سوات، برصغیر ہند، چین اور وسطی ایشیا کے سنگم پر کلیدی اہمیت کے حامل خطہ میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق سوات اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ یہ علاقہ مختلف ثقافتوں کے نفوذ کا مرکز اور تہذیب کا گہوارا رہا ہے۔ آثارِ قدیمہ کی باقیات اور تاریخی ثقافتی خزانے انسانی سرگرمیوں کا منھ بولتا ثبوت ہیں جومتعلقہ ماہرین کے لیے سامانِ دلچسپی فراہم کرتے ہیں۔ اس مضمون میں بابر سے لے کر اورنگ زیب تک مغل سوات تعلقات کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سولہویں صدی عیسوی سوات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوئی۔ جب یوسف زیٔ افغانوں؍ پختونوں نے سوات پر قبضہ کیا۔ یوسف زیٔ کے آنے سے سوات کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم عقیدہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں ہی کا بڑے پیمانے پر یہاں سے ہجرت کرنے کا واقعہ پیش آیا۔
پندرہویں صدی عیسوی کے آخری عشرہ کے دوران میں سوات میں جو لوگ آباد تھے، وہ عام طور پر سواتی پختون کے نام سے جانے جاتے تھے۔ سلطان اویس ان کا بڑا حکمران تھا جس کے ساتھ یوسف زئیوں نے شادی کا رشتہ قائم کیا تھا، لیکن وادیٔ سوات پر انہوں نے نظریں جمائی ہوئی تھیں۔ یہاں کی زرخیز زمین اور ہر لحاظ سے بھرپور چراگاہیں ان کی نظروں میں کھٹکتی رہیں۔ آخرِکار انہوں نے کمال حکمت سے کام لیتے ہوئے سواتیوں کے حفاظتی حصار کو توڑا اور زیریں سوات میں داخل ہوئے۔ سولہویں صدی کے دوران میں زیریں سوات یوسف زئیوں کے قبضے میں آیا، جب کہ وقتی طور پر انہوں نے مزید پیش قدمی سے اجتناب کیا۔ بابر، سوات کے سلطان اویس اور سلطان علاؤ الدین کا ذکر بطورِ سلطانانِ سوات کرتا ہے اور اپنی مہم کے دوران میں باجوڑ میں ان سے ملاقات کا تذکرہ کرتا ہے۔ سلطان اویس بابر کا حامی تھا۔ باجوڑ میں اس نے بابر کی خدمت گزاری کی تھی۔ بابر نے اس کو کہراج لوگوں سے خراج وصول کرنے پر مامور کیا تھا۔ بابر دونوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور عزت کے ساتھ پیش آیا تھا۔ علاوہ ازیں بابر نے یوسف زئیوں سے یہ وعدہ لیا کہ وہ ابوہا سے آگے سوات کی جانب پیش قدمی سے باز رہیں گے۔
ظہیرالدین بابر، سوات کے سلطان اویس اور سلطان علاؤ الدین کا ذکر بطورِ سلطانانِ سوات کرتا ہے۔
ایک طرف یوسف زئیوں کو سوات میں پاؤں جمانے کا موقع ملا، جب کہ دوسری طرف بابر نے اپنے آپ کو کابل کا حکمران بنا دیا۔ دونوں کے درمیان محاذ آرائی ناگزیر تھی۔ کیوں کہ بابر کا ہندوستان پر حملے کا ایک راستہ یوسف زئیوں کی عمل داری سے ہوکر گزرتا تھا۔ یوسف زئیوں پر حملہ کے ارادہ سے بابر سوات پر حملہ کے لیے دریائے پنج کوڑہ اور جندول باجوڑ کے پانی کے سنگم پر اُتر آیا۔ پھر بھی وہ سوات پر حملہ آور ہونے سے باز رہا۔ کیوں کہ اس وقت نہ صرف یہ کہ یوسف زئیوں نے کافی اہمیت حاصل کی تھی بلکہ وہ یوسف زئیوں کو پہاڑی علاقوں میں عام جنگ کے ذریعے ما تحت نہیں بنا سکتے تھے، لہٰذا جنگ کی بجائے اس نے سفارتی حکمت عملی سے کام لیا۔
