27.05.2022 کومیری اہلیہ مبارکہ کا یومِ وفات ہے۔اب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔ہم نے 48 سال ایک ساتھ زندگی گزاری۔زندگی کے بے شمار دکھوں کو مل کر سہا، ایک دوسرے کو حوصلہ دیا اور جب سکھ کے دن آئے تو بھی جی جان سے خوشی کے دن گزارے۔ہم دونوں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھی رہے۔یہ ساتھ ایسا تھا کہ اس کے لئے محبت کا لفظ بہت چھوٹا لگتا ہے۔ ہمارے تعلق کو سمجھنے کے لئے گہری انڈرسٹینڈنگ کا لفظ کچھ معاونت کرتا ہے لیکن ہمارا تعلق محض سماجی سطح پر میاں بیوی کی انڈر سٹینڈنگ تک محدود نہیں تھا۔مبارکہ کی وفات کے بعد ایک دوست احمد حسین مجاہد صاحب نے توجہ دلائی کہ مبارکہ دو سال اور جی لیتیں تو ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کی گولڈن جوبلی ہو جاتی۔ان کی بات درست تھی لیکن بعد میںایک بار جب میں اپنا 1990کاتحریرکردہ مبارکہ کا خاکہ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس کے ان جملوں پر آکر رک گیا۔
’’۔لڑکپن کے دو سال ہم نے اکٹھے گزارے تھے۔ پتہ نہیں یہ بچپن کی نامزدگی اور لڑکپن کی انڈرسٹینڈنگ تھی یا کچھ اور۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مزاج شناس بن گئے۔ پھر بات مزاج شناسی سے بڑھ کر محبت اور دوستی کی سطح تک پہنچی اور وہاں سے بھی آگے بڑھی تو اس مقام کے بیان کے لئے کوئی لفظ نہیں ملا۔ ‘‘
اگر ہماری 48 سالہ رفاقت میں لڑکپن کے مذکورہ دو سال بھی شامل کر لئے جائیں تو ہم اس دنیا میں پچاس سال مل کر رہے ہیں۔تو سمجھیں گولڈن جوبلی ہو گئی۔امید ہے تین سال بعد پیش کی جانے والی میری اس تاویل یا تک بندی کو احمد حسین مجاہد صاحب اور دیگر احباب قبول کر لیں گے۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ایک سیدھی سادہ سی گھریلو خاتون ہوتے ہوئے بھی مبارکہ کے متعلق اب تک تین کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ’’ہماری امی مبارکہ حیدر ‘‘ مرتب شعیب حیدر،سال 2015 ۔۔’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ مرتب حیدر قریشی،سال 2019 ۔۔’’مبارکہ محل‘‘ مرتب حیدر قریشی،سال2021۔۔یہ کتب آن لائن بھی دستیاب ہیں۔
اب مبارکہ کی تیسری برسی پر کچھ لکھنا چاہا تو سوچا کہ پہلے سے قلم بند کی جاچکی تحریروں میں سے ہی چند باتیںاور یادیں منتخب کرکے پیش کردوں۔یہ بھی انہیں یاد کرنے کی ایک صورت ہے۔سو ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘میں سے چند یادیں پیش کرتا ہوں۔
