یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں ایک عام طریقہ ہے کہ کسی نے اگر اصول،ضابطوں اور اخلاقیات کی بات کی تو اس درست بات کا ٹھٹا اڑانے اور بے وقعت ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے، یہ تو کتابی باتیں ہیں۔ ایسا کہنے والے دو طرح کے ظلم کرتے ہیں۔ ایک توبھلائی کی بات کو فوراً جھٹلا دیا ، دوسرا یہ ظالم سینکڑوں ، ہزاروں سال کے انسانی تجربات ومشاہدات کا نچوڑ جن کتابوں اور اصولوں میں بیان کیا، اسے یکا یک صفر کر دیتے ہیں ۔ کتابیں ہمیں سکھانے کے لئے ہی لکھی جاتی ہیں اور وہی مہذب معاشرے ترقی کرتے ہیں ، جہاں کتاب، قانون ، قاعدوں کو اہمیت اور فوقیت حاصل ہو۔
اس بنیادی اصول کوہر جگہ استعمال کرنا چاہیے۔ کوئی کام بظاہر پرکشش محسوس ہو، مگر وہ اصول،قاعدوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہو ، تو اسے خاموشی سے تسلیم کرنے کے بجائے چیلنج کریں۔اب یہی عمران خان کا پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والا جملہ لے لیجئے۔ خان صاحب نے اتنا عامیانہ، کمزور جملہ کیوں کہا؟ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ہم لوگ بسا اوقات اپنی نجی محفل میں، بے تکلف دوستوں کے ساتھ گفتگو میں تکلف روا نہیں رکھتے۔بعض غیر پارلیمانی الفاظ اور جملے زبان پر آ جاتے ہیں۔ نجی محفل ہونے کی وجہ سے بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔ جب ہم اپنے گھر میں اہل خانہ کے سامنے یا پھر کسی سنجیدہ محفل میں گفتگو کریں تو کوشش ہوتی ہے کہ ایسے غیر پارلیمانی الفاظ زبان پر نہ آجائےں، عامیانہ جملہ یا ہلکا فقرہ نہ بولا جائے۔ جو لوگ سنجیدہ محفل میں ناشائستہ گفتگو کریں، خواتین اور بچوں کے سامنے گالی بک دیں ، ایسے لوگوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ عمران خان کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے نجی محفل والے غیر محتاط انداز کی جملے بازی جلسہ عام میں کر ڈالی ۔ لعنت بھیجنے والے جملے کی جگہ کئی متبادل فقرے ہوسکتے تھے، نسبتاً کم سخت لفظ، شائستہ انداز میں تنقید ی جملہ ۔ خان صاحب نے دراصل ایک لمحہ رکنے اور اپنے ذہن کو کسی مہذب متبادل لفظ ڈھونڈنے کی زحمت سے دور رکھا۔
عمران خان کی جو چند بنیادی خامیاں پچھلے دو تین برسوں میں نمایاں ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے ۔ وہ بات سلیقے سے کر سکتے ہیں،برطانوی اخبارات میں کالم لکھتے رہے ہیں، ہزاروں ٹی وی ٹاک شوز نمٹاچکے ہیں۔ تھوڑی سی تگ ودو انہیں بہتر انداز بیاں عطا کر سکتی ہے، مگرجلسوں میں تقریر کرتے ہوئے وہ یہ معمولی مشقت اٹھانے کو تیار نہیں۔ دراصل انہیں اس کی پروا نہیں کہ اس قدر سخت اور ڈائریکٹ جملہ بول دینے سے کیا ردعمل آئے گا؟ وہ جانتے ہیں کہ اگر کچھ کارکن اس سے ناخوش ہوں گے تو ایسے بہت سے ہیں جو دیوانہ وار دفاع کریں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے کارکن لیڈر پر چیک رکھتے ہی نہیں، اس کی ہر ادا کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ اس بار سوشل میڈیا پر کئی انصافین حامیوں نے اپنے لیڈر کو ہدف تنقید بنایا، اکثریت کو البتہ اس بار بھی فرق نہیں پڑا۔