معاشرہ
آج انسانی معاشرے کی باتے کرتے ہیں۔ ۔یہ معاشرہ انسان کا ازلی و ابدی دشمن ہے ،جس دن انسان معاشرے کوطلاق دے دے گا ،اسی دن وہ آزاد ،پرامن اور خوشحال ہوجائے گا ۔انسان گہری نیند میں ہے ،اسی وجہ سے وہ دکھ ،تکلیف اور مسائل کا شکار ہے۔انسان جو ہے ،وہ نہیں رہنا چاہتا ،جو نہیں ہے ،ایسی زندگی کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔انسانوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ معاشرے کے فرمودات کو بھول جائیں ،انسان بھول جائے کہ معاشرہ کیا بکواس کررہا ہے۔ انساناپنی انفرادی آزادی کو ڈکلئیر کردے،اور معاشرے کا باغی ہو جائے۔بغاوت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معاشرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کردے ۔یہ بھی وقت کی بربادی ہے۔اور فضول حرکت ہے۔انقلابی معاشرے کے خلاف جنگ کرتا ہے،پہلے وہ معاشرے کا بوجھ اپنے ساتھ لئے پھرتا رہا ،اب وہ انقلابی بنکر اس بوجھ کے ساتھ جنگ کرتا ہے،یہ عقل مندی نہیں، بلکہ بے وقوفی ہے۔اس طرحسے بھی وہ مسائل کا شکار ہوگا اور غم زدہ ہوگا ۔معاشرے کی پیروی کرنا یا اس کے ساتھ لڑنا دونوں کام ہی حماقتوں سے بھرپور ہیں ۔انقلابی انسان حقیقی باغی نہیں ہوسکتا۔باغی وہ ہوتا ہے جو معاشرے کی تمام بیماریوں کو سمجھتا ہے اور پھر آسانی اور سادگی سے اسے چھوڑ دیتا ہے۔باغی انتہائی چالاک انسان ہوتا ہے ،وہ اپنی زاتی زندگی اپنے خیالات نظریات اور احساسات کے مطابق گزارتا ہے،اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ معاشرہ اس کی زاتی زندگی پر کیا بکواس فرما رہا ہے۔بھائی معاشرے پر غصہ آرہا ہے تو لڑنے کی بجائے لمبی واک پر چلے جاؤ،یوگا کرنا شروع کردو،اپنے باتھ روم میں چلے جاؤ،اپنے تکیئے سے ہاتھوں اور دانتوں کے ساتھ لڑائی کرو ،زور سے قہقہے لگاو یا پھر چلاؤ۔اس طرح اپنے آپ کو سکون اور آرام دو ۔معاشرہ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے ساتھ جنگ کرو تاکہ وہ تمہیں برباد کردے۔یہ معاشرے کے نام نہاد زہین انسان جو کامیاب کہلاتے ہیں،جو مشہور کہلاتے ہیں ،یہ مصنوعی انسان ہیں ،بنیادی طور پر یہ زہین نہیں ہیں اور نہ ہی دانا ہیں ۔یہ نہیں جانتے کہ حساسیت کیا ہوتی ہے،یہ زندگی کی نعمتوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔معاشرہ طاقتور انسانوں کو پسند کرتا ہے،معاشرہ بنیادی طور پر بدمعاش اور وحشی ہے۔یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں سیاستدان،جرنیل اور کند زہن انسان اربوں انسانوں پر حکمرانی کرتے ہیں ؟جو انسان اس زہر آلود معاشرے سے نکل جاتا ہے ،وہی آزاد اور پرامن ہے،وہ حقیقت میں خوش اور خوشحال ہے۔معاشرہ انسان کے اندر کے اعتماد کی تباہی کا نام ہے۔یہ کہتا ہے اپنے آپ سے محبت مت کرو ،لیکن دوسروں سے محبت کرو۔بھائی جب اپنے آپ سے محبت نہیں کرسکتے ،یا اپنے آپ سے محبت کا آرٹ نہیں جانتے،تو دوسروں سے خاک محبت کرو گے۔معاشرہ فرد کی اپنے آپ سے محبت کی کیفیت برداشت نہیں کرسکتا،وہ اسے خودغرضی کہتا ہے،وہ اسے نرگسیت کہتا ہے،محبت کا سفر ہی اس وقت شروع ہوتا ہے،جب ایک فرد پہلے اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔یہ بدمعاش معاشرہ انسان کو عقلمند نہیں بنانا چاہتا،کیونکہ یہ کسی بھی معاشرے کی سرمایہ کاری کے خلاف عمل ہے۔