بابر نے جنگ جیسے مشکل کام کی بجائے رشتہ داری کے ذریعے ان تک پہنچنے کی کوشش کی اور یوسف زئیوں کے ایک بڑے مَلک شاہ منصور کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ اس طرح دونوں کے درمیان نہ صرف معاہدہ طے ہوا بلکہ شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ سے شادی بھی ہوئی۔ شادی کے بندھن سے بابر کے نہ صرف ان سے تعلقات استوار ہوئے بلکہ روایتی قبائلی شب خونوں کو کنٹرول کرنے میں مدد بھی ملی۔
بعض مصنفین نے بابر کا بالائی سوات آنے، دریائے سوات کو عبور کرکے منگلور تک پہنچنے اور ارد گرد کے علاقوں کو تاراج کرنے کا ذکر کیا ہے جب کہ وہ سوات میں داخل ہوا تھا اور نہ سلطان اویس کے خلاف منگلور ہی آیا تھا۔ اس نے یہ مقاصد سواتیوں سے معاہدہ اور یوسف زئیوں سے شادی کے ذریعہ حاصل کیے تھے۔ تزکِ بابری پر سر سری نظر ڈالنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے۔
سوات کے یوسف زئیوں نے بابر، کامران اور ہمایون کے ادوار میں اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھی تھی۔ سوات اکبر کے دور تک مغلوں کی دخل اندازی سے بچا رہا۔ اکبر 1556ء کو تخت نشین ہوا تھا لیکن 1581ء تک سوات سمیت دریائے سندھ کے مغربی علاقوں پر اُسے حکومت نصیب ہوئی اور نہ 1585ء تک اپنے بھائی مرزا حکیم کی موت تک۔ سوات کے یوسف زئیوں اور مغلوں کے درمیان اصل معاملہ مرزا حکیم کی موت کے بعد شروع ہوا۔ 20 دسمبر 1585ء کو اکبر نے ایک دستہ کشمیر فتح کرنے کی غرض سے روانہ کیا جب کہ اس دن زین خان کو یوسف زئیوں کو مطیع بنانے کے لیے سوات اور باجوڑ کو روانہ کیا۔
یہ مؤقف کہ اکبر کی فوج روشنیہ فرقے کی سرکوبی کے لیے سوات آئی تھی حقیقت سے دور لگتا ہے۔ بایزید انصاری اور اس کے فرقہ کو سوات میں کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اخوند درویزہ نے روشنیہ فرقہ کے بانی بایزید کے ساتھ سوات میں مناظرے کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے وہ علاقے سوات سے باہر بیان کیے ہیں۔ علاوہ ازیں سوات میں مغل افواج کے داخلہ کے وقت روشنیہ فرقہ کے اثرات زائل ہونا شروع ہوچکے تھے اور اخوند درویزہ کی مخالفت کی وجہ سے سمہ یوسف زیٔ میں قبائلی جذبات ان کے خلاف اُٹھ رہے تھے۔
20 دسمبر 1585ء کو اکبر نے ایک دستہ کشمیر فتح کرنے کی غرض سے روانہ کیا جب کہ اس دن زین خان کو یوسف زئیوں کو مطیع بنانے کے لیے سوات اور باجوڑ کو روانہ
