یاسر جواد کی کتاب 100 عظیم مسلمان کی ابتدا بھی مائیکل ہارٹ کی (دی 100) کی طرح اسی شخصیت سے ہے جو وجہ تخلیق کائنات ہیں ۔ جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اے محمّد اگر میں آپ کو تخلیق نہ کرتا تو میں یہ کائنات تخلیق نہ کرتا" ـ محمّد صلی اللہ وسلم کی ولادت سے پہلے سر زمین حجاز عربون کی آبادی کا مرکز تھا عربون کے علاوہ وہاں دوسرے لوگ بھی آباد تھے ۔ عرب اکثر جنگجو ثابت ہوئے ۔ آس پاس کے دوسرے لوگ مہذب ہو چکے تھے لیکن عربون پر بدویت کافی عرصے تک غالب رہی ۔
عرب کا سب سے بڑا قبیلہ قریش تھا ۔ قریش لفظ "تقرش" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے تجارت کیونکے اس وقت عرب میں تجارت کا پیشہ معتبر سمجھا جاتا تھا اور قریش کعبہ کے مالک بھی تھے اس وجہ سے بھی عرب میں ان کا مان مرتبہ اونچا تھا ۔ اس وقت یثرب یہود آبادی کا مرکز تھا ۔ تین مشہور یہود قبائل بنو نظیر ۔ بنو قینقاء اور بنو قریظہ یثرب میں آباد تھے ۔ عرب میں اس وقت بت پرستی عام تھی ۔ پہلا بت جو مکّہ میں نصب ہوا اس کا نام ہبل تھا لیکن تاریخ طبری ۔ ابن خلدون اور ابن ہشام کے مطابق آپ صلی اللہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی عرب میں بت پرستی سے بیزاری پیدا ہو چکی تھی عرب ان مصنوعی خدائوں سے تنگ آ چکے تھے ۔ 7 یا 9 ربیعالاول 57ع میں آپ صلی اللہ وسلم کی ولادت ہوئی ۔ آپ کا شجرہ چالیس پشتوں تک حضرت ابراھیم سے ملتا ہے ۔ آپ کی دادی کا نام بھی فاطمہ تھا ۔
عرب کاہنوں نے آپ کی پیدائش سے قبل یہ پیش گوئی کی کہ عنقریب عرب میں ایک نبی آنے والا ہے۔ پیدائش کے بعد عرب کے رواج کے مطابق آپ کو بیبی حلیمہ سعدیہ کو دودھ پلانے کے لئے سونپ دیا گیا۔ ایک دفع آپ اپنے رضائی بہن بھائیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ سفید کپڑوں میں ملبوس دو آدمی آپ کو اٹھا کر لے گئے بچوں نے گھر آ کر خبر دی تو بیبی حلیمہ اور ان کے شوہر آپ کی تلاش میں نکلے وو آدمی آپ کو واپس چھوڑ گئے جب آپ اپنے رضائی والدین سے ملے تو انکو یہ واقعہ بتایا کے ان لوگوں نے آپ کا سینہ چاک کیا اور کچھ ڈھونڈنے لگے ۔ یہ واقعہ "شک صدر " کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعے کے بعد بیبی حلیمہ ڈر گئیں اور آپ کو واپس بیبی آمنہ کے سپرد کر دیا ۔ آپ 6 ماہ کے تھے تو بیبی آمنہ کا انتقال ہو گیا اور آپ کی پرورش کی ذمیداری آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے لی ان کی وفات کے بعد آپ مستقل طور پر اپنے چچا حضرت ابو طالب کی سرپرستی میں آ گئے وہ اکثر آپ کو اپنے ساتھ رکھتے یہاں تک کہ ایک دفع وہ سامان تجارت لیکر شام جا رہے تھے تو آپ نے ساتھ جانے کی ضد کی حضرت ابو طالب نے آپ کو ہمراہ لے لیا ۔ راستے میں قافلے نے جہاں پڑاوؑ ڈالا وہاں راہب بحیرہ کی خانقاہ تھی اس نے آپ کے اوپر بادل کا سایہ اور اشجار کوآپ کے آگے جھکتے دیکھ کر تمام قافلے والوں کی دعوت کی آپ بھی شریک ہوئے آپ کے شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھ کر آپ سے کچھ سوالات کے جو عین کسی نبی کی صفات کے مطابق تھے حضرت ابو طالب کو ھدایت کی کہ اس بچے کی یہود سے حفاظت کرنا۔
