ساتھ لگی مغل بادشاہ جہانگیر کے دور کی تصویر ہے۔ ایسی تصویر دنیا میں صرف برِصغیر میں ہی بن سکتی تھی اور اس میں مغلیہ طرزِحکمرانی کی ایسی جھلک ملتی ہے۔ اس میں ایسا کیا؟ اس کے لئے وقت کو چار سو سال پہلے لے جاتے ہیں۔
اپنا امیج بنانے کے لئے سیاسی لیڈر بڑٰ احتیاط سے تصاویر بنواتے ہیں۔ کس پوز میں ہو، کس کے ساتھ ہو، کہاں پر ہو؟ 1610 میں پریس فوٹوگرافر یا چوبیس گھنٹے چلنے والی خبریں نہیں تھیں۔ اپنا امیج بنانے کے لئے مصوروں کی خدمات لی جاتی تھیں۔ یہ مذہبی رواداری کا ایک امیج ہے۔
سترہویں صدی میں دنیا میں تین بڑی اسلامی سلطنتیں تھیں، ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ، ایران میں صفوی سلطنت اور برِصغیر میں مغل سلطنت۔ یہ وقت مغل عروج کا وقت تھا۔ ایک بہت بڑی سلطنت جو مغرب میں کابل سے لے کر مشرق میں ڈھاکہ تک سوا دو ہزار کلومیٹر تک پھیلی ہوئی۔ صفوی یا عثمانی سلطنتوں کے برعکس مغل برِصغیر میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ جین اور بدھ کے علاوہ سب سے زیادہ تعداد ہندووٗں کی تھی۔ مغلوں نے رواداری کو باقاعدہ پالیسی کے طور پر اپنایا۔ فوج میں ہندو جنرل، دوسرے مذہبی راہنماوٗں کو عزت دینا اس وقت تک ان کی روایت رہی۔
اس تصویر میں مغل شہزادہ جامنی لباس میں ملبوس ہے جس کے گرد سنہری کشیدہ کاری ہوئی ہے۔ جواہرات سے مزین خنجر کمر پر ہے۔ سبز پکڑی سر پر، جس میں ایک پر لگا ہے۔ یہ اشرافیہ کا نشان ہے۔ شہزادہ ایک پلیٹ فارم پر ادب کے ساتھ دوزانو ہے۔ اس کے آگے ایک بزرگ ہیں، پس منظر میں ایک خانقاہ ہے۔ ایک درخت ان پر سایہ فگن ہے۔ اس کے نیچے ایک نیلا پھول ہے۔ مغلیہ دور کی مصوری میں لینڈ سکیپ بڑا اہم ہے۔ مغل اپنے باغوں کے لئے مشہور تھے۔ یہ مغلیہ طرز کا باغ ہے جس میں شہزادہ شاید اپنے استاد سے دینی راہنمائی لینے بیٹھا ہے۔ یہ طاقت اور تقویٰ کا ملاپ ہے۔
اس تصویر میں شہزادے کے گھوڑے اور رنگین کپڑوں میں درباری ہیں۔ ایک اور چیز جو نمایاں ہے وہ درویش کے قریب بیٹھا ایک شخص ہے۔ آدھا ننگا، سفید ٹوپی سے سر ڈھکا ہوا۔ یہ پگڑی نہیں، یہ ہندووٗں کے سادھو کا طریقہ ہے۔ اس پر مغلیہ آرٹ کے ایک ماہر کا تبصرہ،
“یہ تصاویر شروع میں شاہی خاندان تک محدود ہوتی تھیں، پھر یہ عام ہو گئیں۔ اس میں خاص پیغام ہے۔ دوستی کا پیغام۔ جب مغلوں نے یہ عظیم سلطنت بنائی تو جنگیں ہوئیں تھیں لیکن مغل کبھی اتنے بڑے علاقے پر حکومت نہ کر سکتے، اگر وہ اس جنگ کو دوستی میں تبدیل نہ کر لیتے۔ بادشاہ کے قریب ترین وزراء، درباریوں اور مصاحبین میں بھی ہندو موجود تھے۔ یہ سولہویں صدی کے مسلمان حکمران کی طرف سے ایک پیغام تھا کہ بادشاہ کے مذہب سے ان کو یا ان کے طرزِ زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ مل کر ہم آہنگی سے رہا جا سکتا ہے۔”
ہندوستان میں طاقتور حکمران کی ایک مقدس شخص کے آگے جھکنے کی پرانی تاریخ رہی ہے۔ مغلوں کے آباء، جو تیمور لنگ اور منگول جنگجو ہیں، وہاں بھی یہی روایت ملتی ہے۔ اپنی بڑی فتوحات کے بعد یہ رواداری ان کی ایک خاصیت تھی۔ جہانگیر نے اپنی سوانح حیات کے ابتدائی چیپٹر میں یہ لکھا ہے۔
“یہاں پر مختلف مذاہب کے علماء کے لئے جگہ ہے۔ ان کے عقائد اچھے ہوں یا برے، ان پر لڑائی کا راستہ بند ہے۔ میرے ہوتے ہوئے شیعہ اور سنی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھیں گے۔ مسیحی اور یہودی ایک ہی جگہ رہیں گے۔”
جہانگیر کی کتاب میں روحانیت اور سیاست دونوں نظر آتی ہیں جو سولہویں اور سترہوٰیں صدی کے مغلیہ حکمرانوں کا خاصہ رہیں۔ طاقت کے تقویٰ کے آگے اس طرح جھکنے کی یہ تصویر کسی بھی یورپی یا کسی اور خطے کے حکمران کی نہیں ہو سکتی۔ برِصغیر کی تاریخ بتاتے ہوئے بی بی سی نے اس تصویر کو مغلیہ دور کی کہانی بتانے میں استعمال کیا۔