ہندوستانی فلموں کے ایک بڑے فنکار محمد مقری کے نقوش اب لوگوں کے ذہنوں سے مٹتے جارہے ہیں۔ ان کی بذلہ سنجی،ان کے قہقہے، شراتیں اور زندہ دلی کون بھول سکتا ہے۔ وہ چھوٹے قد کے انسان اور ایک نہایت نرم دل اور کریم النفس انسان تھے۔ محمد مقری ۵ جنوری ۱۹۲۲ کے دن علی باغ { مہاراشتر، بھارت} میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد عمر مقری تھا۔ ان کے فلمی کیرئیر کا آغاز ۱۹۴۵ میں ممبئی ٹاکیز کے تلے بنے والی فلم " پرتما" کے ساتھ ہوا ۔ انھوں نے اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ کام کیا۔ اپنی پچاس سالہ فلم زندگی میں چھ سو سے زائد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے پوپلے منہ کے ساتھ مکالموں کی ادائیگی اور چہرے کے منفرد تاثرات سے وہ فلم دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کردیتے تھے۔ ان کے مکالموں میں گہرا معاشرتی طنز بھی ہوتا تھا۔ مقری صاحب نے جانی واکر، محمود اور آغا جیسے مزاحیہ اداکاروں کے عروج میں ہندوستانی فلموں میں اپنی شناخت بنائی اور نام کمایا۔ انکی مشہور فلموں میں مدر انڈیا { 1957}، کوہ نور{ 1960 }، فرض {1967}، ملن {1968}، ورثہ {1968} ممبئی ٹو گوا {1972} ، دو پھول {1972 امر اکبر انتھونی{1977}، لاوراث [1981}۔ شرابی{1984}، کولی / قلی {1983}، اور ہم دونوں {1985} نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محبوب خان کی فلم " آن"میں دلیپ کمال کے مقابل کردار ادا کیا۔ فلم " آن" کے سین میں محبوب خان کو ایک گدھے کی ضرورت تھی۔ ان کو اپنے مطلب کا گدھا نہیں مل رہا تھا۔اور برہم ہو کر انھوں نے اپنے پروڈکشن مینجر کو فارغ کردیا اور یہ کام مقری صاحب کو سونپ دیا۔ اور کہا " دنیا میں بہت سے جانور ہیں۔۔۔، میرے لیے ایک گدھا نہیں" ۔۔۔۔۔۔ قریب کھڑے ہوئے دلیپ کمار نے مسکراتے ہوئے کیا ۔۔" مقری تو ہیں نا" ۔۔۔۔۔۔
مقری صاحب فلموں میں آنے سے قبل بچوں کو قران شریف، عربی اور اردو پڑھااتے تھے۔ اور انھیں لوگ " قاضِی صاحب" کہا کرتے تھے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دلیپ کمار مقری صاحب کے ہم جماعت تھے ۔ یہ دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ مقری صاحب کو دلیپ کمار کی مدد سے ان کی پہلی فلم " پرتما" میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ اس سے قبل وہ اسٹوڈیو میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ دیکا رانی مقری کی اداکاری اور مخصوص مزاحیہ اداکاری کا اسٹائیل بہت پسند کرتی تھیں۔ وہ ان کو ہندوستانی فلموں کا بہتریں مزاحیہ اداکار کہتی تھیں۔ مقری صاحب نے اپنے زمانے کے بڑے اداکاروں جیسے شیخ مختار، راج کپور، دلیپ کمار، دیوانند، نرگس، مینا کماری، پریم ناتھ، ، مدھو بالا، نادرہ، ، نمی ،سجنیو کمار اور امیتا بچن، ونود کھنہ اور رشی کپور کےساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ 1968 میں بنی والی فلم " انوکھی رات" سنجیو کمار کر فلمائے ہوئے گانے۔۔۔۔۔ " کوہرے تان ملے ندی کے جل میں" ۔۔۔۔ گھوڑا گاڑی کے آس پاس اچھلتے کودتے، حرکتیں اور تاثرات کو کون بھول سکتا ہے؟ اس فلم میں انھوں نے" نوبت" کا کردار ادا کیا تھا۔ مقری صاحب کی آخری فلم " بے تاج بادشاہ" تھی۔ یہ فلم 1994 میں بنی ۔ اس میں ان کا کردارکالج کے پرنسپل کا تھا۔ مقری صاحب کی اہلیہ کا نام ممتاز تھا۔ ان کا انتقال 2000 میں ہوا ۔ ان سے ان کی دو بیٹیاں نسیم اور امینہ ہیں۔ جب کہ صاحب زادوں کے نام ناصر، فرخ اور بلال ہیں۔ ان کی صاحب زادی نسیم مقری، نے فلم " دھڑکن" کا اسکریں پلے اور مکالمے لکھے۔ ایک اور فلم " میں نے پیا ر کیا" کے مکالمے بھی لکھے۔
مقری صاحب ایک خوش قسمت انسان تھے انھوں نے ایک خوش گوار زندگی گزاری۔ وہ کام کے بعد گھر میں وقت گذارنا پسند کرتے تھے۔ وہ کنبہ پرور۔ اور مذھبی انسان تھے صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔ فلمی سیاست سے ہمشہ دوررہے۔ ان کو گھوڑے پالنے کا شوق تھا۔ ان کے پاس دو گھوڑے بھی تھے۔ تاحیات ان کی دلیب کمار جے راج، سبھاش گھائے، محمود، آغا اور جانی واکر سے گہری دوستی رہی۔
مقری صاحب کا انتقال چار ستمبر 2000 کو 78 سا ل کی عمر میں پیر کے روز صبح ایک بج کر دس منٹ پر باندرہ کے لیلا وتی ہسپتال ممبئی میں ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