’’میں اٹھارہ سال کاتھا، مبارکہ چودہ سال کی تھی جب ہماری شادی ہوگئی۔ ہماری شادی کیاتھی گڈی، گڈے کابیاہ تھا۔مجھے کچھ پتہ نہ اسے کچھ خبر! بے خبری کے عالم میں ولیمہ بھی ہوگیا۔ کئی دن گزرگئے اور ہم بے خبری کی جنت میں سوتے رہے۔ پھر یکایک، از خود آگہی کا کوندالپکا۔ او رپھر ہم پتوں سے اپنے تن ڈھانپنے لگے۔ آدم اور حوا کی کہانی آگے بڑھنے لگی۔۔۔بات ہورہی تھی آدم اور حواکی کہانی کی۔ اس کہانی میں اتوار کے دن کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ میں اتوارکے دن پیداہوا، مبارکہ بھی اتوارکے دن پیداہوئی، ہمارانکاح بھی اتوارکے دن ہوا۔ پہلی بیٹی رضوانہ اتوارکے دن پیداہوئی۔ پہلا بیٹا شعیب اتوار کے دن پیداہوا۔ آخر حکومت پاکستان نے تنگ آکر اتوار کی سرکاری چھٹی ختم کردی اور چھٹی کے لئے جمعہ کادن مقررکردیا۔‘‘(مبارکہ کے خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘سے اقتباس۔سال 1990)
’’ ایک دفعہ بعض عزیزوں نے اسے سمجھایاکہ مردکااتنااعتبارکرنا بھی ٹھیک نہیں ہوتا(گویا تھوڑابہت شک کرتے رہناچاہیے) مگر مبارکہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جھلاکر ایک عزیز نے یہاں تک کہہ دیا: اب تمہاری آنکھیں اسی وقت کھلیں گی جب وہ بچوں سے بھراٹوکرالے کر گھر آئے گا۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتاہے مبارکہ کے اندروہی دوسال کی بچی بیٹھی ہے جسے دیکھ کر میں نے کہاتھااسی کے ساتھ شادی کروں گا۔ معصوم، بھالی بھالی ایسے کبوتر(بلکہ کبوتری)کی طرح جو بلّی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے اور خود کو محفوظ سمجھ لے۔مگر نہیں۔۔ مبارکہ نے توآنکھیں بھی ہمیشہ کھلی رکھی ہیں اور بلیو ںکو دیکھ کر بھی خود کو محفوظ سمجھتی رہی ہے۔ قدرت خداکی۔ ہر خطرے سے محفوظ بھی گزرجاتی رہی ہے۔ہرچند اس میں خدا کی قدرت کے ساتھ میری شرافت کا بھی دخل ہے۔
ایک دفعہ میں نے مبارکہ سے پوچھا: تمہیں مجھ پر اتنااعتمادکیوں ہے؟
’’اعتماد‘‘؟۔۔مبارکہ نے حیرت سے کہااو رپھر رواں ہوگئی ’’تمہارے ساتھ شادی کون کرے گی؟ کس کا دماغ خراب ہے؟شکر کروکہ میں مل گئی ہوں اور وہ بھی اس لئے کہ تمہارے ماموں کی بیٹی ہوں‘‘
ان جملوں سے ہمارے درمیان پائی جانے والی (یک طرفہ) بے تکلفی کااندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ مبارکہ کے بارے میں لکھنے کی جرأت نہیں۔ اس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوںگا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی۔ ‘‘(مبارکہ کے خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘سے اقتباس۔سال 1990)
’’ایک بار صبح سویرے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے میں نے لتا منگیشکر کا ایک گانا لگایا’’یہ شام کی تنہائیاں،ایسے میں تیرا غم‘‘۔مبارکہ کمرے کے آگے سے گزری تو کہنے لگی یہ کیا صبح صبح’’شام کی تنہائیاں ‘‘لگا کر بیٹھے ہیں۔میرے پسندیدہ گانوں پر مبارکہ کے تبصرے بعض اوقات اپنا الگ لطف پیدا کردیتے ہیں۔۔۔۔’ایک دن میں پنجابی کی ایک ویب سائٹ ’’اپنا آرگ ڈاٹ کام‘‘ سے طفیل ہوشیارپوری صاحب کا مشہور گانا ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘(اے کبوتر ! میری یہ چٹھی میرے محبوب تک پہنچا دو)سنتے ہوئے دوستوں کی ای میلز کے جواب دے رہا تھا۔ گانے سے اپنی بعض یادوں کے باعث میں کچھ جذباتی سا بھی ہو رہا تھا۔اسی دوران کمرے میں مبارکہ آگئی اور ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔۔میں نے حیران ہوکے پوچھا کیا ہوا ہے؟۔۔۔کہنے لگی انٹرنیٹ پر ای میلز کے جواب لکھ رہے ہیں اور ساتھ ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر جذباتی ہو رہے ہیں۔ مبارکہ کی بات سن کر میں اپنی جذباتی کیفیت ہی میں مسکرا دیا۔ ‘‘(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:روح اور جسم سے اقتباس)
’’ اپنے افسانہ’’گھٹن کا احساس‘‘ میں ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ہوئی بات کو میں نے یوں لکھا ہوا ہے۔
’’ نہاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنی پوری کمرپرنہیں پھِرسکتاتھا۔ ماں کا کمرپر صابن مَلنا یادآتاتواس کا جی چاہتا کاش ماں زندہ ہوتی اور اب بھی میری کمرپر صابن مَل دیتی۔ ایسے ہی خیالوں کے دوران ایک بار اُس نے اپنی بیوی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی ماں کی بھتیجی تھی بلکہ بڑی حد تک اس کی ماں کی ہم شکل بھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے اس خواہش کا اظہارکردیاکہ وہ نہاتے وقت اس کی کمرپر صابن مَل دیا کرے ۔ اس کی بیوی تھوڑا ساشرمائی پھر کہنے لگی:’’مجھ سے یہ فلموں والے باتھ روم کے سین نہیں ہوسکتے‘‘۔۔وہ بیوی کے جملے پر مسکرایااور سوچایہ پگلی کہاں جاپہنچی۔ یوں بھی باتھ روم میں اتنی جگہ ہی کہا ںہے کہ وہ بھی میرے ساتھ سماسکتی۔‘‘اور اب صورت حال یہاں تک آپہنچی تھی کہ ہم انڈین فلموںکے باتھ روم سے بڑھ کر انگریزی فلموں کے باتھ روم والے سین جیسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔مبارکہ کا وزن بہت بڑھ گیا تھا اس لیے اس سین کا مزہ تو کیا لیا جاتا،میرا سانس ہی پھولنے لگتا۔ یہ سانس پھولنے کا سلسلہ بڑ ھا تو ڈاکٹر سے ملاقات کی۔‘‘
(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس)
’’ ۲۴؍اکتوبر۲۰۰۹ء سے مبارکہ کو ڈایلے سز کی مشقت سے گزرنا قرار پایا اورلگ بھگ سوا سال کے بعد ۱۴؍ فروری ۲۰۱۱ء کو ان کے گردے پھر سے کام کرنے لگ گئے اور محض دعاؤں اور دواؤں کے سہارے ڈایلے سز کی مشقت سے نجات مل گئی۔پھر تقریباَچار سال کے بعد۷؍ جنوری ۲۰۱۵ء سے پھر ڈایلے سز کرانا ضروری قرار پایا۔تب سے اب تک ہفتہ میں تین بار ڈایلے سز کا عمل جاری تھا ۔۲۷ مئی ۲۰۱۹ء کو رمضان شریف کی ۲۱ تاریخ تھی۔آخری عشرہ کا پہلا دن۔فجر کی نماز کے لیے سوا چار بجے کا الارم لگایا ہوا تھا۔معمول کے مطابق الارم بجتے ہی مبارکہ بیگم بیدار ہو گئیں۔بائیں بازو پر ڈایلے سز کے لیے جو شنٹ(shunt) لگا ہوا تھا مبارکہ نے اس کا پلستر ہٹا کر خارش کرنا چاہی۔