معاویہ رحمة اللہ علیہ بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان ، امام حسین علیہ السلام کے قاتل یزید پلید کے بیٹے ہیں جو اپنے باپ کی ہلاکت کے بعد باپ کی وصیت کے مطابق امیربادشاہ مقرر ہوئے ، بادشاہ بنتے ہی انہوں نے جامع مسجد دمشق میں اپنا پہلا اور آخری خطبہ دیا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے عہدساز بھی ہے اور تاریخ ساز بھی ہے ، اس خطبہ میں معاویہؒ بن یزید نے اپنے باپ اور دادا کی حکومتوں کو ناحق اور باطل قراردیا ہے جس حکومت کی خاطر اس خاندان نے امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند ارجمند نواسہ رسول امام حسین کے خلف جنگیں لڑیں اور آل رسول کا قتل عام کیا، امام ابن تیمیہ، امام ذھبی اور حافظ ابن کثیر جیسے حضرات ودیگر اساطین اہل سنت نے معاویہ بن یزید کو ایک نیک اور صالح نوجوان قرار دیا، بادشاہ بننے کے بعد اس نے جوخطبہ دیااسے علماء اعلام نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، انہیں معاویہ صغیرکے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے، یہ یزید ملعون کے گھر پیدا ہوئے، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن اور ابویعلی اموی تھی، ان کی ماں ام ہاشم بنت ابی ہاشم بن عتبہ بن ربیعہ تھی ، اس کاباپ یزید ملعون ۲۵ یا ۲۶ ہجری میں پیدا ہوا جو ایک بدوی عیسائی عورت میسون بنت بجدل کلبیہ کا بیٹاتھا، جب معاویہ بن ابی سفیان نے اس عورت کو طلاق دی تب یزید اپنے ماں کے پیٹ میں تھا ، اس کی حکومت کی ابتداء ساٹھ ہجری میں اور ہلاکت ۶۴ھ میں شام کے شہر حمص میں انتالیس سال کی عمرمیں ہوئی ، ابن کثیر نے اس کے لیے ہلاکت کے الفاظ ہی استعمال کیے ہیں، اس کی ہلاکت کے فورا بعد ۱۴ ربیع الاول ۶۴ھ کو اس کے تخت کا وارث اس کا بیٹا معاویہ کو بنایاگیا ۔
مؤرخین نے بالاتفاق لکھا ہے کَانَ رَجلا صالحا ناسکا ( البدایہ والنھایہ ج۸،ص۲۳۷ ۔ سیراعلام النبلاء ج۴، ص ۱۳۹) ۔
شیخ الحدیث مولانا عبد الحق بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک حقائق السنن شرح جامع السنن للترمذی میں فرماتے ہیں:
یزید مرا تو اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کو حکومت سونپ دی گئی ۔ معاویہؒ بن یزید ایک نیک دل ، خداترس، متورع پرہیزگار اور ایک حق شناس انسان تھا، ہروقت ان پرگریہ طاری رہتا اور وہ احساس ذمہ داری سے خداکے حضور روتے رہتے ۔ وہ کھلم کھلاکہا کرتے تھے کہ ہمارے والد نے بڑا ظلم کیا ہے اور جبرا حکومت قائم کرلی تھی۔ معاویہؒ بن یزید نے چالیس دن حکومت کی، اس دوران اس کی خواہش رہی کہ وہ اقتدار حضرت حسینؓ کے فرزند حضرت زین العابدین کے حوالے کردیں۔
