میں چاہوں تو کتابِ آروز کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں ..
– میں نے پوچھا ، اس سے کیا ہوگا ..
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی .. اللہ تعالیٰ نفرت کی بادشاہت کو اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد محبت کی بادشاہت قائم ہوگی .
ممکن ہے .. اس کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں .. حیرت ، جستجو اور کھوج..زندگی کی ماہیت اور حقیقت کو سمجھنے کے لئے دشت وصحرا میں نکلتا ہوں تو آگ کا دریا کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے ..
وہی آگ کا دریا ..
اس کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ تھی .. میں نے سنگم لکھا .. ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے . سنگم نہ ہو تو ڈوبنا ابھرنا کیا ..
میں نے پوچھ ..کہا گیا کہ آپ پر کائناتی صدائیں اس وقت منکشف ہوئیں جب آپ نے پطرس کو پڑھا . اور آپ انشایہ نگاروں کے چنگل میں پھنس گئے .
–تم نہیں سمجھو گے .میں اس وقت غالب کو دیکھ رہا ہوں. غالب کی ہستی بھی کشف سے گزری ۔ یورپ کا ادب زیادہ تر خارجی ، ہمارا ادب زیادہ تر داخلی ۔ شیکسپیئر بھی سامنے آئینہ رکھتا ہے ، غالب خود اپنے سامنے آئینہ رکھتا ہے ۔ غالب کی فطرت میں بھی لیئر اور اس کا فول ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ اگر ایک کو الگ کر دیا جائے تو دوسرا بے معنی ہو جاتا ہے ۔..جسم اور روح .. مجھے مظاہر فطرت نے شداد کے جنت کی سیر کرایی . اودھ کسی جنت سے کم ہے کیا ..
اب سایہ گم تھا .
سب سے پہلے میں نے محمد احسن فاروقی کا پطرس پر مضمون پڑھا اور ان کا عاشق ہو گیا . دیکھئے ، وہ پطرس کو لے کر کتنی دلچسپ باتیں کرتے ہیں .. ایک مخصوص اپنے پر ہنسانے والی ہستی دکھائی دی۔ اس نے اپنے تئیں دکھایا۔ والله کیا آدمی ہے ہمیں جیسا ہے بالکل ہمارا ساتھی ہمزاد۔ اور اس نے کتے دکھائے۔ عجیب حالات کے کتے… دیکھئے وہ دروازے پر گلی میں کتے بھونک رہے ہیں۔ آس۔ آس۔ یہ کیا ہوا۔ یہ سب پطرس کے کتے ہوگئے۔ جو کتا دکھائی دیتا ہے وہ پطرس کا کتا ہے ہم پطرس ہیں وہ ہمارا کتا ہے۔ یہ جادو ہے۔ ہمارا نقطہٴ نظر ہی بدل گیا۔ اسے ہیومر کہتے ہیں اردو کا کوئی لفظ اس لفظ کے معنی نہیں ادا کرسکتا۔اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا… ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جاکر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے… تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کے بھاگے ہیں۔
وہ کتابوں کا عاشق تھا . مگر تھا ، اپنے وقت کا دلچسپ کردار .کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا . مغرب کا مطالعہ خوب کیا اور اپنے ناولوں میں نئے رنگ بھرنے کی بھی کوشش کی . وہ سب سے زیادہ خود کے بارے میں گفتگو کر سکتا تھا .پھر ایک اور دلچسپ بات ہوئی . کالج کے دن تھے . عینی آپا کا ناول آگ کا دریا پڑھا . سر سے گزر گیا . کالج لائبریری میں احسن فاروقی کا ایک ناول تھا ، سنگم . میں نے پڑھنا شروع کیا . ان دنوں میں ایک بات ضرور کہتا تھا ، احسن فاروقی سے بہتر کوئی لکھ نہیں سکتا . عینی آپا کو لکھنے کا سلیقہ احسن فاروقی سے سیکھنا چاہیے . وقت پرواز گیا .فکر میں تبدیلی آ گیی . مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ احسن فاروقی آئینہ کے سامنے کھڑے ہیں . اور خود کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں .
