پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ 1951 تھا‘ ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم نہ ہو سکا تھا..مصر میں متعین پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ جدہ میں ایک بے بضاعت سا قونصل خانہ تھا۔ !
دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اتنا کامیاب تھا کہ سعودی عرب میں ’’رسول اسلام‘‘ (امن کا سفیر) کے نعروں سے اس کا استقبال کیا گیا۔
مئی1951ء میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی جس شخص کے سپرد تھی ان کا نام محمد اسد تھا۔ وہ وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ( یہ وہ زمانہ تھا جب گنتی کے چند جوائنٹ سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کا کام کرتا تھا یہ تو آدھے سے زیادہ پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد وفاقی سیکرٹری روپے کے درجن ملنے لگے۔ رہے جوائنٹ سیکرٹری تو اب سینکڑوں کی تعداد میں ہیں)۔ آج کتنے تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ محمد اسد پاکستان کے کتنے بڑے محسن تھے اور کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے؟
محمد اسد سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے منہ بولے بیٹے تھے۔ عربوں کی طرح عربی بولتے تھے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل (جو بعد میں بادشاہ بنے) محمد اسد کے پرانے دوست تھے۔ محمد اسد نے نہ صرف بھارتی لابی کو نیچا دکھایا۔ بلکہ بادشاہ سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کر لی۔ اس وفد میں آزاد کشمیر کی نمائندگی صدر آزاد کشمیر کے معاون یعقوب ہاشمی کر رہے تھے۔ انکے الفاظ میں ’’پاکستانی وفد کے قائد سمیت ہر ممبر نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر علامہ اسد ساتھ نہ ہوتے تو شاید وفد کو بادشاہ سے ملاقات کا موقع بھی نہ مل سکتا۔ علامہ کی گفتگو کا سعودی حکمران پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ نہ صرف انہوں نے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دیدی بلکہ ہمیشہ کیلئے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو سلطنت عریبیہ سعودیہ کے انتہائی قریبی دوست کی حیثیت میں منتخب کر لیا۔ آج ملت اسلامیہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ جو گہرے بردرانہ مراسم ہیں وہ اسی وقت سے چلے آ رہے ہیں‘ ہم میں سے کتنوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ اس کا سارا کریڈٹ علامہ اسد کو جاتا ہے۔ (نوائے وقت 27 اگست 1982ئ)
محمد اسدآسٹریا کے ایک یہودی خاندان میں 1900ء میں پیدا ہوئے۔ انکے دادا یہودی عالم (ربی) تھے۔ محمد اسد کا اصل نام لپوپولڈ وائس تھا۔ 1922ء سے1925ء تک لپوپولڈ، جرمن اخبارات کے نمائندے کے طور پر مصر، اردن، شام، ترکی، فلسطین، عراق، ایران، وسط ایشیا، افغانستان اور روس کی سیاحت کر چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تمدن کو قریب سے دیکھا اور اسلام کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں انہوں نے برلن میں ایک ہندوستانی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد اسد رکھا۔ تقریباً چھ سال جزیرہ نمائے عرب میں رہے۔ انکی موجودگی ہی میں سعودی عرب کی مملکت قائم ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود سے انکے ذاتی تعلقات تھے۔ وہیں انہوں نے ایک عرب خاتون سے شادی کی جس سے طلال اسد پیدا ہوئے۔ 1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے۔ ان کا قیام امرتسر، لاہور، سری نگر دہلی اور حیدر آباد دکن میں رہا۔ علامہ اقبال سے انہوں نے مجوزہ مملکت پاکستان کے قوانین کے متعلق طویل نشستیں کیں۔ اقبال کے زیر اثر ہی انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈ‘‘ لکھی پھر ’’عرفات‘‘ کے نام سے انگریزی رسالہ نکالا جس کے دس پرچے شائع ہوئے۔ صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ شروع کیا۔ پانچ حصے شائع ہو چکے تھے کہ جرمن شہری ہونے کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو رہائی ملی۔
پاکستان بنا تو لیاقت علی خان نے انہیں وزارت خارجہ میں مشرقِ وسطی کے امور کا انچارج مقرر کر دیا۔ سب سے پہلا پاکستانی پاسپورٹ انہی کو جاری کیا گیا، پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں سفیر مقرر ہوئے تو محمد اسد انکے نائب کے طور پر تعینات کئے گئے ۔ سر ظفر اللہ اس وقت وزیر خارجہ تھے۔ محمد اسد مسلمان ملکوں کے سفیروں میں حد درجہ مقبول تھے۔ عربی پر ان کا عبور اور وحدتِ اسلامی کا جذبہ انہیں ہر کام میں غیر معمولی کامیابی عطا کرتا لیکن پطرس بخاری ایک خود پسند اور متکبر شخص تھے۔ محمد اسد کی کامیابی انہیں ایک آنکھ نہ بھائی رہی سہی کسر سر ظفر اللہ خان نے پوری کر دی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ محمد اسد نے پاکستانی حکومت کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔
یہ پچاس کی دہائی تھی۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی وہ کتاب تصنیف کی جس نے انہیں شہرت کے آسمان پر پہنچایا۔ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ (شاہراہ مکہ) میں انہوں نے اپنا جسمانی اور روحانی سفر تفصیل سے بیان کیا۔ یہ کتاب دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے، بار بار شائع ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے کتنے ہی لوگ اسے پڑھ کر مسلمان ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
1982
ء (یا 1984ئ) میں صدر ضیاء الحق نے انہیں اسلامی قوانین کے متعلق مشاورت کے ضمن میں پاکستان بلایا۔ وہ انٹر کانٹیننٹل ہوٹل راولپنڈی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ کالم نگار بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ دیر انکے ساتھ رہا۔ افسوس! گفتگو کے نوٹس نہ لئے۔ آج کچھ یاد نہیں کہ کیا گفتگو ہوئی!