جب مروانیوں ( بنو امیہ کے مشہور خاندان ) کو ان کے اس ارادہ کا علم ہوا اور سمجھے کہ حکومت بنو امیہ کے ہاتھ سے نکلنے والی ہے تو انہوں نے کسی سازش سے معاویہ بن یزید کو زہر دیکر شہید کردیا اور اقتدار پر مروان نے قبضہ کرلیا ۔ یہ وہی حکمران ہے جس کی غلط پالیسی اور کجروی کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت واقع ہوئی ۔ اس کے باس خلافت کی مہر ہوا کرتی تھی ۔ گویا مروان عہد عہد عثمانی کے میر منشی تھے ۔ ( حقائق السنن شرح جامع السنن للترمذی جلداول ص ۳۶۱ ) ۔
معاویہؒ بن یزید خلافت سے دستبردار ہونے کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے ، بس چالیس دن زندہ رہے اور ۱۸ یا ۲۱ سال کی عمرمیں ۴۶ ھ میں اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
معاویہؒ بن یزید نے اپنے اس خطبہ میں اپنے باپ اور دادا دونوں کی مذمت کی ہے اور حصول اقتدار کے سلسلہ میں ان کی تمام تر جدوجہد کو بڑے واضح طور پر ناحق قرار دیا ہے اس کے باوجود علامہ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن کثیرؒ و امام ذہبیؒ جیسے حضرات اسے ایک مرد صالح قرار دے رہے ہیں، ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ معاویہ کے دادا تو صحابی تھے اور ان کی حصول اقتدار کی مساعی کوباطل ٹھیرانا صحابی کی توہین ہے، یہ مائینڈ سیٹ بعد میں ناصبیت کے اثرو نفوذ کی وجہ سے اہلسنت میں درآیا ، بہرحال اساطین علماء امت کا معاویہ کو مرد صالح قرار دینا ان کے حق میں ایک بہت بڑی شہادت ہے، معاویہؒ بن یزید کی سب سے بڑی صالحیت یہ تھی کہ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر حق کو حق کہا اور باطل کو باطل ٹھیرایا، انہوں نے ٹھیک ٹھیک قرآن کے اس حکم پر عمل کیا : وَلَا یَجْرِمَنَّکُم شَنَآنُ قَوْم عَلٰی انْ لا تَعْدِلُوٓا، اعْدِلُوْا ھُوَ أقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ۔ یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس حدتک نہ پہنچا دے کہ تم عد و انصاف کو ہی بھول جاؤ ، عدل کرو یہی تقوی کے قریب تر ہے ۔ بدر سے لیکر کربلا تک جو کچھ ہوا اس کے تناظر میں یہ بہت بڑی بات تھی ، بدر جو حق وباطل کا پہلا معرکہ ہے اس میں دوجماعتیں آپس میں ٹکرائیں، دوقومیں نہیں بلکہ دو نظریات ٹکرائے، ایک طرف نظریہ حق تھا ، دوسری طرف باطل تھا، بدر میں قافلہ حق کی قیادت نانا کے ہاتھ میں تھی اور کربلامیں قیادت نواسے کے ہاتھ میں تھی، جبکہ بدرمیں باطل کی قیادت ابو جہل کے ہاتھ میں تھی تو کربلا میں باطل کی قیادت یزید کے ہاتھ میں تھی، بدر کے بعد باطل کی قیادت یزید کے دادا ابو سفیان کے ہاتھ میں آئی اور اس کے بعد احد سے فتح مکہ تک سب جنگ اسی بدر کے تناظر میں ہوئیں جن میں باطل کی قیادت یزید کے دادا ابوسفیان نے کی ، یہ محض دو خاندانوں کی لڑائی نہیں بلکہ دو متحارب عقائد ، دو مختلف نظریات اور دو الگ الگ تصور زندگی کے مابین حق وباطل کے معرکے تھے ۔ بدر میں جو ستر کافر مارے گئے ان میں سے درجن بھر ابوسفیان کے عزیزتھے، اور ان میں سے اکثریت کی گردنیں امام حسین کے والد علی بن ابی طالب کی تلوار سے کٹی تھیں، اسی لیے قریش نے ہمیشہ علی کے خلاف متحدہ محاذ کھڑا کیے رکھا ۔
