آٹھویں صدی عیسویں (۳۹ ہجری) میں محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ اس بارے میں ہمارے پاس سب سے اہم ماخذ چچ نامہ ہے۔ اگرچہ اس میں تفصیلات بہت الجھی ہوئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے یہ کتاب ڈیڑھ سو سال بعد نامعلوم مصنف نے لکھی تھی اور حامد علی کوفی نے تیرویں صدی عیسوی میں اس کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔
سندھ پر پہلی صدی ہجری میں عربوں نے کئی حملے کیے تھے مگر وہ ناکام رہے۔ محمد بن قاسم اس وقت شیراز کا گورنر تھا۔ وہاں اسے حجاج کا حکم پہنچا کہ سندھ پر حملے کی تیاری کرو۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملے کی تیاری شروع کیں اور شیراز میں اسے سپاہ کا انتظار تھا۔ حجاج نے سندھ پر حملے کے لیے چھ ہزار چیدہ چیدہ بہادرں کا انتخاب کیا اور اس حملے کی خاص طور پر تیاریاں شروع کیں۔ اس نے چھ ہزار تیز رفتار سانڈیاں اور ضرورت کی ہر چیز کی ہر چیز مہیا کی۔ اس نے لشکر کی خوراک کا خاص بندوست کیا۔ عرب جو سرکہ شوق سے کھاتے تھے۔ ان کے لیے سرکہ کو روئی میں بھگو کر اسے خشک کر کے اس روئی کے گھٹے بندھواکر ساتھ روانہ کیے کہ ضرورت کے وقت روئی کو پانی میں بھگا کر اس سرکا استعمال کیا جائے۔ اخراجات کے لیے تیس ہزار اشرفیاں اور ضرورت کی ہر چیز ساتھ روانہ کی۔
اس کے علاوہ فوجی ساز و سامان جس میں کئی منجیقیں شامل تھیں پانی کے جہازوں کے ذریعے دیبل روانہ کیا۔ ان میں ایک منجیق کا نام عروس تھا جس کو پانچ سو آدمی حرکت میں لاتے تھے۔ جب کہ سپاہ جہم بن زحر کی سردگی میں شیراز پہنچا اور محمد بن قاسم کی سردگی میں یہ لشکر مکران پہنچا۔
مکران میں وہاں کے عرب گورنر محمد بن ہارون نے محمد بن قاسم کا استقبال کیا۔ مکران میں محمد بن قاسم نے ایک ماہ تک قیام کیا۔ محمد بن ہارون بیمار تھے مگر ساتھ روانہ ہوئے اور محمد بن قاسم نے سب سے پہلے قنزپور (پنج گور) پر حملہ کیا اور کئی ماہ کے محاصرے کے بعد اسے فتح کرلیا۔ یہ اس مہم کا پہلا مقام تھا جسے فتح کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ارمن بیلہ (بیلہ) پر حملہ کیا اور اسے بھی فتح کرلیا۔ یہاں اسلامی فوج نے آرام کیا اس دوران محمد بن ہارون نے ارمن بیلہ میں انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔ ان کا مزار پیر آری کے نام سے مشہور ہے۔
ارمن بیلہ سے محمد بن قاسم دیبل ۲۹ ہجری کو جمعہ کے دن پہنچے اور جمع کی نماز ادا کی۔ اتفاق سے اسی دن عربوں کے ساز و سامان کے جہاز پہنچے۔ دیبل ایک بڑا شہر تھا اور اس کے وسط میں ایک عالی انشان دیبل (مندر) تھا۔ اس کا گنبد بہت بڑا تھا اور اس کی چوٹی پر ایک لمبے بانس میں ریشمی جھنڈا لہراتا تھا۔ اسی دیبل کی نسبت سے عربوں نے اس شہر کو دیبل کے نام سے پکارا ہے۔ اس طرح اس شہر کا کیا نام تھا؟ تاریخ کے صفحوں سے محو ہوگیا۔
عربوں نے شہر کا محاصرہ کرکے مورچے قائم کرلیے۔ لڑائی ہوتی رہی مگر شہر فتح نہ ہوا۔ ایک دن ایک برہمن شہر پناہ سے نکل کر اسلامی لشکر میں آیا اور محمد بن قاسم سے جان کی امان طلب کی اور کہا یہ شہر اس وقت فتح ہوگا جب تک اس مندر کو تباہ نہیں کیا جائے۔ محمد بن قاسم نے جعونہ کو بلایا جو کہ جو کہ منجیق کو چلانے کا ماہر اور زبردست نشانے باز تھا۔ اس سے کہا اس جھنڈے کو گرادو اور مندر کو تباہ کردو تو میں دس ہزار درہم دوں گا۔ جعونہ نے حامی بھری اور عروسک منجیق کو نصب کرکے پتھروں کی بارش شروع کی۔ جس سے جھنڈا ٹوٹ کر گیا اور مندر کا شیکھر تباہ ہوگیا۔
مندر کا جھنڈا کرنے اور اس کا شیکھر (گنبد) تباہ ہونے شہر میں ہل چل مچ گئی اور مقامی فوجوں نے شہر سے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ مگر جب مسلمانوں نے جوابی حملہ کیا تو وہ دوبارہ شہر میں گھسنے لگیں۔ مسلمانوں نے شہر کی فصیل پر چڑھنا شروع کردیا۔ جب اہل دیبل نے دیکھا کہ مسلمان فصیل کے راستہ داخل ہو رہے ہین تو انہوں نے شہر کے دروازے کھول دیے اور امن کے خواباں ہوئے۔ اس طرح یہ شہر فتح ہوگیا اور اس کا حاکم فرار ہوکر نیرون کوٹ پہنچ گیا۔
دیبل کی فتح کی اطلاع داہر تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے جے سنگھ جو نیرون کوٹ کا حاکم تھا کو حکم دیا کہ نیرون کوٹ کی حکومت شمنی کے سپرد کردے اور خود برہمن آباد چلا جائے اور عربوں سے مقابلے کی تیاریاں کرے۔
محمد بن قاسیم نے دیبل کے انتظامات سے فارغ ہوکر نیرون کوٹ روانہ ہوا۔ اس نے منجیقیں اور دوسرا فوجی سامان ساکرہ نالے (جو دریائے سندھ کی شاخ تھی) کے راستے کشتیوں میں روانہ کیا اور خود سیسم کے راستہ نیرون کوٹ روانہ ہوا۔
نیرون کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حیدرآباد کے مقام پر واقع تھا اور نیرون کوٹ سے موج (سن ندی) کا فاصلہ ۰۳ فرسنگ بتایا گیا ہے یعنی نوے میل۔ کیوں کہ ایک فرسنگ تین کا ہوتا تھا۔ جب کہ ہم دیبل کو بھمبور کو مانیں (جیسا کہ آثار قدیمہ کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوتا ہے) حیدر آباد کسی طرح بھی ۵۲ فرسنگ یعنی ۵۷ میل نہیں بنتا ہے۔ اس طرح سن ندی حیدرآباد سے پیتالیس میل ہے۔ اس طرح اس طرح ہم نیرون کوٹ کو حیدرآباد کے مقام پر تسلیم نہیں کرسکتے ہیں اور میں اس پر پہلے ہی ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ یہ سونڈا کے مقام پر تھا۔ کیوں کہ سونڈا کو نیرون کوٹ تسلیم کرنے کی صورت میں یہ بیانات درست ثابت ہوجاتے ہیں۔
عربوں کے لشکر کی آمد پر اہل شہر نے دروازے بند کرلیے۔ محمد بن قاسم نے نیرون کوٹ کا محاصر کر لیا۔ اس وقت وہاں کا حاکم اس وقت راجہ داہر ملنے گیا ہوا تھا۔ چند روز کے بعد وہ حاکم واپس آیا اور اس نے شہر کے دروازے کھلوا کر محمد بن قاسم کو بتایا کہ وہ حجاج سے معاہد کرچکا ہے۔ غرض شہر بغیر کسی لڑائی کے فتح ہوگیا۔
نیرون کوٹ کے انتظامات سے فارغ ہوکر محمد بن قاسم نے نیرون کوٹ کے حاکم ساتھ لے کر سیوستان روانہ ہوگئے اور وہ موج پہنچے جو نیرون کوٹ سے نوے فرسنگ تھا۔ جہاں بدھ مذہب کے لوگ رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ سوہن کا حاکم بجے رائے راجہ داہر کا بھتیجہ تھا عربوں سے صلح کرلے مگر بجے رائے نے انکار کردیا۔
