::: محمد عظمت اللہ خاں: اردو غزل کے مخلف، اردو کی نظم کی نئی شعری ساخت اور نئے انتقادات کے معماروں میں ایک اہم اور منفرد نام " :::
محمد عظمت اللہ خان کی ولادت دہلی میں 1887ء میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد نعمت اللہ اور دادا کا نام مولوی عظیم اللہ خان تھا۔ اس زمانے میں دہلی کے قدیم خاندانوں میں انگریزی کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی تھی۔ عظمت اللہ کے والد صاحب ایک روشن خیال انسان تھے۔ سرسید احمد خاں ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ ان کا عظمت اللہ خان کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ وہ محمد نعمت اللہ خان سے علمی، ادبی اور نیا فلسفیانہ موضوعات پر بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔عظمت اللہ خان جدید طرز کی اردو شاعری اور نئے شعری تجربوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب سُریلے بول اس خصوص میں ایک سنگ میل تصور کی جاتی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں "پلاننگ پر ایک تنقیدی نظر" ، مضامین عظمت۔ حصہ اول اور حصہ دویم ،" تاریخ جنگ عظیم یورپ "شامل ہیں۔ وہ 1927ء میں حیدرآباد، دکن میں 40 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عظمت اللہ خاں انقلاب پسند اور مزاحمتی مزاج کے مالک تھے ۔ وہ سوشلزم سے متاثر تھے۔ ان کا تاریخ، فلسفہ، ادب، نفسیات اور بشری علوم کا مطالعہ بہت غصب کا تھا۔ اچھے ادیب اور شعر فہم تھے۔ اور انھوں نے پائے کی انحرافی تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ مغربی تعلیم کے زیرِ اثر انہوں نے مشرقی ادب کے گنجینۂ گراں مایہ کو بے وقعت اور کم حیثیت جانا۔ انہوں نے انقلاب پسندی کے خمار میں صرف غزل کو ہی گردن زدنی قرار نہیں دیا بل کہ قافیہ اور عروض کے گلے پر بھی چھری پھیرنے کی تجویز پیش کی۔ ان کا مقالہ ’’ اُردو شاعری‘‘ پہلے پہل رسالہ ’’ اردو ‘‘ میں بالاقساط چھپا اور بعد میں ان کے مجموعۂ کلام ’’ سریلے بول‘‘ میں بہ طور مقدمہ شامل ہوا۔ اس مضمون میں انقلابی خیالات کی تندی اور شدت کا اندازہ ذیل کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:
’’ ہماری شاعری محض قافیہ پیمائی ہے اور اس قافیہ پیمائی کے رواج کا سہرا غزل کے سر ہے جس میں تسلسل ایک طرح کا جُرم ہے۔‘‘
’’سب سے پہلی اصلاح اب یہ ہونی چاہیے کہ شاعری کو قافیہ کے استبداد سے نجات دلوائی جائے۔ اس بات کو واضح کر دیا جائے کہ شاعری قافیہ کے اشارے پر نہیں چلے گی بل کہ شاعر کے ارادہ اور خیال کی ضرورتوں کے آگے قافیہ کو سر خم کرنا پڑے گا۔۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ خیال کے گلے سے قافیہ کے پھندے کو نکالا جائے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ غزل کی گردن بے تکلف اور بے تکان مار دی جائے۔‘‘
’’ غزل کا خاتمہ ضروری ہے ، جب تک غزل کا اُردو شاعری سے کالا منہ نہ ہو گا قافیہ پیمائی اور پریشاں گوئی کا زہریلا مذاق اُردو ادبیات کے جسم سے خارج نہ ہو گا۔‘‘
آج ہم اردو میں کی جس نئی نظم کو دیکھ رہے ہیں اگر عظمت اللہ خان کی فکری، تخلیقی اور انتقادی سوچ نہ ہوتی تو اردو نظم کو اتنی قدر ومنزلت نہیں ملتی۔ ان کو غزل کا مخالف بھی کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ عظمت اللہ خان کو اردو کی شعر و تنقید میں " جدید پن" کے رجحان کے بنیاد گزاروں میں بھی شامل کرتے ہیں۔