میرے خیال میں دنیا میں بہت سے لوگ صرف خواہشات اور حسرتیں دل میں لے کر دنیا سے گزر جاتے ہیں مگر بہت کم تعداد میں ایسے لوگ بھی ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں جن کی تمام تر خواہشیں اور حسرتیں پوری ہو جاتی ہیں اور ایسے لوگ بہت خوش نصیب واقع ہوتےہیں اور اور ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں پاکستان کی 3 نامور شخصیات بھی شامل ہیں ۔ یہ * خوش نصیب * مفتی عبدالقوی، مولانا طارق جمیل اور بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض صاحب ہیں ۔
۔مفتی صاحب، مولانا صاحب اور ملک صاحب سدا بہار شخصیات ہیں جن کا ہر دور میں کسی نہ کسی حوالے سے تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔ ان میں مولانا صاحب اور ملک بہت زیادہ شہرت کے حامل اور ہر دور کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رہتے ہیں ۔یہ ان کی سحر انگیز شخصیت کا کمال ہے ۔ ویسے بنیادی طور پر تو ملک ریاض کی وجہ شہرت خوب صورت بستیاں آباد کرنا محل نما عمارتیں اور مساجد وغیرہ تعمیر کرنا حاجت مند اور مستحق افراد کی بلا تفریق مدد کرنا اور غریبوں و نادار افراد کو بہترین کھانا کھلانا ہے لیکن اس کے علاوہ نامور سیاستدانوں اور صحافیوں کو تحفے تحائف دینے کی بھی بہت شہرت رکھتے ہیں ۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کے باعث ملک ریاض صاحب کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے مگر کچھ عرصہ سے ملک صاحب کا ستارہ گردشوں میں ہے ۔ عدلیہ اور حکمران طبقہ ان سے ناراض لگتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نواز شریف، آصف علی زرداری، جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کے تاحیات قائد الطاف حسین کی طرح ملک چھوڑ کر نہیں جاتے ۔ شاید وہ یہی سوچ کر اپنے وطن میں مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔
مولانا طارق جمیل صاحب کا ستارہ مستقل طور پر بلندیوں پہ رہتا ہے ۔ اقتدار میں کوئی بھی ہو وہ مولانا صاحب کی خصوصی دعاوں کے خواہش مند رہتے ہیں اور مولانا طارق جمیل صاحب کی یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر دور میں نہ صرف خود حکمرانوں کی اطاعت کرتے ہیں اور اس اطاعت کو خوش قسمتی سمجھتے ہوئے بارگاہ الہی میں ان کے حق میں خصوصی دعاوں کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں بلکہ عوام کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ شاید اس لیئے مساجد اور مدارس کی بجائے صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس، ،گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاوس ان کی دعاؤں کا مسکن رہتے ہیں ۔ان کی دعا مانگنے کا انداز بھی منفرد اور دلپذیر ہوتا ہے جی چاہتا ہے وہ یونہی دعا مانگتے رہیں ۔ وہ اتنے حساس طبیعت کے مالک ہیں کہ اور کوئی بیشک ان کی دعا پر نہ روئے لیکن وہ خود دعا کے اختتام تک گڑگڑا کر روتے رہتے ہیں ۔
مفتی عبدالقوی صاحب کی شہرت کچھ اور قسم کی ہے ۔ مفتی صاحب کی شہرت کی بڑی وجہ سابقہ ماڈل گرل قندیل بلوچ ہیں وہ خود تو غیرت کے نام پر اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گئی مگر مفتی صاحب کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا گئیں ۔ قندیل بلوچ کےساتھ ان کی سیلفی عوام میں بہت مقبول ہو گئی تھی ۔ قندیل کے قتل کے مقدمے میں مفتی عبدالقوی صاحب کو بھی شامل تفتیش کیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ سوچ کر اس مشکل گھڑی کا سامنا کیا ہوگا بقول شاعر شعیب بن عزیز
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اگر کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ مفتی صاحب آئندہ ایسی حماقت نہیں کریں گے تو وہ سخت غلطی پر تھے ان کی یہ غلط فہمی اس وقت دور ہو گئی ہوگی جب مفتی صاحب کی ایک اور خوب صورت سیلفی معروف ٹک ٹاک حریم شاہ کے ساتھ منظر عام پر آ گئی جس سے حریم شاہ اور مفتی عبدالقوی، دونوں کی خوب شہرت ہوئی ۔ مفتی عبدالقوی سیلفیوں کے باعث میڈیا اسٹار بن جاتے ہیں ۔ ان تینوں شخصیات کی شہرت اور پہچان الگ الگ ہے مگر ان میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں صبر،شکر اور برداشت کا مادہ زیادہ ہے یہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا برا نہیں مناتے اور نہ ہی کسی سے ناراض ہوتے ہیں اور میرے خیال میں ان کی کامیابی کا اصل راز بھی یہی ہے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...