سرورادبی اکادمی جرمنی کے زیر اہتمام
’’مبارکہ حیدر یادگاری تقریب‘‘13اکتوبر 2019
رپورٹ:حیدر قریشی
حیدرقریشی کی میزبانی میں سرور ادبی اکادمی جرمنی کے زیر اہتمام 13 اکتوبر کو ’’مبارکہ حیدر یادگاری تقریب‘‘ ہوئی۔اسٹیج سیکریٹری کے فرائض طاہر عدیم صاحبؔ نے انجام دئیے۔اس کا اعتراف شروع میں ہی کر لینا چاہئے کہ طاہر عدیم صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ادا کیے ۔مہمانِ خصوصی Frau Henning اور Dr. Gerd Ehrhardt تھے۔
مشہود کوثر کی تلاوت قرآنِ مجید مع اردوترجمہ سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔احتشام کوثر نے تلاوت کی گئی آیات کا جرمن ترجمہ پیش کیا۔پھر شعیب حیدر نے’’مختصرتعارف مبارکہ حیدر‘‘پیش کیا اوربطور خاص بتایا کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ایک رُخ ہے،آج ہم پاکستان کا دوسرا اور مثبت رُخ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔کم عمری میں شادی،طویل رفاقت اور وفات کے اڑھائی ماہ بعد’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘مکمل کر لینا،کتاب کا چھپ جانا اور پھر آج کی تقریب۔۔۔یہ سب پاکستان کا دوسرا اور مثبت رُخ ہے۔
گویا پاکستان کے لوگ ویسے بھی ہیں تو ایسے بھی ہیں۔ ماہ نور حیدرنے پہلے اس تعارف کا جرمن ترجمہ سنایا۔پھر ماہ نور حیدر نے Frau Henning اورDr. Gerd Ehrhardt کا تعارف کراتے ہوئے مبارکہ حیدر اور ان کی فیملی کے ساتھ ان کی خدمات کا ذکر کیا اور انہیں خوش آمدید کہا۔ بعد ازاں دونوں جرمن شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مبارکہ حیدر کے حوالے سے چند باتیں کیں اور کتاب چھپنے سے تقریب ہونے تک ساری سرگرمی پر خوشی کا اظہار کیا۔
مہمانوں کے بعد طارق محمود حیدر نے اپنی یادوں سے چند اقتباس پڑھ کر سنائے اور طوبیٰ حیدر نے اس کا جرمن ترجمہ سنایا۔پھر طاہر عدیم صاحب نے اپنی نظم’’تیرے بعد‘‘ سنائی اور جہاں زیب حیدر نے اس کا جرمن ترجمہ سنایا۔ان کے بعد عثمان حیدرنے ماں کی یاد کے حوالے سے چند گیت پیش کیے۔ بعد ازاں درِ ثمین انور نے اپنی یادوں سے اقتباس سنانے کے ساتھ ان کا جرمن ترجمہ بھی سنایا۔
مبارکہ کے دو چھوٹے پوتوں شایان حیدر اور شیراز حیدر نے جرمن زبان میں’’ دادو کی یاد میں‘‘نظم سنائی۔کینیڈا سے عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی نے بطور خاص اپنے تاثرات بھجوائے تھے جو تقریب سے ایک دن پہلے ملے تھے۔اسٹیج سیکریٹری طاہر عدیم صاحب نے دونوں کے پُرخلوص تاثرات پڑھ کر سنائے۔عثمان حیدر نے اپنی یادوں کے چند اقتباس سنانے تھے لیکن عین وقت پر وہ ہال میں موجود نہیں تھے،چنانچہ پھر جہاں زیب حیدر نے ان کے اقتباسات کا جرمن ترجمہ پڑھ کر سنادیا۔
ان کے بعد رضوانہ کوثر نے ماں سے متعلق اپنی یادوں کے اقتباس سناناشروع کیے لیکن دو تین جملوں کے بعد ہی وہ بہت زیادہ جذباتی ہو گئیں،چنانچہ پھر نزہت طارق نے ان کے اقتباسات کا جرمن ترجمہ سنایا۔آخر میں حیدرقریشی نے بتایا کہ مبارکہ پر کتاب مرتب کرنے اور اسے چھپوانے سے لے کر آج کی یادگاری تقریب تک سارے مراحل کسی پیشگی منصوبے کے بغیر ہوتے چلے گئے ہیں اور یہ سب خدا کی طرف سے توفیق ملتی گئی ہے اور یہ سب ہوتا گیا ہے۔حیدر قریشی نے اپنے والد مرحوم قریشی غلام سرورصاحب کے اسمِ گرامی سے منسوب سرور ادبی اکادمی جرمنی کی 1998 ء سے اب تک کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے اہم ادبی کام کسی بینڈ باجے کے بغیر کیے گئے۔
سرور ادبی اکادمی جرمنی کی آج کی مبارکہ حیدر یادگاری تقریب کابھی ابا جی کے ان دوخوابوں کی تعبیر سے گہرا تعلق ہے جو1951 کے آخر میں دیکھے گئے اور آج 2019 کی آخری سہ ماہی تک ادبی اور نسلی دونوں رنگ میں پوری شان کے ساتھ پورے ہو چکے ہیں۔الحمدلِللہ۔ان تعبیروں کے ظاہر ہونے میں مبارکہ کا بے حد اہم اور مرکزی کردار ہے۔حیدر قریشی نے سارے بچوں،بچوں کے بچوں،قریبی رشتہ داروں اور فیملی فرینڈز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔اس شکریۂ احباب کا جرمن ترجمہ طوبیٰ حیدر نے پڑھ کر سنایا۔ پھر مبارکہ کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی۔یوں یہ مبارکہ حیدر یادگاری تقریب بھیگی پلکوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے اختتام پذیر ہوئی۔تقریب کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“