کیا ہوگا کے بجائے کیا ہونا چاہیے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی کا مشہور محاورہ ہےthe beginning of the end۔یعنی کسی چیز کاخاتمے کا عمل شروع ہوجانا۔کیمبرج ڈکشنری کے مطابق اس سے مراد وہ پوائنٹ ہے ، جس کے بعد کسی چیز کے بتدریج خراب ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ وہ مکمل طور پر ناکام یا ختم ہوجائے۔ ہماری سیاسی لغت میںرواں ماہ جنوری کے حوالے سے یہی کہا جارہا ہے۔اس مہینے دو اہم واقعات ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ن لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کے خلاف ایسی بغاوت ہوئی، جس نے صوبے کا سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔نواب زہری کے حوالے سے مسلم لیگی ارکان اسمبلی میں خاصی شکایات موجود تھیں، مگر یہ ابال یکایک یوں باہر آئے گا، کسی نے سوچا نہیں تھا۔ اچانک ہی سب کچھ الٹ گیا اور میاں نواز شریف کے معتمد ساتھی ثنااللہ زہری کو مستعفی ہونا پڑا۔ محمود خان اچکزئی جو صوبے میں کنگ میکر بنے ہوئے تھے، اچانک ہی وہ بھی غیر متعلق ہوگئے۔ یہ سب اس قدر تیزرفتاری سے ہوا کہ ن لیگ کی قیادت کی طرح ملک بھر کے مبصرین ، حتیٰ کہ میڈیا کے لوگ بھی مبہوت ہوئے دیکھتے رہ گئے۔
اب مختلف سازشی تھیوریز اور ا ن کہی کہانیاں بیان ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر کھیلا گیا اورمیاں نواز شریف کے جارحانہ سیاسی انداز کی سزا ان کے وزیراعلیٰ کو بھگتنا پڑی۔ اس تھیوری کے قائل کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے کوئٹہ میں محمود اچکزئی کے جلسے میں شرکت کر کے جو سخت لب ولہجہ اپنایا، اس کا بدلہ چند دنوں میں چکا دیا گیا۔ ایک اور تھیوری کے مطابق اس کھیل کے پیچھے آصف زرداری کارفرما تھے۔ انکے قریبی ساتھی قیوم سومرو کوئٹہ گئے اور وفاداریاں تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔سوال اٹھا کہ اس سب سے زرداری صاحب کو کیا ملے گا، کیونکہ پیپلزپارٹی تو صوبائی اسمبلی میں موجود ہی نہیں؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو اور بعض دیگر ارکان اسمبلی پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں گے کیونکہ ق لیگ سے ان کا تعلق بھی برائے نام ہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب نے کمال ہنرمندی سے نادیدہ قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے، مستقبل میں کوئی بڑا کردار انہیں سونپا جاسکتا ہے، اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرانے کا منصوبہ بروئے کار لایا گیا تو بلوچستان اور خیبر پختون خوا اسمبلی کی طرح سندھ اسمبلی بھی تحلیل کرا دی جائے گی۔یاد رہے کہ خاکسار صرف سازشی تھیوریز ہی بیان کر رہا ہے، ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ قبلہ زرداری صاحب کتنے عظیم جمہوریت پسند ہیں، سیاسی اخلاقیات کا و ہ مرقع ہیں اور سازش تو دور کی بات، اس لفظ کے ہجے تک انہیں نہیں آتے۔ اس سب کے باوجود چند ناہنجار ایسے ہیں ،جو اتنے شفاف کردار کے حامل شخص پر بھی الزام دھرنے سے باز نہیں آتے۔
