راولپنڈی کا ریلوے اسٹیشن بھی شہر جیسا ٹھنڈا، بے نیاز اور جداگانہ ہے۔ یہ ۱۸۴۹ کی بات ہے۔ جب انگریز بہاد نے راول کے نگر پر قبضہ کیا اور اسے چھاؤنی کی شکل دی، ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود، آج بھی اس علاقے کی بنیادی شناخت بہرحال فوج ہی ہے۔ ۱۸۸۱ میں جب ریل کی پٹڑی بچھ گئی تو مقامی گکھڑوں کی بھی سنی گئی۔ جس طرح ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے ماتھے پر تین تکونوں کا تاج دھرا ہے، اسی طرح شہر بھی تین ثقافتوں کی ترشول پہ ٹنگا، تین آمروں کی یاد دلاتا ہے۔ پشاور کی سمت سے راولپنڈی میں داخل ہوں تو ملکی اور غیر ملکی بسوں کے اڈوں کے آگے ویسڑیج کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ شہر کا یہ پہلا حصہ، ایوب دور کی علامت ہے۔ پاک سر زمین کی پہلی آمریت کی مانند، اس کا تاثر بھی خاصا خوشگوار کن ہے۔ گھروں کے علاوہ یہاں دوکانیں ہیں یا پھر پرائیوٹ سکول۔ مرد مومن کے دور میں راولپنڈی کی آبادی نے سکیم تھری کے نام سے ایک نئی شہر پناہ اٹھتے دیکھی۔ حمید گُل سے اسلم بیگ تک فوجی اشرافیہ کی دوسری نسل اسی حصے میں قیام پذیر ہے جہاں پچیس برس پہلے افغان جہاد کی مشاورت ہوتی تھی وہاں اب بیوٹی پارلر اور بنک کثرت سے کھل گئے ہیں۔ جس طرح ہر شاہی قعلے کے ساتھ کچھ خرافات اور کچھ مراعات کا سلسلہ چلتا ہے، اسی طرح ویسڑیج کے ساتھ رینج روڈ اور سکیم تھری کے ساتھ ڈھوک چوہدریاں کی بستیاں آباد ہیں۔چکلالہ بیس سے پرے ویول لائن پار کریں تو اسلام آباد کی حدود کا آغاز ہوتا ہے جو پاکستان سے دس کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ ریل کہانی دینہ سے آگے بڑھے تو کلوال، کالا گوجراں سے ہوتے ہوئے جہلم جا کر رکتی ہے۔
دینہ کے بعد ایک ویرانہ ہےجسے محکمہ مال کی قانونگوئی، بوڑھے جنگل کے نام سے جانتی ہے۔ یہیں سے ایک راستہ روہتاس کا سراغ لے کر نکلتا ہے۔ایک بوسیدہ پل پر کاہان کادریا عبور کریں تو سامنے روہتاس ہے۔ روہتاس کے طلسم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جہلم میں داخل ہونا آسان نہیں۔
شہر اور چھاونی سے آنکھ بچا کر ایک راستہ رڑیالہ اور داراپور کو جاتا ہے۔ ٹلہ جوگیاں اسی راستے پر واقع ہے۔ روہتاس اور ٹلہ جوگیاں کے بعد، جہلم مسافر کے لئے اپنے بازو کھول دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ، دو آبے کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بڑھاپے کی محبت کی طرح، پر تجسس مگر شکستگی پر آمادہ۔ جہلم کتنا پرانا ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنا پرانا ضرور ہےکہ اس کو چھوڑ کے جانے والے، اب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہر اور دریا کی تاریخ ایک دوسرے سے آنول اور بچے کی مانند جڑی ہے۔ اس سے پہلے کے شہر اپنا افسوں پڑھ کر پھونکے، دریا اس کا طلسم ختم کر دیتا ہے۔ دریائے سندہ تو خیر اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے ہی، جہلم کے پانی بھی کئی پرانوں کی جڑیں سیراب کرتے ہیں۔ ویتھ دریا، وتستا، ہائیڈس پس! اس کے چند نام ہیں۔ رگ وید کے مطابق یہ دریا، پورے ہندوستان کو پاکیزگی بخشتے ہیں۔ آج کل، بہرحال، اس کے پانی روح روشن کرنے سے زیادہ گھر روشن کرنے کے کام آتے ہیں۔ اننت ناگ سے پچاس میل دور، ویری نگ کا چشمہ ہے، جہاں سے دریائے جہلم اپنا سر اُٹھاتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کی شکل گول کنڈکے جیسی تھی مگر مغلیہ دور میں جہانگیر نے اس جگہ ہشت پہلو تا لاب بنوا کر چشمے کو دو رویہ درختوں سے آراستہ کیا۔
پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر دریا، اننت ناگ، برج بہارہ، اونتی پورہ، سوپورہ اور بارہ مولا سے ہوتا ہوا، میلوں کا سفر طے کر کے مظفرآباد کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ راستے میں بڑے بڑے آبی ذخیرے اور چھوٹے چھوٹے جذباتی جزیرے بھی آتے ہیں۔ یہیں ایشیا کی سب سے بڑی جھیل وولرہے۔
اپنے اردگرد کے تمام شہروں سے دس کوس دور ہونے کے سبب، ڈسکہ کا پرانا نام “دس کوس” ہوا کرتا تھا۔ جو بگڑتے بگڑتے ڈسکہ ہو گیا۔ ویسے تو یہاں نندی پور کے نام کا آنند بھی ہے،مگر آزادی سے پہلے، ڈسکہ کی اصل شہرت، جگا ڈاکو تھا، جسے پنجاب کا رابن ہڈ بھی کہا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں ایسی بہادری کا حامل یہ کردار برطانوی استعمار کے خلاف، مزاحمت کی علامت تھی۔ جگے کی زندگی بارہا فلم کے فیتے پر چڑھی مگر جس اختصار سے اس ٹپے میں یہ کہانی سنائی گئی ہے وہ بے مثال ہے۔
جگا جمیا فجر دی بانگے
تے لوڈے ویلے کھیڈدا پھرے
جگا جمیا تے ملن ودھایاں
تے وڈا ہو کے ڈاکے ماردا
جگے ماریا لائل پور ڈاکہ
تے تاراں کھڑک گئیاں
جگا وڈھیا بوڑھ دی چھاویں
تے نو من ریت بھج گئی
جگے کی پیدائش تو چونیاں کے ایک نواحی گاؤں میں ہوئی مگر ڈسکہ میں بڑے بڑے زمیندار آباد تھے، اس لئے جگے نے زیادہ تر وارداتیں یہیں کیں۔ تقسیم کے بعد اس کے اہل خانہ گڑھ مکتسر آباد ہو گئے جہاں اس کی بیٹی، اب بھی، اپنے باپ کی انتیس سال پر مشتمل کہانی سناتی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...