوئی تعویز دو رد بلا کا
میرے پیچھے محبت پڑ گئی ہے
ہم نے انتہائی احترام کے ساتھ محترمہ کو مطلع کیا کہ آپ کے انتخاب میں شامل یہ شعر آنس معین کا نہیں ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے محترم رضی الدین رضی ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور حضرت اختر حسین جعفری کے فرزند جناب امیر حسین جعفری سمیت چند احباب کو زحمت ناحق میں مبتلا کیا اور ان سے گزارش کی کہ اس گتھی کو سلجھانے میں مدد فرمائیے ، ہم تو حلفیہ بیان دے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر تو یہ شعر محسن نقوی ، آنس معین اور جون ایلیا کے نام سے منسوب ہے لیکن یہ شعر ان تینوں میں سے کسی شاعر کا نہیں ہے۔ تحقیق کے بعد کھوج لگانے والے دیگر چند شعراء کے نام سامنے لے آئے ، جناب رضی الدین رضی صاحب نے مطلع فرمایا کہ فیاض تحسین کی کتاب کے بیک ٹائٹل پر یہ شعر موجود ہے۔ مگر دیگر شعراء کے جو حوالے سامنے آئے وہ بھی کم معتبر نہیں تھے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی۔ اسی تناظر میں
دوسری قابل ذکر اور اہم مثال محسن نقوی شہید کے دعائیہ کلام کی ہے کہ جو ہم ۱۹۸۸ سے سیدی جانی محسن نقوی شہید سے سنتے چلے آرہے ہیں اور جو سیدی محسن نقوی شہید کے مجموعۂ کلام فرات فکر میں ۱۹۹۳ میں شائع ہوچکا ہے۔ محسن نقوی شہید کے مجموعۂ کلام فراتِ فکر کے چند صفحات پر مشتمل یہ دعائیہ کلام ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی بےحد اور بے حساب مقبول اور مشہور ہے۔ ہم نے سیدی محسن نقوی کو مجالس میں یہ دعائیہ کلام پڑھتے دیکھا اور سنا ہے۔ محسن نقوی شہید کہ جن کا تقریباً بارہ پندرہ برس یہ معمول رہا کہ وہ رات بارہ ایک بجے کے قریب قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلّے شاہ صاحب کے غریب خانے پر تشریف لاتے اور اذان فجر پر رخصت ہوجایا کرتے تھے۔ ہم پندرہ جنوری انیس سو چھیانوے کو خون میں تر بتر سیدی سرکار محسن نقوی شہید کے ساتھ لاہور کو خیرباد کہہ آئے تھے۔ فراتِ فکر کا مکمل مجموعۂ کلام محسن نقوی شہید کی زبانی متعدد بار سنا اور جب جب بھی سنا ایک ہی نشست میں سنا ہم نے اور ہمارے اہلِ خانہ نے۔ ماشا ٕ اللہ ما شا ٕ اللہ متعدد شہروں کی امام بارگاہوں میں مجالس کے اختتام پر یہ دعائیہ کلام پڑھنے کی روایت قابل صد ستائش اور باعث خیر و برکت ہے۔ اس کلام کو کراچی شہر میں منعقد ہونے والی مجالس کے اختتام پر انتہائی احترام اور عقیدت سے پڑھا جاتا ہے اور اب تو یہ دعائیہ کلام مجالس کا لازمی اور ناگزیر جزو بن چکا ہے لیکن کراچی کے ایک موصوف احمد نوید صاحب اس دعائیہ کلام کے ساتھ اپنا نام لکھنے لگے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے خود کو اس دعائیہ کلام کا خالق بتاتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اگر ادب کا مجھ جیسے ادنی طالب علم کا دل اس چوری اور سینہ زوری پر کڑھتا ہے تو صاحبان علم پر کیا گزرتی ہوگی۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اس کا باضابطہ نوٹس کیوں نہ لیا گیا۔ ایک مرتبہ جب سرکار سیدی محسن نقوی کے حلقۂ احباب میں شامل ایک انتہائی معتبر شخصیت نے موصوف سے رابطہ کیا اور ان کی اس غیر اخلاقی حرکت کی نشاندہی کی تو موصوف نے معذرت خواہانہ انداز میں مگر دیدہ دلیری سے یا یوں کہیے کہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دس پندرہ برس ان کی ذہنی کیفیت عجیب رہی کچھ یاد نہیں کہ کب ، کیا لکھا اور کیا نہیں ان تمام تر اعترافات کے ساتھ ساتھ موصوف نے یقین دلایا کہ میں اس کلام سے دستبردار ہوتا ہوں لیکن اس یقین دہانی کے باوجود انہوں نے عملا” ایسا نہیں کیا۔ یہ معاملہ اس لیے بھی توجہ طلب ہے کہ یہ دعائیہ کلام سیدی سرکار محسن نقوی خود مجالس میں بارہ ، چودہ برس پڑھتے رہے ہیں اور اب تو فرات فکر کی اشاعت کو تیس برس ہوچکے ہیں۔ سیدی سرکار محسن نقوی کے کلام پر ہاتھ صاف کرنے کے حوالے سے ایسی چند ایک اور مثالیں بھی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اتنی سنگین نہیں۔ ہم نے بصد احترام اور عاجزانہ انداز میں چند تلخ حقائق کا ببانگ دہل اظہار کردیا اور سیدی محسن نقوی شہید کے علمی و ادبی وارث برادرم جناب اسد محسن نقوی اور برادر محترم عقیل محسن نقوی (فرزندان محسن نقوی شہید) کو اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم نے حقائق سے ہٹ کر کوئی بات کی ہے تو وہ اس کی نشاندہی فرمادیں۔
دعائیہ کلام: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی
اے ربِ جہاں!! پنجتن پاک کے خالق
اس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے
بچوں کو عطا کر علی اصغر کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابن مظاہر کی نظر دے
کم سن کو ملے ولولۂ عون و محمد
ہر اک جواں کو علی اکبر کا جگر دے
ماؤں کو سکھا ثانی زھرا کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہ کی دعاؤں کا اثر دے
مولا تجھے زینب کی اسیری کی قسم ہے
بےجرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے
جو چادر زینب کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے
جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کر
جو مجلس شبیر کی خاطر ہو وہ گھر دے
یا رب تجھے بیمارئ عابد کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے
مفلس پہ زر و لعل و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے
غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غم شبیر
شبیر کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے
بہر حال یہ اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا کہ ڈاکٹر عرفان شاہ نے انتہائی جانفشانی اور کامرانی سے یہ تحقیقی معرکہ سر انجام دیا ہے۔ محمد شان الحق حقی دہلوی کی خدمات بحیثیت استاذالاساتذہ ، ماہر لسانیات ، محقق ، نقاد ، مترجم ، افسانہ نگار ، شاعر ، مدیراعلی ، مصنف ، مؤلف ، تجزیہ نگار ، ڈائریکٹر۔ کری_ایٹو ، شعبۂ ایڈورٹائزنگ ، پبلیکیشن ، سینسر بورڈ ، ریڈیو پاکستان ، اسکرپٹ رائٹر قابل صد ستائش اور حیرت انگیز ہیں اور پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ نے اپنے تحقیقی مقالے نابغۂ لسان و ادب محمد شان الحق حقی دہلوی میں انتہائی بھرپور اور جامع انداز میں ان تمام تر خدمات کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ نابغۂ لسان و ادب محمد شان الحق حقی دہلوی عنوان کے تحت حقی صاحب کی شخصیت ، فن اور خدمات کے حوالے سے پہلا ڈاکٹریٹ مقالہ حد درجہ اعلی تحقیق و تدوین کے معیار کا عمدہ نمونہ ہے کہ جسے پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ کا شاندار کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا سر نامہ انجمن ترقئ اردو پاکستان ، کراچی کی معتمد اعزازی ممتاز کالم نویس ، افسانہ نگار اور تجزیہ کار محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ نے تحریر فرمایا ہے۔ محترمہ زاہدہ حنا نے بین السطور بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے سرنامہ کی اختتامی سطور کہ یہ کتاب جہاں ہمیں شان صاحب کے شاندار تحقیقی ، تخلیقی اور کاموں سے آگاہ کرتی ہے وہیں ہمیں ان افسوس ناک سازشوں سے بھی روشناس کراتی ہے جو ہمارے بعض اکابرین کے زیر سایہ پروان چڑھیں۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے نہایت رنج و الم کے ساتھ ان چہروں کو بے نقاب کیا ہے جن کے نام نامی ہم میں سے بیشتر کے لیے بے حد محترم رہے ہیں۔ محترمہ زاہدہ حنا نے ڈاکٹر عرفان شاہ کی اس کاوش کو خوبصورت انداز اور الفاظ میں سراہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے ایسے احباب و اصحاب کے ناموں کی طویل فہرست رقم کی ہے کہ جنہوں نے ڈاکٹر عرفان شاہ کی ہر ممکن معاونت اور راہنمائی فرمائی۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی ، پروفیسر رؤف پاریکھ ، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری اور ہر دلعزیز شخصیت ، ادب دوست اور بیدل لائبریری ، کراچی کے ناظم اور مہتمم جناب محمد زبیر صاحب بھی شامل ہیں۔
نابغۂ لسان و ادب محمد شان الحق حقی کے عنوان کے تحت ڈاکٹر عرفان شاہ کو دوران تحقیق کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے ، کیسے کیسے مسخ شدہ حقائق ، گھر بیٹھے خود ساختہ مفروضوں کی بنیاد پر خود کو تحقیق و تنقید کے شہنشاہ اور چیمپیئن سمجھنے ، کہلوانے کے شوق میں جینے اور اس خواہش کو اپنے دلوں میں پروان چڑھانے والوں کی بے بنیاد اور منگھڑت کہانیوں کو رد کرنا پڑا ہوگا۔ کتنا دشوار ہوا ہوگا ڈاکٹر عرفان شاہ کے لیے ان تمام تر مراحل سے گزرنا۔۔۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی سے ہمارے گھریلو مراسم رہے ، بلے فیملی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے ، اپنے فخرالدین بلے بھائی کا حد درجہ احترام کرنے والے اور آفرین ہے تادم مرگ اپنی اس محبت کو نبھانے والے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی پر اور اللہ سلامت رکھے ان کی فیملی کو اور آفرین ہے پیاری دلاری ماں بھابی رفعت اجمل نیازی پر کہ انہوں نے بھی ہمیشہ اس تعلق پر کہ انہوں نے اس محبت کو اسی خلوص سے نبھایا بلکہ نبھا رہی ہیں۔ یہ کم و بیش اب سے پندرہ ، سولہ برس قبل کی بات ہے کہ ہم نے کراچی سے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی بھائی کو فون کرکے کہا کہ اجمل بھائی ایک ذاتی نوعیت کا کام ہے آپ کی مدد درکار ہے۔ اجمل بھائی نے کہا کہ میرے بلے بھائی کے گھر سے مجھے جو کوئی بھی حکم ملے گا تو مجھے اس کی تعمیل کرکے خوشی ہوگی۔ہم نے بصد احترام ان سے عرض کیا کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی ایک کتاب میں تایا جان (کلیم عثمانی صاحب) کا مشہور زمانہ ملی نغمہ ۔ یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسبان اس کے ، شامل کیا گیا ہے لیکن اس نغمے کے ساتھ کلیم عثمانی کے بجائے جمیل الدین عالی صاحب کا نام شائع کیا گیا ہے اور ہم نے آپ سے رابطہ کرنے سے قبل ہماری جائے ملازمت واقع کلفٹن بلاک۲ ، کراچی کے بالمقابل رہائش پذیر جناب جمیل الدین عالی صاحب کو بھی مطلع کیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہ رہے ہیں تو انہوں نے بھی کہا بالکل اور ضرور کیجے اور اس سلسلے میں آپ کو جہاں کہیں ہماری ضرورت پیش آئے ہم حاضر ہیں۔ پیارے بھائی ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے متعلقہ ادارے سے بات کرکے ہمیں بیس پچیس روز میں مطلع کیا کہ آئندہ ایڈیشن میں یقینی طور پر اس غفلت اور کوتاہی کا ازالہ کردیا جائے گا اور واقعی ایسا ہوا۔ اللہ جانے کہ پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ صاحب کو ایسے کتنے ہی معاملات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اب بات چھڑ گئی ہے تو اسی نوعیت کے دو ، ایک معاملات کی نشاندہی بھی کرتا چلوں اور وہ آنس معین کے حوالے سے ہیں پہلا تو یہ کہ ڈاکٹر صفیہ عباد کا مقالہ کہ جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے حوالے سے جب ہماری سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کے فرزند ارجمند اور ثروت حسین کے فرزند ڈاکٹر سلمان ثروت سے بات ہوئی تو ہمیں اندازہ ہوا کہ اس مقالے میں شامل متعد واقعات ، بہت سے مواد ، شواہد ، حوالہ جات کے حوالے سے ہمارے ہی نہیں بلکہ ان کے بھی بہت سے تحفظات ہیں۔دوسرا معاملہ یہ کہ اکثر نہیں مگر کچھ لوگ جب آنس معین کے حوالے سے چند حقائق کو تبدیل کرکے رقم کرتے ہیں جن میں سال ولادت اور سال وفات بھی شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ چند محققین نے تو اپنی تحریروں یا وی لاگز میں یہ تک بیان فرما دیا کہ آنس معین کی تو نماز جنازہ میں ان کی فیملی نے یا ان کے والد گرامی سید فخرالدین بلے صاحب نے شرکت ہی نہیں کی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آنس معین کی نماز جنازہ کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ شہر ملتان کے قلب نواں شہر چوک پر واقع علامہ اقبال پارک میں ادا کی گئی تھی اور آنس معین کی نماز جنازہ میں تمام تر شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہر کے تقریبا تمام قابل ذکر شعراء ، ادبا ، ناقدین ، مدیران قومی و مقامی اخبارات ، تاجران ، صحافی حضرات ، مقتدر اساتذۂ کرام ، بینکرز ، اداکاروں اور سماجی ، ثقافتی اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداران نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی کہ جن میں ڈاکٹر مقصود زاہدی ، مسعود اشعر ، ممتاز العیشی ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد ، ریزیڈینٹ ایڈیٹر روزنامہ امروز سید سلطان احمد ، پروفیسر انور جمال ، زوار حسین ، ریزیڈینٹ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت ملتان شیخ ریاض پرویز ، بیورو چیف اے پی پی ملتان غنی چوہدری ، جبار مفتی ، ممتاز اطہر ، ڈاکٹر عرش صدیقی ، ڈاکٹر طاہر تونسوی ، ابن کلیم ، ڈاکٹر انور زاہدی ، رضی الدین رضی ، اور شاکر حسین شاکر جیسے بے شمار محبان بلے فیملی نے شرکت فرمائی تھی اور پہلی ہی صف میں آنس معین کے والد سید فخرالدین بلے ، برادران آنس معین (سید انجم معین بلے ، سید عارف معین بلے اور راقم السطور ظفر معین بلے جعفری) شامل تھے اور اس وقت کی متعدد تصاویر بھی دستیاب ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ سے ہمارا دوران تحقیق بھی مسلسل رابطہ رہا تھا۔ ڈاکٹر عرفان شاہ کی دوران تحقیق ہم پر خصوصی کرم نوازی رہی۔ متعدد بار انہوں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے اور برادر محترم آنس معین کے حوالے سے اہم اور ایسے مطبوعہ مواد کی نقول بھی ہمیں فراہم کیں کہ جو ہمارے لیے بالکل نئی تھیں یا وہ کہ جن کی ہمیں تلاش تھی۔ تحقیق کے دوران ہی ڈاکٹر عرفان شاہ کی ہم سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے مطلع فرمایا کہ آپ تو قطعہ نگار بھی فرماتے رہے ہیں۔ ہم نے تعجب سے پوچھا کہ آپ سے کس نے کہہ دیا تو انہوں نے روزنامہ مساوات کا حوالہ دے کر فرمایا کہ قطعہ نگاروں کے تذکروں میں آپ کا بھی ذکر خیر دیکھا۔ ہم نے وضاحت فرمائی کہ سید محسن نقوی شہید روزنامہ مساوات کے لیے بھی قطعہ نگاری فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جن دنوں ان کے ناتواں کاندھوں پر سرائیکی کلچر اینڈ لٹریچر کی ذمہ داریاں تھیں تو سیدی محسن نقوی غریب خانے پر تشریف لائے اور ان کے ہمراہ روزنامہ مساوات کے مدیر با تدبیر بھی تھے اور انہی کی موجودگی میں سیدی محسن نقوی نے مساوات کے مدیر موصوف کو مخاطب فرمایا کر انہیں مطلع فرمایا کہ آجکل مجالس کی مصروفیات حد سے زیادہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سرائیکی کلچر اینڈ لٹریچر کی پروموشن کا پروجیکٹ تو آج سے تو نہیں آئندہ کل سے آپ کسی کو بھیج کر صبح دس گیارہ بجے جانی ظفر معین بلے سے منگوا لیا کیجے گا۔ بے شک ہماری سیدی محسن نقوی سے حد درجہ بے تکلیف تھی اس کے باوجود حد درجہ احترام اور لحاظ بھی قائم تھا بس کیا مجا تھی ظفر معین بلے کی کہ وہ جگر جانی سیدی محسن نقوی کا حکم ٹالتے۔
پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ صاحب کو جناب شان الحق حقی دہلوی علیگ کے حوالے سے ایسی کتنی اور کس کس نوعیت کی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑا یہ ہم ڈاکٹر عرفان شاہ سے آئندہ کسی ملاقات میں ضرور دریافت کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بھی بھگت چکے ہیں۔ ایک مرتبہ برادر محترم خالد احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، نجیب احمد شادمان جی او آر تھری کے پاس سے گزرتے ہوئے بنا کسی اطلاع کے تشریف لے آئے ، اپنے گھر بھی کبھی کوئی کیا اطلاع دے کر آتا ہے؟ میرے سامنے دو پیپرز ٹرے رکھی تھیں ایک میں ادب لطیف اور دوسری میں آواز جرس کے نام پر موصولہ ڈاک تھی۔ ہم اپنی جان ، فقیرانہ مزاج اور درویشانہ انداز کے پیکر جناب اسلم کولسری سے محو گفتگو تھے جب ڈور بیل بھی بجی اور اسی کے ساتھ برادر محترم خالد احمد اور برادرم اجمل نیازی نے یک آواز ہو کر صدا لگائی السلام علیکم بلے بھائی۔ کیا یادگار اور شاندار دن تھا۔ میں نے برادر محترم خالد احمد سے غزل سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے میری بات کو سنی ان سنی کرکے جناب نجیب احمد اور ڈاکٹر اجمل نیازی کو آنکھ سے اشارہ کیا جو ہم دو منٹ کی کوشش کے بعد اجمل نیازی بھائی کی معاونت سے سمجھ پائے اور پھر ، پھر کیا تھا ہم چاروں اپنے پیارے سجن ، بیلی اور بھائی اسلم کولسری پر حملہ آور ہوگئے اور ان سے مسلسل گھنٹہ بھر بس انہی کا کلام سنا۔ اسلم کولسری کی ایک بہت ہی خوبصورت غزل کا مطلع اور ایک شعر ملاحظہ فرمائیے
پھر سے چوب ہوئی ہے ، بنسریا کی لے
آس کے سوکھے ہیڑ کے نیچے شاید کوئی ہے
میرا جی بہلانے کو اور ساتھ نبھانے کو
اس کے رنگ چرا لاتی ہے کمرے کی ہر شے
