مسٹر ولی رحمانی ، کس سادگی سے آپ نے ہندستانی مسلمانوں کا سودا کر لیا .تاریخ آپکو کبھی معاف نہیں کرے گی .
پندرہ تاریخ کا دن ،دین بچاؤ دیش بچاؤ کے نام تھا ..مجھے پہلے دن سے ہی اس نام پر اعتراض تھا .میں دوستوں سے اس موضوع پر گفتگو کرتا تو انکی اس طرح کی باتیں سن کر خاموش ہو جاتا کہ ابھی طاقت کا مظاہرہ کرنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے .علما کا ذکر جہاں آتا ہے ، وہاں اب میں خاموشی اختیار کرتا ہوں .اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے . میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ وقت ذاتی اختلافات کا نہیں .کچھ باتوں کو ، ذاتی تنقید کو در گزر کرنے کا وقت ہے .ہم وقت کے ایسے چوراہے پر کھڑے ہیں ، جہاں مسلمانوں کے لئے کویی بھی راستہ کسی منزل مقصود کی طرف نہیں جاتا .بلکہ ہر راستہ ایک خوفناک منزل کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے .مگر طاقت کے مظاہرے کے نام پر مجھے خوف کا احساس ہوتا تھا .ذرا سوچئے کہ اگر سو کروڑ آبادی والی اکثریت نے بھی طاقت کا مظاہرہ شروع کیا ، تو انکے سامنے ہماری کیا حیثیت ہوگی ؟ دوسری بات ، دین اور دیش کے امتزاج سے جو کولاز بن رہا تھا ، وہاں مجھے ایک بڑی سازش کی بو باس محسوس ہو رہی تھی .
ذرا ٢٠١٤ کے پیچھے کا سفر کرتے ہیں .آر ایس ایس کامیاب کیوں ہوا ؟ مودی بھاری اکثریت سے منتخب کیوں ہوئے ؟ کا ایک سیدھا جواب یہ بھی تھا کہ اس کی وجہ مسلمان تھے .آزادی کے ستر برسوں میں کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے مسلم مسلم کا نعرہ کچھ ایسے بلند کیا کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا اور ہندو اکثریت مسلمانوں سے بدظن اور دور ہوتی چلی گی .یہ نفرت کچھ اس شدت میں بدل گیی کہ ہندو راشٹر کا راستہ صاف ہوتا نظر آیا .آر ایس ایس کو اسی راستے سے بڑی کامیابی ملی .اور اس کامیابی کے بعد مسلمانوں کے نام سے کانگریس اور عام آدمی پارٹی تک پناہ مانگنے لگی .کیونکہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ مسلمانوں کے نام لینے کا سیدھا مطلب ہے ،ہندو ووٹ متاثر ہوگا .اس لئے سیدھے طور پر کویی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کا نام لینے سے بھی خوف کھانے لگی . میں اس عمل کو برا نہیں مانتا .اس سے فائدہ ہمارا بھی تھا ، عام اکثریت کی طرح مسلمان خود کو مین سٹریم کا حصّہ تصور کر سکتے تھے .بار بار کا تذکرہ انھیں حاشیہ پر ڈالنے کے لئے کافی تھا ..
مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ تو لبریز ہوا لیکن ملک کے مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا ثبوت دیا ،اس نے بھی ایک مثال قایم کی .سوشل ویب سایٹس پر کسی نے ربیش کمار کے چہرے پر داڑھی لگا کر انکی تصویر پوسٹ کی تو رویش کو لکھنا پڑا کہ آخر بھکتوں نے بھی اس سچایی کو تسلیم کر لیا ہے کہ جو سچا ہے ،ایماندار ہے ،حب الوطن ہے ،وہی مسلمان ہے .،
ہم ان سادھے چار برسوں میں خود کو سچا ،ایماندار اور میں سٹریم کا ہندوستانی بنا کر پیش کر رہے تھے ..آصفہ کی موت نے میڈیا کو بھی بہت حد تک لبرل بنا دیا تھا .میڈیا نے ان پولیس والوں اور وکیلوں کو بھی نشانہ بنایا جو آصفہ کو مسلمان بنا کر پیش کر رہے تھے .جموں میں بار کونسل سے وابستہ وکیلوں نے عصمت دری کے مجرموں کی حمایت میں جلوس نکلا اور بیان دیا کہ ہندو ریپسٹ کو پکڑنا اس لئے مناسب نہیں کہ آصفہ مسلمان تھی ..مختلف ریاستوں میں اس بیان کے خلاف جلوس نکالے گئے .اور ان میں پچانوے فی صد کی تعداد میں ہندو مرد اور عورتیں شامل تھے ..غور کیجئے ،آصفہ کے بہانے ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تھذیب کی واپسی ہو رہی تھی ..میڈیا کے ساتھ ملک میں بیداری کی لہر چلی تھی …ایک کا نفرنس سے آپ نے مسلمانوں کو پھر سے اسی حاشیے پر ڈھکیل دیا .میں پھر کہتا ہوں ، بیس یا بائیس لاکھ کی جگہ ہندو اکثریت اگر سو کروڑ لوگوں کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرے تو آپ کہاں کھڑے ہوں گے ؟
کچھ باتوں پر اور بھی غور کریں ..