اس فار گرانٹیڈ رویے کی وجہ ہی سے عمران خان نے اگلے روز معذرت کرنے کے بجائے پریس کانفرنس میں اس کا نہایت دیدہ دلیری سے دفاع کیا۔ ان کا موقف انتہائی کمزور ، استدلال سے عاری اور افسوسناک تھا۔اراکین پارلیمنٹ پر تنقید ہوسکتی ہے، پارلیمنٹ ایک آئینی ادارہ ہے، تنقید سے یہ بالاتر نہیں، مگر اس کی تذلیل اور تضحیک سے کیا حاصل ہوگا؟ کل کو اگر عمران خان اسی پارلیمنٹ میں بطور وزیراعظم براجمان ہوں گے تب انہیں بھی اسی انداز اور الفاظ میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا ردعمل پھر کیا ہوگا؟جو غلط ہے ، اسے غلط ہی کہنا ہوگا۔ اداروں کا احترام کرنے سے سسٹم آگے چلے گا۔ اداروںمیں اصلاحات لائی جائیں، ان میں تطہیر ہو، لیکن لعنت بھیجنا تو زیادتی ہے ۔
سوشل میڈیا ہی پر ایک اور دلیل دی جاتی ہے کہ اگر چہ ہم گالی دے رہے ہیں، نہیں دینی چاہیے، مگر فلاں پارٹی، گروہ یا شخصیت اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ اسی گندی زبان میں بات کی جائے۔ یہ سراسر غلط استدلال ہے۔ بنیادی اخلاقیات اور ضابطے ہمیشہ برقرار رہتے ہیں۔مشرکین مکہ سے زیادہ بدزبان، سخت گیر اورکینہ پرور کونسا گروہ ہوسکتا تھا؟ مخالفت میں وہ گھٹیا ترین سطح پر چلے گئے۔ اس کا جواب مگر کیسے شائستہ انداز میں ہمارے آقا سرکار مد ینہ ﷺ نے دیا۔ ہمیں یہ اسلوب اپنی زندگی کے ہر موقعہ اور ہر میدان میں اپنانا ہوگا۔ ایسے مواقعوں پر ایک اور خوفناک فقرہ کہا جاتا ہے کہ ان سیاسی معاملات میں سیرت طیبہ سے مثال کیوں دی جا رہی ہے ؟ اس فقرے پر حیرت ہوتی ہے۔ سیرت مبارکہ میں پوری زندگی کا رول ماڈل موجود ہے، ہر حوالے سے ہمیں ان روشن ،منور اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے۔
انہی دنوں ایک اور معاملہ جو نمایاں ہوا ہے، وہ جعلی پولیس مقابلے ہیں۔ پنجاب میں ان پولیس مقابلوں کی پرانی روایت ہے۔ سندھ ، خاص کر کراچی میں ایسے جعلی پولیس مقابلوں کا عام رواج ہے۔ پہلے اسلم خان کی صورت میں ایک ہِٹ مین یا دوسرے الفاظ میں سرکاری ٹارگٹ کلر تھا۔آج کے دور کا اہم ترین ہِٹ مین راﺅ انوارہے۔ جسے چاہے ، جعلی پولیس مقابلے میں مار دے اور دہشت گرد قرار دے ڈالے۔ پچھلے کچھ عرصے میں راﺅ انوار نے متعدد لوگوں کو نشانہ بنایا، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے بچے بھی ان میں شامل تھے، سوشل میڈیا پر شور مچا مگر بات پھر دب گئی۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب محسود کے بے گناہ قتل نے البتہ احتجاج کی بڑی لہر اٹھا دی ہے۔بات اس قدر بڑھ گئی ہے کہ راﺅ انوار کو معطل کیا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے چکی ہے،امید کرنی چاہیے کہ دیگر جعلی پولیس مقابلے بھی بے نقاب ہوں گے۔نقیب محسودکے قتل کے حوالے سے محسود قبیلے نے بڑا جرگہ بلایا، پشتون قبائلی اس معاملے میں پیش پیش ہیں، مگر اس کیس کو لسانی یا قبائلی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ مظلومانہ قتل کی تمام طبقات نے مذمت کی ہے۔ظلم اور وحشت کے خلاف یہ اتحاد انسانی بنیاد پر ہے، اسے قائم رہنا چاہیے۔ جعلی مقابلوں کا نشانہ مہاجر نوجوان بن رہے ہیں، وہ بھی اتنا ہی غلط اور تباہ کن ہے، اگر بلوچ ہدف بنیں تب بھی یہ ظلم ہے۔ مولوی ہو یا سیکولر کسی کے خلاف غیر قانونی، ماورائے عدالت آپریشن نہیں ہونا چاہیے۔بہت ہوچکا۔یہ ماورائے عدالت قتل وغارت کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے ۔