(ایسا وقتاََ فوقتاََ کر لیا کرتی تھیں)لیکن اس دن ایسا ہوا کہ شنٹ کا کنکشن ٹیوب بھی باہر سرک آیا،شاید دس سال پہلے نصب ہونے کی وجہ سے کچھ لوز ہو گیا تھا۔بس پھر خون کا فوارہ بہہ نکلا۔مجھے مبارکہ نے آواز دی کہ خون رُک نہیں رہا۔میں فوراََ اٹھ کر گیا۔مبارکہ کی ہدایت کے مطابق خون کے اخراج کو روکنے کی کوشش کی۔لیکن بے سود۔۔ان کا آخری وقت آگیا تھا اورکثرت سے خون بہہ جانے کے باعث وہ اپنے ہی خون میں لت پت ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔۔۔۔۔ ۲۶ مئی کو دو انوکھے واقعات ہوئے۔ایک یہ کہ میں سات بجے سے پہلے پہلے ناشتہ کر لیتا ہوں جبکہ مبارکہ نو بجے کے بعد ناشتہ کیاکرتی تھیں۔۲۶ مئی کو مبارکہ ناشتہ کر رہی تھیں اور میں صوفے پر بیٹھاتھا۔جی چاہا کہ ٹی وی پر یوٹیوب میں جا کر پرانی فلم ’’مغل اعظم‘‘کے دوتین گانے سنوں۔ پہلے گانا لگایا’’ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی‘‘۔۔۔یہ گانا ختم ہونے تک مبارکہ ناشتہ کر چکی تھیں۔میں نے دوسرا گانا لگایا۔
خدا نگہبان ہو تمہارا دھڑکتے دل کا پیام لے لو
تمہاری دنیا سے جا رہے ہیں،اٹھو ہمارا سلام لے لو
مبارکہ نے کافی کا کپ ہاتھ میں لیا اور صوفے پر آ کر میرے ساتھ بیٹھ گئیں۔مبارکہ کو عام طور پر گانوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن اس دن انہوں نے میرے ساتھ بیٹھ کر بڑے انہماک کے ساتھ وہ گانا سنا،اتنی توجہ کے ساتھ کہ مجھے لگا ہم دونوں اس گانے کو دل کی گہرائی کے ساتھ ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں۔گانا ختم ہونے پر پھر یہی گانا دوبارہ لگادیا۔تب میں نے فلم بنائے جانے کے دوران اس گیت کے پس منظرکی بابت بھی مبارکہ کوکچھ بتایا۔ دوسرا یہ کہ۲۶مئی کو بڑی بیٹی رضوانہ کا ایک کام سے آنا طے تھا۔وہ آئی تواس کے میاں اور بچے بھی ساتھ آگئے۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ چھوٹی بیٹی درِ ثمین بھی اپنی فیملی کے ساتھ آ رہی ہے۔عثمان کے گھر میں بچوں کا شور پہنچا تو اس کی ساری فیملی بھی آ گئی۔پھر ٹیپو بھی آگیا اور مزید کمال یہ ہوا کہ ٹیپو کی منگیتر طوبیٰ بھی اپنے بھائی کے ساتھ پہنچ گئی۔پورا دن گھر میں رونق رہی۔ مبارکہ خود بھی کچن میں کام کرتی رہیں۔شام کو افطاری کے بعد سارے بچے اپنے اپنے گھر واپس جانے لگے۔ساڑھے دس بجے تک فراغت ملی۔صبح سوا چار بجے فجر کی نماز کے لیے الارم بجا تو مبارکہ ا ٹھیں اور پھر وہی شنٹ کی ٹیوب باہر نکل آنے کا سانحہ ہو گیا جس کا ذکر شروع میں کر آیا ہوں۔کل کے فیملی اجتماع کے ٹھیک چھ گھنٹے کے بعد صبح ساڑھے چاربجے کے لگ بھگ میں بچوں کو مبارکہ کی وفات کی اطلاع دے رہا تھا۔ یہ فیملی اجتماع جو کسی پروگرام کے بغیر از خود ہو گیا تھا، اس لحاظ سے اچھا رہا کہ بچوںنے محبت اور خوشی کے ماحول میں ماں سے آخری ملاقات کر لی اور مبارکہ نے بھی بچوں کی گہما گہمی اور خوشی کا اپنی ساری مامتا کے ساتھ مزہ لیا۔