پھر ایک وقت آیا جب مکہ فتح ہوگیا ، حق غالب اور باطل مغلوب ہوگیا، اور پھر یوں ہوا کہ مغلوب باطل پرستوں نے اسلام کی صفوں میں گھُس کر اپنی حرکتیں جاری رکھیں، جب تک اکابر صحابہ کا غلبہ رہا تو نظامِ حق بھی مضبوط رہا، پھر خلیفہ ثالث کی فطری نرم مزاجی کی وجہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروہ مملکت کے کلیدی عہدوں پر قابض ہوگیا اور یہی چیز خلیفہ ثالث حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی وجہ بنی ، یہ گروہ اتنا طاقتور ہوچکا تھا کہ خلیفہ چہارم کے مقابلہ میں تلوار لیکر کھڑا ہوگیا، وہ ایک ایسے شخص کو خلیفہ کیسے مان سکتے تھے جس نے ان کے آباؤ اجداد کو بدر و احد اور احزاب میں قتل کر دیاتھا ۔ یہ گروہ اس قدر طاقت ور ہوگیا کہ بالآخر اسلامی نظامِ خلافت کی بساط لپیٹ کر اپنی خاندانی بادشاہت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، اسی نظام خلافت کو بچانے کے لیے امام حسین نے کربلا میں باطل کے مقابلہ میں آخری معرکہ لڑا، اگر حسین اس لڑائی میں کامیاب ہوجاتے تو قیامت تک مسلمانوں میں نظامِ خلافت چلتا اور بادشاہت کو کبھی راہ نہ ملتی، باطل کی دنیاوی اور ظاہری کامیابی نے امت سے خلافت ہمیشہ کے لیے رخصت کردی ، علی مرتضیٰ نے اسی خلافت کو بچانے کے لیے جنگ لڑی اور شہادت پائی، حسین نے اسی نظام کو بچانے کے لیے جنگ لڑی اور شہادت پائی، مد مقابل گروہ نے بدر میں اپنے طاغوتی نظام کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی تھی، اسی گروہ نے خلیفہ چہارم کے مقابلہ میں اپنی خاندانی بادشاہت قائم کرنے کے لیے جنگ لڑی تھی اور پھر کربلا میں اپنی غاصبانہ خاندانی بادشاہت کو بچانے کے لیے جنگ لڑی، گویا یہی گروہ تھا جس نے بدر میں باطل کے تحفظ کی جنگ لڑی تھی اور آج وہی گروہ کربلا میں پھر حق کے مقابلہ میں باطل کی بقا کی جنگ لڑ رہاتھا ، شہادت حسین اور واقعہ کربلا کو شیعہ و سنی تناظر میں دیکھنے کے بجائے اسے حق وباطل کی کشمکش کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
لوگوں نے اسے بنو ہاشم اور بنو امیہ کی پرانی دشمنی کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، اس سے انکار نہیں کہ دور جاہلیت کے یہ جراثیم بنو امیہ کے اندر ہمیشہ موجود رہے، اسلام میں وہ لوگ داخل تو ہوگئے لیکن اسلام ان کی حمیت جاہلیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکا، درحقیقت یہ خاندانی سے زیادہ نظریاتی کشمکش تھی، ایک تیسرا عنصر اس میں یہ شامل ہوگیا کہ حیدر کرار کی تلوار ہمیشہ اسلام کی حفاظت مین بلند ہوئی، بدر میں چچا بھتیجا یعنی علی اور حمزہ دونوں کی تلوار نے جوہر دکھائے تھے اور زیادہ ترصنادید قریش ان ہی کی تلواروں سے گھائل ہوئے تھے ، دوسرے سال حضرت حمزہ کی شہادت احد میں ہوگئی اور وہ بھی اسی خاندان کے ہاتھوں ہوئی، حمزہ اور حسین دونوں