محمد علیم اسماعیل ایک نبض شناس قلمکار ہیں۔جنھوں نے قلیل مدت میں اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔وہ نئی نسل کے نمائندہ لکھنے والوں میں سے ہیں۔ان کی تحریریں ہند پاک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔’’الجھن‘‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔جس میں 60 افسانچے اور 13 افسانے شامل ہیں۔زیر نظر کتاب ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہے۔محمد علیم اسماعیل مہاراشٹر کے ایک مقام ناندورہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں افسانہ و افسانچہ نگاری کے لیے ماحول میسر نہیں۔بلاشبہ وہ ناندورہ کے پہلے افسانچہ نگار ہیں۔جب انھیں لکھنے لکھانے کا شوق ہوا تو انھوں نے سوشل میڈیا پر سینئر ادیبوں سے رابطہ قائم کیا۔اور ان سے افسانہ و افسانچہ نگاری کے گر سیکھے۔افسانچہ نگاری میں ڈاکٹر ایم۔اے۔حق ان کے استاد ہیں۔اس کے علاوہ سلام بن رزاق،محمد بشیر مالیرکوٹلوی،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری،معین الدین عثمانی،نورالحسنین، ڈاکٹر عظیم راہی،ڈاکٹر شاہد جمیل وغیرہ ادیبوں سے وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔اور ان سے فن کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔موصوف اعلی تعلیم یافتہ،گورنمنٹ اردو اسکول میں پرائمری ٹیچر ہیں۔ ایم۔اے،بی۔ایڈ،اردو میں نیٹ اور سیٹ امتحانات کوالیفائی ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں ڈاکٹر ایم۔اے۔حق،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری،معین الدین عثمانی،قدرت ناظم اور اعجاز پروانہ ناندوروی کے دو/تین صفحات پر مشتمل مضامین شامل ہیں۔’’سخن قلب‘‘ میں فاضل افسانہ نگار نے بہترین زبان و بیان کا استعمال کر کے افسانچہ اور افسانہ کے متعلق جو گفتگو کی ہے وہ قابل تعریف ہیں۔انھوں نے کہانی اور افسانے پر بھی اچھی بحث کی ہے۔
اہل ادب جانتے ہیں کہ افسانچہ و افسانہ تحریر کرنا منہ کا کھیل نہیں۔یہ ایک فن ہے۔جس کے لیے فنکاری چاہیے۔پروفیسر طارق چھتاری لکھتے ہیں:
’’مختصر ترین افسانے لکھنا بہت مشکل کام ہے۔بڑی فنکاری چاہیے۔آپ اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
ندامت،حق بات،غلط فہمی،عقل،اختیار،عمل،شرمندگی،جانور،نظریہ،مستقبل، خاموش دھماکہ،افسوس،ذمہ داری،سردرد،شرط،سوال،شکایت،فکر،تبدیلی،کامیابی،
یہ کیسے۔۔۔،لڑائی،مسیحائی وغیرہ ایسے افسانچے ہیں جنھیں ایک سے زائد بار پڑھنے پر بھی وہی لطف آتا ہے۔کتاب میں شامل سبھی افسانچوں سے طمانچوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔
کتاب میں شامل افسانچے نہ اقوال ہیں،نہ لطیفے ہیں، نہ فقرے ہیں نہ خبریں ہیں یہ افسانچے ہی ہیں۔ ڈاکٹر ایم۔اے۔حق لکھتے ہیں:’’زیر نظر مجموعہ’الجھن‘ میں ان کے افسانچے اس صنف کے شرائط پر کھرے اترتے ہیں۔‘‘
اختتام پر قاری کو چونکا دینا اور سوچنے پر مجبور کر دینا زیر نظر کتاب کے افسانچوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔جس میں سماجی مسائل پر طنز ہے۔ مسائل پر طنز کرنے کا مقصد ان کی اصلاح کرنا ہے۔بیش تر افسانچوں میں سسپینس ہے، تجسس ہے جو اختتام پر ایک دھماکے کے ساتھ کھلتا ہے۔