اب گانے والی بات کی طرف آتا ہوں۔صبح سوا چار بجے مبارکہ نے مجھے آواز دے کر کہا کہ خون زیادہ بہہ رہا ہے،رُک نہیں رہا،آپ آکر دیکھیں۔تو یہ گویا ان کی طرف سے پیام تھا کہ یہ دل بس مزید چند منٹ تک دھڑکنے والا ہے،اس لیے اس کا پیام سن لو۔میں تمہاری دنیا سے جا رہی ہوں سو اٹھو اور میرا سلام لے لو۔۔۔۔مبارکہ کی وفات کی صورتِ حال کے ساتھ یہ گانا اتنا زیادہ جڑ گیا ہے کہ جیسے یہ حقیقتاََ ہمارے لیے بنایا گیا ہو۔دلیپ کمار اور مدھو بالا تو اس گانے میں اداکاری کر رہے تھے ہم دونوں پر تو یہ گانا ایک نئی معنویت کے ساتھ گزر رہا تھا۔گانا شروع ہونے سے پہلے ایک شعر گایا جاتا ہے۔
وہ آئی صبح کے پردے سے موت کی آواز
کسی نے توڑ دیا جیسے زندگی کا ساز
یہ شعر بھی لفظ بلفظ مبارکہ پر گزرا۔۔۔۔فجر کی نماز کا وقت تھا اور اس صبح کے پردے سے موت نے آواز دی۔شنٹ مبارکہ کی زندگی کا ساز تھا۔اس کی ٹیوب کا باہر نکل آنا،زندگی کے ساز کا ٹوٹ جانا ہی تھا۔ صرف یہ شعر اور مکھڑا ہی نہیں،پورا گیت لفظ بلفظ ہم پر گزرا،لیکن اس کا ذکر یہیں ختم۔‘‘ (مبارکہ کے خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کے دوسرے حصہ سے اقتباس۔سال2019)
’’ گندی زبان کے معاملے میں بھی مبارکہ نے ہمیشہ محتاط زندگی گزاری۔بلکہ اب یاد آرہا ہے کہ ایک زمانے میں مجھے پنجابی اسٹیج شو اور بعض اردو کامیڈی شو کافی پسند تھے۔شروع میں مبارکہ نے یہ سب تھوڑا سا دیکھا لیکن وہ جلد ہی ایسے پروگراموں سے متنفر ہو گئیں۔ بعض شوز میں ذو معنی اور بعض میں کھلم کھلا فحش گوئی اتنی زیادہ تھی کہ مبارکہ ٹی وی والے کمرے سے ہی اُٹھ گئیں۔میں نے ایک آدھ بار اصرار کرکے بلانا چاہا تو ہنستے ہوئے کہنے لگیں ایسے پروگرام بچوں کے ساتھ تو کیا دیکھنا، میاں بیوی کا بھی ایک ساتھ دیکھنا غیر اخلاقی لگ رہا ہے۔۔۔ایسے پروگرامز میں قابلِ احترام رشتوں کی تضحیک بھی مبارکہ کو سخت نا پسند تھی ۔ ۔۔مبارکہ میں یہ بڑی اہم خوبی تھی کہ وہ خواتین کے روایتی جھگڑوں سے ہمیشہ دور رہیں اور کبھی مذاق میں بھی کسی کے ساتھ گندی زبان میں بات نہیں کی۔ہاں میرے ساتھ بے تکلفانہ کلام کرناالگ معاملہ ہے، لیکن اس میں بھی کسی گندی زبان کے استعمال کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں مبارکہ کی میرے ساتھ یہ بے تکلفی بس اتنی ہی ہوتی تھی کہ پتہ نہیں چلتا تھا بیٹے سے مخاطب ہیں یا شوہر سے؟
شعیب نے اپنی یادوں میںدرست لکھا ہے کہ: ’’ ابو مجھے اپنی سلطنت کا ولی عہد کہتے تھے اور امی ابو کی سلطنت کا مذاق اڑایا کرتی تھیں۔‘‘
میری بادشاہت اور میری سلطنت کا صرف مذاق ہی نہیں اُڑایا جاتا تھا بلکہ مبارکہ اس سلطنت کا حدودِاربعہ ایسے انداز میں بیان کرنے لگتیں کہ جی چاہتا سب تخت و تاج چھوڑ کر کسی جنگل کی راہ لی جائے۔