دوسرا اہم واقعہ لاہور میں اپوزیشن کا اتحاد بننا اور مال روڈ پر شو آف پاور کی صورت میں ہوا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری متحرک ہوئے، انہوں نے پل کا کردار ادا کیا یا یوں سمجھ لیجئے مقناطیس بن کر دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ عمران خان اور آصف زرداری جیسے ایک دوسرے کے شدید مخالف بھی قادری صاحب کی محبت میں اکٹھے ہوگئے۔اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے اکٹھے ہونے کو بھی معنی خیز نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔اس حوالے سے ایک سازشی تھیوری کا ذکر کیا جا رہا ہے، جس کے مطابق جنوری کے وسط سے فروری کے وسط تک ملک میں ایسی تبدیلیاں آئیں گی کہ آئندہ انتخابات کا عمل تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔ سینٹ کا انتخاب نہیں ہونے دیا جائے گا،چاہے اس کے لئے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرانی پڑیں، قومی اسمبلی میں بھی بغاوت ہوسکتی ہے۔ن لیگ کے ناراض ارکان اسمبلی کا لب ولہجہ تلخ اور سخت ہوتا جا رہا ہے۔اگر یہ تھیوری درست ہے تواگلے چند دنوں میں حکمران جماعت کے اندر بڑے پیمانے پر توڑپھوڑ ہوگی اور یوں ایک نگران سیٹ اپ کی راہ ہموار ہوجائے گی ، جو سیاسی نظام میں تطہیر لائے اور ایک نئے اچھے سیاسی کلچر کی بنیاد ڈالے۔
یہ تو وہ تھیوریز ہیں جو آجکل ہر طرف سنی، سنائی جا رہی ہیں۔میرے جیسا عام اخبار نویس ان کی تصدیق ، تردید کی پوزیشن میں نہیں ۔ پاکستانی سیاست میں ہم نے ویسے بعید از قیاس پیش گوئیاں درست ثابت ہوتیں اور بظاہر سو فی صد ممکن نظر آنے والی چیزیں ناممکن بنتی دیکھی ہیں۔ جہاں سیاست کسی ایک پیٹرن پر نہ کی جاتی ہو، اخلاقی اصول اورمثبت روایات اٹھا کر کونے میں پھینک دینے کو مہارت سمجھا جائے ، وہاں پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کسی غیر متوقع تبدیلی کی وجہ سے کوئی خاص واقعہ رونما نہ ہوپائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس بارے میں کی جانے والی پیش گوئی غلط تھی۔مثال کے طور پر یہ بات کئی بار سنی اور پڑھی ہے کہ آصف زرداری کی حکومت کے دنوں میں بار بار انکے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہیں، مگر ہوا کچھ نہیں۔ درست کہ وہ اپنے پانچ سال پورے کر گئے ، مگر ایسا بھی نہیں کہ ان کے جانے کی وہ تمام پیش گوئیاں جھوٹی اور غلط تھیں۔ کبھی انہونے واقعات بھی حکومت کو بچا جاتے ہیں۔ جس طرح دو ہزار دس کا سیلاب زرداری حکومت کی مدت بڑھا گیا۔ جب آسمانی آفت سے اندرون سندھ آدھے سے زیادہ ڈوبا پڑا تھا، ایسے میں سندھی صدر کو گھر کیسے بھیجا جا سکتا تھا؟کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکی خصوصی نمائندے ہالبروک کی اچانک موت سے بھی ہمارے حکمرانوں کو فائدہ پہنچا ۔ چند ماہ کی رعایت اسی نے حاکم وقت کو دلوائی تھی، مگر فیصلہ کن وقت آنے سے پہلے وہ خود چل بسا اوربہت کچھ درہم برہم ہوگیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک کیا ہوگا سے اہم یہ ہے کہ یہاں پر کیا ہونا چاہیے؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بنیادی اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور انہیں سپورٹ کریں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ سیاسی عمل چلتا رہے، حکومتیں اپنی مدت مکمل کریں اور انتخابات مقررہ وقت پر ہوں۔ سیاسی تبدیلی کی خواہش کسی میں بھی ہوسکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے اس اخبار نویس کے خیال میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کو مسلسل دس سال مل گئے ہیں، اب نئی پارٹی کو موقعہ ملنا چاہیے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسا کسی سازش کے ذریعے ہو۔مقررہ وقت پرآزادانہ، منصفانہ، شفاف انتخابات کرائے جائیں، الیکشن ہائی جیک کرنے کا کسی کو موقعہ نہ ملے اور پھر اس پراسیس کے ذریعے تحریک انصاف یا جو بھی جماعت میدان مار لے ۔ سینٹ کے انتخابات ملتوی کرانے کا کوئی جواز نہیں۔ مقتدر قوتوں کو ہرگز ہرگز سینٹ انتخابات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ فیئر اینڈ فری الیکشن کو یقینی بنایا جائے اور نتائج کو تسلیم کیا جائے۔
پس نوشت: لاہور کے کمزور سیاسی شو سے تحریک انصاف اور ان کے قائد کو دھچکاپہنچا ہے۔ عمران خان کی تقریر مایوس کن تھی، پارلیمنٹ پر لعنت دینے کے الفاظ استعمال کرنا نہایت افسوسناک امر تھا۔ خان صاحب کو اندازہ نہیںکہ ان کی پارٹی کے کارکنوں کامزاج پیپلزپارٹی کے جیالوں اور ن لیگ کے متوالوں سے مختلف ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد انہوںنے متحرک کی ہے، جو آزادانہ سوچ رکھتے ہیں اور اپنے قائد سے محبت کے باوجود اس پر تنقید کی جرات رکھتے ہیں۔دو دنوں میں سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کئی پرجوش اور ڈائی ہارڈ حامیوں کو دیکھا کہ انہوں نے عمران خا ن کی تقریر کو ناپسند کیا اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ شامل ہونے کو ہدف تنقید بنایا۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے فیس بک پر سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر مسلم لیگ ن پر تنقید کرنے اور تحریک انصاف کا مقدمہ لڑنے والے نوجوان محمد عبدو کی پوسٹ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:”خان صاحب کل کے جلسے میں انصافین کی کم تعداد میں حاضری اور عدم دلچسپی سے واضح ہوگیا ہے کہ عام ورکر آپ کے ساتھ ہے مگر زرداری اور قادری کے ساتھ کسی بھی جگہ کسی بھی ایشو پر اکٹھے ہونے پر ناخوش بھی ہے۔ پچھلے جرنل الیکش سے چند ماہ پہلے جنوری 2013 میں قادری نے بنا کسی مقصد کے دھرنا دیا اور عوام کو الو بنا کر نکل گیا۔ اس بار بھی تاریخ دھرائی جارہی ہے۔ اگر آپ الیکشن لڑنے اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو جتنی جلدی ہوسکے قادری سے علیحدہ ہوجائیں۔ زرداری کو تو پنجاب میں سٹیج چاہئے اس لئے وہ کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔ لیکن قادری کے جلسے یا دھرنے کی حمائت تحریک انصاف کو تباہ کردے گی۔ خان صاجب، میں جانتا ہوں آپ کی پارلیمنٹ سے نفرت نااہل نواز شریف کے لئے غلط قانون بنانے کی وجہ سے ہے لیکن پوری پارلیمنٹ پر لعنت کرنے پر معذرت کریں۔ اور اپنی بات کی وضاحت پیش کریں۔ اس طرح عام لعنت کرنے سے بہت غلط مطلب اور تاثر گیا ہے۔ میں پارلیمنٹ پر لعنت والے الفاظ کی مذمت کرتا ہوں۔ میں عام ورکر اسمبلی سے استعفوں کی مخالفت کرتا ہوں۔ میںایک عام ورکر قبل از وقت الیکشن کروانے کی ہر کوشش کی مخالفت کرتا ہوں۔“
فیس بک پر کم وبیش اسی طرح کی سوچ متعدد پرجوش اور انتہائی حد تک کمٹیڈ انصافین ورکرز میں نظر آرہی ہے۔ معلوم نہیں عمران خان اپنے انصافین جنونیوں کی اس سوچ سے باخبر ہیں یا نہیں؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