وہ آج پھولے نہیں سما رہی تھی شام ہونے کو آئی تھی امی ابو اور باقی سب کو اکٹھا کر کے بار بار ایک ہی لفظ دہرا رہی تھی ۔۔جسے سب آوارہ اور بدتمیز کہتے تھے آج اسی نے میرے سر پر دوپٹہ دیا ہے ۔۔اس کو الگ سی خوشی محسوس ہو رہی تھی جو وہ سب کو بیان کر رہی تھی ۔۔یہ تھی صائمہ جو ٹیوشن اور اسکول جاتی تو اسے کہا جاتا سب لڑکے آوارہ اور بد چلن ہیں لڑکوں سے بات چیت نہیں کرنی۔۔صائمہ بھی ان باتوں کو سچ مان کر لڑکوں کو برا بھلا کہتی تھی مگر کہتے ہیں نا پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ایسے ہی سب انسان بدچلن اور بد تمیز نہیں ہوتے۔۔صائمہ بھی عادل کو سب کی طرح بدتمیز سمجھتی تھی مگر عادل ایک عزت دار اور غیرت مند مرد ٹھا ۔۔روز کی طرح صائمہ آج بھی اسکول سے واپس آرہی تھی تو کچھ لڑکےصائمہ کے ساتھ بدتمیزی
کرنے لگے تو صائمہ نے مدد کے لئے آواز دی تو اتفاق سے عادل بھی وہی سے گزر رہا ٹھا صائمہ کو لگا عادل اس کی مدد نہیں کرے گا کیوں کے وہ عادل کو بھی بدتمیز سمجھتی تھی مگر عادل نے جب دیکھا کہ صائمہ کو کچھ لڑکے تنگ کر رہے ہیں وہ لڑکوں سے کافی بدتمیزی سے پیش آیا اور لڑکے وہاں سے چلے گئے صائمہ خاموش سی ڈری ہوئی حالت میں کھڑی تھی عادل نے صائمہ کو حوصلہ دیا اور اس کے سر پر دوپٹہ دیتے ہوۓ بولا :کہ میں بدتمیز ضرور ہوں مگر عزت کے معاملے میں غیرت مند بھی ہوں ۔۔صائمہ اندر سے خوش تھی کہ عادل کو جیسے سب سمجھتے ہیں وہ ویسا بلکل نہیں تھا عادل نے صائمہ کو عزت کے ساتھ گھر چھوڑا اور آئندہ خیال رکھنے کو بول کر چلا گیا ۔۔اگر ہمارے معاشرے کے تمام مرد عادل کی طرح ہو جاۓ تو پھر عورتوں کی حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کے جہاں مرد خود عورت کی حفاظت کی ذمہ داری لے وہاں عورت کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے کی عورتوں کو اپنے مردوں پر فخر محسوس ہو سکے اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم مرد ذات کے بارے میں غلط سوچنے کی بجائے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس کروائے ۔۔اس سے نا صرف معاشرے کے لوگ بلکہ ہماری سوچ بھی بہتر ہو گی ۔۔اس لئے ہر مرد کو بدتمیز اور بد چلن کہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔۔اچھے لوگ ابھی بھی معاشرے میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی ہم خود بتایا محفوظ محسوس کرتے ہیں ۔۔۔
جزاک اللّه ۔۔