مغل اور مون سون
بابر اور ہمایوں ساون میں جام پر جام لنڈھاتے!
شہنشاہ اکبر مون سون دریائے جمنا میں کھڑی پرتعیش کشتیوں میں گزارتا۔
شہزادہ سلیم بارش کے دوران انارکلی اور کنیزوں کے ساتھ باغ میں بھیگتا اور چہلیں کرتا!
شاہجہان ممتاز محل کے ساتھ بیٹھ کر بارش کا نظارہ کرتا!
باشاہ سلامت جسمانی نشیب و فراز کو واضح کرتےباریک بھیگے لباس پہنی خوبصورت کنیزوں کے ساتھ ساون سے لطف اندوز ہوتے!
بہادر شاہ ظفر جھولوں میں پینگیں بھرتی شہزادیوں اور کنیزوں کے درمیان ملہار سنتے!
آپ نے ایک مشہور غزل کا وہ مصرع تو ضرور سنا ہوگا''
ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دے
بھری برسات میں پی لینے دے
اگر آپ مغلوں کی برسات سے لطف اندوز ہونے کی داستان پڑھیں گے تو یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ مغل واقعی زندگی اور قدرت کی رعنائیوں سے انتہائ باذوق طریقے سے محظوظ ہوتے تھے۔
انڈیا میں مون سون کی بارشیں پہلے مغل بادشاہ بابر کے لئے انتہائ پر مسرت اور لطف اندوز ہونے کا موسم تھا۔ بابر ہندوستان کی گرمی اور گرم مٹی سے اٹی ہوائوں سے ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔یہی حال اس کے بیٹے ہمایوں کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے محلات میں انتہائ پرتعیش حمام تعمیر کروائے تھے جہاں یہ ہندوستان کی شدید گرمی اور حبس سے نجات پانے کے لئے کافی وقت گزارتے تھے۔ایسے میں جب خلیج بنگال سے آنے والے پانی سے بوجھل سیاہ بادل اپنی نم ہوائوں سے ہر سو مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلا دیتے اور پھر بارش کی تیز دھاریں ہر طرف جل تھل ایک کردیتیں تو یہ وقت مغلوں کے لئے سکون کا پیغام لاتا۔
بابر کا تعلق کیونکہ افغانستان کی ٹھنڈی وادی سے تھااس لئے اس کے لئے ہندوستان میں پہلی بارش ایک انتہائ خوشگوار تجربہ تھا۔ بابر نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی اتنی شدید
موسلا دھار اور طویل بارشیں نہیں دیکھی تھیں۔
مون سون:
اس کی وجہ تسمیہ یا ایٹیمولوجی یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ عربی کے لفظ موسم Mawsim سے نکلا ہے۔ انگریزوں نے شاید اس کو پرتگالی کے لفظ مونسائو mončao سے کشید کیا ہے۔ مونسائو غالبا'' ولندیزی کے مونس سوئن monessoen سے آیا۔ اور ولندیزیوں نے شاید اس کو قدیم تامل زبان کے لفظ سے لیا ہے۔ مون تو مون یعنی چاند یعنی مہینہ سے لیا گیا جبکہ سوئن تامل زبان میں حیض یا بہنے والا کو کہا جاتا ہے۔ واللہ عالم !
یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں افریقا کے مشرقی ساحلوں کے قریب خط استوا کے آس پاس بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے یہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور مشرق کا رخ اختیار کرتے ہیں۔بحر ہند میں خلیج بنگال میں اکر ان کی تندی و تیزی مزید بڑھ جاتی ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا کچھہ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا سلسلہ کوہ ہمالیہ سے آٹکراتا ہے۔ بادلوں کا کچھہ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے اور 15 جولائیکو مون سون کے بادل لاہور پہنچتے ہیں۔ 15 جولائی کو پاکستان میں ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔مون سون خلیج بنگال سے اٹھتی ہے اور پھر پوری شدت کے ساتھ مشرقی بھارت سے مغرب کی طرف ھلہ بولتی ہے۔ لیکن جوں جوں یہ آگے بڑھتی ہے اس کا زور شور کم ہوتا جاتا ہے۔حتی کہ یہ سندھ تک بھی بہت ہی کم پہنچ پاتی ہے۔انگریز سول سرونٹ
C.A. Kincaid
لکھتا ہے کہ مون سون سہون تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بلوچستان کے علاقے چمن کے مشہور رس دار میٹھے انگور مون سون کے بغیر ہی پروان چڑھتے ہیں۔
بارشوں کا پورا موسم بابر اکثر آرام باغ میں گزارتا تھا۔اس کا چہارباغ مون سون کے موسم میں راتوں رات ایسا سرسبز و شاداب ہو جاتا تھا کہ گویا کسی جادوگر نے اس پر کوئ طلسم پھونک دیا ہو۔ بھانت بھانت کے پودے اور جھاڑیاں دنوں میں پورے باغ کو ہریالی سے بھر دیتے۔ یہ بابر کے لئے دریائے جمنا میں تیراکی اور پھر چہار باغ میں آرام کا موسم ہوتا تھا۔ وہ اس موسم کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتا۔
ہمایوں بھی برسات کے موسم سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوتا تھا کیونکہ اس کا بچپن اور جوانی بھی افغانستان میں گزری تھی لیکن اس موسم میں آنے والا شدید سیلاب اس کے لئے بڑا پریشان کن ہوتا تھا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے سلطنت کے انتظامی امور سنبھالنے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ یہ وقت ہمایوں کے لئے بڑا تشویش کن ہوتاکیونکہ ابھی مغل سطنت نوزائیدہ تھی اور ہمایوں ابھی تک اپنے باپ کی قائم کی گئ مغل سلطنت پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے ے لئے تگ و دو کررہا تھا۔اس کا یہ خوف بے جا نہ تھا کہ اس کو چوسا کے مقام پر شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد بمشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے کا موقع مل سکا تھا۔پھر اپنے فرار کے دوران یہ چڑھی ہوئ گنگا میں ڈوب کر مر ہی جاتا اگر نظام نامی بہشتی اس کوڈوبنے سے نہ بچاتا۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا کہ کس طرح نظام بہشتی نے ہمایوں کو دریا میں ڈوبنے سے بچایا اور ہمایوں نے انعام کے طور پر اس کو ایک دن کی بادشاہی عطا کی تھی۔نظام سقہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