محمد بن قاسم سہوان پہنچے شہر کے لوگوں کو خبر ہوئی تو شہر کے دروازے بند کرلیے۔ محمد بن قاسم کو جاسوسوں نے بتایا اہل شہر بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ لڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ مگر فوجی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے شہر کا محاصرہ کرکے منجیقوں سے شہر پر پتھر برسانے شروع کردیے۔ جس اہل شہر گھبرا گئے اور انہون نے بجے رائے سے کہا کہ صلح کرلے۔ مگر بجے رائے نہیں مانا۔ اس پر اہل شہر نے محمد بن قاسم کو پیغام ہم لوگ امن پسند ہیں اور ہمارا لڑائی سے کوی تعلق نہیں ہے اور بجے رائے صلح کے لیے راضی نہیں ہو رہا ہے اور اس کے پاس اتنی فوج نہیں ہے کہ وہ آپ کا مقابلہ کرسکے۔ محمد بن قاسم کو پتہ چلا تو اس نے سنگ بازی تیز کردی۔ چند روز میں سوہن کے جنگجو ہمت ہار بیٹھے اور ایک رات وہاں سے فرار ہوگئے اور بدھیہ پہنچ گئے۔ صبح اہل شہر نے قلعے کے دروازے کھول دیئے اور مسلمان شہر پر قابض ہوگئے۔ سیوستان ایک فوجی قلعہ تھا جس کے اطراف میں پانی تھا۔ لیکن عربوں نے منچھر جھیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔
سیستان کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ مہران کے مغرب میں ایک قلعہ بند اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر آباد شہر تھا۔ جس وقت عرب فوج یہاں آئی تھی تو برسات کو موسم تھا۔ دریائے سندھ کا سیلابی پانی قلعہ کی شمالی دیوار کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریائے سندھ یہاں سے کافی فاصلے پر بہتا تھا تو سیلاب کا یہ پانی منچھر جھیل میں اڑل ندی کے راستہ آرہا ہوگا اور منچھر جھیل کے آبی ذخیرے کو مغربی نارا جیسا کوئی دریا اور پہاڑی نالے اسے پانی سے بھرتے ہوں گے۔ چنانچہ منچھر جھیل کے زائد پانی کو اڑل ندی کے راستے بہہ کر جنوب مشرق میں کچھ فاصلے پر دریا میں جاتا تھا۔
لیکن حیرت کی بات عربوں نے منچھر جھیل کا ذکر نہیں ہے۔ شاید ان توجہ دوسرے امور پر رہی ہو اور وہ اس پر توجہ دے نہیں سکے اور منچھر جھیل ذرا کر ہٹ کر واقع ہے۔ سیستان کا ہندو گورنر شہر چھوڑ کر سیسم جو صوبہ بدھیہ کا دارلحکومت تھا پناہ لی تھی جو کنبھ ندی کے کنارے آباد تھا۔ مگر ہیگ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مقام منچھر جھیل کے کنارے آباد تھے۔ لیکن ہیگ کے اس نظریہ پر اعتراض کیے جاسکتے ہیں۔ پہلا سیستان کا صوبہ اس ذرخیز مقام پر آباد ہوگا جو شہر کے شمال میں واقع تھا اور دوسرے صوبہ کا صدر مقام اس حوالے سے سیوہن سے دس بارہ میل دور واقع ہوگا۔ ایسی صورت میں سیستان کے گورنر کا صرف دس بارہ میں جانا بے معنی لگتا ہے۔ ممکن ہے کنبھ بھی کوئی اور جھیل ہو مگر یہ یقینا منچھر نہیں ہوگی۔ غالباً یہ کوئی چھوٹا دریا تھا جو غربی نارا نہیں تو اس سے ملتا جلتا تھا۔ ان چھوٹے دریاؤں اور ندیوں کے کنارے بڑے شہروں کی آبادکاری زیادہ محفوظ اور موزوں تھے۔ لہذا سیسم کا مقام شمال میں کم از اتنے فاصلے پر ضرور ہوگا جتنے فاصلے پر ککڑ (لاڑکانہ)۔
اس کے بعد محمد بن قاسم نے سیسم کو دو روز کی خونریز جنگ کے بعد جس میں رائے بجھرائے حاکم سیوستان اور اس کے سردار مار گئے فتح کرلیا اور بہت سے ہندو سردار اور عوام وہاں سے شمال کی طرف ہجرت کرگئے اور بہت سے بدھیا کا صوبہ چھوڑ کر ایک قلعہ بند شہر بھٹ اور Bhatlor میں پناہ لی۔ یہ شہر سلوج Saluj اور قندابیل Qandabil کے درمیان واقع تھا۔ ان مقاموں میں قندابیل بہت مشہور و معروف شہر تھا۔ جسے عربوں نے اپنے نقشوں میں دیکھایا ہے۔ بقول ابن حوقل کے نودھیا (بودھیا) ایک میدانی علاقہ ہے جو توران اور مکران کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ایک طرف توران اور مکران اور دوسری طرف ملتان اور منصورہ کا شہر تھے اور یہ شہر ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ نودھیا کا صوبہ موجودہ کچھی کے علاقہ سے مماثل معلوم ہوتا ہے اور قندابیل موجودہ شہر گنڈاوا کا قدیم نام ہے۔ یہاں سے ملتان اور منصورہ علی الترتیب دس اور آٹھ دن کی مسافت پر واقع تھے۔
سیسم کی فتح کے بعد دریائے مہران کے مغربی کنارے پر اسلامی فوج کا قبضہ ہوچکا تھا۔ یہاں اسے مزید قدمی روک کر واپس نیرون کوٹ جانے کا حکم دیا کہ دریائے سندھ غبور کرکے راجہ داہر سے مقابلہ کرنے کی ہدایت دی۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے اس علاقہ میں مزید پیش قدمی نہیں کی بلکہ سیسم سے نیرون کوٹ لوٹ گیا اور اس نے حجاج کو اطلاع دی کہ وہ دریائے مہران کے کنارے واقع شہر اگھرور Aghror کے قلعہ بند مقام کے سامنے تک بودھیا صوبہ کا تمام علاقہ فتح کرچکا ہے۔
نیرون کوٹ کی طرح راوڑ کے محل وقوع کے بارے میں بہت اختلاف رائے ہے۔ مثلاً ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اسے ساحلی علاقہ میں بتاتے ہیں۔ جب کہ شمس العماء عمر داؤد پوٹا اسے موجودہ حیدرآباد کے مقام پر بتاتے ہیں اور میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں دلائل دے چکا ہوں لحاظہ اس کے لیے اس مضمون کو دیکھنا چاہیے۔
چچ نامہ کی روایت ہے کہ محمد بن قاسم نے راوڑ کو فتح کرنے سے پہلے جھم اور کرہل کے قلعے فتح کیے۔ مگر میرا خیال ہے کہ ان قلعوں کو محمد بن قاسم نے نیرون کوٹ یا سیستان جانے پہلے انہیں فتح کرچکا ہوگا۔ کیوں کہ یہ قلعے جھم پیر اور ٹھٹہ کے نشیبی علاقوں میں واقع تھے۔ اس طرح یہ قلعہ دیبل، نیرون کوٹ کے استحکام اور سیستان کے مہم میں رکاوٹ پیدا کرسکتے تھے۔ لہذا انہیں دیبل کی فتح کے بعد فتح کرلیا ہوگا اور ان قلعوں کو جو دریا کی مغری سمت پر تھے چھوڑ دینا جنگی حکمت عملی کے خلاف تھا۔ جیسا کہ محمد بن قاسم جب رواڑ کی مہم میں مصروف تھا تو سیستان میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی اور اس بغاوت کو کچلنے کے لیے عربوں کا ایک دستہ روانہ کیا گیا۔ جس کے انتظار میں اراوڑ کی مہم اس دستہ کی واپسی تک موخر کردی گئی تھی۔
