محمد بن قاسم بن محمد بن حکم بن ابی عقیل(جمھرتہ انساب العرب، ص 267) عرب کے مشہور قبیلے بنو ثقیف کے سربراوردہ خاندان،آل ابی عقیل کا نامور قائد اور فاتح تھا ۔محمد کے والد قاسم اور اموی گورنر حجاج بن یوسف دونوں سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حجاج جب 76 ھج کے لگ بھگ عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی قاسم کو بصرے کا والی بنا دیا ۔ خود محمد بن قاسم کو نو جوانی میں فارس کی گورنری دی،محمد نے اپنی کم عمری کے باوجود نہ صرف یہ کہ فارس کے باغی قبائل کو اطاعت پر مجبور کیا بلکہ شہر شیراز کی بنیاد ڈالی اور اسے اپنا پائیہ تخت بنایا ۔وہیں سے اسے حجاج نے سندھ کی طرف بھیجا ۔
711ء/ 92ھج میں محمد نے سندھ پر حملہ کیا، دو سے ڈھائی سال کے عرصے میں پورا سندھ اور ملتان فتح کر لیا، پھر اس کا ارادہ تھا کہ شمال کی طرف چین تک جائے اور وہاں قتیبہ بن مسلم باہلی سے مل جائے جو اس وقت ترکستان اور ماورالنہر میں فتوحات حاصل کر رہا تھا ۔لیکن اسی دوران پہلے حجاج کی اس کے بعد ولید بن عبدالملک کی وفات ہوئی ۔سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا اس نے محمد کو معزول کر دیا ۔
محمد بن قاسم کی معزولی اور گرفتاری کا سبب یہ تھا جس وقت عبد الملک بن مروان کی خلافت کی بیعت ہوئی تھی اسی وقت، اس کے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کی بیعت بھی ہوئ تھی ۔جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ عبدالملک کی خلافت کے بعد ولید خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد سلیمان ۔
ولید نے اپنے دور خلافت میں چاہا کہ اپنے بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کر دے ۔حجاج نے ولید کے اس منصوبے میں اس کی حمایت کی ۔حجاج کی حمایت بہت معنی رکھتی تھی کیونکہ وہ عراق اور مشرقی اضلاع کا گورنر تھا اور جتنا رقبہ اس کے زیر انتظام تھا، وہ کم و بیش نصف مملکت تھی ۔ گویا اس حمائت کا مطلب یہ تھا کہ حجاج اپنے زیر انتظام علاقوں میں عبدالعزیز کی ولی عہدی کی بیعت کی حمائت کرے گا ۔یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کی اطلاع دیگر عہدیداروں کو بھی ہو گئ تھی کیونکہ حجاج نے اس ضمن میں اپنے بعض والیوں کو بھی سلیمان کی بیعت فسخ کر کے عبد العزیز کی بیعت کر لینے کے لئے لکھا تھا ۔
سلیمان بن عبدالملک کو اس وعدہ خلافی کی خبر ہوئی تو وہ دمشق سے رصافہ چلا گیا جہاں عمر بن عبدالعزیز موجود تھے ۔ وہ چاہتا تھا کہ عمر بن عبدالعزیز کے ذریعے ولید پر دباو ڈلوائے کہ وہ ایسی وعدہ خلافی نہ کرے، لیکن اس سے قبل کہ یہ منصوبہ آگے بڑھتا حجاج بن یوسف کا انتقال ہو گیا ۔
حجاج کا انتقال رمضان 95ھج میں ہوا اور اس کے سات آٹھ ماہ بعد ولید کا بھی انتقال ہو گیا ۔حسب بیعت سابقہ سلیمان، خلیفہ بن گیا ۔اس نے ایسے تمام لوگوں سے انتقام کی ٹھانی جو اس کی برطرفی کے منصوبے میں ولید کے ہمخیال تھے۔حجاج اگر زندہ ہوتا تو سلیمان اسے تڑپا تڑپا کر مارتا لیکن حجاج کا انتقال ہو چکا تھا لہذا اس کے رشتے داروں، حکام اور قریبی لوگوں ہی کو دھر لیا ۔سلیمان نے حجاج کے ایک نوجوان سپہ سالار قتیبہ کو ماورالنہر کے محاذ سے واپس بلایا ۔قتیبہ کو موت سامنے نظر آئ تو اس نے سلیمان کے خلاف بغاوت کر دی اور دارلحکومت نہیں گیا ۔
اسی طرح اس نے محمد بن قاسم کو معزول کر کے حاضر ہونے کا حکم دیا، محمد کو نئی حکومت کے اس غیر دانشمندانہ روش پر افسوس ہوا، اس نے گرفتاری کے وقت عرجی کا یہ شعر پڑھا:
اضاعونی و ای فتی اضاعوا
لیوم کریھتہ و سداد ثغر
یعنی مجھے یہ لوگ کھو بیٹھے ،اور کیسے بڑے جوانمرد کو کھو بیٹھے۔جو جنگ کے دن اور سرحد کی حفاظت کے کام آتا تھا
محمد بن قاسم جب گرفتار ہو کر واسط تک پہنچا، جہاں کا گورنر صالح بن عبد الرحمن تھا تو اس نے سلیمان سے درخواست کی کہ محمد بن قاسم کو اس کے سپرد کر دیا جائے کیونکہ حجاج نے صالح کے بھائی کو گرفتار کیا تھا جو قید میں مر گیا تھا ۔سلیمان نے اسے محمد بن قاسم پر اختیار دے دیا ۔صالح نے محمد کو واسط کے قید خانے میں ڈال دیا اور شدید تشدد کے نتیجے میں ایک ڈیڑھ سال میں، قید ہی کے عالم میں محمد جان بحق ہو گیا ۔
واسط کے گورنر صالح بن عبد الرحمن کے بھائی کو حجاج نے اس لئے گرفتار کیا تھا کیونکہ وہ خارجی تھا ،
محمد بن قاسم ایک شاندار قائد، کامیاب سپہ سالار اور اعلی درجے کا منتظم حکمران تھا، ذاتی طور پر بھی پسندیدہ صفات کا حامل تھا ۔جب وہ گرفتار کر کے لے جایا گیا تو لوگوں نے اس کا غم منایا اور اس کے لیے روئے ۔ کیرج کے لوگوں نے اس کی مورتیاں بنائیں اور اسے یاد رکھا ۔(بلاذری، فتوح البلدان، ص440)
اگر سلیمان نے "حلم معاویہ" کا ثبوت دیا ہوتا تو ایسے شاندار قائدین کے قتل اور معزولی سے بعض رہتا ۔
فاتح ترکستان قتیبہ بن مسلم باہلی ۔۔۔فاتح سندھ محمد بن قاسم ۔۔۔اور فاتح اسپین موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد کا سلیمان بن عبدالملک نے جو حشر کیا، یہ قائدین کے ساتھ ہی نہیں امت مسلمہ کے ساتھ ظلم تھا ۔ ان قائدین نے یہ فتوحات حجاج کے لئے نہیں اسلامی حکومت کے لئے کی تھیں جن کا انہیں ریوارڈ ملنا چاہیے تھا ۔
المرزبانی کہتے ہیں "کان من رجال الدھر "
یعنی محمد بن قاسم اکابر زمانہ میں سے تھا ۔
“