لفظ نعت عربی زبان سے متعلق ہے اور اس کا مادہ ن ۔ع ۔ت ہے۔نعت فہم و شعور اور ادراک کی معراج ہے ۔نعت حقیقت جمال محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے ۔جب فیضان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دروازہ کھلتا ہے تو نعت ہوتی ہے ۔نعت بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں احساس ممنونیت ہے ۔جب دل کے بنجر کھیت میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ عقیدت و محبت کے جذبوں کی فصل پکتی ہے تو نعت ہوتی ہے ۔جب دل کے آئینے کو جلا ملتی ہے۔شعور جذبوں کی آنچ میں جلنے لگتا ہے تو واردات دل کا بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اظہار ہوتا ہے ۔۔۔ تو نعت ہوتی ہے۔ جب قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادراک حاصل ہوتا ہے تو نعت ہوتی ہے ،جب روز ازل اور مقام کعبہ قوسین کی حقیقتوں کی شناسائی حاصل ہوتی ہے تو نعت ہوتی ہے ۔
جب حدیث قدسی” لولاک لما خلقت الا فلاک ” کا فیضان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے تو نعت ہوتی ہے ۔۔
نعت کا آغاز روز ازل سے ہو گیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کائنات کا سر آغاز ہے ۔ اسم گرامی مدح کے آفاق سمیٹے ہوئے ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح وثنا کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری و ساری رہے گا ۔دنیائے رنگ و بو میں آج تک بے شمار نعت گو شاعر ہو گزرے ہیں جن کے کلام کی تابانی ابد العباد تک جگمگاتی رہے گی ۔
فیصل آباد کی شعری فضا میں نعت کے حوالے سے محمد افضل خاکسار کا نام بہت منفرد اور خاص اہمیت کا حامل ہے محمد افضل خاکسار کا شمار شہر فیصل اباد کے سینیئر شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اصناف سخن میں صنف نعت کو معتبر جانا ۔۔
ڈھونڈتے ہی رہو افضل کو غزل خوانوں میں
وہ تو ایک شخص تھا جو کب کا ہوا واصل نعت
افضل خاکسار کی غزل سے نعت کی طرف مراجعت نے انہیں نعت کی ابدی سرشاری سے نوازا ہے ۔
افضل خاکسار کا پہلا نعتیہ مجموعہ کلام “نوید بخشش” کے نام سے 2007 میں شائع ہوا تھا۔جسے محکمہ مذہبی امور و اوقاف پنجاب کی طرف سے 2008 میں صوبائی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا ۔آپ فارسی ،اردو اور پنجابی کے نعت گو شاعر ہیں ۔
ان کی نعتیہ کتاب “نوید بخشش” پر ڈاکٹر ریاض مجید نے “جذبہ تخلیق کی نعتیہ صورت گری” کے عنوان سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
” افضل خاکسار بھی ہمارے شعراء میں سے ہیں جو پختہ غزل گوئی کے بعد نعت گوئی کی طرف راغب ہوئے ہیں اور نعت کی صنف اقدس کے فیضان کے سبب نعت ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں”۔
محمد افضل خاکسار کا تعلق فیصل آباد شہر نعت سے ہے ۔وہ یکم جنوری 1954ء کو اپنے ابائی گاؤں چک نمبر 364 گ ب بچھوآنہ تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد (لائل پور) میں پیدا ہوئے ۔آپ نے اپنے گاؤں کے صوفی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپ کے والد گرامی رائے محمد اسلم خان پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے ۔ان کی تصنیف “نوری عینکاں”صوفیانہ اشعار سے عبارت ہے ۔
آپ کا گھرانہ خانقاہ گولڑہ شریف کے درینہ اور خاص مریدین میں شمار ہوتا ہے ۔آپ کے جد امجد رائے محمد شیر خان کی نسبت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی سے تھی ۔جب کہ آپ کو اور آپ کے والد گرامی رائے محمد اسلم خان کو پیر سید غلام محی الدین شاہ گیلانی گولڑوی المعروف قبلہ بابو جی کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل ہوا ۔ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ افضل خاکسار کو چھوٹی عمر ہی سے علمی ادبی اور صوفیانہ ماحول میسر رہا ۔جس میں ان کے ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے ۔۔