اگر انسان دانا اور حقیقی زہین ہوجائے تو اس کا استحصال نہیں کیا جاسکتا،اگر وہ زہین ہوجائے تو اس کو روبوٹ نہیں بنایا جاسکتا،کیونکہ ایسا انسان ہر جگہ اپنی انفرادیت ظاہر کرے گا ۔وہ اپنی بغاوت کی خوشبو کو عام کرے گا ۔وہ آزادی سے زندگی گزارے گا۔آزادی اور انفرادیت زہانت اور عقلمندی سے نصیب ہوتی ہے۔کوئی معاشرہ آزادی نہیں دینا چاہتا۔انفرادیت معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔انفرادیت معاشرے کی موت کا نام ہے۔انفرادیت پسند زہین انسان اسٹیبلشمنٹ کے لئے ،طاقتوروں کے لئے،استحصال کرنے والوں کے لئے اور امیروں کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔انفرادیت پسند آزاد انسان معاشرے میں غلام بنکر نہیں زندہ رہ سکتا ۔یہ ہمارا تعلیمی نظام ،اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں انفرادیت کی دشمن ہیں ،یہ صرف غلاموں کا ڈھیر لگارہی ہیں ۔یہ ماضی کے پجاری انسان پیدا کرہی ہیں ۔یہ تعلیمی نظام بظاہر تو انسانوں کو بڑے مشہور انسانوں میں بدل دیتا ہے،لیکن صرف نام ہی بڑے ہوتے ہیں ،انسان چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔پھر ایک وقت آتا ہے انسان غائب ہوجاتا ہے اور غلام پیدا ہوجاتاہے۔جو صرف معاشرے کے اشاروں پر ناچنے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔بھائی لفظ محبت بھی محبت نہیں،ہم ان لفظوں کے پیچھے بہت سے مواقع ضائع کررہے ہیں ،یہ معاشرے کے پیدا کردہ الفاظ ہیں جو صرف انسان کو غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ایک انسان یا ایک فرد تمام معاشرے سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔معاشرے نے ہمیشہ انفرادیت کو تباہ کیا ہے،اس پر تشدد کیا ہے۔معاشرہ انفرادیت پر یقین کر ہی نہیں سکتا ۔معاشرے کو کلرکوں کی ضرورت ہے،سیاسی جماعتوں کے ورکروں کی ضرورت ہے ،جہالت کی ضرورت ہے،فوجیوں ،جاگیرداروں او۔اسٹیشن ماسٹرز کی ضرورت ہے،اہلکاروں کی ضرورت ہے،سول سرونٹس اور وزیروں کی ضرورت ہے ۔اسے آزاد اور انفرادیت پسند انسانوں کی ضرورت نہیں۔معاشرہ ہی ہے جو انسانوں کے اندر خواہشات انڈیلتا ہےتاکہ ان کےاندر سے حقیقی تخلیقی قوت غائب ہوجائے اور وہ غلام بن جائیں ۔خواہشات کے ساتھ آنا پیدا ہوتی ہےاور یہ آنا صرف فریب نظر ہے۔اس معاشرے میں بادشاہ سے بھکاری تک سب کے سب خواہشات اور دولت کے پجاری ہیں ۔انفرادیت کے قہقہے سے امن ،خاموشی اور تازگی پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں معاشرے کو قبول نہیں ۔انفرادیت پسند انسان کا قہقہہ اس کی روحانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔یہ معاشرہ سنجیدہ انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور یہی سنجیدگی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف زہنی مریض نظر آتے ہیں ۔یہ معاشرہ صحت مند قہقہے کا بھی دشمن ہے۔بدقسمتی سے معاشرہ انسان کے اندر ایسی خواہشات پیدا کردیتا ہے کہ ہر انسان اسپیشل بننے کا خواب دیکھتا ہے۔وہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند اور مشہور بننا چاہتا ہے۔بہت طاقتور بننا چاہتا ہے۔بہت سی ڈگریا ں لینا چاہتا ہے۔جب تک خواہشات انسان کے اندر سے غائب نہیں ہوں گی وہ حقیقی خاص انسان نہیں بن سکتا ۔معاشرہ انسان کو لالچی بناتا ہے تاکہ وہ مسائل میں رہے اور ہمیشہ الجھا رہے۔