پاکستانی مسلمانوں نے بھی عجب قسمت پائی ہے ۔ پہلے تو دنیا ہمارے کسی کارنامے کسی شخصیت کو پوچھتی ہی نہیں ۔ چاہے ہم کچھ بھی کر لیں ، اور پوچھتے ہیں تواُن کو جن کو ہم نہیں پوچھتے ۔
دور کیوں جاتے ہو ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستانی سائینس دان نے پانی سے گاڑی چلانے کا تجربہ کیا۔ ایک وفاقی وزیر نے اس سائینس دان کو قومی ٹی وی پہ اور قومی اسمبلی میں بلا کر قوم کو اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھا دیا،، مگر مٖغرب کے سائینس دانوں کو سانپ سونگ گیا ۔ ان کو پتہ تھا کہ اگر پانی سے گاڑی چلنے کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو کہیں دنیا میں پانی کی قلت ہی نہ پیدا ہو جائے ۔ جب کہ دنیا کے سائینس دان پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ آئندہ ہونے والی جنگیں پانی پہ ہوں گئیں، لیکن اصل مسلئہ یہی تھا کہ یہ سائینس دان پکا پاکستانی مسلمان تھا بس لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ اور نوبل انعام دیا بھی تو ہمارے فزکس کے کس سائینس دان ڈاکڑ کو جس کو ہم نے اپنے سے کاٹ کر پھینک دیا تھا ۔۔ بندہ پوچھے ہمارا اسلام خطرے میں ہے اس وقت ہم نے فزکس کو چاٹنا ہے ۔ ہمارے پانی سے گاڑی چلانے والے سائینسدان کو نعام دیا نہیں اور اسلام دشمنی میں اس کافر ڈاکڑ عبدالسلام کو نوبل انعام دے دیا ۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہمارے ساتھ ماضی میں بھی یہی ہوتا آ رہا ہے ہمارے ایک راہنما سر سید احمد خان نے تعلیم کی لیے وہ تحریک چلائی کہ بر صغیر میں کسی نے کہاں چلائی ہو گئی ، کیا کیا نہیں کیا تعلم کے لیے کس کس کے آگئے جھولی نہیں پھیلائی ، کنجریوں تک کے آگئے پاؤں میں گھنگرو باند کر ناچے تاکہ کالج بنانے کے لیے چندہ مل جائے ۔ مگر صرف اس لیے سر سید احمد خان کویہ کہہ کر انعام نہیں دیا گیا کہ سر سید احمد خان عورتوں کو تعلم دینے کے خلاف تھے ، بندہ پوچھے عورتوں کو تعلیم دی ہی کیوں جائے ، اب ہم ان کی سُنیں یا اپنے ایک دینی عالم کی سُنیں جس نے اپنی کتاب ،، بہشتی زیور ،، مین لکھا ہے کے لڑکیوں کو تعلیم نہیں دینا چاہیے اور خاص طور پہ لڑکیوں کو جغرافیہ نہیں پڑھنا چاہیے اس سے لڑکیوں کو راستوں کا علم ہو جاتا ہے اور اس طرح ان کو گھر بھاگنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ مزے کی بات سر سید تو تھے بھی ان کے آدمی ،مگر ان کو انعام نہیں دیا اور اس کافر ملالہ کو انعام دے دیا جس کو ہمارے اسلام کی حفاظت کرنے والے طالبان کافر قرار دے چکےہیں اور اس کافر بچی کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے چکے ہیں اس کو سزا دینے کے لیے اسلام کے مجاہدین نے اس پہ گولی بھی چلائی مگر بچ نکلی
مگر یہ مغرب والے تو ہم سے بھی بھولے نکلے یہ ہمیں جانتے ہی نہیں ہم کون ہیں جب ان اسلام کے دشمنوں نے ہمارے ان کافروں کو نوبل انعام دئیے ہم نے مجبور ہو کر مبارک بادیں تو دے دیں ترس کھا اس کافر ڈاکڑ کو اس کی وصیت کے مطابق اس کے پسندیدہ شہر میں بھی دفن کر دیا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اس کافر ڈاکڑ کو اپنی سو سائیٹی سے بھی دفن دور کر دیا کبھی تم نے سُنا ہمارے میڑک میں، بی اے میں، اول آنے والے بچوں نے ڈاکڑ عبدالسلام کے نقش ِ قدم پہ چلنے کا عزم کیا ہو کبھی دیکھا قومی سطح پہ اس کافر ڈاکڑ کی سالگرہ یا برسی منائی گئی ہو ۔ کبھی دیکھا ہمارے کسی سیاسی راہنما وزیر صدر نے اپنے کسی تقریر میں اس کا ذکر تک کیا ہو ۔۔۔۔
اب لگے ہاتھوں ملالہ کی بھی سُن لو تم کافروں نے اسلام دشمنی اور خاص طور پہ پاکستان کی دشمنی میں اس کافر ملالہ کو انعام دے دیا ہے اب تمھارا کام ختم ہو گیا اور ہمارا شروع ہو گیا ، ہم نے لوگوں کو دیکھانے کے لیے مبارک بادیں تو دے دی ہیں حتاکہ اس پہ گولی چلانے والے اسلام کے مجاہد طالبان کے لنگوٹیا یار عمران خان بھی اوپر تلے دو تین دن ملالہ کو مبارک باد دے دی مگر مجال ہے خیبر پختونخواہ میں ملالہ کی کوئی کتاب پڑھ لے کیوں کہ اس صوبے میں ملالہ کی کتاب پہ پابندی ہئے حالنکہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی ہی حکومت ہے۔۔ بھائی سو باتوں کی ایک بات
مبارک بادیں اپنی جگہ عقیدہ اپنی جگہ۔۔۔
کیوں اُستاد کیسی کہی پھینک اس پہ ہاتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154612975203390
“