راوڑ جو کہ دریا کے مشرقی کنارے پر واقع تھا اور اس کے دفاع کے لیے دریا کے مغربی کنارے پر ایک قلعہ اشبہار اور مشرقی کنارے پر بیٹ واقع تھا۔ محمد بن قاسم سیستان پر حملہ آور ہوتے وقت اشبہار سے ہٹ کر کر نکل گیا تھا۔ اب چوں کہ راوڑ پر حملہ آور ہونا تھا اس لیے ان رکاوٹوں کو ہٹانا ضروری تھا۔ یہ قلعہ غالباً کچھ فاصلے سے بھولاری اور کوٹری کے درمیانی علاقہ میں واقع تھا اور اسے فتح کرنا نیایت ضروری تھا کہ راوڑ کی طرف پیش قدمی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ رہے۔
محمد بن قاسم نے اشبہار کے قلعہ کا محاصرہ کیا اور تقریباً ایک ہفتے کے محاصرے کے بعد محصورین نے ہتھیار ڈال دیئے۔ انہیں امان دی گئی۔ اب محمد بن قاسم اروڑ کے بالمقابل دریا کے مغربی کنارے پر تھا۔ جہاں سندھ کا راجہ داہر مرکزی فوج کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ یہ شہر بہمن آباد سے جنوب میں کافی فاصلے پر واقع تھا۔ کیوں کہ ان دونوں کے درمیان دو مظبوط قلعے بہرور اور ڈھالیا نام کے دو مظبوط قلعے تھے۔ محمد بن قاسم دریا کو غبور کرنے تجویزوں پر غور کر رہا تھا۔ راجہ داہر کے دستے کئی دریا پار کرکے آئے اور اسلامی لشکر پر حملہ آور ہوئے مگر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ محمد بن قاسم دریا کے مغربی کنارے پر اروڑ کے سامنے دریا خیمہ زن ہوگیا تھا۔
داہر کو خبر ملی تو وہ ہاتھی پر سوار ہوکر اسلامی لشکر کے سامنے جا پہنچا۔ دریا دونوں لشکروں کے درمیان تھا۔ وہاں ایک شامی جو کنارے پانی میں اپنے گھوڑے سمیت اتر آیا تھا دیکھ کر راجہ داہر نے ایک تیر تاک کر مارا جس سے شامی کی شہادت ہوگئی۔
اس زمانے میں دریا ایک بڑا ڈیلتا بناتا ہوا سمندر میں گرتا تھا اور یقینا واد واھ دریائے سندھ کی مشرقی شاخ ہوگی۔ بیان کیا جاتا ہے یہ راوڑ اور جے پوریا جے ور نام کے درمیان سے گزرتی تھی۔ وہ لڑائی جس نے سندھ کے مستقل کا فیصلہ کردیا اور راجہ داہر کی جان لی تھی دریائے سندھ اور داد واھ کے درمیانی علاقے میں لڑی گئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے راوڑ کا قلعہ ان دونوں کے درمیان تھا۔
راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سنگھ کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے قلعہ بیٹ روانہ کیا تاکہ وہ دریا غبور نہ کرسکیں۔ محمد بن قاسم داہر کی فوج کے مقابلے پر پہنچ گئے۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل تقریباً پچاس دن پڑی رہیں۔ ادھر حجاج نے وہاں کے محل وقوع اور دریا کے تنگ ہونے کے پیش نظر محمد بن قاسم کو رائے دی کہ اس دریا بیٹ کے مقام پر سے غبور کرنا چاہیے اور بیٹ دوآبہ میں ہے اس لیے اسلامی لشکر سہولت سے پیش قدمی کرسکتا ہے۔
محمد بن قاسم نے دریا کو غبور کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے نے ایک دستہ کو حکم دیا کہ وہ راوڑ کے سامنے جائے کہ گوپی اپنے باپ کی مدد کو نہ آسکے اور اس کے بعد دوسرے اہم احکامات دیے۔ پھر محمد بن قاسم نے کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرلیا اور دریا کے مشرقی کنارے جیور نام کے گاؤں پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد اس نے قلعہ بیٹ کی طرف پیش قدمی کی جہاں اس کی جنگ بیٹ کے حاکم جائین سے ہوئی اور یہ قلعہ بھی سر ہوگیا۔
راوڑ پہنچنے کے لیے عربوں کو دو دریائی جھیلیں غبور کرنی پڑھیں۔ ان میں ایک داد واھ نام نہر تھی۔ راجہ داہر کو خبر ملی تو وہ بھی اپنا لشکر لے کر پہنچ گیا اور دونوں لشکروں کے درمیان ایک جھیل حائل تھی۔ راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سنگھ کو کچھ فوج کے ساتھ روانہ کیا اور خود بھی مقابلے کی تیاری کرنے لگا۔
بلازری کا کہنا ہے کہ عرب فوج نے جس مقام پر سے دریا کو غبور کیا تھا وہ راسل کی علمداری میں تھا جو قضا Qassaغالباً کچھ کا حکمران اور راجہ داہر کا گورنر تھا۔ مگر یہ بیان سندھ کے جغرافیہ کو دیکھیں درست نہیں معلوم ہوتا۔ یعنی یہ اطلاعات راوی نے بلازی تک درست انداز میں نہیں پہنچائیں۔
جے سنگھ اپنی فوج کے ساتھ اسلامی فوج کے مقابل ہوا۔ طویل خون ریز جنگ کے بعد جے سنگھ کے دستہ کو شکست ہوئی اور اس کے کے بشتر لشکری مارے گئے۔ جے سنگھ کا ہاتھی بھی عربوں کے لشکریوں میں گھر گیا۔ فیل بان نے بڑی مشکل سے عربوں پر حملہ کیا۔ عرب ہاتھی کا مقابلہ نہ کرسکے اور وہ منتشر ہوگئے۔ اس طرح جے سنگھ کے فرار کا راستہ ہموار ہوا اور وہ مشکل سے جان بچا کر اپنے باپ کے پاس پہنچا۔
93 ہجری میں محمد بن قاسم کی راجہ داہر کے ساتھ آخری جنگ شرع ہوئی جس نے سندھ کی قسمت کا فیصلہ کردیا۔ راجہ داہر خود بھی بڑا بہادر جنگجو تھا۔ اس کی کمان اتنی سخت تھی کہ کوئی اور چلا نہیں سکتا تھا اور اس نشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے دریا کے پار ایک شامی کا نشانہ لے کر اسے ہلاک کرچکا تھا۔ اس کی کمند میں میں تیز لوہے کا چکر لگا ہوا تھا اور جب وہ اسے کسی پر پھنک کر کھنچتا تھا تو اس کے ساتھ دشمن کا سر ساتھ آجاتا تھا۔ لہذا اس نے خود ہی اسلامی لشکر کے ساتھ نبرو آزما ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لشکر میں دس ہزار سوار، تیس ہزار پیدل اور سو جنگی ہاتھی تھے۔ جب کے اسلامی لشکر کی کل تعداد بارہ ہزار تھی۔ جس میں دو سو تیر انداز تھے جو تیروں کے ذریعے دشمن پر آگ پھینکتے تھے۔
یہ جنگ روزانہ مسلسل جاری تھی مگر فیصلہ نہیں ہو پارا تھا اور نہ اس طویل لڑائی سے لشکر اسلامی کے عزم میں کوئی فرق پڑا۔ اگرچہ ان کی تعداد مخالف فریق کے مقابلے میں صرف ایک چوتھائی تھی۔ آخر 10 رمضان کو جمعرات کا دن آگیا۔ اس دن سندھ کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔ اس دن راجہ داہر خود میدان جنگ میں بڑی شان و شوکت سے اپنے سفید ہاتھی پر سوار ہوکر آیا۔ اس کا بیٹا جے سنگھ بھی اس کے ساتھ میدان جنگ میں تھا۔ اس کے گرد دس ہزار زرہ پوش سوار سر سے پیر تک لوہے میں غرق تھے۔ ان کے لمبے بال تھے اور بعض کے بندھے ہوئے اور بعض کے لٹکے تھے۔ ہاتھوں میں ان کے تلواریں اور ڈھالیں تھیں۔ راجہ کے ارد گر سوار بڑے بڑے سردار اور امیر تھے جو اسے گھیرے ہوئے تھے۔ داہر ہاتھی کی عماری پر بیٹھا تھا اس کے ساتھ دو خوبصورت کنیزیں تھیں۔ ایک اسے وقفہ وقفہ سے شراب کے جام دے رہی تھی اور دوسری اسے پان کے بیڑے کھلا رہیں تھیں۔