ناول نگار سلمان عبدالصمد لکھتے ہیں:’’آپ کے چند سطری چند افسانچے اس قدر دل چسپ ہیں کہ انھیں بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔سچ یہ ہے کہ میں نے کئی ایک افسانچوں کو کئی ایک بار پڑھا۔میرا ماننا ہے کہ وہی افسانچے کامیاب ہوسکتے ہیں۔جن کی قرات کے دوران قاری کو کسی بھی لمحے بوجھل پن کا احساس نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی فلسفیانہ نکتے پر اٹکے،بلکہ اختتام کے بعد از خودایسی فلسفیانہ فضا قائم ہو جائے کہ قاری ضرور چند سیکنڈ ٹھہر کر اس فلسفیانہ نکتے پر غور وفکر کرے۔آپ کے بیش تر افسانچے اختتام کے بعد سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔افسانچوں کے ذریعہ نئی نسل کی نمائندگی کے لیے مبارکباد۔‘‘
افسانچہ لکھنا بظاہر جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا آسان نہیں۔کامیاب افسانچہ نگاری کے لیے چابکدستی اور تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں شامل افسانچے کسی پٹاخے کی طرح پھٹتے ہیں اور قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔کامران غنی صباؔ کے الفاظ میں:’’علیم اسماعیل کی اکثر کہانیاں چونکانے والی ہیں۔بعض کہانیاں صرف چند سطروں پر مشتمل ہیں لیکن قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔‘‘
ہمیں ضرورت ایسے ادب کی جو لطف اندوزی کے پیرائے میں اخلاقی درس دے۔اور کہانی سے ہمیشہ یہی کام لیا جاتاہے۔بشرطیکہ کہانی دلچسپ ہو اور اس میں بوریت نہ ہو۔ماہنامہ بچوں کا ھلا،رامپور کی مدیرہ سنبلہ کوکب صالحاتی فرماتی ہیں:’’جیسے ہی فرصت ملی الجھن کو پڑھا۔مکمل تو نہ پڑھ سکی مگر جتنا بھی پڑھا،الفاظ نہیں ہیں تعریف کے لئے حقیقت سے قریب تر،بہت قریب واہ!!! بہت لطف آیا۔‘‘
اس کتاب کی منفرد خوبی یہ ہے کہ اس میں افسانچے پہلے دیے گئے ہیں، افسانے بعد میں۔اور افسانچے اتنے دلچسپ ہے کہ جو کوئی بھی ایک دو افسانچے پڑھے گا وہ پوری کتاب پڑھے بنا نہیں رہے گا۔
زیرنظر کتاب میں’’الجھن،انتظار،خطا،خوف ارواح،شوکت پہ زوال،قربان،تاک جھانک،خیالی دنیا،مٹھا،اشک پشیمانی کے،وفا،پریشانی،کرب‘‘افسانے شامل ہیں۔جن کے موضوعات میں جدت و ندرت،روایت و جدیدیت کا امتزاج ہے۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری لکھتے ہیں:’’علیم اسماعیل کے زیادہ تر افسانچے اور افسانے سماجی مسائل کا عکس ہیں،جو ان کی امنگیں ہیں،اصلاح کا جذبہ ہے اور کچھ نیا کرنے کی دھن ہے۔‘‘ درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے محمد علیم اسماعیل کے افسانوں میں تعلیمی مسائل ابھر کر آئے ہیں۔ انتظار، تاک جھانک، مٹھا، تعلیمی مسائل پر منحصر افسانے ہیں۔ افسانہ’’الجھن‘‘میں دو بھائیوں کا مضبوط بندھن نفسانیت کا شکار ہو جاتاہے۔اور کہانی کا اختتام قاری کو چونکا دیتا ہے۔ افسانہ ’’انتظار‘‘ نان گرانٹ اسکول پر کام کررہے ایک ٹیچر کی درد بھری کہانی ہے۔یہ مسئلہ مہاراشٹر میں ناسور بن گیا ہے۔اس کہانی کے متعلق سلام بن رزاق فرماتے ہیں: تمہاری کہانی ’’انتظار‘‘ پڑھی، کہانی مجھے اچھی لگی۔تم نے ایک ٹیچر کے کرب کو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک ٹیچر ہی کر سکتا ہے۔ افسانہ ’’خطا‘‘ وقتی فائدے کے لیے کسی کے جذبات سے کھیلنے اور اس کو صرف استعمال کرنے کا عبرتناک المیہ ہے۔ افسانہ ’’خوف ارواح‘‘ میں ایک بھائی کی اپنی بہن سے والہانہ محبت کو دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں منظر نگاری کمال کی ہے۔تمام منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ایک بھائی ہے جسے بھوتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔اس نے سن رکھا ہے کہ خود کشی کے بعد مرنے والوں کی روح بھوت بن جاتی ہے۔اور گاؤں میں موجود قدیم پیپل کے درخت کے ارد گرد بھٹکتی رہتی ہے۔پھر اس کی بہن کی خود کشی سے موت ہو جاتی ہے۔اور وہ پیپل کے درخت کے پاس بہن کے بھوت سے ملنے چلا جاتا ہے۔ ’’شوکت پہ زوال‘‘موجودہ سیاسی ماحول کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے۔ووٹ کی خرید و فروخت،نیتاؤں کی جملے بازی،بھڑکاؤ بیان بازی،پھوٹ ڈالوحکومت کرو اوربے قصورمسلمانوں کوجھوٹے الزامات میں پھنسانا افسانے کا مرکزی خیال ہے۔ افسانہ’’قربان‘‘ گھروں میں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے فرق آمیز برتاؤ اور بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دینے کی کہانی ہے۔ افسانہ’’تاک جھانک‘‘نئے بستے کی چاہت میں ایک غریب بچے کی دم توڑتی امیدوں کی کہانی ہے۔ افسانہ’’خیالی دنیا‘‘حقیقی دنیا سے پرے سوشل میڈیا کی خیالی دنیا میں کھو جانے والے لڑکوں کی کہانی ہے۔ افسانہ’’مٹھا‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ طلبہ کے ساتھ ٹیچر کا غلط رویہ کس طرح طلبہ کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ افسانہ’’اشک پشیمانی کے‘‘میں ایک سبق آموز واقعہ کے ذریعےضرورت مندوں کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ افسانہ’’پریشانی‘‘میں بیٹی کی شادی کا مسئلہ پیش ہوا ہے۔ افسانہ’’وفا‘‘ اور’’ کرب‘‘ میں ماں باپ کے ساتھ بیٹے اور بہو کے برے برتاؤ کو بتایا گیا ہے۔
’’تاثرات‘‘میں وسیم عقیل شاہ ممبئی،پروفیسر مبین نذیر مالیگاؤں،عقیلہ دہلی،تنویر کوثر یو۔پی اور ایازالدین اشہر کے مختصر تاثرات ہیں۔ آخر میں مصنف کے شخصی کوائف دیے گئے ہیں۔زبان کہیں ادبی تو کہیں عام بول چال کی ہے۔عام قاری بھی اس کتاب کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔بیان میں روانی ہےجو کہیں ٹھہرنے نہیں دیتی۔مکالمے،منظر نگاری،موضوعات،آغاز و اختتام سب کچھ بہترین ہے۔ایسالگتا نہیں کہ یہ موصوف کا پہلا مجموعہ ہے۔کچھ پروف ریڈنگ اور ٹائپنگ کی غلطیاں بھی پائی گئی ہیں۔سرورق نہایت ہی پر کشش اور جاذب نظر ہے۔کاغذ اور طباعت بھی اچھے ہیں۔کتاب کی چھپائی نورانی آفسیٹ پریس مالیگاؤں سے کی گئی ہے۔کتاب کی ضخامت 128 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 150 روپے ہیں لیکن 40 فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ کتاب محض 65 روپے میں مل رہی ہے۔جس کی وجہ سے عام قاری بھی کتاب کو بآسانی حاصل کرسکتا ہے۔کتاب کی پی۔ڈی۔ایف فائل محمد علیم اسماعیل کے ادبی بلاک پر دستیاب ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ کتاب ملک و بیرون کی مختلف ویب سائٹس پر بھی شائع ہوئی ہے۔
“