::: " محمد حسن عسکری کی ادبی علمی اور انتقادی تفھیمات اور تشریحات کا آفاق " :::
پاکستان کے نامور اردو نقاد ، مترجم، استاد و افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرایا۔ جو جلد ہی ترقی پسندی سے تائب ہو کر جدید یت کی طرف آئے ۔ اسلامی فکر کے حوالے سے ادب کو پرکھا اور عسکری صاحب دائِیں بازو کے ادیب اور نقاد کہلائے گئے۔عتیق احمد نے لکھا ہے"ادھر محمد حسن عسکری صاحب جو ادب اور سیاست کے نام ہی سے کبھی چرتے تھے ، یکایک شدید محب پاکستان بن کر ایسی سیاسی جھلکیاں لکھنے لگے۔ جن میں پاکستان کی سیاست ، ادب، کلچر اور دوسری تمام ثقافتی سرگرمیون کو بہ جنبش یک قلم مسلم لیگی نقطہء نظر سے بنتے اور اور دیکھنا چاہتے تھے۔ " ۔۔ محمد حسن عسکری کا اصل نام اظہار الحق تھا۔ وہ 5 نومبر 1919 کو سراوہ ضلع میرٹھ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم پرائمری اسکول، شکار پور ضلع بلند شہر سے حاصل کی۔ ڈی۔ اے۔ انگلش مڈل اسکول سے مڈل پاس کیا۔ 1936 میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938 میں میرٹھ کالج میرٹھ سے انٹر پاس کیا۔ الہٰ آباد یونیورسٹی سے 1940 میں بی۔ اے۔ کیا۔ اور 1942 میں وہیں سے انگریزی میں ایم۔ اے۔ کیا۔ پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب ان کے زمانے کے مشہور انگریزی استاد تھے۔ ان سے عسکری نے بہت کچھ حاصل کیا۔وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاؤنٹنٹ چلے گئے جہاں انھوں نے 1945 تک ملازمت کی۔
محمد حسن عسکری نے پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور رسالہ "ساقی" سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ وہ کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج، دہلی میں انگریزی کے استاد رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے۔عسکری صاحب اردو کے ایک اہم افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ جزیرے 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے شائع ہوا۔ 1947 میں وہ تقسیم ہند کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ وہاں انھوں نے سعادت حسن منٹو کی مشاورت میں مکتبہ جدید، لاہور سے "اردو ادب" جاری کیا۔ صرف دو شمارے شائع ہو سکے۔ اسی زمانے میں " مادام بواری" کو اردو میں ترجمہ کیا۔ 1950 میں وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں ابتدا میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری 1950 سے جون 1950 تک "ماہ نو" کراچی کے مدیر بھی رہے۔ پھر اسی سال اسلامیہ کالج لاہور میں بطور استاد منتقل ہو گئے۔ پھر انھوں نے کراچی کے اسلامیہ کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض کے انجام دیے۔ ۱۹۸۰ میں ان کے رشتے کے بھانجے اور شاگرد عمیم اختر کا ایک مضمون تخلیقی ادب" میں شائع ہوا۔تھا۔ وہ لکھتے ہیں" عسکری صاحب اساتذہ کی اس آفاقی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کے نمائندہ کسی بھی ملک میں خا ہی خال نظر آتے ہیں۔ جو صرف کلاس روم کے استاد نہِیں ہوتے جو صرف اس لیے استاد نہیں ہوتے کی کوئی متبادل موزوں زریعہ معاش نہیں ملتا وہا ں گنے چنے اساتذہ کو اپنے اوپر یا اپنے طلبا کے اوپر سوار نہیں ہونے دیتے" ۔۔۔ اردو کی پہیلی ادبی ناقدہ ممتاز شیری کا کہنا ہے "ہم عصر ادب پر اثر انداز ہونا اور اپنی تنقیدی فکر سے اپنے دور کے لکھنے والوں کو متاثر کرنا بڑی بات ہے۔ ہمارے ناقدوں میں سوائے عسکری صاحب کے شاید ہی کسی کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے " ۔۔ عسکری صاحب کا انتقال دوران ملازمت 18 جنوری 1978 کو کراچی میں ہوا۔ اور دارالعلوم، کورنگی ، کراچی میں پیوند زمیں ہوئے۔ محمد حسن عسکری تاحیات مجرد رہے۔ اور اپنی موت تک کراچی میں اپنی بہن کے ساتھ شاہراہ قائدین اور کشمیر روڈ کے سنگم پر جبیب بنک کی بالائی منزل پر قیام پذیر رہے۔