آپ 14 سال کی عمر میں پہلی دفعہ جنگ فجار میں شریک ہوئے اور تیر چن چن کر اپنے چچاؤں کو دیتے۔ 25 سال کی عمر میں آپ دوسری دفعہ شام گئے اس دفع آپ حضرت مکّے کی ایک بیوہ تاجر بیبی خدیجہ کا ثمن تجارت لیکر شام گئے ۔ ان دنو آپ کی ایمانداری ۔ سچائی اور راست گفتاری کا مکّے میں بہت چرچہ تھاـ آپ کی تعریف سن کر بیبی خدیجہ نے آپ کو پیغام بھجوا کر پیشکش کی کہ آپ ان کا سامان تجارت شام لیکر جائیں آپ نے ان کی پیشکش قبول کی اور یوں ان کا سامان تجارت لیکر شام گئے ۔ اس تجارت سے بیبی خدیجہ کو بہت نفعہ پہنچا ۔ جب آپ واپس ہوئے تو آپ کے اخلاق اور کردار سے متاثر ہو کر بیبی صاحبہ نے آپ کو شادی کا پیغام بھجوایا ۔ آپ نے اپنے چچا سے مشورے کے بعد 25 سال کی عمر میں بیبی خدیجہ سے نکاح کیا جبکہ بیبی خدیجہ کی عمر اس وقت 40 سال تھی ۔ آپ نے عرب کے رواج مطابق بیبی صاحب کو 20 اونٹ حق مہر میں دیے۔ آپ جب 35 سال کی عمر کو پہنچے تو کعبے کو مسمار کر کے دوبارہ تعمیر کیا گیا اور ہجر اسود کو نصب کرنے کا شرف آپ کو حاصل ہوا ۔ ابن ہشام اور ابن اسحاق سے روایت ہے کہ آپ کو 40 سال کی عمر میں نبوت ملی ۔ نبوت ملنے سے قبل آپ سال میں ایک ماہ عبادت اور یگانگی کی غرض سے غار حرا میں ضرور قیام کرتے تھے ۔ حضرت عا ئشہ سے روایت ہے کہ آپ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی ۔
غار حرا میں گزری ان راتوں میں سے آخر ماہ رمضان کی وہ رات آئی جس میں حضرت جبرئیل وحی لیکر حاضر ہوئے ۔ حضرت جبرئیل نے آپ کو وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا ۔ سب سے پہلے بیبی خدیجہ نے ایمان لاکر آپ کے ساتھ نماز ادا کی اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی مسلمان ہوئے پھر متعدد افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ اس زمانے میں آپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک مشرک نے آپ کو نماز پرھتے دیکھا اور آپ کی شان میں گستاخی کی تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے اس کا سر پھوڑ ڈالا ۔ یہ پہلا خون تھا جو اللہ کی راہ میں جہاد کی غرض سے بہایا گیا تھا ۔ جب آپ نے اعلانیہ تبلیغ شروع کی تو لوگ آپ کے پے در پے دشمن ہو گئے اور آپ کی شکایات لیکر حضرت ابو طالب کے پاس گئے لیکن انہوں نے آپ سے کہا بھتیجے جو تمہیں بہتر لگے وہ کرو میں تمہیں نہیں روکو گا۔ لوگ اس بات سے چڑ کر مسلمانوں کو طرح طرح کی تکالیف دینے لگے ۔ تب نبوت کے پانچویں سال ماہ رجب میں آپ نے صالحین کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ یہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت تھی۔ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے بعد آپ مضبوط ہو گئے تب پہلے مرتبہ حضرت عبدالله بن مسعود نے اعلانیہ قرآن پاک کی تلاوت کی ۔
اسلام کو زیادہ تقویت حضرت عمر کے قبول اسلام سے ملی۔ نبوت کے ساتویں سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہا جاتا ہے اس سال حضرت بیبی خدیجہ کی وفات ہوئی اور آپ کے لئے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھنے والے آپ کے چچا حضرت ابو طالب کی وفات ہوئی ان کی وفات سے آپ کے مصائب میں اضافہ ہو گیا اور قریش کی سختیاں مزید بڑھ گئیں چنانچہ آپ نے یثرب ہجرت کرنے کا ارادہ کیا آپ کی ہجرت کے بعد یثرب کا نام بدل کر مدینہ رکھا گیا ۔ مدینہ میں آپ نے ابو ایوب انصاری کے گھر قیام کیا ۔ اگرچہ انصار مدینہ نے اپنا سب کچھ مہاجرین مکہ کو پیش کر دیا لیکن مستقل انتظام کی ضرورت تھی اسی لئے آپ نے انصار و مہاجر میں بھائی چارہ قائم کیا انصار اور مہاجرین کے علاوہ ایک معاہدہ آپ نے یہود سے بھی کیا اور ایک عہد نامہ لکھا گیا جس میں تینوں قبائل کے حقوق کی شرائط درج کی گئیں اور اس معاہدے کو "میثاق مدینہ" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
