"معاہدۂ عمرانی" کا خالق : ژان ژاک روسو
(فن‛ فکر اور شخصیت)
———
جب یورپ میں عموماً اور فرانس میں خصوصاً مذہبی جنگیں شروع ہوئیں تو ژان ژاک روسو ((Jean Jacques Rousaeau) کے آبا و اجداد جنیوا میں پناہ گزیں ہوگئے اور تقریباً ایک صدی بعد ٢٨ جون ١٧١٢ء کو روسو نے اس خاندان میں جنم لیا۔ اس کی والدہ زچگی کے فوراً بعد فوت ہو گئی تھی لہذا پرورش کی باقی تمام ذمہ داریاں بشمول تعلیم و تربیت اس کے گھڑی ساز باپ نے سرانجام دیں۔ دس برس کی عمر میں اس کے باپ کو ایک جھگڑے کے سبب جنیوا چھوڑنا پڑا لیکن اس کی نگہداشت کی ذمہ داری اس کے چچا کو سونپ دی گئی تاکہ ہائی سکول کی تعلیم مکمل ہو سکے۔ اس ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد اسے ایک نوٹری پبلک کے پاس بطور کارآموز چھوڑا گیا مگر ناکام رہا۔ آوارہ گردی کے ان ایام بارے اس نے اپنی اولین کتاب"اعترافات" (Confessions) میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ذاتی بسر و اوقات کے لیے جب وہ کلیسا سے خیرات کا طالب ہوا تو مشروط طور پر اسے مذہبی تعلیم کی غرض سے ایک خاتون راہبہ کے سپرد کردیا گیا۔ ١٧٣٤ء تک وہ راسخ العقیدہ کیتھولک رہا اور اس نے اپنی نگران خاتون مادام ڈی وارنز کو اپنی مستقل مالکہ بنا لیا۔ اگلے کئی برسوں میں اس نے متعدد پیشے اختیار کیے اور آخر کار پادری بن گیا تاہم اس شعبے میں بھی خاطر خواہ کامیابی مقدر نہ ہو سکی۔ اسے موسیقی سے خاصا لگاؤ تھا اور والٹیئر کے فلسفیانہ نوعیت کے خطوط میں اس کی دلچسپی غایت حد تک رہی جس کی بدولت وہ ریاضی‛ فلکیات ‛ تشریح الاعضاء کے علماء ‛ سترھویں صدی کے شعرا اور مؤرخین کے ماحاصلاتِ علمی و ادبی کو پڑھنے میں کامیاب ہوا۔ ١٧٤١ء می جینیوا سے پیرس منتقل ہو گیا جہاں سائنس اکادمی میں علاماتِ موسیقی پر اپنی تخلیقات پیش کیں جنھیں مطلق پزیرائی حاصل نہ ہوئی البتہ وینس میں فرانس کے سفیر کے ہاں ناظم (Secretary ) کی ملازمت ضرور مل گئی۔ اسی دوران اس نے "عدم مساوات کی اصل" کے موضوع پر ڈی جان کی اکادمی کے لیے ایک مقالہ لکھا۔
١٧٥٦٦ء میں وہ پیرس سے ملحقہ ایک گاؤں میں منتقل ہو گیا۔ یہاں یکسوئی کے ساتھ کچھ تحریری کام کیا لیکن سیلانی طبع کے باعث فوراً ہی مونٹ لوئی جا پہنچا اور یہیں "معاہدۂ عمرانی" (The Social Contract) اور "تعلیم" (Education) شائع ہوئیں۔ اپنے ایک مقالے Emile پر پیرس کی پارلیمان نے اسے جلاوطنی پر مجبور کردیا۔ اگلے دس برس وہ پروشیا میں رہا مگر اپنی متنازع تحریروں کی وجہ سے وہاں سے بھی فرار کی نوبت آگئی۔ ناچار واپس فرانس آیا ۔ شادی کی اور پانچ بچوں کا باپ بنا۔
وینس میں قیام کے دوران وہ جس ایک کتاب کو نہ لکھ سکا تھا اسے فرانس میں لکھا۔ یہ سیاسی اداروں کے متعلق تھی جسے ڈی جان کی اکادمی نے سال کا بہترین مقالہ قرار دیا۔ اس کا اسلوبِ تنقید ‛ تہذیب پر بہت جارحانہ طرز کا تھا جسے اس کے ہم عصر اہلِ دانش نے خوب سراہا۔ اسے شاہی پنشن کی پیشکش ہوئی جس سے کچھ عرصہ استفادے کے بعد اس نے رد کردیا۔
١٧٦٥ء میں اس کا سیاسی اقتصادیات پر لکھا مقالہ انسائیکلو پیڈیا میں شائع ہوا۔
١٧٦٦٦ء میں ہیوم کی دعوت پر انگلینڈ کو مستقل اپنا وطن بنا لیا۔ یہیں اوائل میں کافی مقبولیت ملی اور بادشاہ کی طرف سے اعزازی پنشن بھی جاری ہوئی لیکن بدقسمتی کب اس کا پیچھا چھوڑنے والی تھی۔ بالاخر ١٧٦٧ء میں فرانس کے لیے بھاگ نکلا۔ اس کے بعد اپنی معروف کتاب "Confessions" اور دیگر خود سوانحی مضامین لکھے۔ اگرچہ اس کی "معاہدۂ عمرانی" اس کے لیے بدنامی اور نت نئے مصائب کا باعث بنی رہی لیکن اس کی موت کے بعد یہی تصنیف سیاسی تاریخ پر مسلمہ دستاویز کی حبثیت اختیار کرتی گئی اور اس کے نظریات کو فوقیت ملتی چلی گئی۔ علم سیاسیات میں آج بھی یہ ناگزیر درسی اہمیت رکھتی ہے۔
٢ جولائی ١٧٧٨ء کو روسو اچانک وفات پاگیا جسے بعض افراد نے خود کشی قرار دیا ۔
**********
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“