محمد حسین عسکری جدید اور نئے ادب کو بڑے موثر انداز میں لکھا۔ وہ بہت خوب صورت نثر لکھتے تھے۔ عموما اردو میں نظریاتی انتہا پرستی نے عسکری صاحب کی زہنی و فکری فطانت پر توجہ نہیں دی گئی۔ اور ہمارے ناقدین اور ادبا نے غیر معقول روّیے کے تحت عسکری صاحب کے ادبی افکار اورتفھیمات اور تضیحات کو سمجھ نہِیں پائے۔ مگر ان کی ادبی خیالات سے اردو کی نئی نسل کم ہی واقف ہیں۔ عسکری صاحب کے ساتھ یہ الیہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی ادبی قابلیت اور فطانت کی تو بہت شہرہ رہا جب نی کے ادبی روّیوں اور مزاج میں تبدیلیاں آئین تو ان کی فعالیت قدرے کم ہوگئی۔ ان کے علمی اور ادبی نظریات میں ان کی عمر آخری زمانے میں عسکری کا رحجان بیش از بیش تصوف اسلامی، اور ادب کی تہذیبی اور اسرای (Mystic) تعبیروں کی طرف ہو گیا عسکری نے اسلامی روایات پر بھی لکھا اور ا ن کے ہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کو متوازن انداز میں بیان کیا ہے اس طر ح وہ اسلامی روایت کو محض ایک سطح پر قبول کرنے اور دوسری سطح پر رد کرنے کے حامی نہیں ۔ مجموعی طور پر ان کے تنقیدی خیالات کو دیکھا جائے تو ادیب کو سماجی ذمہ داری کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو کسی سیاسی جماعت کا غلام نہیں بننا چاہیے۔ وہ پاکستانی ادب اوراسلامی ادب کا نعرہ لگانے والے پہلے ادیب تھے ان کے بارے میں جیلانی کامرا ن لکھتے ہیں کہ،”اسلامی تہذیبی اور علمی سفر نامے میں ایسے بیٹوں کی کمی نہیں جو اپنی زندگیوں سے اسلام کے عظمتوں کے چراغ روشن کرتے ہیں ہمارے زمانے میں اسلام کا ایسا فرزند محمد حسن عسکری تھا۔عسکری نے مغربی ادب سے استفادہ بھی کیا اور ان کے بتوں کو توڑا بھی۔ انھوں نے اردو ادب میں روایت اور تسلسل اور تہذیبی وحدت کا تصور پیش کیا۔ عسکری نے مغربی ادب سے استفادہ بھی کیا اور ان کے بتوں کو توڑا بھی۔ انھوں نے اردو ادب میں روایت اور تسلسل اور تہذیبی وحدت کا تصور پیش کیا۔ان کی دبی اورفکری تشریحات اورتفحیمات پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک "ہر دور کے سنجیدہ ادب کا مطالعہ لازمی طور پر مصنف کا مطالعہ، عصر کا مطالعہ اور آفاقی اقدار کا مطالعہ بن جاتا ہے”وہ ترقی پسند ادب اور جمالیاتی اقدار کو ایک دوسرے کا حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مددگار ومعاون مانتے ہیں کہ فکروفن کے امتزاج سے ہی اعلی ادب وجود میں آتا ہے۔ ان کے نزدیک "ہر دور کے سنجیدہ ادب کا مطالعہ لازمی طور پر مصنف کا مطالعہ، عصر کا مطالعہ اور آفاقی اقدار کا مطالعہ بن جاتا ہے”وہ ترقی پسند ادب اور جمالیاتی اقدار کو ایک دوسرے کا حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مددگار ومعاون مانتے ہیں کہ فکروفن کے امتزاج سے ہی اعلی ادب وجود میں آتا ہے۔ بقول پروفیسراحتشام حسین” عسکری کی جاندار خوبصورت اور ادبی نثر نقد ادب کے متعلق بہت سے سوالات اُٹھاتی ہے۔ سوالوں کا جواب نہیں دیتی ، اپنا مبہم سا ذائقہ پیداکرتی ہے۔ توانائی نہیں بخشتی شک میں مقید کرتی ہے یقین کے دروازے نہیں کھولتی"۔