علامہ شبلی نعمانی کے مطابق وو شرائط کچھ یوں تھیں ۔
1۔ خون بہا اور فدیہ کو پہلے کی طرح قائم رہینگے۔
2۔ یہود کو ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی ۔
3۔ یہود اور مسلمان باہم دوستانہ تعلق رکھیں گے ۔
4۔ یہود یا مسلمانوں کی کسی سے لڑائی ہو گئ تو فریقین ایک دوسرے کی مدد کرینگے۔
5۔ کوئی بھی فریق قریش کو امان نہیں دیگا۔
6۔ اگر مدینے پر حملہ ہوا تو دونو فریق مل کر مقابلہ کرینگے۔
7۔ کسی دشمن سے ایک فریق سلحہ صلحہ کرے تو۔ دوسرے کو بھی صلحہ کرنی ہوگی سواۓ مذہبی لڑائی کے۔
مسلمان اور کفر کے درمیان ہونے والا غزوہ ابوا آپ کا پہلا غزوہ تھا . ہجرت کے چھٹے سال آپ عمرہ و حج کے ارادے سے مدینہ سے احرام باندھ کر مکے کے لئے نکلے لیکن رستے پر آپ کو روکنے کے لئے قریش سر گرم ہو گئے اور حدیبیہ کے مقام پے ناقہ بٹھایا گیا ۔ آپ کو جب پتہ چلا تو آپ نے ان کو پیغام بھجوا کر معاہدہ کرنے کے بعد درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام مسلمانوں سے بیعت لی اور یہ طہ کیا کے اس سال قربانی کر واپس جائینگے اور آئندہ سال مکّے آئنگے اس معاہدے کو صلحہ حدیبیہ کا نام دیا گیا ۔ حضرت علی سے روایت ہے کہ صلحہ کے بعد آپ نے انکو بلایا اور کہا شرائط لکھو ۔ شرائط درج ذیل ہیں ۔ ۔ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہیں ہوگی ۔ قریش کا اگر کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس بھیج دیا جائیگا اور اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس جائیگا تو وو اسے واپس نہیں کرینگے ۔ جو جس کے ساتھ ملنا چاہتا ہے مل جاۓ ۔
ہجرت کے آٹھویں سال ذیقعد میں آپ عمرہ قضا کے لئے مکّہ روانہ ہوئے ۔ ابن عبّاس روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس سفر میں حالت احرام میں حضرت میمونه سے نکاح کیا اسی سال عمرو بن العاص ۔ خالد بن ولید اور عثمان بن ابی طلحہ بامشرف اسلام ہوئے ۔
ہجرت کے دسویں سال خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا ۔
1۔ قیامت تک تم پے دوسروں کا خون اور مال اس طرح حرام ہے جیسے آج کے دن
2۔ تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا ۔
3۔ جس کے پاس کوئی امانت ہو وہ رکھوانے والے کو واپس کر دے ۔
4۔ ہر قسم کا سود ساقط ہے ۔
5۔ زمانہ جاهليت میں جتنے خون ہوئے ان کا بدلہ نہ لیا جاۓ
6۔ اپنے دیں کی حفاظت کے لئے شیطان سے ڈرتے رہو ۔
7۔ تمہاری بیویوں پر تمہارا اور تم پر ان کا حق ہے ۔
8۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔
ہجرت کے گیارہویں سال صفر کے آخر میں یا ربیع ال اول کے شروع میں آپ کے سر میں درد ہوا اور آپ علیل ہو گئے ۔ آپ نے زندگی کے آخری ایام بیبی عائشہ کے حجرے میں گزارے اور وہیں آپ خالق حقیقی سے جا ملے ۔
حضرت علی ۔ حضرت عبّاس ۔ فضل بن عبّاس اور دیگر نے آپ کو لباس سمیت غسل دیا ۔ وصال کے وقت آپ کی عمر 63 سال تھی ۔ آپ کی چھوڑی ہوئی میراث میں تین گھوڑے ۔ ایک خچر ۔ بیس اونٹنیاں ۔ سات بکریاں ۔ تین تلواریں ۔ تین نیزے ۔تین کمانیں اور دو ذَرہیں تھیں ۔ حوالہ ۔ سیرت النبی از ابن حشام ۔ سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی ۔ تاریخ ابن خلدون ۔ تاریخ طبری ۔