سواتیوں کی نافرمانی کے علاوہ اصل میں کشمیر کا معاملہ اکبری افواج کے سوات میں داخل ہونے کا سبب بنا۔ اکبر نے کشمیر کو اپنی عمل داری کا حصہ سمجھتے ہوئے حکمرانِ کشمیر سے تابعداری کا مطالبہ کیا۔ حکمران کے انکار پر اکبر نے 1585ء میں راجہ بھگوان داس کی سرکردگی میں فوج کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ سواتیوں کی طرف سے کشمیریوں کی ممکنہ مدد اور راستوں میں رکاؤٹ ڈالنے سے بچنے کے لیے زین خان کی قیادت میں ایک دستہ وادیٔ سوات کی طرف روانہ کیا گیا۔ اس طرح اکبر کی ملک گیری نے جنگ کو جنم دیا۔ زین خان کی قیادت میں بھیجی گئی مغل فوج کو سخت مدافعت اور انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بارے میں زین خان نے رپورٹ لکھی کہ اگر چہ وہ باجوڑ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا مگر سوات کے مرکزی حصہ میں داخل ہونے سے قاصر ہے۔ مزید کمک پہنچنے تک مزید دستے آتے ہوئے راستے میں سمہ کے مندنڑ علاقوں کو بھی تباہ برباد کریں، تاکہ وہ پہاڑوں میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اس پر اکبر اس کی رائے سے متفق ہوا اور راجہ بیربل اور حکیم ابوالفتح کی قیادت میں دو دستے روانہ کیے۔
یہ تازہ دم فوج نہایت مشکل سے 1586ء میں سوات میں داخل ہوئی۔ چکدرہ میں پڑاؤ ڈال کر وہاں ایک قلعہ تعمیر کیا۔ وہاں سے مشترکہ دستے بونیر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن یوسف زئیوں نے درۂ کڑاکڑ میں ان کا کام تمام کیا۔ مغل فوج تباہی سے ہمکنار ہوئی اور راجہ بیربل مع آٹھ ہزار فوجیوں کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس طرح سوات اور بونیر کے یوسف زئیوں کو مطیع کرنے کی یہ مہم نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ساری مغلیہ سلطنت میں افغانوں کی شجاعت اور جنگی چالوں کی دہشت پھیل گئی۔ علاوہ ازیں اس شکست کے منفی اثرات شاہی افواج پر دوسرے علاقوں میں بھی پڑ گئے۔ یہاں تک کہ راجہ بھگوان داس اور مرزا شاہ رخ کی قیادت میں کشمیر بھیجے گئے دستے حکمرانِ کشمیر کے پست حوصلہ قوت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور ایسی شرائط پر معاہدہ کیا جو اکبر کو پسند نہ تھیں۔ 1587ء سے 1592ء تک مغلوں نے ایک بار پھر زین خان کی قیادت میں باجوڑ اور سوات میں لڑائی کی کوشش کی لیکن کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ مغل تاریخ دانوں نے مغلیہ فوج کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر بیان کی ہے۔ ان کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے کہ یوسف زئیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا تھا، لیکن احمد حسن دانی کے مطابق یوسف زئیوں اور مغلوں کے درمیان ایک جنگی کھیل شروع ہوا جس میں پہاڑی قلعوں کو بہت اہمیت حاصل رہی۔ مغلوں نے یوسف زئیوں سے پہاڑی جنگی مہارتیں سیکھ لیں اور جتنا عرصہ وہ قلعے پر قابض رہنے میں کامیاب رہتے، اتنا عرصہ ان کے رسد کے راستے کھلے رہتے۔ پھر بھی ملاکنڈ سے چکدرہ اور اس پار باجوڑ تک اثر انداز ہونے کے علاوہ انہوں نے کبھی سوات اور بونیر کے مرکزی علاقوں میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کی۔