نرگسیت ، سوچتا ہوں تو ادب کے بحر ذخار سے کیی چہرے ابھرتے ہیں .سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق نرگسیت(Narcissism) میں مبتلا افراد اپنی ہی محبت کا شکار ہو جاتا ہے۔ آئینہ میں ایک شکل بنتی ہے . شہزادہ مسکراتا ہے اور اپنی ہی صورت پر نثار ہو جاتا ہے .پھر شہزادہ یا یونانی دیوتا نارسس کا تصور ابھرتا ہے . ایک انتہائی خوبصورت نوجوان. اور اس کو کوئی بھی عورت پسند نہیں آتی تھی .لیکن ایک دن کمال ہوا . اس نے ایک شفاف پانی میں اپنا عکس دیکھا ، اپنی محبت میں گرفتار ہو گیا ، خوشی اس قدر ہوئی کہ نم آنکھوں سے آنسو کا قطرہ گرا وہاں نرگس کا پھول کھل گیا .
.احسن فاروقی نرگسیت کا شکار تھے . ناول کو قصّوں سے زیادہ تسلیم نہیں کرتے تھے . انہوں نے اپنے ارد گرد ایک حصار کھینچ رکھا تھا . وہ اس حصار سے آخر تک باہر نہیں آئے . ان کے ناولوں کے موضوعات اہم تھے مگر ان کی ذہنیت پر مذھب کا غلبہ شدید تھا . ناول میں قصّوں کو تلاش کرنا برایی نہیں ہے . مگر ناول صرف قصّہ نہیں ہے . داستان اور مثنویوں میں بھی قصّہ ہوتا ہے . وہ ناسٹیلجیا کے بھی شکار تھے . اس زمانہ کا محبوب موضوع تھا ، تھذیب و ثقافت کو محفوظ رکھنا . شاید اس وقت کے بیشتر فنکاروں کو یہ احساس تھا کہ فرنگیوں کی تھذیب کا اثر ان کی تھذیب پر ہوگا . احسن فاروقی بھی اسی ڈگر کے مسافر نکلے . احسن فاروقی نومبر 1913 کو قیصر باغ لکھنو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ”رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات“ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا . پاکستان ہجرت کرنے کے بعد بھی گمشدہ لکھنو کی یادیں ان کے ذہن و دماغ میں تازہ رہیں .۔ان کا افسانوں کا مجموعہ رسم اشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا. ان کے ناولوں میں لکھنو کی تہذیب کی جھلک خاص طور پر نظر آتی ہے . شام اودھ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ عینی آپا سے متاثر تھے . شام اودھ میں تاریخ کے زریں صفحات بھی جگمگاتے ہیں گو یہ ایک رومانی ناول ہے . اور لکھنوی تہذیب کا ہر عکس اس ناول میں بخوبی موجود ہے .محمد احسن فاروقی کے نمائندہ دو ناول ہیں۔شام اودھ‘ اور سنگم.. شام اودھ 1948 میں شایع ہوا .