مبارکہ نہانے کی بہت زیادہ عادی تھیں۔ہر روز نہیں تو دوسرے روز ضرور نہاتیں۔میں اس معاملہ میں کافی سست ہوں۔مبارکہ نہانے کا کہتیں تو میں بات بدل دیتا۔ایک بار مبارکہ نہا کر باتھ روم سے نکلیں،میں سامنے ڈرائنگ روم کے صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔تولیہ سے سر کے بالوں کو خشک کرتی ہوئی مبارکہ بیگم کہنے لگیں۔’’تُسّی وی نہا لَو۔‘‘
میں نے اپنی لہر میں ہنستے ہوئے جواب دیا ’’سُکّا ای؟‘‘ اور پانچ بچوں کی ماںکچھ شرماتے،کچھ مسکراتے اورکچھ بڑبڑاتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔‘‘(کچھ اور یادیں،کچھ اور باتیں سے اقتباس)
’’ہمارا صوفہ ایل ٹائپ کا ہے۔میں بیڈ کی بجائے صوفہ پر مزے سے سوتا ہوں۔میری عادت کی وجہ سے مبارکہ نے بھی بیڈکی بجائے صوفہ پر سونا شروع کر دیا۔ہمارے سونے کا طریق یوں تھا کہ ہم دونوں کے پاؤں ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔لیکن کئی بار ایسا ہوتا کہ رات کوآنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ مبارکہ نے سائیڈ تبدیل کر لی ہے اور اب میرے پیروں کی طرف ان کے پاؤں نہیں بلکہ سر ہے۔مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا چنانچہ پھر میں بھی اپنا سر اسی طرف کر لیتا۔یہ معمولی سی بات ہے لیکن شاید اس کے اندر کہیں ،ایک دوسرے کے لیے ہم دونوں کی شخصیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ مبارکہ کو چڑیاں پالنے کا بہت شوق تھالیکن عجیب بات ہے کہ ہمیشہ تین چڑیاں پنجرے میں رکھیں۔گزشتہ دس برس(۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۹ء تک)کے عرصہ میں ایک دو برس چھوڑ کر تقریباََ ہر سال ہی مبارکہ کو ایمر جنسی میں لے جانا پڑتا تھا۔ہر بار چند دن کی افراتفری کے بعد ایسا ہوتا کہ گھر میں ایک چڑیا مر جاتی اور اُدھر مبارکہ بیگم ہسپتال میں ٹھیک ہو جاتیں۔ٹھیک ہو کر گھر آتیں تو پھر ایک اور چڑیا لا کر دو کو تین کر دیتیں۔اس بار مبارکہ گھر پر ہی رہیں اور دس منٹ میں دوسری دنیا کی طرف سدھار گئیں۔کسی چڑیا کو اپنی مالکن کے لیے قربانی دینے کی مہلت ہی نہیں ملی۔یہ سب کچھ اتفاق ہی ہو گا لیکن عجب اتفاق ہے!۔۔۔۔۔
مبارکہ نے مجھے ہمیشہ محبت اور احترام کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔لیکن کبھی کبھی بے تکلف بھی ہو جایا کرتی تھیں۔محبت،احترام اور بے تکلفی کا یہ ادلتا بدلتا رویہ شروع سے ہی رہا ہے۔شروع شروع میں جب بیٹے بھی گھر میں موجود ہوتے تھے تو میں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ بیٹے سے مخاطب ہیں یا مجھ سے۔ایک بار تو مبارکہ کی آواز پر میں نے اور ایک بیٹے نے ایک ساتھ ہی جواب دیا تو معلوم ہوا کہ میری ہی طلبی ہوئی ہے تب مجھے کہنا پڑاکہ مبارکہ بیگم ! بے شک ایسے ہی بلائیںمگر اتنا فرق واضح کر لیا کریں کہ اندازہ ہو جائے کہ خاوند کو بلایا ہے یا بیٹے کو۔مبارکہ کا انداز تو وہی رہا ،میں نے ہی اپنی ذہانت سے باپ یا بیٹا کے لطیف فرق کا اندازہ کرلیا اور پھر مجھے یہ الجھن نہ رہی کہ کس کی طلبی ہوئی ہے۔