کی شہادت اپنے اندر الگ الگ المیہ رکھتی ہے، احد میں یزید کی دادی کا کردار تھا اور وہ ایک درد ناک منظرتھا جسکی مثال دنیا میں اس سے قبل نہیں ملتی ، احد میں بھی اور اس کے بعد اسلام کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں امام علی کی تلوار ہمیشہ سب سے سربلند رہی، ان جنگوں میں لگنے والے زخموں کو قریش کبھی نہ بھلا پائے، فتح مکہ کے بعد آخری چارہ کے طور پر وہ اسلام میں داخل ہوئے، پیغمبر کی تربیت بھی زیادہ عرصہ ان کو میسر نہ آسکی تھی ، نہ تو دور جاہلیت کے جراثیم مکمل ور پر ان کے اندر سے ختم ہوسکے اور نہ ہی وہ علی کے ہاتھوں اٹھائی گئی ہزیمت اور اپنے آبا و اعزہ کے قتل کو کبھی نہ بھلا سکے اسی لیے جب کبھی موقع آیا تو قریش نے عموما حضرت علی کے مخالف کا راستہ اپنایا۔
حضرت عمر کی سخت گرفت کی وجہ سے یہ لوگ اپنے پَر پُرزے نہ نکال سکے لیکن حضرت عثمان کی نرمی سے انہوں نے فائدہ اٹھایا، خاندان رسالت خصوصا حضرت علی اور ان کی اولاد کے خلاف صف بندی اور علی کی خلافت کو تسلیم نہ کرنے میں اس تیسرے عنصر کا عمل بھی کافی حد تک موجود تھا، سانحہ کربلا کے بعد یزید کے متعلق ہمیں یہ روایت بھی ملتی ہے اس نے کہا تھا کہ آج میں نے بدر کا انتقام پورا کردیا ہے ۔ ان تمام حالات کو ذہن میں رکھیے اور پھر جناب معاویہؒ بن یزید کا اپنے باپ داد کے اقتدار کو خلاف حق کہنا اور اقتدار امام زین العابدین کے حوالے کرنے کی خواہش کرنا ، اپنے آبا و اجداد کی مذمت اور امام حسین کی تحسین کرنا دراصل سورة مائدہ کی مذکورہ آیت کی عملی تفسیر تھی ، قرآن نے کہاتھا: یَآ أیُّھَا الّذِینَ آمنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ۔ ایمان والو ! اللہ کی خاطر انصاف کے ساتھ گواہی دو اگرچہ وہ تمہاری اپنی جانوں، آباء واجداد اور قریبی عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ معاویہؒ بن یزید کے خطبہ پر غور فرمائیں تو اس کا ایک ایک لفظ خدائے بزرگ و برتر کے اس حکم کی عملی تصویر تھی ۔
مروان بن حکم جو منبر کے پاس بیٹھاتھا کہنے لگا اے ابولیلٰی ! یہ سنت عمری ہے ۔ اس نے کہا یہاں سے دفع ہوجا۔ تو مجھے میرے دین سے دھوکا دیتا ہے ۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری خلافت کامزہ چکھا ہی کب ہے کہ میں اس کی تلخی کے گھونٹ پیوں۔ تو میرے پاس عمرؓ جیسے لوگ لے آ ، باوجود اس کے کہ جس وقت اس نے خلافت کے لیے ( چھ افراد کی ) شوری بنائی اور خلافت کو اُس شخص سے ہٹایا جس کی عدالت میں شک نہیں کیاجاسکتا، بڑا بے انصاف نہ تھا ، اللہ کی قسم اگر خلافت جائے غنیمت ہے تو میرے باپ نے اس خلافت سے نقصان اور گناہ پالیا ۔ اگر یہ بُری ہے تو اُس کے لیے اتنا ہی کافی ہے جتنا وہ اٹھاچکا۔
پھر وہ منبر سے اترآیا ، اس کی ماں و دیگر عزیزواقارب آئے تو دیکھا کہ روئے جارہا ہے ، تو اس کی ماں نے کہا: کاش تم حیض کا چیتھڑا ہی ہوتے اور میں تمہاری خبر نہ سنتی ۔ اس نے کہا : خداکی قسم ! میں بھی یہی چاہتاہوں، اگر میرے خدا نے مجھے معاف نہ کیا تو میرے لیے بُرا ہو۔