محمد افضل خاکسار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی رائے محمد افضل خان کی صحبت بزرگانہ میں رہ کر حاصل کی ۔قرآن مجید کا بہ اعماق نظر مطالعہ کیا ۔دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے افضل خاکسار نے گورنمنٹ ہائی سکول جڑانوالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔آپ نے اپنی تعلیم و تربیت کے تمام تر مراحل صوفیا اور دانا بزرگوں کی صحبت میں رہ کر طے کیے ۔
افضل خاکسار کو شاعری وراثت میں ملی آپ کے والد گرامی رائے محمد اسلم خان پنجابی زبان کے صاحب کتاب شاعر تھے۔جن کی علمی صحبت میں رہ کر اپ نے شعر کہنا شروع کیا ۔اس حوالے سے انہوں نے اپنی کتاب “نوید بخشش” میں ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان کیا ہے۔
“والد گرامی مرحوم پنجابی زبان کے قادر الکلام صاحب تصنیف شاعر تھے ۔اور انہیں تصوف اور شاعری سے شفغف تھا جو مجھے ورثے میں ملا ۔اور غالبا ابھی جماعت سوم میں زیر تعلیم تھا کہ قبلہ بابو جی کی خدمت میں اپنے والد گرامی کی حضرت علی کی شان میں کہی ہوئی منقبت پیش کی ۔جسے انہوں نے بہت پسند فرمائی ۔جماعت ہشتم میں پہنچا تو دل میں جذبہ تخلیق شعر نے انگڑائی لی اور یوں میں نے اپنی پہلی نظم تخلیق کی۔جو صاحبزادہ سید نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑوی سے متعلق تھی”۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے شعر کہنا اٹھویں جماعت سے شروع کر دیے تھے ۔جب کہ مکمل اور باقاعدہ ادبی وشعری زندگی کا آغاز لائل پور فیصل اباد میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جانے کے بعد کیا ۔شہر میں کئی ادبی تنظیموں کی سرپرستی کی فضا قائم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ۔
اس حوالے سے افضل خاکسار لکھتے ہیں ۔
“ہر چند کے میں نے ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ علمی و ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ متعدد ادبی تنظیموں کی سرپرستی کی اور اپنے شہر (لائل پور) فیصل آباد میں ادبی فضا قائم رکھنے میں ایک فعال کردار ادا کیا”
محمد افضل خاکسار کی شاعری اقتصادی نہیں بلکہ روحانی اور وجدانی اعتبار سے عطا کی ہے اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ سے کی ہے ۔
“اکابرین نعت کی محبتوں میں رہا ہوں مگر اس کے باوجود میں اپنی نعتیہ شاعری کو کلیتا خانقاہ گولڑہ شریف سے وابستگی کا فیضان سمجھتا ہوں ۔ان کا اپنا ایک شعر ہے
عشق کے گولڑا مکتب سے سند یافتہ ہوں
نسبت مہر علی شاہ سے ہوں فاضل نعت
محمد افضل خاکسار نے فیصل آباد کی شعری فضا میں نعت کی اسالیب میں منفرد احساس و فکر سے آراستہ تجربات سے نئی طرح ڈالی ۔
“نوید بخشش” غزلیہ ہیت میں کہی گئی نعتوں کا مجموعہ ہے ۔جس کے آخر میں سلام و منقبت بھی شامل ہیں ۔افضل خاکسار کی نعت گوئی کا پیرایہ سادہ اور دلکش ہے ۔اور اثر افرینی کے سلسلے میں زبان و بیان اور خصوصا الفاظ کی چناؤ اور شعری دروبست کی بھرپور صفات رکھتا ہے ۔خاکسار کے یہاں نعتوں میں حسن روایت ،عصری میلانات اور مستقبل کی نعت کے امکانات ملتے ہیں ۔عصر حاضر میں فرد اور ملت جس مسائل سے دو چار ہیں اور اس کے تناظر میں جو موضوعات تنوع کے ساتھ تلازمہ نعت ہیں۔ ان کے ادراک وعرفان اور ان کے اظہار و ابلاغ کا پورا سامان ان کی نعتوں میں جمع ہے اور عہد آئندہ میں نعت کا سفر جن جن منازل سے گزر سکتا ہے فنی ، لسانی اور معنوی اعتبار سے جو جو تغیرات شاعر کی بصیرت پر پیشگی وارد ہو سکتے ہیں ۔ان سے افضل خاکسار کی نعت گوئی مملو ہے۔