سن انیس سو بیاسی میں ان کا قرآن پاک کا ترجمہ
The Message of Qurran
شائع ہوا آج دنیا بھر میں یہ ترجمہ مقبول ہے۔ انیس سال محمد اسد مراکش کے شہر طنجہ میں رہے۔ 1992ء میں وہ جنوبی ہسپانیہ (اندلس) کے شہر ملاقہ میں تھے کہ ان کی وفات ہو گئی۔ وہ غرناطہ میں مسلمانوں کے قبرستان میں مدفون ہیں!
میں گذشتہ پانچ ماہ سے آسٹریلیا میں تھا۔ وہیں معلوم ہوا کہ معروف محقق اور دانشور محمد اکرام چغتائی نے محمد اسد پر اپنی کئی سالہ تحقیق کے نتیجے میں چار کتابیں لکھی ہیں جو چھپ گئی ہیں۔ برادر عزیز پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی (صدر شعبہ فارسی پنجاب یونیوسٹی) کی معرفت چغتائی صاحب سے رابطہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے پنجاب یونیورسٹی ہی میں ان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کمال شفقت سے یہ کتابیں عنایت کیں۔ ’’محمد اسد: ایک یورپین بدوی‘‘ اور ’’بندہء صحرائی‘‘ اردو میں ہیں۔
Mohammad Asad: Europe's Gift to Islam
انگریزی میں دو جلدوں میں ہے‘ ان چار کتابوں میں اکرام چغتائی نے کوشش کی ہے کہ محمد اسد کے بارے میں جو کچھ وہ حاصل کر سکے ہیں سما جائے۔ محمد اسد کے اپنے مضامین کے علاوہ ابو الحسن ندوی، سید سلیمان ندوی، محمد اسحاق بھٹی، انگریزی زبان کے معروف صحافی خالد احمد، مریم جمیلہ اور دیگر مشاہیر نے جو کچھ محمداسد کے بارے میں لکھا، وہ بھی ان تصانیف میں موجود ہے۔
علامہ اسد، اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے…؎
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی، نہ صفاہاں، نہ سمر قند
ان کا کوئی وطن نہ تھا اور سارا عالم اسلام ان کا وطن تھا لیکن پاکستان سے انہیں خصوصی محبت تھی اور ایک قلبی تعلق تھا۔ ان کی بیوی پولا حمیدہ اسد کے الفاظ میں:
’’ انہیں پاکستان دل و جان سے عزیز تھا۔ وہ تصور پاکستان سے محبت کرتے تھے حالانکہ اس ملک نے انکے ساتھ معاندانہ رویہ اپنایا لیکن وہ کبھی اس طرز سلوک کے شاکی نہ رہے۔ وہ پاکستان کے پہلے شہری تھے اور آخری عمر تک انہوں نے پاکستان کے ساتھ اس گہرے تعلق کو قائم و دائم رکھا‘‘۔
پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کر چکے ہیں! کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ ا ور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسد کے نام کر دیا جائے؟ اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو آج ہی وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستانی کے نام الگ الگ خط میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے ’’جمہوریت پسند‘‘ حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ ’’محمد اسد؟ کون محمد اسد؟‘‘
http://columns.izharulhaq.net/2010_10_01_archive.html
“