جب پہلی بار میں نے اس کانفرنس کے بارے میں سنا تو میرا پہلا تاثر تھا ، کہ یہ نہیں ہونا چاہیے .کانفرنس سے پہلے ایک پوسٹر جب میری نظر سے گزرا ،جس میں نتیش کمار بھی نظر آ رہے تھے ،تو میرا یقین پختہ ہو گیا کہ کویی بڑی سازش مسلمانوں کے ساتھ کی جا رہی ہے .اسکی کیی وجوہات تھیں ..نتیش نے بہار کو دھوکہ دیا .امت شاہ اور مودی کے شاہ مات کے کھیل نے نتیش کو مات دے دی .نتیش ڈر گئے کہ لالو یادیو کی طرح انھیں بھی جیل نہ بھیج دیا جائے .بی جے پی میں نتیش کو اپنا مستقبل محفوظ نظر آ رہا تھا .اسلئے نتیش کو بہار کے عوام کے ساتھ غدار جی چند کے کردار کو ادا کرنا پڑا .نتیش نے سیکولرزم کا ساتھ پہلے بھی چھوڑا تھا .اس بار چھوڑنا انکی مجبوری تھی .لیکن بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ، کچھ ہی مہینوں بعد انھیں احساس ہوا کہ بی جے پی انھیں حاشیہ پر ڈال کر انکا سیاسی کیرئر ختم کر رہی ہے .بہار کے مسلمان لالو یادو اور تجسوی کے ساتھ تھے .نتیش یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ٢٠١٩ میں بی جے پی اکیلے دم پر الیکشن لڑتی ہے تو انکی سیاسی شناخت خطرے میں پڑ جاےگی .ہو سکتا ہے پاسبان کی پارٹی بھی کانگریس کو اپنی حمایت دے دے .مسلمانوں کا ووٹ تو لالو کو جائے گا .شرد یادو الگ ان سے خفا ہیں اور بہار میں شرد یادو کا ووٹ بینک بھی مضبوط ہے .ہندو ووٹ بی جے پی لے جاےگی .اب نتیش نے بی جے پی کو خوفزدہ کرنے کے لئے اپنے پتے کھولنے شروع کیے .سیاسی دباؤ سے باہر نکلنا بھی ضروری تھا ..یہ بھی ممکن ہے کہ نتیش نے سوچ رکھا ہو ، بی جے پی جیل میں ڈالنا چاہے تو ڈال دے لیکن وہ وہی سیاست کرینگے جو لالو کے ساتھ شروع کی تھی .اور ایک سیکولر چہرے کے طور پر جگہ بنایی تھی .
آنے والے کل میں نتیش بی جے پی چھوڑ کر دوبارہ لالو کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیںگے تو مجھے یقین ہے ، لالو انھیں منع نہیں کرینگے .لالو کی سیاسی سمجھ بوجھ کسی بھی لیڈر کی سوچ سے زیادہ بڑی ہے .لالو انتقام کی سیاست نہیں کرتے ..نتیش کو یہ بھی خطرہ تھا کہ ماں لیجئے ،وہ بی جے پی سے الگ ہوتے ہیں .لالو کا ساتھ بھی نہیں ملتا ہے تو پھر وہ کیا کرینگے ؟ایک رخ یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ بینک پر وہ قابض ہو جاتے ہیں تو پھر سے نیی بڑی سیاسی پاری کی شروعات کر سکتے ہیں .
پندرہ اپریل پٹنہ کی کانفرنس میں بیسس لاکھ لوگ جمع ہوئے .تاریخی جلسہ تھا .اسلام کی بات ہوئی .مسلمانوں کی بات ہوئی .اسلام پر ہندوستان میں منڈرانے والے خطرے کی بات ہوئی .اور یہی باتیں بی جے پی کے ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہیں .دو برس قبل دلی میں ہونے والی صوفی کانفرنس میں ،مودی کی آمد پر بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگایا گیا .اس کانفرنس کا فایدہ صرف بی جے پی کو ہوا .پٹنہ میں ہونے والی کانفرنس کا فایدہ بی جے پی بھی اٹھا سکتی ہے اور نتیش بھی .اگر نتیش کا ارادہ بی جے پی چھوڑنے کا نہیں ہے تو اس کانفرنس سے نتیش ایک ساتھ کیی شکار کرینگے .بی جے پی میں بھی حیثیت کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی .کانفرنس ہونے کے بعد اچانک خالد انور کا نام سامنے آیا .دو تصویریں وائرل ہوئیں .ایک تصویر میں خالد ، راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ہیں .دوسرے میں ولی رحمانی کے ساتھ ہیں .اور کانفرنس کے دن ہی شام ہونے تک یہ خبر بھی آ گی کہ خالد انور کا نام بہار قانون ساز کونسل کے امید واروں میں شامل ہے ..ولی رحمانی نے اب تک اس تاریخی اجلاس کے لئے جس نام کو پوشیدہ رکھا تھا ،اس کی اصلیت سامنے آ گی .یعنی یہ پورا ڈرامہ سپونسرڈ تھا . اور یہ ڈرامہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں کسی حد تک جمہوری قدروں کی واپسی ہونے لگی تھی .اس ایک ڈرامہ نے مسلمانوں کے ہاتھوں میں دوبارہ بھیک کے کٹورے کو دینے کا کام کیا .
مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی شناخت کے تحفظ کے لئے ابھی بھی ہندو اکثریت ان کے ساتھ ہے .لیکن اکثریت ایسے حادثوں سے زخمی ہوتی ہے .اور مسلمان حاشیہ پر آ جاتے ہیں ..
ولی رحمانی نے ایسا کیوں کیا ، اسکا جواب انھیں دینا چاہیے .اسی سے ملتا جلتا ایک سوال اور ہے ، ابھی کویی بھی قاید ایسا نہیں جو یہ کہ سکے کہ اس کو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“