تصوف کے وسیلے سے باطنی صداقت اور سائنسی انکشافات و اختراعات و ایجادات کے حوالے سے جو حقائق ہمارے عہد میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ ان دونوں کا امتزاج ان کی نعت میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ایک فرد کی داخلیت یعنی ذاتی اور شخصی کیفیات و واردات کے ساتھ ساتھ خارجی سطح پر اجتماعیت یعنی امہ کے مسائل کا اظہار ان کے نعتوں کا قابل فخر سرمایہ ہے ۔اور ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وابستگی اور مرکز رسالت سے استحکام یعنی حاضری و حضوری کی خواہش ،التجا اور دعا ،اور اس دعا کی عجابت کی صورت میں دیار حبیب کے مشاہدات و محسوسات و کیفیات کا تذکرہ اور محبت بھری بات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیغمبر انسانیت کے طور پر پیش کرنے کا عمل تاکہ اقوام عالم اس اسوہ حسنہ سے آشنا ہوں اور اس کا اتباع کریں ۔جس سے عالم انسانیت محبت ،امن اور اسودگی کی جنت ارضی بن سکے ۔
فیصل آباد سے متعلق ممتاز شاعر انجم سلیمی لکھتے ہیں ۔
“محمد افضل خاکسار کا نام شعر و ادب کی دنیا میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے جسے تاریخ ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔
افضل خاکسار غزل کو چھوڑ کر نعت کی طرف راغب ہوئے جس کے پیچھے وجہ یوں تھی کہ ان کا تعلق بچپن ہی سے خانقاہی ماحول سے تھا ۔چونکہ بچپن ہی سے ان کا آنا جانا آستانہ عالیہ گولڑویا شریف میں تھا ۔گولڑا شریف کا ماحول دینی ہونے کے ساتھ ساتھ علمی وادبی بھی ہے حضرت پیر مہر علی شاہ عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی میں خوبصورت اشعار کہتے تھے ان کا نعتیہ کلام آج بھی ملک کے گوشے گوشے میں نہایت محبت اور عقیدت کے ساتھ سنا جاتا ہے ۔اس طرح حضرت پیر غلام محی الدین بھی بہت عمدہ شاعری کرتے تھے ۔ پیر غلام محی الدین نہایت پر درد لہجہ میں شعر کہتے تھے ۔صاحبزادہ غلام نصیر الدین نصیر کو ہمارے ملک کے صف اول کے شعراء میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے انہیں شعری ذوق کی تکمیل کے لیے آستانہ عالیہ گولڑہ شریف کا علمی و ادبی ماحول نصیب ہوا ”
علامہ ضیاء حسین ضیاء اپنے ایک مضمون میں افضل خاکسار کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں ۔
“افضل خاکسار زبان کی باریکی سمجھتے ہیں اور ان کی شاعری میں کلاسیکی مطالعہ پایا جاتا ہے ۔فارسی تراکیب کا استعمال کرتے ہیں ۔۔بیدل کو بہت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے ان کی طرز کا رنگ ان کی شاعری میں جذبہ عشق کوٹ کوٹ کر پایا جاتا ہے ۔ علم عروض پر انہیں مکمل دسترس حاصل ہے’۔
اُس سمت دَست بستہ شریعت چلی گئی
جس سمت مصطفٰی کی طبیعت چلی گئی
افضل خاکسار نے غزل اور نعت کے علاوہ بھی بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔نظموں کی تعداد بہت کم ہے۔ نثر میں صرف تنقیدی مضامین اور تحقیقی مقالہ جات تک ہی محدود ہیں ۔انشائیہ ، ڈرامہ اور ناول انہوں نے بالکل نہیں لکھے ۔سیاسی حوالے سے عام طور پر شاعر سیاست سے سروکار نہیں رکھتا لیکن افضل خاکسار کا کہنا ہے کہ سیاست سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزاری جا سکتی ۔ان کا کہنا ہے کہ میں بنیادی طور پر کسی پارٹی کا رکن نہیں ہوں لیکن قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کے مطابق جو پارٹی بھی کام کرے گی میں بھی دانشور ہونے کے ناطے اس پارٹی سے علیحدہ نہیں رہ سکتا ۔
نعت کی کوئی مخصوص ہیت نہیں ہے۔جو نظم و نثر کی کسی بھی شکل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس سے دلی وابستگی کا نام ہے ۔۔نعت کسی صنف سخن کا نام نہیں یہ تعلق رابطے اور گزارش و احوال کا ایک ذریعہ ہے جس سے معمولی غلام اور بردے آقا دو جہان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اقائے دو جہاں کائنات کرم کا دامن پکڑ کر اپنا رخ متعین کرتے ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عقیدت کے پھول نظم و نثر دونوں میں پیش کیے جا سکتے ہیں ۔اور کیے جاتے رہے ہیں۔ہر وہ کلام جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفت و ثنا بیان کی جائے’ وہ نعت ہے ۔