حسن عسکری روایت کے بارے میں مغربی ادیبوں اور مفکرین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں روایت کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں عسکری پر روایت کے سلسلے میں ایلیٹ کے اثرات نمایاں ہیں ان کے نزدیک روایت کامیاب تجربوں کی حامل ہے۔ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ نشوونما پاتی ہے اور ایسی روایت کے برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں جس سے آج کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا ہو۔ بلکہ شعوری کاوش کے تحت ایسی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے جو آج کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور زندگی ، ادب اور حسن پیدا کر سکتی ہو۔روایت کے سلسلے میں حسن عسکری صاحب یوں گویا ہوتے ہیں کہ،
” روایت کیا ہے ؟ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرتی روایت ، ادبی روایت، دینی روایت یہ الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک بڑی واحد روایت ہے وہ سب کی بنیاد ہے اور باقی چھوٹی اُسی کا حصہ ہیں۔
۔ یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے محمد حسن عسکری کے کچھ فکری اور ادبی خیالات کو بیاں کیا جاتا ہے:
۱۔ ادب پر زندگی کی مختلف تحریکوں کا اثر کو کسی طور پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
۲۔ ادب اخبار نہیں ہے کہ ہر شام کو بیکار ہوجائے۔ بقول ایذرا پاونڈ ادب وہ خبر ہے جو ہمیشہ خبر رہتی ہے۔
۳۔ادب میں ہر شعبہ مین قحط سالی کا عالم رہا ہے اور جو کچھ بھی اس کی تعریف کے لیے جائزہ نگار کو " دلچسپ" سے زیادہ وزنی لفظ نہیں ملتا۔ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ہم چودہ اگست کو یہ کہا کریں گے کا اس سال افسانے اور نظمیں بالکل نہیں لکھی گئیں لیکن بارہ دواخانوں نے اپنی فہرستیں اردو میں شائع کیں۔ اس لیے کہ " بحیثت مجموعی" اردو نے بڑی ترقی کی۔ ہمارے یہاں لوگ تنقید نہیں لکھتے۔ مبارک باد دیتے ہیں۔ حالانکہ شاید وقت تعزیت کا آپنچا ہے۔ ہمارے لکھنے والوں نے دوسروں کو بہت چونکا دیا لیکن ایسی بات سننا نہیں چاہتے۔ جس سے خود چونکتا پڑے۔
۴۔ سرمایہ داری کی کی موت کا اعلان ہوچکا ، خدا کی موت کا اعلان ہوچکا ہے، پتہ نہیں زردو کی موت کا اعلان سے لوگ کیوں ہچکچارہے ہیں۔ کیونکہ اب تو معاملہ ، جمود اور انحطاط سے بہت آگے پہنچ چکا ہے۔ اگر صاف صاف اردو ادب کی موت کا اقرار کرلیا جائے تو کم از کم اتنا فائدہ ہوسکتا ہے کہ سال دو سال چپ رہنے کے بعد ہمارے ادیبو مین دوبارہ جان آجائے یا اسی دوران میں کچھ نئے ادیب پیدا ہو جائیں۔
۵۔ ہم ابدی زندگی پر اعتقاد نہیں رکھتے اس لیے ہم انسانی زندگی میں ایسی کوئی عقلی معنویت اور اہمیت نہیں دیکھ سکتے۔ یو عسیائی یا مارکس کے پیرو دیکھتے ہیں۔ مارکسیت مطلق اصولوں سے انکار کرتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اخلاقیات کے ایک نظام کا تصور کرتی ہے۔ جس کی توجہہ وہ عقل نہیں کرسکتی اور اسے جذباتی ماننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ ہم تاریخ کے عقلی تجزئے پر جذباتی تجزئے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ھم ان اصولوں کو ڈھونڈ نکالنا چاہتے ہیں۔ جو انسانی خیال اور عقیدے کی تہہ میں کار فرما ہیں۔ اور قصص الاضام میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان اصولوں کو اپنے عمل اور آرٹ کا رہنما بنانا چاہتے ہیں۔