قرآن شریف میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔زندگی بھرمبارکہ میرے لیے لباس بھی تھیں اور فل اوور کوٹ بھی۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان کا طرزِ عمل ایسا تھا کہ جیسے وہ جان بوجھ کر میرے پائے جامہ کو ہلکا سا نیچے کی طرف کھینچتی ہوں۔میں عجلت میں نیفے کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے انہیں سمجھاتا کہ آجکل کے پائے جاموں میں ناڑا نہیں ہوتا،الاسٹک ہوتا ہے۔لیکن مبارکہ شرارتی موڈ میں مسکراتے ہوئے پھر بھی ہلکا سا جھٹکا دے دیتیں۔مقصد’’تراہ نکالنا‘ ‘ نہیں تھا بلکہ صرف مجھے الرٹ رکھنا ہوتاتھاکہ میں اب دل کا مریض ہوں اور مجھے اب ہر طرح احتیاط کرنی چاہئے۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے فضل و کرم اور ماں باپ کی دعاؤں کے بعد میری ساری طاقت،میری ساری کامیابیاںمبارکہ کے دَم سے تھیں۔ میں زندگی میں انہیںاتنی خوشیاں نہیں دے سکا جتنا انہوں نے میری وجہ سے دکھ اُٹھائے ہیں۔ان دکھوں سے وہ کبھی کبھی اداس ضرور ہوتی رہیں لیکن مجھ سے کبھی شکوہ نہیں کیا۔بس دعا اور بہادری کے ساتھ مصائب کا سامنا کرتی رہیںاور ہمیشہ میری ڈھال بنی رہیں۔کوئی ایسی ڈھال کا تصور کر سکتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے لیے ۱۹۸۷ء سے ۲۰۱۹ء تک ہر جمعہ کو ایک ہی خاص دعا کر رہی ہے اور ۲۰۱۵ء سے پہلے کسی کو اس کی بھنک تک نہیں پڑتی۔ہے دنیا میں کوئی اور ایسی بیوی؟۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا آخری وقت جب بھی آئے،اللہ کی مرضی ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ میرے آخری وقت میں مجھے کسی کے بے تکلفانہ پکارنے کی کوئی جانی پہچانی سی آواز سنائی دے گی،یہ واضح نہیں ہو گا کہ پکارنے والی شوہر کو پکار رہی ہیں یا بیٹے کو۔یہ پکارنے والی مبارکہ بھی ہو سکتی ہیں،میری امی بھی ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ جب دوسری دنیا میں پہنچوں تو معلوم ہو کہ امی اور مبارکہ دونوں نے مل کر مجھے پکارا تھا اور دونوں ہی میرے آنے کی منتظر تھیں!(مبارکہ کے خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کے دوسرے حصہ سے اقتباس۔سال2019)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11.05.2019 کوحیدر قریشی اور مبارکہ حیدر کی ایک ساتھ لی گئی زندگی کی آخری اور یادگار تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارکہ حیدر اور حیدر قریشی کی مشترکہ قبر۔۔۔حیدر قریشی اپنی قبر والی سائیڈ پر باہر کھڑے ہوئے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...