“قاضی” جو “مبارک” بھی تھا
مبارک قاضی رخصت ہوئے
اردو دنیا کو کیسے بتایا جائے کہ بلوچی ادب کی دنیا کو کتنا بڑا نقصان ہوا؟ آپ اسے فیضؔ صاحب کی رخصتی کا دن سمجھ لیں، شاید آپ کو اس سے بلوچی ادب کے ڈائسپورا کے نقصان کا اور سوگ کا اندازہ ہو۔
محبت اور مزاحمت کے رنگوں سے شاعری بُننے والا ہمارا شاعری کا یہ فیض احمد فیض مگر اپنے حلیے، مزاج اور برتاؤ میں یکسر بلوچی کا “استاد دامن” تھا۔ ملنگ مزاج، گلی محلے کا آدمی، ہر وقت ہر ایک کے لیے دستیاب۔
عطا شاد کے بعد بلوچی شاعری کو شاید ہی اتنا بڑا نام ملا ہو۔ مگر عطا شاد کے ہاں بھی مزاحمت اتنی واضح شکل نہیں رکھتی، جتنی قاضی صاحب کے ہاں۔ ممکن ہے اس کی ایک وجہ معروضی حالات بھی ہوں اور کچھ فکری رجحان بھی۔ انہوں نے شعری جمالیات کے ساتھ مزاحمت کے وہ پیکر تراشے کہ بلوچی میں سب سے کم پڑھی جانے والی صنف، شاعری، سب سے زیادہ پڑھی گئی۔
کتاب میلوں کا ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ بلوچستان میں سب سے کم، شاعری پڑھی جاتی ہے۔ اور اسی بلوچستان میں مبارک قاضی کی کتاب کا ایک ہزار کا ایڈیشن ایک ماہ (ایک کتاب کا تو ایک ایڈیشن شاید ایک ہفتے میں بھی) بکتے ہوئے ہم نے دیکھا۔ شاعروں کو جہاں کتاب کی اشاعت کے لالے پڑے ہوتے ہیں، مبارک قاضی کے ہاں کتاب چھاپنے والوں کی لائن لگی رہتی، پبلشر ان کے ناز اٹھاتے، منتیں کرتے کہ اگلی کتاب ہمیں دے دیں، رائلٹی بے شک ایڈوانس لے لیں۔ (اور قاضی صاحب کی رائلٹی بھی کیا ہوتی؟ ایک آدھ “بوتل” اور بس!!)
معاصر ادب میں جتنی پذیرائی مبارک قاضی کو ملی، اتنا احترام اور قبولیت ہم نے کسی شاعر کے لیے نہیں دیکھی۔ ستم یہ دیکھیے کہ اپنے وطن کے گیت گانے والے اس یکتا و یگانہ شاعر کا اکلوتا جواں سال بیٹا مزاحمتی کیمپ میں اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
(ہمارے المیے لکھنے کو ایسا کوئی مؤرخ اور فکشن نگار چاہیے، جس کے سینے میں دل نہ ہو)۔
ہر بڑے شاعر کی طرح قاضی صاحب نے بھی شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے اپنے بارے میں کہا تھا:
ایسا قاضی جو “مبارک” بھی ہے
پھر کبھی مشکل ہے کہ پیدا ہو
یہ شعر ان کی زندگی میں ہی بلوچی کی ضرب المثل بن چکا تھا۔
آج حقیقت بن چکا۔
آسودگ باثے واجہ۔
عابد میر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...