اس دوران چائے بھی چلتی رہی اور برادرم خالد احمد کی سگریٹ بھی۔ اسی ملاقات میں برادرم خالد احمد نے حقی صاحب کی کسی رسالے میں شائع شدہ غزل بھی دکھائی ، اس غزل کے حوالے سے بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ ہوا یہ کہ میں ادب لطیف کے نام پر آنے والی ڈاک دیکھ رہا تھا۔ کسی کم معروف شاعر نے ایک غزل برائے اشاعت بھیجی تو میں نے اس میں ایک سے زائد جھول محسوس کیے اور راہنمائی کےلیے ہم محترم خالد احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کل ، پرسوں ملیں گے تو بات کریں گے۔ دو روز بعد جب خالد احمد بھائی تشریف لائے تو آتے ہی فرمائش کی وہ غزل تو دکھائیں ، ہم نے پیش کردی ، برادر خالد احمد نے فرمایا یہ کسی نے حقی صاحب کی غزل کے مصرعوں کے الفاظ کو آگے پیچھے کرکے ، حلیہ بگاڑ کر اپنے نام سے بھیج دی ، ظفر معین بلے آپ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے کہ یہ غزل نا قابل اشاعت ہے لیکن حقی صاحب کی جس غزل کا میں حوالہ دے رہا ہوں وہ ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی میں نے پڑھی تھی ، اس دن برادرم خالد احمد وہی مطبوعہ غزل کا دکھانے لائے تھے۔ جب یہ چیپٹر بھی کلوز ہوگیا تو برادرم خالد احمد گویا ہوئے ، ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ گزشتہ روز شان الحق حقی صاحب کا فون آیا اور مجھ سے کہا ظفر میاں ہم نے آپ کو جو تخلیقات ارسال کی ہیں ان میں سے ایک صفحہ ایسا بھی ہے کہ جس کے داہنے ہاتھ پر کراس کا نشان ہے وہ غزل نامکمل ہے لہذا فی الحال اس کی اشاعت مؤخر فرما دیجے ، برادرم خالد احمد نے فرمایا کہ میں سمجھ گیا حقی صاحب نے ظفر معین بلے سمجھ کر مجھ سے بات کی ہے، اس کے بعد برادرم خالد احمد نے حقی صاحب کی مشہور زمانہ نظم کا اختتامی مصرعہ ہائے بچارے بھائی بھلکڑ عطا فرمایا اور اسی کے ساتھ ہی احباب رخصت ہوگئے اور یہ حسین مجلس تمام ہوئی۔
دوران تحقیق ڈاکٹر عرفان شاہ نے ہم سے ہم سے پوچھا کہ بتائیے آپ کو والد گرامی سید فخرسلدین بلے اور آنس معین کے حوالے سے کسی مواد کی تلاش ہو تو میں تلاش کرکے آپ کو فراہم کردوں۔ ہم نے ڈاکٹر عرفان شاہ سے گزارش کی تھی کہ قبلہ سید فخرالدین بلے کے ایک نایاب اور شاندار مقالے قرآن اور علم الابدان کی تلاش ہے۔ یہ مقالہ ہفت روزہ چٹان لاہور میں غالبا ۱۹۷۹ ، ۱۹۸۰ یا ۱۹۸۱ میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ ہم آج تک منتظر ہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ جب کبھی بھی انہیں دستیاب ہوا وہ ہمیں یہ مقالہ ضرور فراہم کریں گے۔ ڈاکٹر عرفان شاہ نے تو آئندہ جناب محمد شان الحق حقی دہلوی علیگ پر ہونے والے کام کی راہیں بھی متعین فرمادی ہیں۔ نابغۂ لسان و ادب محمد شان الحق حقی دہلوی مقالے کے ابواب کے عنوانات بالترتیب اس طرح سے ہیں۔ (1)سوانح و شخصیت(2)شاعری(3)ادبی صحافت(4)نثری خدمات(5)تراجم(6)تنقیدی خدمات(7)لغت نگاری(8)سوانح نگاری ۔ پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ نے محمد شان الحق حقی دہلوی فن ، شخصیت اور خدمات کو مندرجہ بالا عنوانات کے تحت انتہائی دانشمندی سے سمیٹا ہے۔ لیکن جب ہم مقالے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ابواب کے ان عنوانات کے تحت ذیلی عنوانات میں محمد شان الحق حقی دہلوی کی شخصیت ، فن اور خدمات کی داستان کا انتہائی محنت سے مفصل تجزیہ کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار کی علمی بصیرت اور فراست قاری پر بہت حد تک آشکار ہوتی ہے لیکن محمد شان الحق حقی دہلوی پر آئندہ جب کبھی بھی کوئی تحقیق کا بیڑا اٹھائے گا تو وہ ڈاکٹر عرفان شاہ کے طے اور قائم کردہ خطوط ، روش اور منفرد انداز طرز پر محض توجہ دینے پر ہی نہیں بلکہ معیار کو برقرار رکھنے پر بھی مجبور ہوگا اور یہ بہت دشوار گزار ہوگا۔