معمر کسان اورنسل انسانی کا علمی سفر
*********************************
دیہاتوں میں جب رات کے وقت لوگ چوپال پر اکٹھے ہوتے ہیں تو دنیا جہان کے معاملات پر بات چلتی ہے۔ ایک دوسرے کے مسائل سے آگہی کے ساتھ ساتھ مذہب و سیاست بھی ایسی محفلوں کا مرغوب موضوع ہوا کرتا ہے۔ اس دوران ایک دوسرے پر طنزومزاح بھی جاری رہتا ہے اور سنجیدہ گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان میں شامل ہونا زندگی کا ایک پرلطف تجربہ ہے۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہم چند دوستوں کو ایسی ہی ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا۔ موسم بہار کی ایک ٹھنڈی میٹھی شام تھی۔ میزبان ایک بوڑھا کسان تھا جو لیمپ کی ٹمٹماتی روشنی میں حقہ پی رہا تھا اور تین چار درجن مہمانوں کے جھرمٹ میں ماضی کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ کسی نوجوان نے اس سے مشرقی پاکستان کی جنگ کے بارے میں سوال کیا تو فضا ایک دم سے سنجیدہ ہو گئی۔ سارے کسان سنبھل کر بیٹھ گئے اور استفہامی انداز میں معمر میزبان کو دیکھنے لگے۔ حقے کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف گردش تیز تر ہو گئی۔
بوڑھے کسان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری، حقے کا ایک طویل کش لگایا، خاموش فضا میں تمباکو کی تلخ خوشبونے اسے ماضی کی یادوں سے رشتہ جوڑنے میں مدددی اور وہ اس جنگ کی پوری داستان سنانے لگا۔ جب وہ اس مرحلے پر پہنچا جہاں پاکستان کی شکست کا ذکر تھا تو اس کے لب و لہجے میں اداسی در آئی۔ اس نے کہا کہ ان حالات میں پوری قوم غم میں ڈوب گئی اور لوگ گلیوں میں روتے پھرتے تھے۔ یہ دیکھ کر بھٹو کو بہت غصہ آیا۔ وہ سیدھا انڈیا جا پہنچا جہاں اندرا گاندھی اپنے تخت پر بیٹھی حکومت چلا رہی تھی۔ بھٹو نے جاتے ہی کہا کہ وہ ان پاکستانی فوجیوں کو لینے آیا ہے جو بھارت میں قید تھے۔ اندرا گاندھی نے اسے انکار کر دیا جس پر بھٹو کی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے ایک زوردار طمانچہ اندرا گاندھی کے منہ پر رسید کیا اور وہ تخت سے نیچے آ گری۔ بھٹو ناراض ہو کر جانے لگا تووہ اسے منانے کے لئے پیچھے پیچھے بھاگی مگر بھٹو نے اس کی کوئی بات نہیں سنی۔ اس پر مجبور ہو کر اندرا گاندھی نے اپنا دوپٹا اس کے پیروں میں ڈال دیا۔ اب بھٹو کے پاس مان جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ راضی ہو گیا اور اپنے ساتھ تمام فوجی واپس لے آیا۔ داستان کے اس مرحلے پر کسانوں کے اداس چہرے فخر سے جگمگا اٹھے اور سب اکٹھے تبصرہ کرنے لگے جس کا خلاصہ یہی تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ اگر غداری نہ ہو تو بزدل ہندو انہیں کبھی شکست نہیں دے سکتے۔
یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے جس پر مسکرا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر تھوڑی دیر ٹھہر کر اس کا تجزیہ کیا جائے تو بہت سے اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ سب سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب انسان کے پاس حقیقت کی مکمل تصویر موجود نہ ہو تو وہ تخیل کے برش سے اس نامکمل خاکے میں اپنی پسند کے رنگ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے کی ایک ذہنی تصویر بنانا انسان کی فطرت میں شامل ہے اگر معلومات کی کمی حارج ہو تو وہ ادھر ادھر سے مواد لے کر رائے ضرور قائم کرتا ہے۔دور قدیم میں جب بارشوں، زلزلے، آگ اور دیگر عوامل کو نہیں سمجھ پاتا تھا تو انہیں مختلف دیوی دیوتاؤں سے منسوب کر دیا کرتا تھا۔ یونان کی پوری دیومالا اسی ذہنی روئیے کی عکاس ہے۔ یہی معاملہ ہندو مذہب کا ہے جس میں ہزاروں دیوی دیوتا مختلف وظائف سرانجام دینے کے لئے تخلیق کئے گئے۔