لالچی وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ مستقبل کی سوچ دماغ میں ٹھونسے رکھتے ہیں ۔بس کچھ بن جاوں،یہ وہ خواہش ہے جو انسان کو زندگی کی ھقیقی لزتوں سے محروم کردیتی ہے۔انسان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ حال سے پیار کرے ،وہ آج سے پیار کرے،لیکن ہم پاگل انسان حال اور آج سے خوف زدہ ہیں لیکن مستقبل پر ہماری نطر ہے ۔اسے کہتے ہیں جہالت کی انتہا اور یہ سب کچھ معاشرہ انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ہمیشہ زندگی کے ہر لمحے کے ساتھ انسان کو سفر کرنا چاہیئے،زندگی کے خوبصورت لمحات سے آگے یا پیچھے دوڑنے سے ہی انسان وھشیانہ کیفیت میں ہے ۔آزاد انسان زندگی کے ہر لمحے کے ساتھ رہتا ہے ،اس لئے پرامن اور پرسکون ہے ۔ہم انسانوں کو مذاہب اور معاشرے کی سیاست سے باہر آنا ہوگا ۔بھائی ہندو ،مسلم ،سکھ اور عیسائی مت بنو ،آزاد اور انفرادیت پسند بنو ۔جہنمی اور جنتی مت بنو ،صرف آزاد انسان بن جاؤ۔پھر دیکھنا خوشی ،سکون اور تخلیق کیسے تمہاری غلام بن جاتی ہے،کیسے پھر معاشرہ برباد ہوتا ہے۔انسان ابھی تک غیر مہذب اور وحشی ہے ،اس کی وجہ یہ معاشرہ ہے۔یہ ایٹمی ہتھیار خود بخود نہیں چلیں گے ،یہ معاشرہ اور قوم کے غلام انسان دوسرے غلام انسانوں پر برسائیں گے ۔انسانیت اس جگہ پر آگئی ہے جہاں اب اس کے پاس زیادہ راستے نہیں ہیں ۔صرف دو راستے ہیں یا تو ہم معاشرے سے نجات حاصل کر لیں ،یا پھر انسانیت اجتماعی خودکشی کرلے۔انسانیت پرامن ہی تب ہوگی جب انسان معاشروں کی قید سے رہا ہوجائے گا۔اس معاشرے نے تمام آمروں اور بادشاہوں کو پیدا کیا ہے ۔انسان آزاد ہے ،اسے کیا ضرورت ہے کہ اسے کوئی بتائے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ؟انسانوں کو اجتماعی دماغ سے نکلنا ہوگا،معاشروں اور قوموں سے نکلنا ہوگا ۔اجتماعی دماغ سے سچائی تلاش نہیں کی جاسکتی،انفرادی اور آزاد دماغ ہی انسانیت کی میراث ہے ۔ہم اجتماع کی طرف بھاگ رہے ہیں ،اس لئے ہٹلر ،موسولینی پیدا ہورہے ہیں ،اس لئے دہشت گردی ہے ،اس لئے ورلڈ وارز ہیں ،اس لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم پھینکے جاتے ہین ۔اجتماعی دماغ کی وجہ سے ہم ہندو عیسائی ہیں ۔کمیونسٹ ،سیکولر اور روایت پسند ہیں ۔معاشرے کو ہندو مسلم اور جنگ کی ضرورت ہے ۔انفرادیت اور آزادی کو ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہین ۔معاشرہ انسانوں کو تباہ کرکے اسے احساس کمتری میں مبتلا کررہا ہے ۔معاشرہ ہی خوبصورتی کو تباہ کررہا ہے ۔ہم انسان نہیں ہیں ،زہنی مریض ہیں ،غصے اور نفرت کی مشینیں ہیں ۔خواہشات کے پجاری ہیں ،ہم آدھے انسان ہیں ۔جب کہ خوشیاں صرف مکمل انسان کا حق ہیں ۔جب ہم آزاد اور انفرادیت پسند ہو جائیں گے اور اجتماعی دماغ سے نکل جائیں گے تب دیکھنا کیسے اندر اور باہر کی دنیا میں خوشیاں اور سکون آتا ہے۔معاشرے نے ہمیں تاریک روحیں بنادیا ہے ۔یہ دباؤ،پریشر اور غصہ سب معاشرے اور اجتماعی دماغ کی پیداوار ہے ۔ہمیں معاشرے اور ماضی سے جان چھڑانی ہوگی ۔سوچا تو یہ تھا کہ معاشرے کی تعریفیں کروں گا ،اس کی تاریخ کی کہانی سناؤں گا ۔لیکن معلوم نہیں کیسے اس طرف نکل آیا ۔اگر کسی کو معاشرے کی اس کہانی پر غصہ آیا ہو اور وہ مجھے گالیاں نکالنا چاہتا ہو تو اسے میری طرف سے مکمل آزادی ہے ۔بھیا ہم تو ایسے ہی ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