ماضی میں لوٹتا ہوں تو انکی کہانیوں کے مسلم کردار میرے ذہن و دماغ پر حاوی ہو جاتے ہیں . اقبال کا مرد مومن بہت حد تک میری سمجھ میں آتا ہے ، لیکن انکے ، محمود غزنوی جیسے کردار لا علمی کی حد تک مجھے مایوس کرتے ہیں . ناول سنگم کے بارے میں پروفیسر ریاض صدیقی کا یہ بیان دیکھئے — سنگم میں تاریخ کی شروعات ایک مسلمان کردار سے ہوتی ہے جو دراصل محمود غزنوی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کردار ”آگ کا دریا’‘کی طرح ہر دور میں پیدا ہوتا ہے۔کردار، مکالموں اور منظر کی وساطت سے ناول نگار نے اس دور کے جاگیردار حکمرانوں کے نکتہ نظر کو اپنی دانست میں سند عطا کی ہے اور یہ ثابت کرنے پر سارا زور لگا دیا ہے کہ ہندوستان آنے اور بس جانے کے باوجود مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان کوئی تہذیبی سنگم نہیں بنا اور انھوں نے اپنی جداگانہ قومیت کی پہچان کا دفاع کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی تاریخ ایک سمت کی طرف مڑتی چلی گئی جس کا انجام برصغیر کی تقسیم تھا۔ اس بیانیہ میں انھوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کے سیاسی و اقتصادی کردار کو حوالہ نہیں بنایا بلکہ اپنے اس نکتہ کے حوالے سے وہ بڑی حد تک پاکستان میں از سرِ نو بنائی جانے والی جماعتِ اسلامی سے بہت قریب نظر آتے ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ”اسلام ختم نہیں ہو سکتا، یقیناً ایک آفاقی حقیقت ہے۔ بشرطیکہ اس جملے میں لفظ انسان کی جگہ مسلمان کو وہ لاتے۔ مگر اس سے وہ جو مراد لیتے ہیں، کس منطق کی رو سے مانا جائے کیونکہ کوئی ایک مسلمان ملک اسلام کا اجارہ دار نہیں ہے۔ مشرق کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمان پھیلے ہوئے ہیں۔دنیا میں عیسائیوں کی کل آبادی کے بعد آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے زیادہ ہے۔ وہ اب تک پکے اور سخت قسم کے مسلمان ہیں۔۔
وہ پکے اور سخت قسم کے مسلمان تھے . عینی آپا کے یہاں شدت پسندی نہیں ہے . وہ آزاد اور سیکولر خیالات کی مالک ہیں . سنگم ، آگ کے دریا کے جواب میں لکھا گیا مگر احسن فاروقی کے دماغ پر مسلمان حاوی رہا . اس لئے بھی سنگم کے حصّے میں وہ بلندی نہیں ایی جو آگ کا دریا کے حصّے میں آیی .
اردو تہذیب میں شروع سے ہی محبت رنگ گھلے ہوئے ہیں— زمانہ قدیم سے ہی اس زبان نے گنگا جمنی تہذیب کی آبیاری کی ہے— صوفی سنتوں نے اس ملک میں محبت کے تخم بوئے۔ خلوص کے پودھے لگائے۔ بھائی چارگی اور حب الوطنی کے پانی کا چھڑکاو کیا— نظیر نے ہولی، دیوالی پر محبت بھرے گیت گائے۔ انشائ اللہ خاں انشائ نے پہلی ہندی کہانی لکھی۔ اور پہلی اردو کہانی کے لیے پریم چند کے سر سہرا بندھا۔ مثنویات، داستانیں ناول، کہانیاں، طنز ومزاح اور گمشدہ تہذیبوں کی جھلک. ایک تہذیب گم ہوتی ہے اور دوسری تہذیب آجاتی ہے۔ ہر نفس نومی شود دنیا وما— اس ناول میں ان تہذیبوں کا ذکر ہے ، اب جس کی یاد ہی باقی بچی ہے۔ نہ وہ دلی کی تہذیب باقی نہ لکھنوکی— آہستہ آہستہ وہ لوگ بھی رخصت ہوگئے جن کے ساتھ تہذیبوں کی یہ کہانیاں زندہ تھیں— لیکن یہ تہذیبیں کتابوں اور ناولوں میں محفوظ ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ لکھنو ایک انتہائی دل فریب اور گراں قدر تہذیب کا کبھی حصّہ رہا تھا . تھا۔ اس تہذیب کی تخلیق میں لکھنو کے نوابین، روسا وامرائ، امیر وغریب، عالم وجاہل، ہندو مسلم، شاعر وصوفی،رشی و سادھو، تاجرو فقیر، سپاہی اور شہری، مرد وزن سب ہی کا ہاتھ تھا۔ دو پلی ٹوپیوں، شربتی انگرکھوں، چوڑی دار پاجاموں، بڑے بڑے ریشمی رومالوں، ململ اور ریشم کے کڑھے ہوئے کرتوں، سلمے ستارے کی رضائیوں، مخمل کے لحافوں اور چاندی کے بکلس دار یا سنہری مقیشی زرد زرد مخملی جوتوں کی کہانیاں آج بھی گمشدہ لکھنو ¿ کی یاد دلاتی ہیں . یہ تمام رنگ شام اودھ میں موجود ہیں . پلاو ، خاصگی، متنجن، مزعفر، شیر مال، پراٹھے، کباب، قورمہ، ورقی بالائی اورانواع واقسام کے لذیذ ترین کھانوں کے لئے لکھنو کا کوئی ثانی نہ تھا .۔ گفتار وتکلم اور صحتِ زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا . حویلیوں کے اندر روشنی، رنگینی، لطافت ونزاکت کی چہل پہل میں لونڈیوں، باندیوں، ماماں، اصیلوں، مغلانیوں، کھلائیوں، استانیوں، کہانیاں کہنے والیوں اور بہت سی دوسری خدمت کرنے والی موجود رہتی تھیں . محل سراءمیں خدمت گاروں، رکاب داروں، فراشوں، سپاہیوں، مصاحبوں، داستان گویوں، منشیوں، ضلعداروں، کارندوں کا مجمع ہوتا تھا .سیروتفریح کے ہنگام، پتنگ بازی، مرغ بازی، بیٹر بازی وغیرہ کے شوقین حضرات کی کمی نہیں تھی . معاشرے میں مہذب تعلیم یافتہ اور اعلی پایے کی طوائفوں کوخاص اہمیت حاصل تھی . شام اودھ نے اودھ کی شاموں کو گلزار بنا دیا ، مگر وہ کثر باقی رہ گیی کہ ناول وقت کے ساتھ گمنامی کا شکار ہو گیا .
ناول میں کی مقام ایسے آتے ہیں جہاں احسن فاروقی شرر کے ناولوں سے متاثر نظر آتے ہیں . کہانی میں نیاپن نہیں ہے مگر اس کے باوجود کہانی میں رفتار ضرور ہے جو قاری کو گراں نہیں گزرتی . ایک بڑے نواب ہیں . ان کی پوتی کا نام انجمن آرا ہے . انجمن آرا کی شادی نواب منصور علی خان کے بیٹے سے ہو جاتی ہے . انجمن آرا نے عشق کی فصیلوں پر نیا نیا قدم رکھا ہے . اور وہ ایک نوجوان حیدر نواب سے عشق کرتی ہے . خود انجمن آرا کے باپ بھی یہی چاہتے ہیں مگر کسی کو بھی بڑے نواب کے سامنے منہ کھولنے کی ہمت نہیں . کہانی میں ڈرامایی موڑ تو آتے ہیں لیکن احسن فاروقی تجسس جگانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں . یہ بات پہلے ہی کھل جاتی ہے کہ بڑے نواب کا غصّہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہیگا اور ان کو آخر میں اپنے بیٹے اور پوتی کے سامنے جھک جانا ہوگا .بڑے نواب اکثر اپنی کنیز کے سامنے بھی خاموش ہو جاتے ہیں . اس ناول کے تصادم ، ڈرامہ کشمکش کی اصل جان نو بہار کنیز ہے .نو بہار ، حیدر نواب سے بھی عشق کرتی ہے اور اپنے عشق کے برملا اظہار سے گھبراتی بھی نہیں . ناول میں بیشتر مقام ایسے ہیں جہاں نو بہار کا کردار انجمن آرا پر بھاری پڑتا ہے . ناول میں اور بھی کیی کردار ہیں مگر ایسا لگتا ہے جیسے احسن فاروقی کو مشرقی عورت کی پارسایی دکھانے سے زیادہ کسی بات سے مطلب نہیں . گمشدہ لکھنو تو ہے مگر جب قصّہ پرانا ہو تو مطالعہ کا حسن جاتا رہتا ہے . اس زمانے میں احسن فاروقی کو اس بات کا زعم تھا کہ ان سے بہتر ناول کوئی دوسرا نہیں لکھ سکتا . تجربے اور مشاہدے کے ذات کردارکے خارجی پہلوو ں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے . اس سے کردار کی مختلف تفسیریں ابھر کر سامنے آتی ہیں .تاریخ، فلسفہ، نفسیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات و سماجیات، ایک اچھے ناول کو ان تمام راستوں سے گزرنا ہوتا ہے . داستان گویی کا ہنر احسن فاروقی کے پاس ہے مگر قصّوں کو تبدیل شدہ وقت اور معاشرے کے نگار خانہ سے گزارنے کا فن انہیں نہیں آتا تھا .