بابر بارش کے موسم میں چہار باغ میں اپنے دوستوں اور درباریوں کے ساتھ جام پر جام لنڈھاتا۔ اکثر درباری تو بے تحاشہ مے نوشی کے بعد وہیں دبیز ایرانی و افغانی قالینوں پر اوندھے سیدھے ڈھے جاتے لیکن بابر ان سب کے درمیان بغیر کسی نشے کی علامت کےپورے رعب اور دبدبے سے تنا ہوا بیٹھا رہتا کہ وہ تیز سے تیز شراب بھاری مقدار میں پینے کے باوجود اپنے حواس برقرار رکھتا تھا۔ہمایوں بھی برسات کے موسم میں کثرت سے مے نوشی کرتا تھا لیکن وہ شراب سے زیادہ افیون کا رسیا تھا۔ افیون کے کثرت استعمال کی وجہ سے اس کےاعصاب و دماغ کمزور ہو چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی غفلت کی وجہ سے شیر شاہ سوری نے مغل سلطنت پر قبضہ کرلیا اور ہمایوں کو پندرہ سال جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔انتہائ کسمپرسی اور عجلت کی حالت میں یہ ایران کی طرف فرار ہوا۔ اس کے ساتھ اس کی حاملہ بیوی بھی تھی۔ اپنے سفر کے دوران سندھ کے صحرائے تھر سے گزرتے ہوئے عمر کوٹ کے علاقے میں ہمایوں کی بیوی نے ایک بچے کو جنم دیا۔ لیکن قربان جائیے اس خدائے ذوالجلال کی تدبیروں کے کہ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس دربدری اور غریب الوطنی کے عالم میں اس دور دراز سندھ کے گائوں میں پیدا ہونے والا یہ کالا کلوٹا بچہ ایک دن ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا شہنشاہ بنے گا اور مغل اعظم کہلائے گا۔
بہرحال پندرہ سال بعد ہمایوں نے آگرہ اور دہلی پر قبضہ کر کے دوبارہ مغل سلطنت بحال کرلی لیکن وہ اپنی افیون کی عادت ترک نہ کرسکا۔ ہمایوں کو اس کی یہ عادت ہی لے ڈوبی۔ کہتے ہیں کہ ہمایوں کو ستارہ شناسی کا بڑا شوق تھا اور وہ اکثر رات کو محل کے سب سے اونچے مینار پر چڑھ کر فلک پر ماہ و انجم کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ شاید افیون کے زیادہ نشہ کہ وجہ سے ایک رات اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور مینار کی سیڑھیوں سے پیر پھسلنے کی وجہ سے گر کر جاں بحق ہوا۔ ہمایوں تو خیر اپنا نشہ ترک نہ کرسکا لیکن بابر نے اپنی مے نوشی کی عادت ترک کردی تھی۔ رانا سانگا سے سیکری کی جنگ کے دوران اس نے اپنے جام اور شراب کی صراحیاں توڑ کر عہد کیا تھا کہ اب وہ زندگی بھر شراب کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد بابر شراب سے ایسا تائب ہوا کہ مرتے دم تک پھر کبھی شراب نہیں پی۔
بابر کے بارے میں ایک قصہ یا کہانی مشہور ہے کہ ایک زمانے میں کہ جب تک بابر شراب سے تائب نہیں ہوا تھا اس نے کسی مزہبی عالم کو زبردستی شراب پلانے کی سزا دی تھی۔ وہ مولانا بجائے شراب پینے کے بڑی چالاکی سے شراب اپنی پوستین کی آستینوں میں انڈیل لیتا۔ ایک دن بابر یہ دیکھنے کے لئے کہ مولانا واقعی شراب پیتے بھی ہیں کہ نہیں ان کے قریب کھڑا ہوگیا۔ اس نے مولانا سے آستینیں جھٹکنے کا کہا۔ جب مولانا نے آستینیں جھاڑیں تو ان میں سے دو خونخوار شیر دہاڑتے ہوئےجست لگا کر بابر اور درباریوں کی جانب لپکے۔ یہ دیکھ کر سب انتہائ خوفزدہ ہوگئے اور مولانا کو چھوڑ دیا گیا۔
اکبر کو بھی بارش کا موسم بڑا پسند تھا۔ وہ اس دوران اکثر وقت دریائے جمنا میں لنگر انداز پرتعیش کشتیوں میں گزارتا تھا۔ یہ پر تعیش پکنک اس وقت تک جاری رہتی جب تک دریائے جمنا بارشوں کے پانی سے بپھر کر سیلاب کی صورت نہ اختیار کرلیتا تھا۔ شدید سیلابی صورت حال میں کشتیوں کو آپس میں جوڑنے والے رسے ٹوٹ جاتے تھے جس کی وجہ سے کشتیوں میں پیدا ہونے والا زیروبم انہیں اس قابل نہیں رکھتا تھا کہ ان میں آرام سے بیٹھا یا رات کو سویا جا سکے۔ایسے میں بادشاہ آگرہ کے قلعے میں رہائش اختیار کرتا۔ شاہجہاں نے بھی اس قلعے میں انگوری باغ تعمیر کروایا تھا جہاں انگوروں کی بیلیں لگائ گئ تھیں۔ جب پرتگالی ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ ولایتی شراب بھی لائے تھے جو شاہجہان کو بے حد پسند تھی۔