نقیب محسود کے حوالے سے معروف بلاگر اور لکھاری فرنود عالم نے بڑی عمدہ فیس بک پوسٹ کی ہے۔ فرنود عالم لکھتے ہیں:”راﺅ انوار کی میڈیا سے اب تک ہونے والی گفتگوسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر ان پولیس مقابلوں کو پولیس کا حق سمجھتے ہیں۔راﺅانوار ہر بار مقتول کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ اس کا دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلق تھا، جواب میں ہم یہ نہیں کہتے کہ ٹھیک ہے ہوگا اس کا کسی نیٹ ورک سے تعلق، مگر اس کی سزا کافیصلہ تم نے کیسے کیا؟بلکہ ہم تو اس سے یہ پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ثابت کرو وہ دہشت گرد تھا۔ یعنی راﺅ انوار نے اگر ٹی وی پر ثابت کردیا تو اس کے ماورائے عدالت اقدامات جائز ہوجائیں گے؟یہ مسئلہ تب بھی پیش آیا تھا جب مشال خان کو ہجوم نے بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس بربریت پر جب رد عمل آیا تو خاصے پڑھے لکھے لوگوں نے کہا"مشال کے ساتھ ہمدردی کرنے سے پہلے تحقیقات تو ہولینے دو"مطلب؟مطلب یہ کہ اگر تحقیقات میں مشال پر الزام درست ثابت ہوگیا تو پھر ہجوم کا اقدام جائز ہوجائے گا۔ملیرسے چلیے اورہائی وے سے ہوتے ہوئے سہراب گوٹھ پہنچ جائیے، اس پوری پٹی پر آپ کو وزیرستان کوئٹہ کے پختون ملیں گے جوکاروبار کر رہے ہیں۔ اس علاقے میں راﺅ انوار کا راج ہے۔ اس کے راج میں رہنے والے یہ کاروباری بارہ سالوں سے پرچیاں وصول کر رہے ہیں اور کروڑوں کے بھتے دے رہے ہیں۔کتنے ہیں، جنہوں نے پرچی کو نظر انداز کیا یا پرچی والے کا تعاقب کیا تو وہ اٹھا لیے گئے۔بعد میں پولیس مقابلے میں یہ کہہ کر مار دیے گئے کہ وہ طالبان کے ساتھی تھے۔ المیہ پھر یہ کہ ان کو طالبان کا ساتھی تسلیم بھی کیا گیا۔اگر آپ وزیر ہوں یا پھر محسود ہوں تو آپ کا ٹی ٹی پی کے لڑاکوں سے کوئی رشتہ نکل ہی آئے گا۔ کیونکہ ٹی ٹی پی کے یہ لڑاکے کسی فیکٹری میں تو نہیں بنے تھے، یہیں پیدا ہوئے تھے۔ انہی رشتہ داریوں اور تعلق داریوں کو بنیاد بنا کر راو انوار نے اغوا کاریاں اور بھتہ گیریاں کیں۔لوگوں نے بھی راﺅ کی دی ہوئی ان بنیادوں کو کہیں نہ کہیں جائز مانا۔ میڈیا جب راو انوار سے ثبوت مانگنے لگا تو دل دھڑکا کہ خدا نخواستہ کوئی جنگجو اس کا عزیز نہ نکل آئے۔ وہ تو خوش قسمتی کہیے کہ نقیب اللہ ہرحوالے سے کلئیر نکلا، لیکن اگر کوئی نسبت راﺅ انوار ڈھونڈ ہی نکالتا تو؟ تو کیا پھر راو انوار کا جرم جرم نہیں رہتا؟اگر ہم چاہتے ہیں کہ راﺅ انوار کی یا کسی بھی حوالدار کی نجی عدالتیں ختم ہوں تو پھر ہمیں اپنے اس رویے پر نظر رکھنی ہوگی !“
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