گمسان کی جنگ شروع اور چاروں طرف سے اسلامی فوج پر حملے شروع ہوگئے۔ حملہ اتنا سخت تھا کہ مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں۔ راجہ داہر کو گمان ہوا کہ مسلمانوں کو شکت ہوچکی ہے اور اسلامی فوج میں دہشت پھیل چکی ہے۔ محمد بن قاسم اسلامی فوج کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوا اور پانی پلانے والے سے کہا مجھے زرا سا پانی پلا دو کے بجائے کھلاو کہا۔ پانی پی کر محمد بن قاسم نے اسلامی فوج کو لکارا اور ایک مختصر سی تقریر کی۔ اس سے مسلمانوں مین بجلی سی ڈور گئی اور مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر لڑنے لگے اور دشمنوں کی صفیں الٹنے لگے۔ دن ڈھل رہا تھا اور راجہ داہر کی فوج بھی تھگ کر چور ہوگئی تھی۔ اتنے میں راجہ داہر نے اپنا ہاتھی بڑھایا۔ محمد بن قاسم نے منجیق اندازوں کو اشارہ کیا اور دوسری طرف تیز اندازوں کو راجہ داہر پر آگ برسانے کا حکم دیا۔ منجیقین راجہ کے داہر کے ہاتھی پر پتھر اور تیر انداز جلتے تیر برسانے لگے۔ ایک آتشیں تیر سے راجہ کے ہاتھی کی عماری میں آگ لگ گئی۔ ہاتھی گھبرا کر قریبی جھیل میں جاگھسا اور بیٹھ گیا۔ ہر چند مہات نے کوشش کی کہ ہاتھی جھیل سے نکل جائے مگر ہاتھی ہلتا نہیں تھا۔ راجہ داہر کے حفاظتی عملے کے بعض ارکان نے یہ دیکھ کر پانی میں کود پڑے اور بعض کنارے کھڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد ہاتھی خود بخود کھڑا ہوگیا۔ راجہ داہر نے قلعے کی طرف جانا چاہا لیکن مسلمانوں نے تیروں کی بارش شروع کردی۔ راجہ داہر اور ہاتھی ان تیروں سے زخمی ہوچکے تھے اور اس کے حفاظتی دستے کے بہت سے افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
راجہ داہر نے یہ دیکھ کر لڑائی جاری ہے اور اس کے بہت عزیز اور ساتھی مارے جاچکے ہیں تو اس کے دل میں جوش و ولولہ پیدا ہوگیا اور اس نے پیادہ بڑی بہادری سے لڑنا شروع کر دیا۔ ادھر سورج غروب ہو رہا تھا کہ ایک عرب نے تلوار اس کے سر پر اس زور سے ماری کہ سر کو پھاڑتی ہوئی گردن تک اتر گئی۔ اس کے ساتھ اس کی فوج نے جی چھوڑ دیا اور ہتھیاڑ ڈال کر امان طلب کی اور سندھ کے لشکر کو شکست ہوچکی تھی یوں فیصلہ ہوچکا تھا کہ اب سندھ پر مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور مسلمان فاتحانہ راوڑ کے قلعے میں داخل ہوگئے۔
راجہ داہر کی لاش بعض لوگوں نے جھیل میں کیچڑ میں چھپادی تھی۔ محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ راجہ داہر کو تلاش کیا جائے کہ اس کا انجام کیا ہوا ہے۔ ایک برہمن کی نشادہی سے لاش جھیل میں کیچر سے برآمد کی گئی۔ راجہ کا بیٹا جے سنگھ فرار ہوکر برہمن آباد پہنچ گیا۔
اروڑ کو فتح کرنے کے بعد اروڑا میں استحکام کے لیے مختلف انتظامات و احکامات جاری کیے اور فتح کی خبر و مال غنیمت دمشق روانہ کیا۔ اس سارے انتظامات سے فارغ ہونے کے بعد محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا۔ راوڑ اور برہمن آباد کے درمیان دو مظبوط قلعے بہرور اور ڈھالیال تھے۔ پہلے بہرور راہ میں پڑتا تھا اس لیے پہلے بہرور کا رخ کیا۔ اس قلعہ میں سولہ ہزار جنگی سپاہی تھے جنہوں سخت مزاحمت کی۔ اس لیے محمد بن قاسم نے حکم دیا کچھ آدمی دن کے وقت لڑیں اور کچھ رات کے وقت نفت کے تیر اور منجیقیں چلائیں۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور تمام جنگجو مارے گئے اور مسلمان قلعے کی دیواریں توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ یہاں بھی بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس قلعے کو سر کرنے میں دو ماہ لگ گئے۔
اس کے بعد ڈھالیال پہنچے۔ جس کے شہری پہلے ہی شہر چھوڑ کر فرار ہوچکی تھی اور قلعہ میں صرف جنگی سپاہ رہ گئی تھی۔ اس قلعہ کا محاصرہ دو ماہ تک جاری رہا۔ ایک شب قلعہ کی سپاہ ریگستان کی جانب فرار ہوگئی۔ اس طرح یہ قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ یہاں محمد قاسم نے ضروری انتظامات کیے اور برہمن آباد کا رخ کیا۔
بہمن آباد کا محل و وقع عرصہ دراز تک موضع بحث بنا رہا۔ اب تصدیق ہوچکی ہے کہ یہ شہر شہداد پور سے گیارہ میل کے فاصلے پر اس کے کھنڈرات واقع ہیں۔ یہاں کھنڈرات کے تین بڑے مقام ہیں۔ ان میں دو آبی گزر گاہ داہنی کنارے پر مغرب میں واقع ہیں اور ان کے درمیان آدھا میل کا فاصلہ ہے اور اب برہمن آباد اور دلور Dalur کے نام سے مشہور ہیں۔ تیسرے پانچ میل شمال مشرق میں دریا کی خشک آبی گزرگاہ کے کنارے پر واقع ہے اور یہ گزر گاہ ڈیپر گھانگھرو کہلاتی ہے۔
منصورہ کے بارے میں الاصطخری اور الادریسی دونوں کا کہنا تھا کہ منصورہ برہمن آباد سے ایک میل کے فاصلے پر دائرے میں آباد تھا اور اس کے اطراف میں مہران اور اس کی شاخ بہتی ہے۔ ادریسی کا کہنا ہے یہ مہران سے کچھ فاصلے پر آباد تھا اور بڑی شاخ کے مغرب میں آباد تھا۔عربوں نے اپنے نقشوں میں دریائے سندھ کو سندھ کے وسط میں گزرتے ہوئے دیکھایا ہے اور مشرق سے ایک شاخ نکل کر ایک بڑے علاقہ کا احاطہ کرتے ہوئی دریا کی بڑی شاخ میں مل جاتی ہے۔
جو کھنڈرات بڑی اور متروک آبی گزرگاہ کے داہنے کنارے پر نظر آتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ بیان درست نظر آتا ہے کہ یہ شاخ بڑے دریا کی شاخ تھی جو کچھ فاصلے پر مغرب میں بہتا تھا اور لوہانو ڈھورو کی گزر گاہ کے قریب تھا۔ یہ کھنڈرات ایک میل کے علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور آج بھی برہمن آباد یا پہچھرا جو تھل کے نام سے مشہور ہیں اور لگتا ہے کہ منصورہ پرانے شہر کے اوپر آباد کیا گیا تھا۔ اگرچہ بلازری لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد سے دو میل کے فاصلے پر منصورہ بسایا تھا۔ مگر لگتا ہے بلازری کو غلط فہمی ہوئی تھی۔