جہانگیر بلا کا مے نوش تھا۔ اس کی مے نوشی کسی موسم کی محتاج نہ تھی لیکن برسات میں وہ بھی جام پر جام چڑھاتا۔ اتنی مے نوشی کے باوجود وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا تھا۔ اس کو مصوری کا بھی شوق تھا۔ وہ اکثر نشے کی حالت میں باغ کی گھاس پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر مصوری کرتا۔بادل، پھول، پرندے، جانور شیر ہرن وغیرہ۔ اس کی بنائ ہوئ کچھ پینٹنگز آج بھی موجود ہیں۔
شاہجہان بھی اپنے ابتدائ دنوں میں شراب پیتا تھا لیکن بعد میں اس نے مے نوشی ترک کردی تھی۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ مے نوشی ترک کرنے کے بعد اس نے بارشوں سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنی چہیتی ملکہ ممتاز محل کے ساتھ بارشوں کا بھرپور لطف اٹھاتا۔ بالکل اپنے باپ جہانگیر کی طرح جو فتح پور سیکری میں برستی بارش کے دوران انارکلی اور کنیزوں کے ہمراہ چہلیں کرتا اور بھیگتا تھا۔ ۔
شہزادہ سلیم ننگی کھلی حالت میں خوبصورت کنیزوں اور باندیوں کو چہلیں کرتے اور ادھر ادھر پھسلتے رپٹتے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے۔
ممتاز محل کی وفات کے بعد شاہجہاں بارش کے دوران اکثرمسمون برج میں بیٹھ کر تاج محل پر گرتے پھسلتے پانی کو دیکھ کر اپنی یادوں کو تسکین دیتا۔یا پھر لال قلعے میں واقع ساون بھادوں پویلین میں بیٹھ کر بارش کا نظارہ کرتا۔شاہجہان ماہر تیراک تھا۔ جہانگیر کے زمانے میں ساون بھادوں کے تہوار کے موقع پر چڑھے ہوئے دریائے جمنا میں اپنی تیراکی کے جوہر دکھا کر اپنے باپ سے 'استاد تیراکی ' کا خطاب حاصل کرچکا تھا۔اورنگ زیب بھی اپنی جوانی کے برسات کی راتیں اپنی محبوب کنیز ہیرا بائ زین آبادی کے ساتھ گزارتا تھا لیکن بعد میں وہ انتہائ پرہیز گار اور عبادت گزار ہوگیا تھااور عیاشی سے تؤبہ کرلی تھی۔
بعد میں آنے والے مغل بھی اپنے اپنے انداز سے ساون بھادوں کا لطف اٹھاتے رہے۔ جہاندار شاہ اپنا ساون لال کنور کے ساتھ گزارتا تو اس کے بعد فرخ سیئر نے برسات کے موسم میں آگرہ چھوڑ کر دہلی گیٹ تعمیر کروایا۔محمد شاہ رنگیلا کی برسات کی راتیں تو کسی تعارف کی محتاج نہیں اور ان کی رنگین چٹخارے دار داستانیں آج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔
جس وقت باشاہ سلامت جسمانی نشیب و فراز کو واضح کرتےباریک بھیگے لباس پہنی خوبصورت کنیزوں کے ساتھ ساون سے لطف اندوز ہورہے ہوتے اس وقت کسی کو باغ میں پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔
تقریبا'' سارے مغل شہزادے مون سون کے دوران تیراکی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر بھی اس موسم میں تیراکی کرتے تھے۔بہادر شاہ ظفر اپنا ساون مہرائولی میں گزارتے جہاں ہر درخت کے ساتھ ایک جھولا ہوتا اور شہزادیاں ملکائیں اور باندیاں جھولوں کی لمبی لمبی پینگیں بھرتیں۔
آم، نیم اور جامن کے گھنے پیڑوں میں لٹکےجھولوں اور برسنے کو تلی کالی سیاہ گھٹا میں پپیہےکی پی پی اور کوئل کی کوکو کے ساتھ لڑکیاں بالیاں ملہار گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ میٹھے نمکین پکوان تلے جاتے۔ اور بادشاہ سلامت یہ سب دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔
مجھے تو یہ سب پڑھ کر لتا رفیع کا ایک بہت پرانا گیت یاد آجاتا ہے۔
ہم تم یہ بہار دیکھو رنگ لایا پیار
برسات کے مہینے میں
رم جھم یہ پھوار دل گائے رے ملہار
اک آگ سی یہ سینے میں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