پھر بنوامیہ نے اس کے استاد عمرالمقصوص سے کہا: یہ سب کچھ اس کو تم نے ہی سکھایاہے اور اس کو خلافت سے متنفر کیا ہے اور (حضرت) علی ( علیہ السلام) اور ان کی اولاد سے محبت کو اس کے لیے آراستہ کیا تو تمہاری وجہ سے اس نے ہمیں ظالم قرار دیا، اور بدعات کواس کی نظر میں مستحسن بنادیا ( بدعات سے مراد یہاں محبت علی اور حمایت اہل بیت اور غاصبین کی مذمت مقصود ہے) حتی کہ اس (معاویہ بن یزید) نے اس طرح کی گفتگو کی اور اس نے کہاجوکہا، استاد نے جواب دیا: خدا کی قسم میں نے تو کچھ نہیں کہا بلکہ اس کی جبلّت اور طبیعت میں ہی محبت علی رکھ دی گئی ہے ۔ انہوں نے نہ مانا اور اسے ( عمرالمقصوص کو) پکڑ کر زندہ دفن کردیا ، یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا ، اور معاویہ بن یزید رحمہ اللہ خلافت سے دستبرداری کے چالیس یا ستر دن کے بعد فوت ہوا ، اس کی عمر ۲۳ یا ۲۱ اور ایک قول کے مطابق ۱۸ سال تھی اور اس کی کوئی اولاد نہ تھی ۔
نوٹ ۱: جب بنوامیہ کی سلطنت کے خاتمہ کے وقت عباسیوں نے بنوامیہ کے فوت شدہ حکمرانوں کی قبریں اکھاڑیں تو تاریخِ اسلامی تواتر کے ساتھ بتاتی ہے کہ: ۔۔۔۔ قبر معاویة بن ابی سفیان فلم یجدوا فیہ الا خیطا مثل الھباء ونبشوا قبر یزید بن معاویة فوجدوا فیہ حطابا کأنہ الرماد ۔۔۔۔ الخ ۔ معاویہ بن ابی سفیان کی قبر کھودی گئی تواس میں کمزور دھاگے کے نشانات کے سوا کچھ بھی نہ نکلا اور جب یزید بن معاویہ کی قبر کھودی گئی تواس میں لکڑیوں کی راکھ کے سوا کچھ نہ تھا ۔ مزید تفصیل کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں : الکامل لابن اثیرج۵ ، ص ۲۰۵ ط بیروت ۔
نوٹ ۲ : حیات الحیوان اردو ترجمہ کے ساتھ دوجلدوں میں اسلامی کتب خانہ فضل الہی مارکیٹ چوک اردوبازار لاہور نے شائع کی ہے ، اس کے ترجمہ میں خیانت کی گئی ہے ، جلداول کے صفحہ ۲۰۹ ، ۲۱۰ پر بعنوان: خلافت معاویہ بن یزید ؛ خطبہ کاترجمہ کرتے وقت انتہائی بددیانتی کاارتکاب کیاگیا۔
اس کے مترجم مولانا ناظم الدین خطیب جامع مسجد گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور ہیں اور اس پر نظر ثانی مولانا عبدالرشید ارشد نے کی ہے، گویا مترجم اور نظرثانی کرنے والے دونوں ہی بددیانتی کے مرتکب ہیں۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ پہلی ( طبعات ) جولائی ۱۹۹۲ء میں ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور سے شائع ہوا ۔ اس کا ترجمہ اور حواشی تین علماء کرام: مولانا عباس فتح پوری فاضل دیوبند، مولانا محمد فرفان سردھنوی ، مولانا نثاراحمد گوندوی نے لکھا ۔ ترتیب جدید و ترجمہ و حواشی مولانا سعود اشرف عثمانی نے انجام دیے، اس ترجمہ کے اندر بھی جان بوجھ کر یہی خیانت کی گئی، اس میں اس خطبہ کاترجمہ صفحہ ۲۰۰ ، ۲۰۱ پر ہے جسے جان بوجھ کر کانٹ چھانٹ کے ساتھ پیش کیاگیا ہے یہ ترجمہ مولانا ناظم الدین کے ترجمہ سے پہلے کیا گیا ہے، ان دونوں ترجموں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ یزید اور بنوامیہ کی خیرخواہی میں کس قدر بددیانتی و خیانت پر اتر آتے ہیں اور خوفِ خدا سے بھی عاری ہوجاتے ہیں کہ کل اللہ کو کیاجواب دیں گے، ان کی اس خیانت کو معلوم کرنے کے لیے اہل علم سے گذارش ہے کہ اصل عربی عبارت سامنے رکھیں اور پھر ان ترجموں کو ملاحظہ فرمائیں تو حقیقت آپ کے سامنے کُھل جائے گی ، ایسا لگتا ہے کہ ترجمہ اول میں مترجمین نے خیانت کی، بعد والوں نے اسے ہی کاپی کردیا اور ترجمہ اپنے نام منسوب کرکے ان کے ساتھ شریک جرم ہوگئے، اور اگر بعد والوں نے یہ ترجمہ خود کیا ہے تو پہلوں سے زیادہ بددیانت ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے بددیانتی پر مبنی پہلا ترجمہ موجود تھا اس لیے انہیں احتیاط کومد نظر رکھتے ہوئے صحیح ترجمہ پیش کرناچاہیے تھا لیکن یہ بھی اسی بددیانتی کے مرتکب ہوئے جس کا ارتکاب پہلوں نے کیا تھا۔
لیکن انگلیوں کے پیچھے سورج کو چھپایا جا سکتاہے؟ جبکہ معاویہ بن یزید رحمہ اللہ نے بڑے کُھلے الفاظ میں اپنے باپ دادا کی مذمت کی اور انہیں باطل قرار دیا ۔
اس خطبہ کا اقتباس علامہ ابن حجر الھیثمی المکیؒ نے بھی نقل کیا ہے:
ومن صلاحہ الظاھر انہ لمّا ولی صعدالمنبر فقال: ھذہ الخلافة حبل اللہ وانّ جدّی معاویة نازع الأمر اھلہ ومَن ھو احق بہ منہ علی بن ابی طالب ورکب بکم ماتعلمون حتی اتتہ منیتہ فصارفی قبرہ رھینا بذنوبہ ثمّ قلد ابی الامر وکان غیر اھل لہ ونازع ابن بنت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقصف عمرہ وانبتر عقبہ وصارفی قبرہ رھینا بذنوبہ ثم بکی وقال ان من اعظم الامور علینا علمنا بسوء مصرعہ وبئس منقلبہ وقد قتل عترة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واباح الخمروخرّب الکعبة ولم اذق حلاوة الخلافة فلااتقلّد مرارتھا فشأنکم امرکم واللہ لئن کانت الدنیا خیرا فقد نلنا منھا حظّا ولئن کانت شرّا فکفی ذرّیّة ابی سفیان مااصابوا منھا ثمّ تغیب فی منزلہ حتی مات بعد اربعین یوما علی ما مر فرحمہ اللہ تعالی ۔ ( الصواعق المحرقة ط مصر ص ۲۲۴ ) ۔
اور معاویہ بن یزید کی صلاحیت سے ایک یہ ہے کہ جب وہ ولی عہدوارث بنا تومنبرپرچڑھا اور کہا: یہ خلافت اللہ کی رسی ہے اور حقیقت میں میرے دادا معاویہ نے اس خلافت کے اصلی حقدار کے ساتھ جھگڑا کیا ، اور علی بن ابی طالب اس کے لیے اس سے زیادہ اس کے حقدار تھے، اور اس چیز کا ارتکاب کیا جسے تم سب لوگ جانتے ہو، یہاں تک کہ اسے موت آگئی اور وہ قبر میں اپنے گناہوں کے بدلے میں گرفتار ہے ۔
پھرمیرے باپ کوقلادہ ڈالاگیا اور وہ بھی اس کے اہل نہ تھا، اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے کے ساتھ جگڑا کیا ، پس اس نے اپنی عمر کو لہوولعب میں ضائع کردیا اور عاقبت کوبرباد کیا اور وہ بھی اپنی قبرمیں عذاب میں گرفتار ہے ۔
