انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کے زیر اہتمام شایع شدہ محمد ندیم قاصر اچوی کی تازہ ترین ادبی کاوش، “قافیہ شناسی” سرائیکی زبان میں ایک قابل ذکر شراکت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اس کتاب کو ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز اور انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کی جانب سے شہزاد افق نے شائع کیا ہے جو کہ اسی ادارے کے سربراہ ہیں، 112 صفحات پر مشتمل اس تاریخی کتاب کو سرائیکی زبان کے ممتاز ادبی برادری کی قابل ذکر شخصیات کی توجہ اور پذیرائی ملی ہے۔ سرائیکی زبان میں علم قافیہ پر یہ ایک مکمل اور پہلا تفصیلی کام ہے۔ جس میں سرائیکی شاعری سے مثالیں دی گئیں ہیں۔ مزید اس میں سرائیکی شاعری میں استعمال ہونے والی تقریباً 5 ہزار قوافی اکٹھے کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں علم قافیہ کے ہر جز کو مثال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ آسانی سے سمجھا جاسکے۔
محمد ندیم قاصر اچوی کا اصل نام “محمد ندیم” ہے اور “قاصر” ان کا “تخلص” ہے “اچوی” اپنے اولیاء اللہ کے شہر اوچ شریف کی وجہ سے کہلواتے ہیں۔ آپ نے 1995ء میں ملک احمد بخش وارن کے گھر آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم قرآن پاک کی مدرسہ منیر شہید سے حاصل کی اس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول حیدر پور میں سے میڑک پاس کیا، گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج اوچ شریف سے حاصل کی، اور سرائیکی زبان میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ماسٹر کیا، اب ایم فل سرائیکی سکالر ہیں۔ 2018 سے اردو اور سرائیکی زبان میں شاعری کرنا شروع کی۔”رنگ سخن” اور “بزم جاناں” کے نام سے ان کے دو اردو شعری انتخاب بھی شائع ہوچکے ہیں۔ اب ان کی تحقیق پر ایک منفرد کتاب سامنے آئی ہے جس کا نام ” قافیہ شناسی” ہے۔ اور ایک سرائیکی نعتیہ مجموعہ “خیرالوریٰ” کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔ ان کی آنے والی کتابوں میں میں لاج (سرائیکی شاعری)، نَتھ۔(سرائیکی افسانے) اور محبوب (اردو شاعری) شامل ہیں۔
چار تفصیلی ابواب پر مشتمل یہ کتاب سرائیکی زبان کی باریکیوں کو گہرائی میں بیان کرتی ہے، جو قارئین کو زبان کی ساخت اور پیچیدگیوں کی جامع تفہیم فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل پتافی، رحیم طلب، ہمراز اچوی، تحریم ڈوگر، اور مہرین فاطمہ تہیم سمیت سبھی تبصرہ نگاروں نے سرائیکی زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے مصنف کو سراہتے ہوئے تبصرے لکھے ہیں۔ شاعری میں قافیہ ایسے ہے جیسے جسم میں روح۔ اگر روح نہ ہو تو جسم کسی کام کا نہیں۔ علمِ قافیہ پر اردو میں تو کافی لوگوں نے کام کیا ہے، لیکن ندیم قاصر نے اپنی مادری زبان سرائیکی میں پہلی بار ایسا منفرد اور مفید تحقیقی کام کیا ہے۔
سرائیکی زبان میں “قافیہ شناسی” لکھنے کا محمد ندیم قاصر اچوی کا فیصلہ ایک قابل ستائش انتخاب ہے، کیونکہ یہ نہ صرف سرائیکی زبان و ادب کے لسانی تنوع میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام بھی کرتا ہے۔ کتاب کی اہمیت اس حقیقت سے مزید واضح ہوتی ہے کہ اسے نوجوان ادیب شہزاد افق نے پیش کیا ہے، جو سرائیکی زبان کے ادبی برادری میں اس کی پذیرائی اور سراہنے کا ثبوت ہے۔ شاعری چاہے کسی بھی زبان میں ہو چاہے وہ قومی زبان ہو یا مادری زبان قافیہ لازم ہے۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ندیم قاؔصر اُچوی نے اپنی مادری زبان سرائیکی میں علم قافیہ پر مشتمل کتاب “قافیہ شناسی” لکھی۔ انھوں نے اس کتاب میں تحقیق کی ہے کہ سرائیکی شاعری میں قافیہ کا استعمال کیسے کیا جارہا ہے۔ نیز انہوں نے اس بات کو بھی رد کیا ہے قافیہ صرف ہم آواز حروف کا نام نہیں ہے۔ کیونکہ مادری زبان کے کافی سارے ایسے شعراء بھی ہیں جو کہ ہم آواز الفاظ کو ہی قافیہ سمجھتے جیسے لفظ “پیاز” کا ہم آواز لفظ “فیاض” ہے وہ اسکو ہم قافیہ سمجھ کر استعمال کر دیتے ہیں۔ جو کہ قافیہ کے عیب میں شمار ہوتا ہے۔اسی چیز کو ندیم قاصر اچوی نے واضح کیا ہے کہ قافیہ کی اصل بنیاد “حرفِ روی” ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب “قافیہ شناسی” سرائیکی شعراء کےلیے ایک مفید اور منفرد ندیم قاؔصر اُچوی کی طرف سے تحفہ ہے۔مزید اس میں انھوں نے علم قافیہ کی ہر ایک پہلو کو بالکل واضح اور مثالوں سے بیان کیا ہے جس سے ایک عام قاری بھی سمجھ سکتا ہے کہ قافیہ کے عیب کیا ہوتے ہیں حرف روی کی اہمیت کیا ہے۔
“قافیہ شناسی” کا ایک نمایاں پہلو مصنف کی اپنے والدین اور اساتذہ کے لیے دلی لگن بھی ہے۔ انہوں نے اس کتاب کا انتساب اپنے والدین اور اساتذہ کے نام منسوب کیا ہے۔ مصنف کا یہ اقدام ذاتی رابطے، اور ان کے کام کو صداقت اور شکر گزاری کے احساس سے سامنے لاتا ہے، اور اس گہرے اثرات کو اجاگر کرتا ہے جو خاندانی اور تعلیمی اثرات کسی فرد کے لسانی سفر پر پڑ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں ندیم قاصر نے کافی سارے قافیہ شناسوں کی قافیہ کی اہمیت بارے رائے بھی لکھی ہے۔ اس کتاب کا آخری باب سرائیکی شاعری میں استعمال ہونے والے ذخیرہ قوافی پر مشتمل ہے۔ جس سے سرائیکی شعراء مستفید ہوسکتے ہیں ان کو قوافی تلاش کرنے میں آسانی ہوگی۔ ندیم قاصر اچوی نے نہ صرف قوافی اکٹھے کیے ہیں بلکہ ایک منفرد کام بھی انجام دیاس ہے وہ یہ کہ قافیہ کے ساتھ ساتھ ان کے افاعیل بھی لکھ دئیے ہیں کہ کونسا قافیہ کس افاعیل پر آئے گا۔ گویا یہ کتاب سرائیکی شعراء کےلیے تو مفید ہے ہی اس کے علاوہ سرائیکی سمجھنے والے دوسرے لوگوں کےلیے بھی فائدہ مند بھی ہے وہ بھی اس علم سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
112 صفحات پر مشتمل کتاب کا اختصار اس کی قدر و منزلت کو کم نہیں کرتا۔ اس کی بجائے یہ اس کی رسائی میں مزید اضافہ کرتا ہے، جو اسے سرائیکی زبان کے شائقین اور اسکالرز دونوں کے لیے یکساں طور پر پڑھنے کے لیے موزوں بناتا ہے۔اس تحقیقی کام کی جامع نوعیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قارئین بغیر کسی مشکل کے سرائیکی زبان کی پیچیدگیوں کے بارے میں قیمتی معلومات حاصل کر سکیں گے۔
محمد ندیم قاصر اچوی کا اپنی مادری زبان سرائیکی میں ایسا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ نہ صرف ان کی ادبی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ سرائیکی زبان و ادب کے لیے تعریف کو فروغ دینے کے لیے ان کے عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مصنف “قافیہ شناسی” کو اپنی مادری زبان کے لیے وقف کر کے انہوں نے پاکستان میں لسانی تنوع کا جشن منانے کے لیے جاری کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “قافیہ شناسی” سرائیکی زبان و ادب میں ایک قابل تعریف اضافے کے طور پر ہمارے سامنے ہے، جو قارئین کو سرائیکی زبان کی ساخت اور خوبصورتی کے بارے میں سوچ سمجھ کر تحقیق کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ سرائیکی زبان کی ادبی برادری میں معزز شخصیات کے جائزے مصنف کے موقف کو مزید مستحکم کرتے ہیں، اور مصنف کی اپنی ماں بولی کی جڑوں کے لیے لگن ایک ذاتی رابطے کا اضافہ کرتی ہے ۔ میں محمد ندیم قاصر اچوی کو سرائیکی زبان کو فروغ دینے اور ادبی منظر نامے کو تقویت بخشنے میں قابل ستائش کام کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...