بلازری یہ بھی لکھتا ہے کہ دریا کا دھانہ پر جو جھیل کے سامنے واقع تھا اس کے ایک کنارے پر منصورہ اور دوسرے کنارے پر محفوظہ آباد تھا۔ لیکن محفوظہ ایک چھوٹا قلعہ تھا اسے عربوں نے فوجی چھاونی کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ کزنس Cousens کی بڑے کھنڈرات کی کھدائی کے بعد اس کے نیچے ہندوؤں کے قدیم شہر کے آثار ملے ہیں جس سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہی برہمن آباد تھا۔ مقامی روایات بھی یہی کہتی ہے کہ ولور کی جگہ محفوظہ آباد تھا اور بلازری کے بیان کے مطابق جھیل یا دہانہ کے آثار آدھے میل چوڑی پٹی میں نظر آتے ہیں۔ جو ان کھنڈرات اور برہمن آباد کے کھنڈرات کے درمیان واقع ہے جو کہ قدیم دریائی راستہ سے ملی ہوئی تھی۔
بلازری کا کہنا تھا منصورہ برہمن آباد سے چھ میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ اس بیان کی وجہ سے جنرل ہیگ Gen Haig اور ریورٹی Revertyنے اخذ کیا کہ برہمن آباد اس جگہ آباد تھا جہاں ڈیپرگھانگھرو کے کھنڈرات ہیں۔ یہ شمال مشرق میں ایک چھوٹی بستی کے کھنڈرات ہیں۔ یہاں فصیل اور دوسرے آثاروں سے نہیں لگتا ہے کہ یہاں بڑا شہر آباد ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ چھوٹی آبی گزرگاہ کے آثار اس کے بائیں کنارے پر مشرق میں یہ کھنڈرات واقع ہیں۔ جب کے چچ نامہ سے واضح ہوتا ہے کہ بہمن آباد جل والی ندی کے مغربی کنارے پر آباد تھا۔
غالباً ڈیپر گھانگھرو کا خشک راستہ قدیم زمانے میں جل والی ندی تھا اور بڑا دریا منجھل تھا جو برہمن آباد اور ولور کے پاس سے گزرتا تھا اور یہی مہران کی ایک شاخ تھی جس کے راستہ سے عربوں نے اپنی فوج، سامان اور خود ڈھالیال سے واڈھاتیہ تک پہنچایا تھا۔ دریائے منجھل شہر کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔
کزنس کا خیال ہے کہ ڈیپر گھانگھرو کے کھنڈرات جن میں اہم ایک بدھسٹ اسٹوپہ ہے وہ ساوندی کے آثار ہیں۔ جہاں محمد بن قاسم نے برہمن آباد سے نکلنے کے بعد پڑاؤ کیا تھا اور یہی بدھ نوبہار مشہور ہے جس کے بڑا بدھی عالم سے ملاقات کے لیے چچ خود آیا تھا۔
راجہ داہر کا لڑکا جے سنگھ نے باپ کے قتل کے بعد اپنا مرکز برہمن آباد بنالیا تھا۔ جے سنگھ نے برہمن آباد کے انتظامات درست کرکے وہاں فوجی افسروں کو عربوں کا مقابلہ کرنے کی ہدایت کرکے خود چنیسر کی طرف (صحرا کی طرف) غالباً مدد لیے چلا گیا۔ محمد بن قاسم نے ایک قاصد کو جے سنگھ کے پاس بھیجا کہ وہ اسلام قبول کرلے یا ہماری اطاعت قبول کرکے جزیہ دینا قبول کرے۔ دوسری صورت میں جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ مگر جے سنگھ کے فرار ہونے کی وجہ سے قاصد ناکام لوٹ آیا۔ لہذا محمد بن قاسم نے خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ جب خندقیں کھد گئیں تو 9 رجب 94 ہجری کو جنگ شروع ہوگئی۔
برہمن کا قلعہ اہم فوجی مرکز تھا۔ یہاں تقریباً چالیس ہزار سپاہی تھے۔ جو صبح کے وقت قلعے سے ڈھول بجایتے ہوئے نکلتے اور دن بھر معرکہ آرائیوں کے بعد واپس چلے جاتے۔ مسلمان بھی اپنی لشکر گاہ میں آکر آرام کرتے۔ اس طرح چھ ماہ بیت گئے اور قلعہ کسی طرح فتح نہ ہوسکا۔
اس دوران جے سنگھ بھاٹیہ سے واپس آیا اور وہ محاصرے کی وجہ سے قلعے میں داخل نہ ہوسکا۔ لیکن اس نے اسلامی لشکر پر چھاپے مارنے شروع کر دیے اور اسلامی لشکر میں آنے والی رسد کا راستہ روک لیا۔ جس کی وجہ سے اسلامی لشکر میں رسد کی کمی کی وجہ سے سخت پریشانیوں کا سامنا تھا۔
محمد بن قاسم نے اپنے مقامی اتحادیوں اور اپنے جوانوں کے دستہ بنائے کہ وہ جے سنگھ کا صدباب کرے۔ جب جے سنگھ کو معلوم ہوا کہ اسلامی فوج اس سے مقالہ کرنے آرہی ہے تو اس نے اپنے جوانوں اور اہل و عیال کے ساتھ واپس چترور کی طرف واپس لوٹ گیا۔ جاتے ہوئے اپنے بھائی گوپی کو جو اڑور میں تھا خط لکھا میں سلطنت سے دست بردار ہوتا ہوں تم قلعہ اڑور کی پوری حفاظت کرو۔
برہمن آباد کے باشندے اس طویل لڑائی سے تنگ آچکے جو کہ ختم ہونے پر نہیں آرہی تھی۔ وہ جے سنگھ جانے کے بعد اس فکر میں تھے کہ کسی طرح یہ لڑائی ختم ہوجائے۔ آخر کچھ بااثر شہریوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چھ ماہ گزر چکے ہیں اور لڑائی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ہم مسلمانوں سے معاہد کرکے اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کریں۔ انہوں نے محمد بن قاسم کے پاس ایک قاصد بھیجا کہ ہم آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ ہم جربطری دروازے سے لڑنے کے لیے نکلیں گے اور پھر شہر میں داخل ہوجائیں گے۔ شہر کا دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے آپ فوراً اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہوجائیں۔ محمد بن قاسم نے ان کی درخواست قبول کرلی۔
منصوبہ کے تحت ایسا ہی ہوا اور اہل شہر لڑنے نکلے اور پھر واپس پلٹ کر شہر میں داخل ہوگئے اور دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔ مسلمان شہر میں داخل ہوگئے۔ شہر کے فوجی احکام اس صورت حال سے گھبرا گئے اور وہ ایک دوسرے دروازے سے فرار ہوگئے۔ اس طرح برہمن آباد پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ شہر پر قبضے کے بعد محمد بن قاسم نے شہریوں کے لیے امن کا اعلان کیا اور شہریوں اور مذہبی طبقہ کو آزادی اور مالی امداد دی۔ پھر شہر کے انتظامات نظم و ضبط کے لیے مختلف احکامات و اقدامات جاری کیے۔
محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے انتظامات سے فارغ ہوکر 4 محرم 94 ہجری کو جمعرات کے روز روانہ ہوکر منھل پہنچے۔ جو ساوندی کے اطراف میں اور ڈبدا جھیل کے مرغزار میں واقع ہے اور کو دندو کربھا سے ہوتے ہوئے بہرور پر فوج کشی کی تھی۔ جس کے بعد سمہ اور سہتہ قبیلے ان کے مطیع ہوگئے تھے۔ سہتہ قبیلے نے اروڑ تک عرب فوج کی مناسب رہنمائی کی تھی۔ روہڑی کی پہاڑیوں کے جنوب میں جو ریگستانی علاقہ پھیلا ہوا ہے اس کے فوراً بعد مغربی علاقہ آج بھی سابیتی کے نام سے مشہور ہے۔ غالباً عرب فوج کی پیش قدمی دریا کے قریب ہی کچھ فاصلے پر جاری رہی ہوگی۔ یعنی لوہانہ ڈھورو کی خشک آبی گزر گاہ کے مشرق میں محمد بن قاسم نے دریائے مہران پر واقع شہر اگھرور Aghror کے قلعہ کے سامنے تک کا بودھیہ کا صوبہ فتح کرچکا تھا۔ اس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر دریا کے بائیں کنارے پر روہڑی یا بکھر کے آس پاس واقع تھا۔ چچ نامہ میں اس متعلق ایک اشارہ ملتا ہے کہ جب رائے چچ نے اروڑ سے بدھیا اور سیوستان کے خلاف فوج کشی کے لیے روانہ ہوا تو اس نے دریا کو بائیں کنارے سے دائیں کی طرف غبور کیا تھا۔ جہاں ایک گاؤں وہایت Dihayat واقع تھا۔ جو سمہ اور اروڑ کی سرحد پر واقع تھا۔ جنرل ہیگ کا کہنا ہے کہ کنڈیارو میں یہ موجودہ قدیم بستی کا نام ہے۔ یہاں دریا کی قدیم گزرگاہ لوہانو ڈھورو دیکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت یہ دریائے سندھ سے ستر میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔
مسعودی نے اروڑ کے تذکرے میں لکھتا ہے کہ اس کے قریب دریائے سندھ دو شاخوں میں تقسیم ہوکر یہ دونوں شاخیں شاکرہ (ساکرہ) کے مقام پر سمندر میں گرتی ہیں۔ شاکرہ دیبل سے دو دن کی مسافت پر واقع ہے۔ لیکن سندھ کے طبعی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر بائیں شاخ نارا اور دائیں شاخ زیریں سندھ کے علاقہ میں پران کی گزر گاہ سے بہتی ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ایک ساتھ ہی رن کچھ میں گرتی تھیں تو دیبل سے اس کا فاصلہ دو دن کی مسافت سے زیادہ کا ہوگا۔ مسعودی اپنی دوسری کتاب میں یہ فاصلہ دو فرسنگ بیان کرتا ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ اروڑ دریائے سندھ کے مغرب میں واقع میں آباد ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ شہر کے نذدیک طغیانی کے زمانے میں جو دریا کا پانی آتا تھا وہ اسے دریا کی بڑی شاخ سمجھتا تھا۔ چچ نامہ کا مولف کا کہنا ہے کہ رائے سہی راس کے زمانے میں اس شہر میں بہت سے شاہی محلات، باغ، بارہ دریاں، فوارے، چشمے، سبزہ زار اور درخت تھے۔ یہ ایک دریا کے کنارے پر واقع تھے جو مہران کہلاتا تھا۔
میجر راوٹی کا خیال ہے کہ عرب فوج کو دریائے مہران پار کرنا پڑا ہوگا۔ لیکن چچ نامہ میں دریا کو غبور کرنے کے کسی واقع کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ اس کے باوجود راوٹی کا کہنا ہے کہ شاید اپنے پہلے قیام گاہ کے نذدیک یعنی کربھائی ّڈنڈھ’کے مقام پر دریا کو غبور کیا ہوگا۔ حالانکہ انہیں دریا پار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیوں کہ بہمن آباد اور اروڑ دونوں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ عرب فوج نے بہمن آباد پہنچنے کے لیے دریا کی مشرقی شاخ کو غبور کیا ہوگا جو داد واہ کے نام سے مشہور تھی۔
بلازری کا بیان ہے اروڑ پہاڑی پر آباد ہے اور اسے وہ بکھرور کے ساتھ بھی بیان کرتا ہے۔ چچ نامہ بھی یہی کہتا ہے کہ بکھرور کا قلعہ مہران کے کنارے اروڑ کے بالکل بلمقابل تھا۔ اسطخری نے بکھرور کا ذکر نہیں کیا ہے۔
خلافت عباسیہ نے سندھ کے علاقہ کو دو حصوں میں مقسم کردیا تھا یعنی ملتان اور منصورہ۔ اس طرح اروڑ جو دونوں کے وسط میں واقع تھا اس کی مرکزی حثیت ختم ہوگئی اور وہ رفتہ رفتہ زوال پزیر ہوگیا۔ اگرچہ تیرویں صدی عیسویں تک اس کا ذکر ملتا ہے۔ مسعودی کے نوے سال بعد البیرونی اروڑ شہر دریائے سندھ کی دو شاخوں کے درمیان بتاتا ہے۔ لیکن وہ کتاب الہند میں لکھتا ہے کہ پنجاب کے متحدہ چشمہ کا نام مہران مشہور ہے اور یہ اروڑ سے گزرتا ہے۔ یہ کئی جگہ زمین کے قطعات کو گھیر کر جزیروں شکل دیتا ہوا منصورہ پہنچتا ہے۔ جو خود بھی دریا کی شاخوں کے درمیان آباد ہے۔ اس کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوکر سمندر میں گرتا ہے۔ ایک شاخ لوہارنی کے قریب سمندر میں گرتی ہے اور دوسری مشرق میں کچھ کے مقام پر گرتی ہے۔ یہاں یہ مقام سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔
اروڑ کے بارے میں ادریسی کا بیان ہے دریائے مہران اروڑ کے مغرب میں بہتا تھا۔ یعنی اروڑ مشرقی کنارے پر تھا۔ کیوں کہ دریا اروڑ سے آگے کلری میں دو شاخوں میں منقسم ہوجاتا تھا اور پھر منصورہ سے بارہ میل آگے دوبارہ یکجا ہوجاتی تھیں۔ ادریسی لکھتا کہ کلری کے آگے شمال کی طرف بہتی ہے جو طبعی طور پر ممکن نہیں ہے۔
عرب جغرافیہ دانوں نے ایسی کوئی اطلاع نہیں دیتے ہیں کہ اروڑ کے ذوال کی وجہ دریائے سندھ کے راستہ کی تبدیلی ہے۔ جیسا کہ تاریخ طاہری اسے ذوال کی وجہ قرار دیتا ہے کہ یہ واقع چودھویں صدی عیسویں میں ظہور ہوا تھا اور تحفتہ الکرام اسے دوسری صدی کا بتلاتا ہے۔ لیکن عرب جغرافیہ دانوں نے ایسی کوئی نہیں کی ہے۔ ابن بطوطہ1333ء میں بکھر سے گزرا وہ بھی اس تبدیلی کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ لیکن سندھ کے مقامی مورخین اس کے قائل ہیں۔
بلاشبہ دریائے سندھ کی شاخ کی قدیم گزر گاہ جو اروڑ کے شمال اور موجودہ روہڑی کی گھاٹی سے چار میل جنوب میں پہاڑیوں کے بیچ سے گزرتی تھی۔ اس راستے کی تبدیلی کے بارے میں ایک کہانی سیف الملوک کی ملتی ہے۔ جس نے اروڑ کے ظالم حکمران دلور رائے کے ٹیکس اور اپنی کنیز بدیع الجمال کے تحفظ کے لیے دریا پر باندھ کر دریا کا رخ موڑ دیا اور دریا اروڑ سے دور کردیا اور اس نے نیا راستہ سیون اور لکی پہاڑ کی طرف اختیار کرلیا۔
یہ کہانی سندھ کے مورخوں میں بہت مقبول ہے۔ لیکن ایسی کہانیاں ہندوستان میں عام ہیں بقول راوٹی کے ایسا عملاً ناممکن ہے۔ ایسا صرف قدرتی تبدیلی کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہاؤ کی تبدیلی نے دریا مزید دور مغرب کی اس گھاٹی جانب جہاں بعد کے زمانے میں روہڑی اور سکھر آباد ہوئی دھکیل دیا ہوگا۔ یہ ہوسکتا ہے دریا سے ایک نہر نکال کر اروڑ تک پانی پہنچایا جائے۔ ایک ایسی نہر سکھر بیراج کی
