معاشرے پر فرد جرم عائد کی جائے ۔
امریکہ میں ایک بھوکی بیمار نانی نے اپنے سخت سردی اور برفباری کے دوران اپنے بھوکے نواسوں اور بیمار بیٹی کے لیے روٹی چرائی تو جج نے اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے دس ڈالر جرمانہ کیا پھر اپنی جیب سے جرمانہ ادا کیا اور عدالت میں حاضر ہر شخص کو پچاس پینس جرمانہ کیا کہ ان سب کے ہوتے ہوئے ایک بوڑھی خاتون اتنی مجبور کیوں ہوئی ۔
ہر کسی نے خوشی سے جرمانہ ادا کیا اور جج کے فیصلے کو بذریعہ اسٹینڈنگ اویشن سراہا ۔ 47 ڈالر اکٹھے ہوئے جو بوڑی عورت کو ادا کیے گئے ۔ اس مقدمے کی کاروائی ملک کے بڑے اخبار سے شائع کی اور اسے ملک گیر بلکہ دنیا گیر پزیرائی ملی ۔
مہوش کے کیس میں اس بس کے تمام سواروں کو جو مہوش پر ہوتے تشدد یا گالی گالوچ کے دوران خاموش تماشائی بنے رہے ، ان سب کو ان کی مجرمانہ غفلت کی سزا دی جانا چاہیے ۔ اس کیس کو پاکستانی معاشرتی انصاف کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اتنے لوگوں میں سے کسی نے بھی آواز کیوں نہیں اٹھائی ۔ تصویر مین دیکھا جا سکتا ہے کہ گارڈ کوئی بہت مصبوط آہنی تن و توش کا مالک نہیں دو چار لوگ کھرے ہوتے تو اسے چپ کرتے ہی بنتی ۔۔اصل طاقت اس کے ہاتھوں مین تھامے سرد لوہے مین تھی ۔ جس کا سامنا تو دور کی بات کئی ایک کو تو اس کی دید سے ہی ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہونگے ۔
اور پھر خدا لگتی کہیے پرائے پھڈے میں ٹانگ کون اڑائے ۔ نیز ہر کام کرنے والی لڑکی تو وہسے ہی بد کردار ہوتی ہے سو اس کے لیے ہمدردی کون کرے۔ پولیس کو فون کرنے کا کسی نے سوچا بھی ہو گا تب بھی اپنا نمبر ریکارڈ پر آ جانے، پہچان لیے جانے ، انکوائری پیشی بھگتنے میں نوکری دیہاڑی کے چلے جانے کا خطرہ اور عدالتی خجل خواری، اور آخر میں ایک مسلح شخص کی ذاتی دشمنی کا نشانہ بننے کا خوف ہر کسی کو چپ رہنے اور اپنے بچوں کی خیر کی دعا کرنے پر مجبور کر دیتا ہو گا ۔
بہت سی عورتوں نے لڑکی کی عزت افزائی پر کرب، نفرت یا حقارت محسوس کی ہو گی ۔ جس کے شوہر نے اس بس ہوسٹس کے سراپا پر بد نگاہ کی ہو گی اس عورت نے تو لڑکی کی درگت بنتے دیکھ کر اپنے شوہر کی خاموشی پر دل ہی دل میں سکھ کا سانس بھی لیا ہو گا کہ معاملہ سنجیدہ نہیں ہوا بلکہ زیر لب اس لڑکی کو برے القاب سے بھی نوازا ہو گا ۔
ہر کسی کو لڑکی کے قصوروار ہونے کا شک رہا ہو گا ۔ مکمل بےگناہ تو ناممکن کی حد تک یقین ہے کہ کسی نے نہیں مانا ہو گا ۔ بھلا اسے کیا پڑی ہے کہ پینٹ اور شارٹ شرٹ کے ساتھ ہیل والے جوتے اور میک اپ کے ساتھ پرائے مردوں کا ایمان خراب کرنے کی نوکری کر رہی ہے ۔ ضرور اس کی اپنی نیت میں گڑ بڑ ہے ۔ ۔۔
ہر کسی نے اپنی خاموشی کو دل لگتا بہانہ تھمایا ہو گا اور بس کی کھڑکی سے پیچھے دوڑتے دل خوش کن مناظر کی طرف توجہ بھٹکا لی ہو گی ۔۔ کیا یہ سب ان کی بہن بیٹی کے ساتھ ہوتا تب بھی وہ یونہی چپ رہتے تو بھئی بہن ہی تو نہیں تھی "رذیل بس ہوسٹس " تھی
مہوش اور زینب جیسے کیسز معاشرتی بگاڑ کی مثالیں ہیں جہاں محض ایک بھیڑیے کو سزا دینا کافی نہیں یہ معاشرتی جرائم ہیں ان کی فرد جرم معاشرے پر عائد کی جائے اور تمام معاشرے میں تبدیلی کا عمل بزور قانون شروع کیا جائے ۔ سماج سدھار کے لیے قانون کا ڈنڈا استعمال کیا جانا چاہیے ۔۔خصوصا جب بگاڑ انتہائی حد تک پہنچ چکا ہو ۔ کیونکہ ے
مرد (معاشرہ) پر کلام نرم و نازک بےاثر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