یہ کہہ کر وہ رویا اور کہا: سب سے بڑی مصیبت ہم پر یہ ہے کہ ہم کو اس کی سخت پاداش اور بُری سزا کا علم ہے، اور اس کی بازگشت بُری ہے کیونکہ اس نے عترت رسول کوقتل کیا ، شراب کو مباح سمجھا، اور کعبہ شریف کو غارت کیا، اور اس نے خلافت کا کوئی مزہ نہ چکھا، پس میں اس کی تلخی کا قلادہ اپنی گردن میں نہیں ڈالناچاہتا ۔ اب تم جانو اور تماراکام جانے ۔ خدا کی قسم ! اگردنیاسراپاخیر ہے تو ہم نے اس سے کافی حصہ پالیا ہے ، اور اگر دنیا سراسر شر ہے تو ذریتِ ابوسفیان کو جو کچھ اس میں سے مل چکا ہے وہی کافی ہے ۔
پھر یہ کہہ کر وہ اپنے گھر میں روپوش ہوگیا ، یہاں تک کہ چالیس دنوں کے بعد فوت ہوگیا، اللہ تعالی اس پر رحم کرے ۔
مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق الحسن قنوجی بھوپالوی لکھتے ہیں :
جملہ اھل آفاق بیعت بہ معاویة بن یزید بن معاویہ نمدند ایں معاویہ مردِ صالح بود بایستاد و گفت: یاایّھالنّاس جدّ من معاویہ نزاع کرد دریں امر باھل آن امر و خوض کرد درخونِ مسلمانان تا آنکہ غالب شد برآن باز بمرد خدا داند کہ انجامِ وے چہ شُد وپدرم یزید ہم دریں امر با اھل آں نزاع کرد و اولاد رسول خدا صلعم واھل حرمین شریفین را بکشت و بر بیت مجانیق نصب نمود وبمرد خداداند کہ انجام وی چہ شود واکنون شما مرا متقلد این امر کردید ہرگز نروم من بگناہ این امر و بروید شما بنعیم وی ونداریم در چیزے از خونہائے مسلمانان واموال ایشان این بگفت ولازم خانہ خود گشت تا آنکہ بعدازچہل روز بمرد ۔ ( حجج الکرامة فی آثارالقیامة ص ۱۸۶ ، فصل نہم، طبع بھوپال)۔
سب نے معاویہ بن یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی تو معاویہ جوایک نیک آدمی تھا اس نے کھڑے ہوکر کہا:
اے لوگو! میرے دادا معاویہ (بن ابی سفیان) نے امر خلافت میں اُن لوگوں سے جھگڑا کیا جواِس کے حقدارتھے اور مسلمانوں پرغلبہ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خون میں اپنے پاتھ رنگ لیے ، یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ اب اللہ جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوا ؟
میرے باپ یزید نے بھی اس معاملہ میں اصل حقداروں سے جھگڑا کیا ، اولادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوران کے اہل وعیال کوقتل کرکے منصبِ خلافت پرقبضہ جمایا اور وہ بھی مرگیا، اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کاانجام کیا ہوا ؟
اب تم لوگوں نے مجھے خلافت کے لیے منتخب کیا ہے لیکن میں اس معاملہ میں کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتا ، یہ امرِ خلافت تم اپنے پاس ہی رکھو، مجھے اِس میں سوائے مسلمانوں کے خون اور لوٹ مار سے حاصل کردہ مال و متاع کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔
یہ کہہ کروہ اٹھا اور اپنے گھرواپس چلاگیا، یہاں تک کہ چالیس دن بعد وہ مرگیا ۔
“