۶۔ لکھنے والوں کے سامنے مسئلہ ہمیشہ وہی ایک ہوتا ہے، کیے لکھا جائے؟ ظاہر میں تو یہ بڑی حقیر سی بات معلوم ہوتی ہے۔ کہ کیسے لکحا جائے؟ لیکن غور کیجیے تویہ اخلاقی مسئلہ ہے۔ لکھنے والوں کی لفظوں سے کشمکش ایک اخلاقی لڑائی ہے۔ لفظوں کا استعمال اپنے اخلاقی مزاج کا مظہر ہے۔ یہ حقیقت زمانے کے ساتھ نہیں بدلتی ۔ ہر لکھنے والوں کو اس سے الجھنا پڑتا ہے۔
۷۔ فرد بنے کی کوشش اور اشترکی نطام سے تعاون ایک دوسرے سے منافی نہیں ہیں۔ میرے لیے تو اجتماعیت کی صرف وہ شکل قابل قبول ہوسکتی ہے جہان سیاسی جسم کے ہر عضو کو اپنی انفرادیت برقرار رکھنے اور اسے ترقی دینے کی کامل آزادی ہو۔
۸۔ایک چیز نئے ادب کے سب مخالفیں میں عام ہے۔ اعصاب زندگی جو غالبا اپنی ادبی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ نئےادب اور ترقی پسندی کو مترادف سمجھا تو ایک بڑی عام غلطی ہے۔ یہ دیکھنے کا تو کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ ہر شاعری کی انفرادی خصوصیتیں بھی ہوسکتی ہیں۔
۹۔ روایت کا مفہوم اتنا تنگ نہیں کی کوئی باہر کی چیز اس میں شامل ہی نہیں ہوسکتے۔ ادب کی تاریخ اس مفہوم کی تردید کرتی ہے۔
۱۰۔ پاکستانی ادیبوں کے ادبی شعور میں اھم تبدیلیان واقع ہورہی ہیں۔۔ انھیں یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہمارے پرانے معتقدات ناکافی ہے۔ { ماخذ: " محمد حسن عسکری، ایک مطالعہ از آفتاب احمد}
محمد حسن عسکری کی تصنیفات ، تراجم اورمؤلفات :
(1) میری بہتری نظم (اس کتاب میں نظم گو شعرا کے کلام کا انتخاب مع مقدمہ شامل ہے) ترتیب کتابستان، الہٰ آباد 1942
(2) میرا بہترین افسانہ (اس کتاب میں اپنے مقدمے کے ساتھ افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے شامل ہیں) ترتیب ساقی بک ڈپو، دہلی 1943
(3) ریاست اور انقلاب (لینن کی کتاب کا ترجمہ) ہند کتاب گھر، دہلی 1943
(4) میں ادیب کیسے بنا؟ (گورکی کی خود نوشت کے بعض حصوں کا ترجمہ)، الجدید، لاہور 1943
(5) جزیرے (افسانے)، ساقی بک ڈپو، دہلی 1943
(6) قیامت، ہم رکاب آئے نہ آئی (افسانے)، ساقی بک ڈپو، دہلی، 1947
(7) آخری سلام (کرسٹوفر آشروڈ) (Christopher Isherwood) کی کتاب Goodby to Berlin کا ترجمہ، الجدید، لاہور، 1948
(8) مادام بواری (گستو فلائبیر) (Gustav Flaubert) کے فرانسیسی ناول کا براہ راست ترجمہ، مکتبہ جدید، لاہور، 1950
(9) انسان اور آدمی (تنقیدی مضامین)، مکتبہ جدید، لاہور، 1953
(10) انتخابِ طلسم ہوش رُبا، مکتبہ جدید، لاہور، 1953
(11) انتخاب میر، ماہنامہ "ساقی"، دہلی (میر نمبر) 1958
(12) میں کیوں شرماؤں (شیلا کزنس) (Sheila Cousins) کے ناول (To Beg I am Ashamed)، کتابستان، الہٰ آباد، 1959
(13) ستارہ یا بادبان (تنقیدی مضامین)، مکتبہ سات رنگ، کراچی، 1963
(14) (Distribution of Wealth in Islam مفتی محمد شفیع کی اردو کتاب کا انگریزی ترجمہ بہ اشتراک پروفیسر کرار حسین) مکتبہ دارالعلوم کراچی، 1963
(15) موبی ڈک (ہرمن میلول Hermann Melville) کے مشہور ناول Moby Dick کا ترجمہ )، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1967
(16) (Answer to Modernism مولانا اشرف علی تھانوی کی اردو کتاب کا انگریزی ترجمہ بہ اشتراک پروفیسر کرار حسین)، مکتبہ دارالعلوم، کراچی، 1976
(17) جدیدیت، یا مغربی گمراہیوں کا تاریخی خاکہ، آب حیات، راولپنڈی، 1979
(18) سرخ و سیاہ (استے دال ) (Stendhal کے فرانسیسی ناول Le Rouge et le Noir کا براہِ راست ترجمہ)، مکتبہ جدید، لاہور، 1953
(19) وقت کی راگنی (تنقیدی مضامین)، مکتبہ محراب، لاہور، 1979
(20) جھلکیاں (دو جلدیں) (ساقی میں مطبوعہ ادبی کالم کا انتخاب)، مکتبہ بکس، لاہور، 1995
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