افضل خاکسار کی نعت یا شاعری میں ان کی فکر کا مرکز و محور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ان کے نزدیک عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر زندگی فضول اور انسان کا دل مردہ ہے ۔دنیا اور اخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی اصل کنجی عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے ۔وہ ایک قادر الکلام نعت گو شاعر ہیں ۔انہوں نے اپنی نعت گوئی کا اغاز غزل کے دور سے گزر کر کیا ۔اس لیے ان کی نعت میں تغزل اور تڑپ کی ایک خاص کیفیت ہے ۔
افضل خاکسار کی شاعری میں فارسی اردو اور عربی الفاظ کی امیزش ایک خوبصورت انداز میں موجود ہے ۔طرز بیان معنویت لیے ہوئے ہے ۔لیکن الفاظ کی سادگی اور اختصار کی وجہ سے سلاست کی خوبی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔انہوں نے اکثر مقامات پر لفظی صناعی کو کم کرتے ہوئے بعض مواقع پر نہایت خوبصورت مضامین کو انتہائی سادگی سے بیان کیا ہے۔
افضل خاکسار ایک طویل عرصے تک فیصل آباد کی ادبی محفلوں کے روحِ رواں رہے..آپ کو حفیظ تائب, محمد افضل فقیر اور ایسی کئی جید شخصیات کی ہمرکابی کا شرف حاصل رہا مگر وہ اپنی تمام شعری صلاحیتوں کو دربار گولڑہ شریف سے حاصل فیض قرار دیتے ہیں۔۔
آپ کو پیر سید نصیرالدین نصیر کا فیض بھی حاصل رہا اور یہ محبت بھرا تعلق پیر صاحب کی وفات تک جاری رہا… پیر صاحب نے افضل ان کے نام ایک غزل اور خطوط بھی اپنی کتاب میں شامل کیے جو اس تعلق کا واضح ثبوت ہیں جبکہ پیر صاحب کی کلیات کی پروف ریڈنگ بھی انہوں نے ہی کی تھی۔
افضل خاکسار بلاشبہ اردو غزل اور نعت کا ایک معتبر حوالہ ہیں.. ان کی شاعری جس کلاسیکیت کی حامل ہے وہ آج کل مفقود ہے.. خاص رکھ رکھاؤ اور استادانہ تلازماتی فضا ان کی شاعری کا خاصہ ہے…
ان کا نعتیہ مجموعہ “ نویدِبخشش “ جو کہ اپریل 2007ء میں آیا اور 2008ء میں گورنر خالد مقبول کے دور میں پنجاب بھر میں سے نعتیہ کتابوں کے مقابلہ میں اوّل صوبائی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا۔ غزلیات کا مجموعہ “ حرفِ آراستہ “ کے عنوان سے ابھی زیرِ طبع ہے۔
ان کی شاعری سے ایک انتخاب پیشِ خدمت ہے
یہ کس ذاتِ صمد کی درگہِ عالی ہے افضل
ہیں جملہ انبیاء چپ بس محمد بولتا ہے
رہا ہے عنصرِ تشکیک بھی یقین کے ساتھ
یہ مسئلہ تو ازل سے ہے ملحدین کے ساتھ
نعت لکھتا ہوں جو مشکل کوئی پیش آتی ہے
مہبطِ وحیِ سکینت ہے مرا محضرِ نعت
یوں اڑا لے مجھے اے شاہسوارِ رحمت
معصیت دیکھتی رہ جائے غبارِ رحمت
عشق کے گولڑہ مکتب سے سند یافتہ ہوں
نسبتِ مہر علی شاہ سے ہوں فاضلِ نعت
ہم نے جدید گوئی کے شوقِ فضول میں
پیدا ہر ایک شعر میں ابہام کرلیا
کس کو بستی میں خبر کون ادھر ٹوٹ گیا
اندر اندر ہی ترا شہر بدر ٹوٹ گیا
آپ بالیں پہ جو آئے بھی تو کس وقت آئے
جب مرا سلسلۂ تارِ نظر ٹوٹ گیا
ٹوٹ جانے کو ہر اک چیز بنی ہے افضلؔ
آفریں! کوئی سلیقے سے اگر ٹوٹ گیا
جنہوں نے موڑ دیے رخ سخن سفینوں کے
ہمی تو ہیں وہ کولمبس نئی زمینوں کے
فکرِ آیندہ خطِ لوحِ جبیں پر رکھ دی
خُوئے تشکیک و گُماں طاقِ یقیں پر رکھ دی
حُسنِ ترتیب سے خالی رہا کمرا میرا
بے خیالی میں کوئی چیز کہیں پر رکھ دی
میرے دل میں ہے میرے خدا ہر خوشی،ڈولتی ڈوبتی
میرے کس کام آئے گی یہ زندگی،ڈولتی ڈوبتی
باتوں باتوں میں حالِ دل اپنا اُسے ہم نے کہہ تو دیا
یہ الگ بات نبضِ تکلّم رہی،ڈولتی ڈوبتی
دشتِ کربل کو چلا قافلۂ گُل بَدَناں
جانبِ شامِ اَلَم صبحِ دل آرائی گئی
تھا نہ معلوم یہ قاتل کو لہو بولے گا
وہ سمجھتا تھا کہ اب بات ہوئی آئی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