نامعلوم کو جاننے کی خواہش ازل سے انسانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ غورو فکر کر کے کوئی رائے قائم کرنا ایک طویل المدت کام ہے جس کے لئے گہرے مطالعے اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔ بہت کم لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا نکتہ نظر اس وقت تک موخر کئے رکھیں جب تک مطلوبہ معلومات حاصل نہ ہو جائیں۔عموماً ً خام اور ناپختہ آرا اختیار کر لی جاتی ہیں تاکہ جاننے کی بے قرار خواہش کو سکون بخشا جا سکے۔دنیا کے تمام سازشی نظریات اسی بے صبرے پن کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔
ہم دور قدیم کے انسان کی آرا پڑھیں تو وہ اسی طرح ناپختہ اور احمقانہ محسوس ہوتی ہیں جیسے شہر کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے اس بوڑھے کسان کی گفتگو تھی۔ آج کا انسان علم کی بہتر سطح پر موجود ہے۔ماضی کے لوگوں نے جو کچھ سوچا ہے اس کے بہت سے پہلو آج کے تعلیم یافتہ فرد کو بہت بچگانہ نظر آتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں ایک احساس برتری ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ یہی صورتحال مستقبل میں ہو گی۔ آج سے ایک ہزار سال بعد نسل انسانی علم کی مزید برتر سطح پر کھڑی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھی ہمیں اسی تمسخر بھری نگاہ سے دیکھے گی جیسے ہم دور قدیم کی مختلف تہذیبوں کو دیکھتے ہیں؟ کیا اس کے لئے ہماری نسل ایک ایسے بوڑھے کسان کی طرح ہو گی جو علم کی کمی کو تخیل کی مدد سے پورا کرتا ہے؟ کیا اس کے لئے ہم نیم تاریک غاروں میں چھپے ان لوگوں کی طرح ہوں گے جو علم و حکمت کے کمتر درجے پر فائز تھے؟
اس پہلو سے دیکھا جائے تو علمی، ادبی اور عقلی برتری کا زعم کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ علم اگر عجز پیدا نہیں کرتا تو پھر سمجھیں کہیں کوئی خامی رہ گئی ہے۔ سقراط نے جب اپنی کم علمی کا اعتراف کیا تھا تو وہ دراصل اسی پہلو کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ ایک جدید دور کے تعلیم یافتہ فرد اور ماضی بعید کے کسی عام انسان میں جہالت کے درجے کا فرق ضرور ہے لیکن نسل انسانی کا حقیقت تک رسائی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ کل کے انسان کے لئے ہماری حیثیت وہی ہو گی جو ہمارے لئے دور قدیم کے فرد کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نسل انسانی کے علمی اور ثقافتی ارتقا کی داستان میں ہر تہذیب نے حصہ ڈالا ہے۔ یہ قافلہ بابل اور نینوا کے قدیم رستوں سے ہو کر، یونان کے کٹے پھٹے پہاڑوں اور روم کے ساحلوں سے گزرتا ہوا اسلامی تہذیب کی آواز جرس کی رہنمائی میں طے ہوا ہے۔ آج اگر علم کی مشعل مغربی تہذیب کے ہاتھوں پہنچ گئی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ جہالت کی تاریکیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پھر سے علم و ثقافت کی شمع روشن کریں تاکہ اپنا کھویا ہوا ورثہ واپس لے سکیں۔
آج کا مسلمان اسی معمر کسان کی طرح کم علمی کا شکار ہے لیکن اسے تسلیم کرنے کی بجائے اس کی تاویلیں تلاش کر رہا ہے۔ مغرب کے کسی چھوٹے سے ملک میں بھی ایک سال کے دوران اتنی کتب شائع ہوتی ہیں جتنی پورے مسلمان ممالک میں مجموعی طور پر شایع نہیں ہو پاتیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کا معیار سب کے سامنے ہے، ہمارا حکمران طبقہ تعلیم پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے اور جس قسم کی تعلیم دی جا رہی ہے اس کا تقابل جدید دنیا سے کیا جائے تو سوائے افسوس اور حسرت کے کچھ نہیں حاصل ہوتا۔
کسانوں کے درمیان گزری موسم بہار کی یادیں اسی طرح دل کو اداس کرتی ہے جس طرح مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی کمتری کا احساس روح کو ملول کر دیتا ہے۔ حقے کی گڑگڑاہٹ میں مگن اور اپنی کم علمی پر نازاں یہ معمر کسان نہ جانے خودشناسی کے تلخ تجربے سے کب گزرے گا۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“