تعمیر سے پہلے موجود تھی۔ حامد علی کوفی جو چچ نامہ کا مترجم کا بیان ہے 1216ء میں اس نے بکھر اور اروڑ کا دورہ کیا تھا۔ تقریبا اسی زمانے میں دہلی کی لکھی ہوئی کتابیں بکھر کا ذکر کرتی ہیں۔ درہائے سندھ نے اسی زمانے میں اروڑ سے کچھ فاصلے پر موجودہ گھاتی گزرنے لگا ہوگا اور بکھر کے عروج کے ساتھ اروڑ ذوال پزیر ہوگیا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کہانی سومرو خاندان کے ظلم و ذوال سے تعلق رکھتی ہیں اور دریائے ہاکرہ کے زیریں علاقہ حصہ خشک ہونے سے سومرو کا دالریاست محمد طور یا مہاتم تور کے ذوال سے تعلق رکھتی ہے۔ تاریخ طاہری سے بھی یہی تاثر ملتا ہے۔ دریائے سندھ کی یہ تبدیلی مقامی تھی مجموعی نہیں ہوگی۔
محمد بن قاسم نے اڑور پہنچ کر قلعے سے ایک میل دور اپنا کیمپ قائم کیا اور اڑور کے محاصرے کا حکم دیا۔ یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا، مگر اڑور کے لوگوں نے اس محاصرے کی پرواہ نہیں کیا۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ راجہ داہر زندہ ہے اور وہ فوج لینے چتور گیا ہوا ہے۔ لیکن کافی وقت گزرا اور راجہ داہر فوج لے کر نہیں آیا تو اہل شہر پریشان ہوگئے اور انہوں نے جنگ شروع کردی۔ شہر کے لوگ فصیل پر چڑھ کر چلاتے تھے کہ تمہاری موت یہاں کھنچ لائی ہے راجہ ہندوستان سے ایک بڑا لشکر لے کر آرہا ہے۔
محمد بن قاسم نے یہ دیکھ کر کہ اڑور کے باشندے جنگ پر تلے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ راجہ داہر زندہ ہے۔ تو اس نے راجہ داہر کی رانی لاڈی کو سیاہ اونٹ جس وہ راجہ داہر پر سوار ہوتی تھی پر سوار کرکے بھیجا کہ وہ اڑور کے باشندوں کو بتائے کہ راجہ داہر مرچکا ہے۔ چنانچہ رانی لاڈی نے وہاں لوگوں کو آواز دے کر کہا اڑور کے لوگوں میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ لوگ جب اس کی آواز سن کر فصیل پر جمع ہوگئے تو اس نے اپنے اپنے چہرے پر سے نقاب اٹھا کر کہا دیکھو میں راجہ داہر کی رانی لاڈی ہوں۔ راجہ داہر مارا جاچکا ہے۔ تم ناحق اپنے کو ہلاک کرتے ہو یہ کہہ کر اس نے اپنے چہرے پر نقاب دوبارہ ڈال کر زار قطار رونے لگی۔ جو لوگ فصیل پر کھڑے تھے انہیں اس کا یقین نہ آیا اور وہ کہنے لگے تم غلط کہتی ہو، تم مسلمانوں کے ساتھ مل گئی ہو، راجہ داہر زندہ ہے اور اس کو برا بھلا کہنے لگے۔ اس پر محمد بن قاسم نے رانی لاڈی کو بلوا لیا۔ پھر اہل شہر نے ایک ساحرہ سے معلوم کیا تو اس نے یہی بتایا کہ داہر مر چکا ہے۔ چنانچہ اہل شہر مایوس ہوگئے اور وہ محمد بن قاسم سے صلح کرلینا چاہیے۔
گوپی کو جب یہ خبر ملی کہ قلعے کے لوگ محمد بن قاسم کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک رات خاموشی سے اپنے خاندان کے لوگوں اور ملازموں شہر سے نکلا اور چتور کی جانب چلا گیا۔ قلعے میں علافی خاندان کے ایک شخص نے دیکھا گوپی سب کو بے مدگار چھوڑ بھاگ گیا تو اس نے سب حال ایک کاغذ پر لکھ کر تیر کے ذریعے اسلامی لشکر میں پھینک دیا۔
محمد بن قاسم کو جب یہ خبر ملی تو اس نے فوراً قلعے پر حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر شہرم کے لوگوں نے ایک وفد مسلمانوں کے پاس بھیجا کہ کہ ہم اطاعت کے لیے حاصر ہوکر قلعہ آپ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے انہیں کہلوایا کہ وہ ہتھیار ڈال کر قلعے کے دروازے کھول دیں۔ اس پر لوگوں نے شہر کے دروازے کھول دیئے اور محمد بن قاسم فاتحانہ شہر میں فوج کے ساتھ داخل ہوگئے۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے شہر کے انتظامات کے لیے مختلف احکامات دیئے۔
اروڑ پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان سندھ کے باقی دو شمالی صوبوں کی طرف متوجہ ہوئے جو پنجاب میں تھے۔ اڑور سے محمد بن قاسم بھاتیہ پہنچے۔ اس قلعہ کے بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ قلعہ دریائے بیاس کے بائیں جانب یعنی جنوبی کنارے پر آباد تھا۔ یہ واضح رہے دریاے ستلج کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے ہوتا کہ اس وقت ستلج اور بیاس کی مشترکہ گزر گاہ کو بیاس کہا جاتا تھا۔ اس قلعے کا حاکم ککسہ تھا۔ جو داجہ داہر کا کا چچازاد بھائی تھا اور راوڑ میں داہر کے ساتھ جنگ میں شریک تھا۔ راجہ داہر کی شکست اور اس کی موت کے بعد اس نے اس قلعے میں پناہ لی تھی۔ ککسہ نے محمد بن قاسم سے صلح کرلی اور اسے محمد بن قاسم نے اپنا مشیر بنالیا۔
محمد بن قاسم بیاس کو غبور کرکے دریا کے کنارے اسکندہ پر حملہ کر دیا۔ قلعہ والے بھی جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ دونوں طرف سے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ پھر عصر کے وقت مسلمانوں کے حملے کی تاب نہ لاکر قلعے گھس گئے اور قلعے کے اندر سے مزاحمت کرنے لگے۔ ساتویں دن ایک رات قلعے کا حاکم سبھرا قلعہ چھوڑ کر سکہ فرار ہوگیا۔ جو اس وقت راوی کے جنوبی کنارے پر واقع تھا۔ اس وقت ملتان سے تقریباً چالیس میل اوپر دریائے دریائے چناب سے ملتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے اس وقت راوی چناب یا دریائے بیاس سے ملتان سے چالیس میل نیچے ملتا تھا۔ شہر کے لوگوں نے جب دیکھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو انہوں نے محمد بن قاسم سے صلح کرلی اور شہر پر مسلمانوں کا قبصہ ہوگیا۔
اسکندہ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم سکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں کا حاکم بجھرا بجے رائے کا نواسہ تھا۔ اس کو جب محمد بن قاسم کے آنے کی اطاع ملی تو اپنی فوجوں کو لے کر مقابلے کے لیے نکلا۔ اس کی فوجیں سترہ دن تک اسلامی لشکر کا مقابلہ کرتی رہیں اور ان لڑائیوں میں اسلامی لشکر کے بیس افسر اور دو سو پندہ سپاہی شہید ہوئے۔ یہ تعداد اس مہم میں اب تک شہید ہونے والوں کی سب سے زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں دشمن کے مارے جانے والے سپاہ کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ بجھرا نے اسلامی فوجوں سے مقابلے کی قدرت نہ پاکر ایک رات خاموشی سے نکلا اور راوی غبور کرکے ملتان چلا گیا۔ محمد بن قاسم نے اپنے لشکریوں کی کثیر تعداد کے شہید ہونے کی وجہ سے بجھرا کے فرار ہونے کے بعد شہر کو برباد کردیا۔