ایچ ڈبلیو بیلو کا یہ کہنا ہے کہ مغل جرنیل زین خان کو کانے وادئی سوات کے وسط میں دمغار کا قلعہ تعمیر کیا تھا جس میں تعینات فوجیوں نے ارد گرد کے علاقوں کو خوب رگڑا تھا اور یوسف زئیوں کو ان کی سرکشی کی خوب سزا دی تھی لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ بیلو نے اپنے اس دعویٰ کے لیے کوئی تاریخی حوالہ پیش نہیں کیا ہے۔
اولف کیرو کا یہ بیان احمد حسن دانی کی بیان کی تصدیق کرتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ سوات، بونیر اور باجوڑ کے شہنشاہی کنٹرول سے باہر رہنے کی ایک مضبوط دلیل یہ ہے کہ ابوالفضل آئینِ اکبری میں یہ علاقے صوبۂ کابل کے تحت سوات سرکار میں شامل کرتے ہیں۔ آئین میں اول سے لے کر آخر تک ان تمام جگہوں اور لوگوں کے نام خانہ وار درج ہیں جہاں سے کوئی خدمت لی جاتی ہو یا کوئی چیز وصول کی جاتی ہو۔ جہاں تک مذکورہ علاقوں کا تعلق ہے ان کے خانے بالکل خالی ہیں۔ راورٹی کہتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ قتل و غارت گری اور تباہی کے باوجود مغل حکمرانوں کو ان علاقوں میں مستقل قدم جمانا نصیب نہیں ہوا۔ آئینِ اکبری کی کوئی کاپی ایسی نہیں مل سکتی جس میں مذکورہ علاقوں کے خانے خالی نہ ہوں۔ مغل اس دشوار گزار علاقہ میں بڑی فوجی قوت کے بغیر ایک انچ زمین گھیرنے سے بھی قاصر رہے جب کہ ان کے رسد کے راستے مسلسل منقطع رہتے۔‘‘
یہاں تک کہ اکبر کا چہیتا اور تاریخ دان ابوالفضل سرکارِ سوات کے لوگوں کی خود سری کو تسلیم کرتا ہے اور لکھتا ہے: ’’سب سے زیادہ مضبوط حکمرانی کے اس دور میں بھی سوات کے قانون نہ ماننے والے سرکش لوگوں میں سے بہتوں کو قتل کیا گیا، بہتوں کو گرفتار کیا گیا اور بہتوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر چھوڑ دیا گیا۔‘‘
سوات میں اکبری افواج کی ناکامی فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ اس کے جانشینوں (جہاں گیر اور شاہ جہان) نے کبھی سوات پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اورنگزیب کے دورِ حکومت میں سوات کے یوسف زیٔ اپنے سمہ کے بھائیوں کی مدد کے لیے آئے تھے جو مغلوں کے ساتھ برسر پیکار تھے۔ اس کے ردِ عمل میں مغل فوج وادیٔ سوات میں داخل ہوئی اور ایک گاؤں کو بھی جلا ڈالا مگر وہ جلد ہی واپس چلی گئی۔
خوشحال خان خٹک اور اس کے آبا و اجداد یوسف زئیوں کے خلاف مغلوں کے وفادار اور مدد گار رہے تھے (جس کو خود خوشحال خان نے تسلیم کیا ہے) اورنگزیب کے ساتھ خرابیِ تعلقات کے نتیجہ میں تمام پختون قبائل کو اس کے خلاف اُکسانے کی کوشش میں رہے۔ اس سلسلہ میں وہ سوات بھی آئے لیکن سوات کے لوگوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔ کیوں کہ اورنگزیب کے ساتھ ان کے میدانی بھائیوں کے تعلقات اچھے ہوگئے تھے۔ میاں نور اور خوشحال خان کے خیالات اور عقائد میں تضاد کی وجہ سے بھی خوشحال خان اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوا، جس پر اس نے میاں نور اور سواتیوں پر لعن طعن کی۔ جب کہ سواتیوں کی اورنگزیب سے کوئی لڑائی تھی اور نہ مفادات کا ٹکراؤ۔ وہ اس کی رعایا تھے اور نہ ہمسایہ۔ اورنگزیب نے سوات میں داخل ہونے کی کوشش کی اور نہ سواتیوں کی آزادی غصب کرنے کی۔ اس لیے اورنگزیب کے خلاف سواتیوں کے ہتھیار اُٹھانے کا کوئی جواز تھا اور نہ دلیل۔ محض ایک شخص کے کہنے پر وہ کیوں کر ایسا کرتے؟ اور شخص بھی وہ جو ہمیشہ پختونوں کے خلاف مغلوں کا وفادار اور حد درجہ خدمت گار رہا ہو۔ جس کا سابقہ کردار اور کارنامے نہ صرف پختونوں اور یوسف زئیوں کے خلاف تھے بلکہ اس کے آبا و اجداد بھی مغلوں کے مفاد کے لیے یوسف زئیوں کے خلاف لڑے تھے۔
خوشحال خان خٹک اور اس کے آبا و اجداد یوسف زئیوں کے خلاف مغلوں کے وفادار اور مدد گار رہے تھے۔
خلاصہ:۔ مغلوں نے سوات کو اپنی عملداری میں شامل کرنے کی یا تو کوشش نہیں کی یا اس میں ناکام رہے۔ بابر نے ان سے لڑنے کی بجائے ان سے معاہدہ کیا اور ان کی آزادی کا احترام کیا۔ ہمایون اور کامران نے یہاں آنے کی کوشش نہیں کی۔ اکبر ملک گیری کی خواہش کے تحت سوات پر حملہ آور ہوا لیکن سواتی اپنے بچاؤ میں کامیاب رہے۔ مغل افواج کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا بلکہ سوات پر قبضہ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ جہاں گیر اور شاہ جہاں نے کبھی سوات پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اورنگزیب سمہ میں یوسف زئیوں کے خلاف لڑنے میں مصروف تھا جس میں سواتی بھی ملوث ہوگئے جو کہ مغلیہ فوج کا سوات کی حدود میں داخلہ کی وجہ بنی لیکن انہوں نے جلدی واپسی اختیار کی۔ بعض تذکروں میں بابر کو سوات میں منگلور تک لایا گیا ہے اور ’’تاریخِ ریاست سوات‘‘ کے مؤلف محمد آصف خان کے مطابق تو سوات اور بونیر کے علاقے اورنگزیب کے دور میں مغلوں کی عمل داری میں رہے۔ لیکن بر خلاف اس کے اولف کیرو نے میاں گل عبدالودود کا یہ بیان ریکارڈ کیا ہے جس میں وہ کہتا ہے: ’’تاریخ کے کسی دور خواہ اکبر یا اورنگزیب جیسے حکمران کا ہو یادرانیوں کا دور ہو، کسی میں بھی مملکتِ یوسف زیٔ کے لوگ کسی بڑی حکمرانی کے تحت نہیں رہے۔ کیرو اس دعوے کو مانتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے۔ کیوں کہ دیر، سوات اور بونیر کے لوگوں نے دہلی یا کابل کو کبھی بھی ٹیکس نہیں دیا۔ یہ لوگ کبھی بھی کسی بیرونی قانون یا انتظامی سسٹم کے تابع نہیں رہے۔‘‘
خوشحال خان خٹک جو یوسف زئیوں کو اورنگزیب کے خلاف اُبھارنے سوات آیا تھا، خود سوات کے یوسف زئیوں کی آزادی کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’یہ لوگ کسی کی رعایا ہیں اور نہ کسی کو کوئی چیز (بطور ٹیکس) دیتے ہیں۔‘‘
(نوٹ:۔ یہ مضمون پہلی دفعہ انگریزی میں جرنل آف پاکستان ہیسٹاریکل سوسائٹی کراچی کے اکتوبر؍ دسمبر 2002ء کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے۔‘‘ انگریزی سے اردو ترجمہ: فضل معبود اسسٹنٹ پروفیسر مطالعۂ پاکستان جہانزیب کالج سوات)۔
بحوالہ ڈاکٹر سلطان روم کبل سوات ۔۔۔۔۔ سرچ میاں علی نواز مدے ۔۔کراچی