احسن فاروقی کے بارے میں سوچتا ہوں تو لکھنؤ کی یاد آتی ہے . لکھنؤ آج بھی وہی ہے۔ اور آنے والے پچاس برس بعد بھی وہی رہے گا۔ ہاں آپ کو یہ ہر زمانے میں سننے کو ملے گا کہ لکھنؤ اب پہلے والا لکھنؤ نہیں ہے۔ ہم جس دور میں ہیں، وہاں ہردن زندگی کا مزاج اور معیار دونوں تبدیل ہوتا ہے۔ لکھنؤ کی سب سے بڑی خوبصورتی یہاں کی تہذیب ہے۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ بھی کہاں بدلی۔ یہاں شرافت ہے۔ تہذیب ہے، اخلاق ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ بھی کہیں کچھ نہیں بدلا۔ پرانا لکھنؤ آج بھی وہی ہے۔ گزشتہ لکھنؤ کو یاد کرتے ہوئے شرر بھی یہی کہتے تھے۔ وہ لکھنؤ نہیں رہا۔ لیکن لکھنؤ وہی ہے۔ حضرت گنج سے امین آباد کی گلیوں تک، ٹنڈے کے کباب اور بریانی جیسے لذیذ کھانوں تک اور یہی لکھنؤ احسن فاروقی کی دلچسپیوں کا مرکز رہا . یہ لکھنؤ بار بار ان کی کہانیوں اور ناولوں میں دکھایی دیتا رہا .
میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ مثنوی باغ و بہار ایک ایسی داستان ہے جس کی سحر کاری سے آزاد ہونا مشکل ہے .احسن فاروقی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دوسرے درویش کی یاد تازہ ہو جاتی ہے .دوسرا دویش فارس کا شہزادہ ہے. شہزادہ مذہبی ذہن رکھتا ہے . ایک فقیر سے بصرے کی شہزادی کا ذکر سنتا ہے اور بصرہ روانہ ہو جاتا ہے . شہزادی کو دیکھ کر اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ شہزادی شرط رکھتی ہے وہ قبول کر لیتا ہے۔ احسن نے لکھنؤ کو دل دیا . عشق کر بیٹھے . لفظوں کے موتی لٹائے . فکشن کے درویش کہلائے .نرگسیت کے جادو سے غسل کیا اور یہ کوئی جرم نہیں .. شہزادی یعنی کہانی کو پانے کی جستجو میں خوب گھوڑے دوڑائے .تھذیب کا نشہ بھی تھا .زبان کا لطف بھی ان کے یہاں ہے .
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردم
میں بلا وجہ ہی اپنے محبوب کے کوچہ میں نہیں، جنونِ عشق میں مست اپنے محبوب کے دیدار کیلیے گھومتا ہوں . یہ افسانوں کا کوچہ تھا .وہ آخری دم تک اسی کوچہ کے مسافر رہے .