سکہ سے محمد بن قاسم دریائے راوی کو غبور ہوکر ملتان پہنچے۔ اس وقت ملتان کا حاکم راجہ گور سنگھ جو راجہ داہر کا بھتیجہ اور اس کے بھائی چندر کا بیٹا تھا۔ مگر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے سکہ کے حاکم بجھرا کی قیادت میں نکلی۔ دن میں گھمسان کی جنگ ہوئی اور شام کے ملتانی فوج قلعے میں واپس لوٹ گئی۔ یہ لڑائیاں دو ماہ تک جاری رہیں مگر کوئی فیصلہ نہ ہو پارہا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ ملتانیوں کی ہمت ٹوٹنے لگیں اور قلعے سے نکل کر انہوں لڑنا انہوں نے چھوڑ دیا۔
مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور وہ منجیقوں سے شہر پر سنگ باڑی کر رہے تھے۔ طویل محاصرے کی وجہ سے قلعہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ مسلمان لشکر میں بھی غذائی قلت کا شکار ہونے لگے۔ کیوں کہ نیرون کوٹ، برہمن آباد اور اڑور دور ہونے کی وجہ سے ان کی رسد میں تعطل پیدا ہوگیا تھا اور لوگ گدھے ذبیح کرکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم ان کی اہمتیں برقرار تھیں اور مسلسل شہر کو فتح کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک دن ایک شخص نے انہیں اس نالے کا پتہ بتایا جس سے قلعے میں پانی جاتا تھا۔ محمد بن قاسم نے اس نالے کو بند کروا دیا۔ جس سے قلعہ کے لوگ پینے کے پانی محرم ہوگئے۔ اس لیے پیاس سے تنگ آکر قلعے سے باہر آکر جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ تاہم ان کی ہمتیں ٹوٹ چکیں تھیں۔ اس لیے بہت مختصر سی جنگ ان کے درمیان ہوئی اور ملتانی فوج قلعے میں واپس چلی گئی۔
گور سنگھ نے دیکھا ملتانیوں میں اب مقابلے کی سکت نہ رہی ہے اور مسلمانوں کے عزم و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا ہے۔ اس لیے وہ ایک شب خاموشی سے کشمیر چلا گیا۔ لیکن اس کے جانے کے بعد بھی ملتانی فوجیں روزانہ جنگ کے لیے نکلتیں اور شام کو قلعے میں داخل ہوجاتیں۔ ایک دن ایک شخص نے قلعہ کے مشرقی جانب دریا کے کنارے ایک رخنہ کی نشادہی کی۔ محمد بن قاسم نے اس جانب منجیقیں نصب کروا کر سنگ باڑی کی جس سے قلعہ کی دیواریں ٹوٹ گئیں اور مسلمان فاتحانہ قلعے میں داخل ہوگئیں۔
محمد بن قاسم نے ملتان کے استحکام و انتظامات کے لیے مختلف احکام جاری کیے۔ ایک روایت کے مطابق دریائے جہلم پر واقع قلعوں میں اپنے گورنر بھیج دیئے۔ اشھار اور کرور (کرور پکا) میں انتظامی تبدیلیاں کی اور فوج کے ساتھ پیش قدمی کرتا ہوئے پنج ناہیات Panj Nahiyat تک پہنچ گئے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں چچ نے اپنی مملکت کی نشانی کے طور پر درخت لگایا تھا۔ گرد و نواح کے راجاؤں یعنی سمندر سے کشمیر تک کے راجاؤں قبول کرلی۔ ان میں سے بہت سے اسلام قبول کرلیا اور بہت سوں نے جزیہ دینے کا اقرار کرلیا۔ پھر ایک سردار ابو حکیم شیبانی کو فوج دے کر اسے قنوج کی سرحد پر روانہ کیا اور اودھا پور کے ایک مقام سے راجہ رائے ہر چندر کو پیغام بھیجا کہ وہ اطاعت قبول کرے اور مسلمان ہوجائے۔ راوٹی نے اس مقام کو ہاکڑ اور دریا پر بیکانیر کے ایک علاقہ کے ایک مقام سوہن کوٹ قرار دیتا ہے۔ جو سردار گڑھ سے کچھ فاصلے پر ہے۔ قنوج کے راجہ رائے ہر چندر جو قنوج کا راجہ تھا جواب دیا سولہ سو سال سے قنوج پر ہماری حکومت ہے اور کسی کو جرت نہیں ہوئی کہ ہماری مملکت میں قدم رکھے۔ اپنے امیر سے کہہ دو کہ تلوار ہی ہمارا اور اس کا فیصلہ کرے گی۔
راجہ کے انکار پر محمد بن قاسم نے قنوج پر حملے کی تیاری شروع کردیں۔ لیکن ابھی محمد بن قاسم نے کوچ نہیں کیا تھا کہ انہیں حجاج کی وفات کی خبر ملی خلیفہ نے انہیں مزید سے فوج کشی روک دیا۔ اس لیے قنوج پر فوج کشی ملتوی کر دی گئی اور محمد بن قاسم اروڑ اور بغرور (بکھر) واپس آئے۔ وہاں سے انہوں نے بیلمان کی طرف فوج روانہ کی۔ مگر وہاں کے راجہ نے بغیر کسی لڑائی اطاعت قبول کرلی۔ پھر محمد بن قاسم نے کیرج پر فوج کشی کی اور وہاں کا راجہ بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
حجاج بن یوسف کی وفات کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک نے وفات پائی۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ولید نے محمد بن قاسم کو پیش قدمی روکنے کا حکم دیا کہ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ولید کے بعد سلیمان بن عبدلملک خلیفہ بنا۔ سلیمان حجاج کا سخت مخالف تھا۔ کیوں کہ ولید نے کوشش کی تھی کہ سلمان کی جگہ اپنے بیٹے عبدالعزیز کا نام ولی عہد بنائے۔ مگر یہ تجویز اس سے پہلے تکمیل پاتی کہ ولید نے وفات پائی۔ حجاج جو کہ ولید کا سب سے بڑا مددگار تھا اس لیے وہ سلیمان کی نظروں کھٹکتا تھا۔ جب سلیمان خلیفہ بنا تو حجاج وفات پاچکا تھا۔ اس لیے اس نے حجاج کے مقرر کردہ افسروں کو معزول یا قتل کرادیا۔ ان میں قتیبہ بن مسلم فاتح چین، موسیٰ بن نصیر فاتح اندلس اور فاتح سندھ محمد بنا قاسم کو اس نے اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔
سلیمان بن عبدالمک نے مشرقی ممالک کا حاکم اعلیٰ یزید بن مہلب کو بنایا۔ جس کی حجاج اور اس کے خاندان سے پرانی دشمنی تھی۔ یزید بن مہلب کے ساتھ صالح بن عبدالرحمن مل گیا جسے خارجی ہونے کی وجہ سے اسے حجاج سے سخت بغض تھا۔ ان دونوں نے چن چن کر حجاج کے خاندان کے افراد اور حامیوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کریا۔ سندھ میں محمد بن قاسم کو معزول کرکے ان کی جگہ یزید بن کبشہ سکسکی کو سندھ کا حاکم مقرر کیا اور یزید بن ابی کشبہ کے بھائی معاویہ بن مہلب کو رانہ کیا۔ کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے لائے۔ کشبہ نے محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے ٹاٹ کے کپڑے پہناکر ہتھکڑیاں پہنا کر عیراق روانہ کردیا۔ جہاں اسے واسط کے جیل خانے میں رکھا گیا اور مختلف اذیتں دے کر اسے قتل کردیا۔ اس وقت محمد بن قاسم کی عمر صرف بائیس سال تھی۔ سندھ میں جب محمد بن قاسم کے قتل کی اطلاع ملی تو اس کا ماتم کیا اور اس کے اخلاق کو یاد کرکے روئے۔ اس کا کیرج میں ایک مجسمہ نصب کیا گیا۔
مجید امجد کی شعری کائنات
مجید امجد کی شاعری کے متعلق کچھ آرا اکثر سننے کو ملتی ہیں جیسا کہ مجید امجد کے ہاں سائنسی...